ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دلِ ویراں – بتول مارچ ۲۰۲۳

سدرہ کو کھیلنے کا ، نہ کودنے کا ،پڑھنے کا، نہ پڑھانے کا ،کوئی شوق نہیں تھا۔ آپی حفصہ چھٹی کے دن سارے محلے کے بچوں کو جمع کرکے سکول سکول کھیلتیں اور مزے سے سکول کی ہیڈ پرنسپل بن کر ٹی پائی پر ڈنڈے برسایا کرتیں ۔دو تین چھٹیاں اکٹھے آجاتیں تو محلے کی بچیوں کے ساتھ گڈے گڑیا کا بیاہ رچاتیں، تیل مایوں مہندی سارے شگن ہی چاؤ لاڈ سے پورے کرتیں . ان کی قوت مشاہدہ غضب کی تھی۔ بارہ سال کی عمر میں انہیں معلوم تھا کہ د لہن کو وداع کرتے ہوئے ماموں میاں کا ہونا ضروری ہے، نائنوں سے شادیوں پر کیا اور کیسے کام لیا جا تا ہے ،مکلاوہ کسے کہتے ہیں، بچوں کو کیا دیتے ہیں اور بڑوں کو کیا ؟ اسے ہر چیز ازبر تھی۔ لگتا تھا کسی پردادی پرنانی کی روح اس کے اندر گھسی ہوئی ہے، آپی حفصہ کے برعکس سدرہ کو بس ایک ہی شوق تھا لیپا پوتی کا ،کبھی چچی کا کاجل ان کی سنگھار میز سے اٹھا کر لپالپ آنکھوں میں بھر لیتی تو کبھی خالہ کی شوخ رنگ کی لپ اسٹک اٹھا کر ہونٹوں پر تھوپ لیتی ، اس کے بعد جتنا رگڑ رگڑ کر ہونٹ صاف کرتی ہونٹ اتنے ہی لالو لال ہوجاتے۔
کسی دور پار کے رشتہ دار کی شادی میں شرکت کا موقع ملتا تو ٹکٹکی باندھ کر دلہن کے چہرے کی طرف دیکھا کرتی، اس کی منی سی تصوراتی دنیا دو عدد لپ اسٹک ،ایک تبت کریم اور ایک کاجل کی ڈبیہ پر مشتمل تھی، ہاں لپ اسٹک کے شیڈز سرخ اور جامنی رنگ کے ہونا چاہئیں ،سرخ لپ اسٹک سے وہ آئی شیڈ اور بلش آن کا کام لیتی تھی۔
ایک ایک دن گزارنے کے بعد جب قدرت اسے منیر اکرم کی دلہن بنا کر گجرات سے جہلم لے گئی تو سارے راستے یہی سوچ کر اس کا دل بلیوں اچھلتا رہا کہ میاں فرانس کا شہری ہے تو جی بھر کے میک اپ کا سامان لایا ہوگا۔ دل ہی دل میں سارے میک اپ برانڈز کے نام سوچتی رہی ۔
گاڑی میں اگلی سیٹ پر اس کا نیا نویلا شوہر اور اس کے دائیں بائیں دونوں نندیں منکر نکیر بن کے بیٹھی ہوئی تھیں۔ پھر بھی اس نے گھونگھٹ کی اوٹ میں پرس سے شیشہ نکال کر دو مرتبہ اپنے میک اپ کا جائزہ لیااور سسرال میں پہنچ کر واش روم میں جانے کے بہانے اس نے اپنی پھیلی ہوئی لپ اسٹک کو درست کیا، دوپٹے کی پنیں دوبارہ سے سیٹ کیں ۔
جب اس کی جڑواں نندیں اسے اس کے کمرے میں پہنچا کر واپس گئیں تو اس نے پھر سے ڈریسنگ میز کے آئینے میں چہرہ دیکھااور آئی شیڈ کا دوبارہ کوٹ کیا ۔
افسوس! صد افسوس!
اس کے بچپن، لڑکپن اور جوانی میں دن بدن بڑھنے والے شوق کا اختتام صرف دو منٹ اور تین سیکنڈ میں کس برے طریقے سے ہؤا ۔
گلا صاف کرنے کی گھمبیر آواز کے ساتھ ، کھنکتے لہجہ میں السلام علیکم کہہ کر قریب بیٹھنے والا میاں ناگواری سے بولا۔
’’پلیز ! یہ منہ تو صاف کر لیں،مجھے اس طرح کی لیپا پوتی سخت ناپسند ہے، یوں لگتا ہے ضرورت رشتہ کا اشتہار بنی ہوئی لڑکیاں بیچ چوراہے میں کھڑی ہیں‘‘۔
مستقبل کے حسین تصورات میں کھوئی سدرہ کے ککھ پلے نہ پڑا کہ میاں کیا کہہ رہا ہے ، وہ شرمائی لجائی، نظریں جھکائے بیٹھی رہی کہ کب ہاتھوں میں ہاتھ ہو اور منہ دکھائی ملے ۔
’’یوں بت کیوں بنی بیٹھی ہیں ،اٹھیں یہ کیا بازاری عورتوں والا حلیہ بنا کے بیٹھی ہیں آپ ؟ اٹھیں اور منہ دھو لیں ،اور ہاں کل ولیمہ پر یوں

کارٹون مت بننے بیٹھ جائیں‘‘انگلی اٹھا کر میاں نے اسے متنبہ کیا تب سدرہ ہوش و حواس کی دنیا میں واپس آئی ۔
صدمہ گہرا تھا ، چوٹ اس سے بھی زیادہ ،اس کے بعد وہ گم صم ہی رہی۔منیر اکرم بہت خوش مزاج تھا ۔ساری رات ہنسی مذاق اور قہقہے، مستقبل کی منصوبہ بندی ۔ مگر ان سب پر بس ایک ہی غم سوار تھا ۔
’’میک اپ کی خواہش کو زندہ درگور کرنا پڑا ‘‘۔
صبر تو آہستہ آہستہ ہی آتا ہے اس نے بھی کیا۔ میاں کی فرمائش پر اس نے میک اپ کا سامان ادھر ادھر تقسیم کردیا۔ کہنے کو تواس نے سینے پر صبر کی بھاری سل رکھ لی، لیکن جہاں کہیں میک اپ کیا چہرہ دیکھتی اس کی پتھر کی بھاری سل کھسک جاتی ،آنکھیں جل تھل ہوجاتیں ، بھلا شوق بھی کہیں مرتے ہیں ،کنڈلی مار کر بیٹھے رہتے ہیں ۔
پھر اوپر والے نے بچے دیے، بچوں کے لیے وہ اچھی ذمہ دار ماں ثابت ہوئی۔ وقت پر اٹھانا ،وقت پر کھلانا ،وقت پر کھیلنے کے لیے بھیجنا ، وقت پر سلانا، سکول جانے کے قابل ہوئے تو خود ان کی پڑھائی میں دلچسپی لینا ۔
بس وہ ایک روبوٹ بننا چاہتی تھی لیکن بن نہ سکی، کبھی کبھار سرخی پائوڈر والا ماضی یاد آتا ،پھر سہیلی کی باجی کے بیوٹی پارلر میں ٹریننگ یاد آتی تو سینے سے ہوک سی اٹھتی یوں لگتا دل نہیں مقبرہ ہے !
بھلا روبوٹ بھی کبھی روتے اور کرلاتے ہیں ؟
ساس سسر کے گزرنے کے بعد وہ خاندان کی بڑی بہو تھی، بچے بھی بڑے ہو چکے تھے ،میاں مستقل طور پر دل کا روگی بن چکا تھا۔ کبھی ای سی جی، کبھی انجیو پلاسٹی، کبھی دھڑکن کم کبھی زیادہ، بڑے بیٹے کی شادی تک وہ تازہ دم ہی تھا۔ منجھلے بیٹے کے رشتہ کی بات چل رہی تھی کہ منیر اکرم کا دل دھک دھک کرنے لگا۔موت سے زیادہ ، اس کے آنے کا ڈر اسے پیلا پھٹک کر رہا تھا۔
اس نے گھبرا کر سدرہ کو آواز دی۔
سدرہ ! ’’کہاں ہو؟ جلدی آؤ‘‘۔
بھلے چنگے کو نیم مردہ کر دیتی ہے دل کی تکلیف، ایسی ہی ہوتی ہے وہ تو بس سدرہ کے سامنے ماضی کی کتاب کھول کر سبق سناتا رہا سناتا رہا، درمیان میں شادی کی بات چیت کا قصہ بھی آیا ،شادی کی پہلی رات بھی موضوع گفتگو بنی ۔
’’میں تمہارے میک اپ والے حلیہ پر سخت لہجہ میں بولا تھا ‘‘اس نے سدرہ کی بےسرد آنکھوں میں جھانکا ۔
سدرہ کے سینے پر برچھی سی چلی ۔
’’سنو میں نے تم پر زیادتی کی ، میرے دوستوں کو ان میک اپ سے لتھڑے چہروں نے بہت دکھ پہنچائے میں بھی ڈر کر انتہا پر چلا گیا ، میں نے زیادتی کی مجھے اپنے اوپر قابو پانا چاہیے تھا ،نہ چاہتے ہوئے بھی میری برین واشنگ ہوتی گئی۔ دنیا میں ہر وہ چہرہ جو میک اپ سے لتھڑا ہؤا ہے ضرور ہی وہ نمبر دو ہے ،بلکہ ضرورت رشتہ کا چلتا پھرتا اشتہار ہے‘‘۔
’’مجھے تم پر تمہارے بننے سنورنے کے شوق پر قدغن نہیں لگانا چاہیے تھی ! ‘‘
وہ سارے کھاتے کھول کر حساب کتاب بے باق کر رہا تھا ۔
’’چھوڑیں ان باتوں میں اب کیا پڑا ہے‘‘وہ بولی ۔
’’نہیں تم بہت عظیم ہو، تم نے اپنے شوق کو اپنے اندر دفن کردیا ، میری طرف سے اجازت ہے اب جہاں چاہے ،جیسا چاہے میک اپ کر سکتی ہو‘‘ وہ دریا دلی پر اترآیا ،آخر بہت سی عورتیں ہوتی ہیں اخیر عمر تک بننے سنورنے کی شوقین!
’’چھوڑیں اب اس عمر میں کیا بننا سنورنا‘‘ اس نے چٹکی میں بات اڑائی۔
’’کیوں کتنی عمر ہے تمہاری ؟ ارے پینتالیس کی ہونے میں بھی دو ماہ باقی ہیں تمہارے شناختی کارڈ کے مطابق ، بس اب تلافی یوں ہوگی کہ تم اچھے سے پارلر سے تیار ہوگی، آخر بہو دیکھنے جانا ہے‘‘میاں نے خوش مزاجی سے کہا ۔
’’وگرنہ میرے دل پر بوجھ بڑھتا رہے گا‘‘۔
’’چلیں ٹھیک ہے پھر ،میں ان شاءاللہ منگنی والے دن پارلر سے تیار ہوں گی، ری بونڈنگ کروالوں گی ،ایک اعلیٰ قسم کے پارلر سے میں

نے شازیہ کا میک اپ کروایا تھا تو علیک سلیک ہوئی تھی ،وہاں سے پیکج پوچھتی ہوں‘‘ اس کے چہرے پر کنوار پنے والی معصومیت جھلکی۔
اس کے اندر کی بچپن والی سدرہ چھلانگ لگا کر باہر آگئی تھی ، تھوڑی سی دیر میں اس کے پاس چہرے کو سنوارنے کے لیے ڈھیروں معلومات تھیں۔ ویسے تو ری بونڈنگ سے عام سی شکل خاص بن جاتی ہے لیکن پھر بھی این وائے ایکس ،ھدی بیوٹی سمیت دس کاسمیٹکس پروڈکٹس اس کے سامنے نیٹ پر تھیں۔ وہ خیالوں ہی خیالوں میں اپنے آپ کو میک اپ کے ڈھیروں سامان میں مصروف دکھائی دے رہی تھی۔ میچنگ جوتے ،میچنگ جیولری ،کلچ سٹالر ،سب شوق ایک دم سے بیدار ہو گئے ۔
دو دن میں منجھلے بیٹے کا رشتہ طے ہؤا ، فوری نکاح کی ضرورت محسوس ہوئی کہ نکاح کی صورت میں بیٹے کو ہائوس رینٹ کے نام پر کافی رقم ملنا تھی۔ دوسرا یہ کہ اس کے ہونے والے سسر کی آسٹریلیا روانگی بھی اگلے ہفتہ میں متوقع تھی۔
یوں جھٹ پٹ ہونے والے نکاح کے لیے سب پرجوش تھے۔ سب سے زیادہ خوشی سدرہ کے چہرے پر رقص کر رہی تھی۔
وہ سوچ رہی تھی کہ جب وہ تیار ہوگی لوگ تو شاید پہچان ہی نہ پائیں ۔
’’ارے یہ….آپ سدرہ بھابھی ہیں ؟ ‘‘
’’ہائے آپ سدرہ امتیاز؟ واؤ!‘‘
وہ تیزی سے اٹھیں ، پارلر سے وقت لیا جا چکا تھا ۔
انہوں نے اپنے کپڑوں والا ہینگر اٹھایا ، آنکھوں کے ستارے جھلمل جھلمل کر رہے تھے ،وہ اپنے خیالوں میں تھیں۔ ماضی اور حال کا موازنہ جاری تھا۔
بہو تیار ہونے کے لیے پارلر جارہی تھی ،نندیں دیورانیاں، بہنیں، بھابھیاں سب ہار سنگھار میں مصروف تھیں ،مٹھائیوں کے ٹوکرے، گجرے ہار ایک طرف پڑے تھے۔
خیالوں ہی خیالوں میں وہ پارلر والی سے گپ شپ میں مصروف تھی ۔
اس نے ایک دو وڈیوز ڈاؤن لوڈ کیں ،میک اپ برانڈز کا کچھ تو علم ہونا چاہیے۔
نارز ،میک ،ہدی کے برانڈز سب سے اوپر نظر آئے۔ اچھا سا ہیئر اسٹائل،ری بونڈنگ پر تیس ہزار سے کم خرچہ نہیں آنا تھا۔ خیر پیسے کی کمی نہیں تھی، وہ بیگ میں بھاری رقم رکھ چکی تھیں۔ اتنی تو انہیں اپنے ولیمہ پر تیار ہونے کے لیے پارلر جانے کی خوشی نہ تھی جتنی اب ! جونہی ہینگر اٹھائے وہ کمرے سے نکلیں بہو نے دس ماہ کی پوتی اس کی گود میں دیتے ہوئے کہا۔
’’آنٹی آپ تو ابھی گھر پر ہی ہیں، آپ کو کون سا تیار ہونا ہے ، مجھے پارلر والوں نے تین بجے کا ٹائم دیا ہے اور سوا تین ہوچکے ہیں ذرا اس کو سیری لیک کھلا دیں پھر یہ خود ہی سو جائے گی اگر زیادہ تنگ کرے تو فیڈر بنالیں ….اور ہاں پمپر بھی چیک کرتی رہیں، رات روتی رہی ہے ‘‘۔
جاتے جاتے بھی وہ دس ہدایات دینا نہ بھولی فیڈر پانچ اونس سے زیادہ نہیں دینا ،منہ پر کمبل نہ دیں وغیرہ وغیرہ ۔
سدرہ نے جواب دینے کا ارادہ موقوف کیا ، ایک لمبی ٹھنڈی آہ سینے سے آزاد کی اور بچی کو تھپکتے ہوئے، نئے سرے سے بیدار ہونے والے شوق کو پھر سے سلا دیا۔ آنکھوں میں جھلملاتے ستارے، اشکوں کی برسات بن چکے تھے۔ ہر اشک سراپا ماتم بنا ہؤا تھا۔
یہ لوگ کچھ رشتوں کے لیے کیوں یہ خود سے ہی طے کر لیتے ہیں کہ انہیں سادہ حلیہ ہی رکھنا ہے۔
چالیس پینتالیس سال کے بعد کیا بننے سنورنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ جوانی میں تو حسن کا ساتھ فطرت دیتی ہے۔ حفاظت تو بڑھاپے میں کرنا پڑتی ہے۔
کیا نانی دادی کے لیے ممانعت ہے کہ وہ سراہے جانے کا شوق رکھیں؟
اس نے حسرت سے بیگ میں رکھے پیسوں ،ہینگر میں لٹکے کپڑوں اور دل میں اٹھنے والے شوق پر قبر کی مانند مٹی ڈالی ۔شوق کی موت بھی تو فرد کی موت کی طرح ہی ہوتی ہے، کون جانے ؟
بس سدرہ !٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x