ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میڈیا واچ – سیریل تیرے بن – رمانہ عمر۔ریاض

جیو ٹی وی کے معیار پر ایک سوالیہ نشان …تھپڑ کلچر…وحشت اور تشدد کو گلیمرائز کیا جارہا ہے

جیو ٹی وی چینل سے پیش کیا جانے والا سیریل تیرے بن اپنی 46ویں قسط آن ائیر کرنے کے بعد اچانک شدید تنقید کا نشانہ بننا شروع ہؤا اور علم میں یہ بات آئی کہ شاید اسی ردعمل کی وجہ سے رائٹر نوراں مخدوم اور پروڈیوسر سراج الحق کو اگلی قسط کے سین باقاعدہ کاٹنے پڑے اور وائس اوور سے کام چلایا گیا ۔
میں نےاس ڈرامے کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی تھی مگر اس کی متنازعہ شہرت سن کے اس تھپڑ سین سے دیکھنا شروع کیا جس پر بڑی لے دے ہو رہی تھی۔مجھے تو چھیالیسویں قسط کے تھپڑ تک پہنچنا ہی مشکل لگ رہا تھا ۔ جو زبان اور سوچ اس ڈرامے کے رائٹر پروڈیوسر اور اداکاروں کی مشترکہ کوششوں سے پردہ اسکرین پہ نظر آرہی ہے وہ کسی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا تو کیا،اکیلےدیکھنا بھی ذوقِ لطیف کی آبیاری نہیں کرتا۔ یہ سیریل ڈرامہ نگار کے اپنے ذاتی تجربوں ، وڈیرانہ خیالات اور تشدد پسندانہ سوچ کی کھلی کھلی عکاسی کرتی ہے ۔
ڈرامے کا ہیرو ایک مضبوط،اصول پسند اور انتہائی شریف مرد دکھایا جاتا ہے ۔ مگر یہی انتہائی شریف مرد اپنے والد کے دوست کی مہمان بیٹی کو اپنی حویلی کے اندر منہ پہ تھپڑ مارتا ہے اور اس تھپڑ کا جواز لڑکی کے باپ کو یہ کہہ کر دیتا ہے کہ اگر آپ کو اپنی ذمہ داری کا احساس پہلے ہو جاتا تو اس تھپڑ کی نوبت ہی نہ آتی ۔ اس جملے کا مطلب کیا بنتا ہے ؟ اسے سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ۔ یعنی اگر مہمان آئی ہوئی کوئی لڑکی مجھ سے اتنی بدتمیزی کرے گی کہ تھپڑ کی نوبت آجائے تو میں اس پر ہاتھ اٹھا لوں گا —۔ واہ جی واہ ،مرتسم خان کی مردانگی کو سلام پیش کیجیے یا ان کی وڈیرا گیری پہ داد دیجیے لیکن اس تھپڑ پر خواتین کے حقوق کے علم بردار ان خاموش رہے، کوئی شور شرابہ نہ اٹھا ۔
آگے چل کے ساس بہو کے منہ پہ تھپڑ مارتی ہے اور مجمع تماشہ دیکھتا ہے ۔ شوہر صاحب بیوی کو سوئمنگ پول میں گرا دیتے ہیں اور جواب میں بیوی شوہر کو ۔ اس نہج پہ آگے بڑھنے والے ڈرامے میں تو یہی دکھلایا جانا باقی رہ گیا تھا کہ بیوی شوہر کو منہ پہ تھپڑ لگائے سو وہ بھی چھیالیسویں قسط میں فلمادیا گیا بلکہ ساتھ میں بیوی نے تھوک کا تڑکا بھی لگا دیا ۔ کیا یہ رائٹر اور پروڈیوسر کی ملی بھگت ہے یا محض اتفاق کہ تشدد کے سین متواتر دکھلائے جاتے رہے ۔
میرا اعتراض صرف ایک تھپڑ پر نہیں بلکہ تھپڑ کلچر پہ ہے ۔ یہ غالبا ً نوے کی دہائی تھی جب ساحرہ کاظمی نے حوا کی بیٹی اور زیب النساء جیسے ڈرامے دکھائے اور کلیئر میسج دیا کہ say no to violence اور یہ کہ عورت سب کچھ سہ لے گی مگر جسمانی مار —— یہ وہ حد ہے جہاں عورت اٹھے گی اور no کہے گی ۔ وہ زمانہ میرا ٹین ایج کا زمانہ تھا اور برملا کہوں گی کہ ڈرامے کے اداکاروں اور ڈائیلاگ کو تو آج میں بھول چکی ہوں مگر اس کلیئر میسج کو یقیناً میری جیسی اس دور کی ہر پڑھی لکھی لڑکی نے پلو سے باندھ لیا کہ تم اپنی سیلف رِسپیکٹ کی خود محافظ ہو اور یہ کہ تھپڑ برداشت کی حد ہے۔
آج بیس برس گزرنے کے بعد رونا آتا ہے یہ دیکھ کرکہ وحشت اور درندگی کو گلیمرائز کیا جارہا ہے ۔ عورت کی مضبوطی کی علامت اس کا جاہلوں کی طرح لڑنا اور بدتمیزی کرنا دکھایا جارہا ہے ۔ ہر ڈرامے میں تھپڑ ضرور آرہا ہے اور پھر وہی تھپڑ سپر ہٹ جاتا ہے ۔ ماں بیٹے کو، باپ بیٹی کو، ساس بہو کو ، شوہر بیو ی کو مارتا دھکے دیتا تذلیل کرتا ہے ،اور اب تیرے بن نے آخری حد بھی پار کردی کہ سرکش عورت شوہر کے منہ پہ مارتی ہے ۔
بھلے سے رائٹر کیسا ہی جذباتی سین تخلیق کرے بہرحال اسے یہ بات طے کر لینی چاہیے کہ تشدد نہیں دکھایا جائے گاخصوصاً کسی کے منہ پہ مارتے ہوئے۔
جسمانی تشدد ہمارے معاشرے میں زیادہ ہے یا ہماری اسکرینوں پر؟ اس سوال کا جواب ہر اسکرپٹ رائٹر پروڈیوسر اور ہر اداکار کے ذمے ہے ۔
دوسری اہم بات یہ کہ اس ڈرامے کے مقبول ہیرو مرتسم خان مسلسل اسلحہ لیے پھرتے ہیں ۔ غصے میں ہوں تو ہوائی فائر بھی داغ دیتے ہیں اور محبت کے موڈ میں ہوں تو اپنی محبوبہ بیوی کی سمت بندوق تان کر اس کی نال میں سے محبت بھری نگاہ جماتے ہوئے رومینس بھی جاری رکھتے ہیں ۔ ناظرین کو دیے جانے والے یہ کھلے کھلے پیغام کیا اتنے ہی بے ضرر ہیں کہ انہیں کیوٹ کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے؟ کیا یہ اسلحے کی کھلے عام ترغیب اور جواز نہیں ؟کیا یہی وہ کلچر نہیں کہ جس کا شکار آئے روز معصوم انسان ہو رہے ہیں ۔ مرسڈیز پہ گھومنے والا ہیرو جس کی گولی سے بے گناہ جان سے جاتے ہیں مقدمے قائم ہوتے ہیں ، مجرم چھوٹ جاتے ہیں ….. اسی کلچر کے پروردہ ہیں۔
یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں اسلحہ لے کر پھرنے والے وڈیروں ، خانوں ، اور ملکوں کو کالے چشمے اور سوٹ پہنا کر ہیرو دکھلا کر یہ ڈرامے آخرکس کلچر کی پروموشن کر رہے ہیں ؟ ایک زمانہ تھا کہ و ڈیرہ سسٹم کی خرابیاں دکھائی جاتی تھیں اور اب صاف نظر آیا کہ پڑھے لکھے وڈیرے ہیرو ز کی شکل میں پروموٹ کیے جا رہےہیں ۔ یہی ہیرو صاحب بیوی سے اس کی بات کی سچائی کی گواہی مانگتے ہیں اور اسے چھت سے چھلانگ لگانے کا آرڈر جاری کرتے ہیں ۔ میں تو دانتوں تلے انگلی دبائے دیکھ رہی تھی کہ اس ہیرو کو ہیرو قرار دوں یا ذہنی مریض ؟ اور کیا یہی پیغام نہیں دیا گیا کہ ایسے ذہنی مریض کو بھی قبول کرلو کیونکہ وہ تو بڑا سچا اصول پسند اور محبت نچھاور کرنے والا مرد ہے ۔
ان سب باتوں کو بھی چھوڑ دیجیے، تب بھی اس سیریل کی کہانی جس پلاٹ کے گرد بنی گئی ہے وہ ایسانامناسب اور بے تکا ہے کہ تذکرہ کرتے بھی عجیب لگتا ہے۔ پوری کہانی کا مین آئیڈیا یہ ہے کہ ایک بولڈ اور اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جانے والی میرب جب ایسی سچویشن میں پھنستی ہے کہ اس کا ایک ناپسندیدہ مرد سے بزور نکاح کروایا جارہا ہے تو وہ ایک معاہدہ سائن کرواتی ہے جس کے تحت اس کا شوہر اپنا حق زوجیت اس وقت تک استعمال نہیں کر سکتا جب تک بیوی اسے اجازت نہ دے ۔ اس کے لیے رائٹر کا انٹرویو دیکھا تو علم ہواکہ انہوں نے یہ درست سمجھتے ہوئے لکھا ہے اور اس کے ذریعے شادی شدہ جوڑوں کو عورت کی حفاظت کی ایک راہ دکھائی ہے ۔ اس ذہنیت پہ کیا تبصرہ کریں! حیرت اس پر بھی ہوئی کہ چھیالیسویں قسط تک دیکھنے والوں کو تھپڑ مارنے پر تو شدید اعتراض ہؤا مگر اس گھٹیا دستاویز پر کوئی اعتراض نہ اٹھایا گیا۔ جو حق خود خدا نے دیا ہے اسے کوئ عورت سلب کر سکتی ہے نہ ہی مرد ۔ جس شریعت کے مطابق نکاح قائم کیا گیا ہے اسی شریعت کے مطابق اگر شوہر حق زوجیت ادا نہ کرے تو بیوی چار ماہ انتظار کرنے کے بعد عدالت سے خلع کے لیے رجوع کرنے کا پورا حق رکھتی ہے اور اسی طرح بیوی حق دینے سے بلا جواز انکار کرے تو شوہر اسے سمجھانے بجھانے کے بعد طلاق دینے کا آخری فیصلہ کرنے کا پورا حق رکھتا ہے ۔ مگر یہ کوئی ایسی صورت حال نہیں جسے گلیمرائز کیا جائے۔
ایک سین میں ہیروئن کا باپ کہتا ہے کہ میں نے میرب کی تربیت اس طرح کی ہے کہ وہ غلط صحیح کو پہچان سکے اور حق کے ساتھ کھڑی ہو سکے ۔ مگر حیرت ہے کہ اس تربیت کے اظہار میں سوائے شوہر سے مسلسل بدلحاظی ، بد تمیز ی ، حق زوجیت سے انکار ، آشنا کے اصرار پر اپنی گاڑی سے خود اتر کے اس کی گاڑی میں بیٹھ کراس کے گھر جانا، اس قسم کی باتوں کے علاوہ کوئی بہتر نمونہ پیش کرنے سے رائٹر اور ڈائریکٹر قاصر رہے۔
سینتالیسویں قسط میں شادی شدہ میرب کا آخر کاراپنے شوہر کے ساتھ تعلق قائم ہونا دکھایا جانا تھا جس کا پرومو بھی چل گیا تھا لیکن ہماری خوش فہمی ہے کہ ناظرین کے شور مچانے پہ شاید کچھ تھوڑی شرم پروڈیوسر صاحب کو بھی آگئی اور انہوں نے سین کٹ کردیے ۔ اس مہربانی پہ پروڈکشن ٹیم کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہے ۔ لیکن جو وائس اوور چلایا گیا وہ سین سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔ میرب ایک ایسا کردارہے جوعقل سمجھ سے عاری ہے کیونکہ حیا کی فطرت اور اس کی سازشوں کو ہزار بار پہچاننے کے باوجود شوہر پر نہیں اسی جھوٹی حیا کے جملوں پر یقین کرتی ہے ، شوہر کے ساتھ تعلق قائم کرنے کو اپنی ہار سمجھتی ہے اور اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے گھر چھوڑ دیتی ہے ۔غرض پورے ڈرامے میں جتنے جھول تھے ان سب نے مل کر سینتالیسویں قسط میں پورے کے پورے پلاٹ کو ہی تار تار کردیا ۔
اس ڈرامے کی ٹیم سے گزارش ہے کہ خداکے لیے خدا کے احکامات اور اس کی بنائی ہوئی بڑی بڑی حدود میں داخل ہونے سے بچیے، کچھ نیا دکھانے کی کوشش میں تہذیب و اخلاقیات کی دھجیاں نہ بکھیریے اور ڈریے اس بات سے کہ کل ہماری آنے والی نسل ایسے غلیظ فتنوں میں گرفتار ہو جو آپ دن رات اسکرین پر دکھا کر کروڑوں روپے بنا رہے ہیں۔ ورنہ اپنے خاندانی نظام اور اس کے تقدس کو تارتار کرنے والے اور کوئی نہیں ہم خود ہوں گے۔ایسا کونٹنٹ بنانے والوں کا یہ دعویٰ بھی سینتالیسویں قسط نے غلط ثابت کردیا کہ لوگ تو یہی دیکھنا چاہتے ہیں….. سازشیں ، تھپڑ ، گالیاں ، خاندان کے تاروپود بکھیرنا اور رشتوں کو کھیل تماشا بنا کر رکھ دینا۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x