ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

برف رتوں کا المیہ – گھرہستن – بتول مارچ ۲۰۲۳

برف رتوں کا المیہ

گھروں کے آنگن ،دلوں کے دامن ،تمام ڈیرے
ہوس کی دہشت نے ہیں بکھیرےکئی بسیرے
کہر میں لپٹی ہوئی فضا میں نہ جانے کتنی ہی سسکیاں ہیں
لہو جماتی یہ جاں گھلاتی ہوا میں کیسی خموشیاں ہیں
جدائیوں کے جو المیے ہیں وفاکی قسمت کچل رہے ہیں
خنک شبوں کی طوالتوں میں بہت سے اسرار کھل رہے ہیں
یہ برف لہجے جو سرد مہری سے اٹ گئے ہیں
اثر ہے یخ بستہ موسموں کا
کوئی ہے شکوہ شکستہ پائی سے دل زدوں کا
درونِ دل کے ہرایک درکی دبیز چلمن بکھرگئی ہے
ٹھٹھرتے موسم کو دوش دے کردلوں کی دنیا اجڑگئی ہے
کسی کا چہرہ دھواں دھواں ہے نظرجہاں ہے
لہو نہیں ہے رگوں میں برفاب سا رواں ہے
نظربہک کرکدھر گئی ہے یا برف جذبوں پہ پڑگئی ہے
یہ المیہ ہے ،یہ حادثہ ہے،یاسرد موسم کاسلسلہ ہے

 

 

گھرہستن

یہی تو جرم گراں ہے تیرا!
تری حقیقت تو بس یہی تھی
تو جھانکتی روزنوں سے رہتی، یا تاکتی درپنوں کو رہتی
نہ سانس لیتی کھلی فضا میں ، تو گھٹتی رہتی ڈری فضا میں
نہ خواب آنکھوں میں تیری پلتے نہ دیپ راہوں میں تیری جلتے
نہ آرزو سے نظر ملاتی،نہ شب میں کوئی سحر جگاتی
ستم ہزاروں جو ٹوٹ جاتے روا نہیں تھا کہ لب ہلاتی
یوں اک ضمیمہ رہینِ آدم بنائے جانے پہ کھلکھلاتی
کڑی فصیلوں کے درمیاں تو زمین زادوں کا نقدِجاں تھی
تو بےخبر تھی کہ تو کہاں تھی
ہزار تھے بت روایتوں کے،جہالتوں کے عداوتوں کے
سبھی کو اپنا خدا بناتی ہراک کے آگے تو سر جھکاتی
گریز اس سے کیا جو تونے
یہی تو جرم گراں ہے تیرا !

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x