ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کُن – بتول فروری ۲۰۲۳

سکینہ تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے مکینوں کی آنکھوں میں سکون دوڑ گیا۔ اس گھر میں کئی جانوں کی بھوک کو آسودگی سکینہ کی واپسی پر ہی میسر ہو پاتی تھی
سکینہ باآواز بلند سلام کرکے سب سے پہلے آنگن کے کونے میں چھلنگا سی چار پائی پر بیٹھے ملنگے کی طرف بڑھی جس نے اماں کو دیکھتے ہی تالیاں بجانا شروع کردی تھیں ۔سکینہ نے اپنی چادر کے کونے سے اس کی بہتی ہوئی رال صاف کی اور کاغذ میں لپٹی نمک مرچ والی شکرقندی اس کے آگے رکھ دی۔ شکر قندی دیکھ کر ملنگے کی آنکھوں میں خوشی دوڑ گئی ۔ شکرقندی ملنگا کی واحد عیاشی تھی جو اماں سکینہ ہفتے میں ایک بار ضرور کراتی تھی ورنہ تو روز اس کے سامنے بیگم صاحبہ کے گھر سے بچے ہوئے سالنوں کا ملغوبہ ہی رکھا جاتا جو بیگم صاحبہ اپنی آلکسی یا کیا خبر اپنی تھیلیاں بچانے کے چکر میں ساری بچے ہوئے سالن کی پلیٹیں ایک ہی تھیلی میں ڈال کے دے دیا کرتی تھیں ۔
ملنگاحلق سے قلقارریوں کی آوازیں نکالتا ہؤا جلدی جلدی شکرقندی کھانے لگا ۔سکینہ نے ایک محبت بھری نظر اس پر ڈالی اور سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتی ہوئی اٹھ گئی۔ابھی کچھ عرصے پہلے تک سکینہ اپنے ہاتھ سے ملنگے کو لقمے بنا کر دیتی تھی پر اب ملنگا بڑا ہو رہا تھا ۔وہ آہستہ آہستہ ملنگے کواپنے ہاتھ سے کام کرناسکھا رہی تھی۔
ملنگا تیرہ سال کا تھا پر ذہنی کیفیت کسی تین سال کے بچے جتنی رہ گئی تھی۔ نام تو اس کا عبدالمتین تھا پر بہن بھائیوں نے بچپن سے ہی اس کو ملنگاکہنا شروع کیا تو پھر لوگ اس کا نام بھول ہی گئے بس زبان زدِ عام ملنگا ہی رہ گیا تھا ۔ملنگا سکینہ کے بھائی کا بیٹا تھا ۔ایک بیٹے اور چار بیٹیوں کے بعد چھٹے نمبر پر دنیا میں آیا تو پیدائش کے وقت ہی اس کا سر معمول سے بڑا تھا۔ ڈاکٹروں نے تب ہی بتادیا تھا کہ ذہنی طور پر معذور ہے ۔
چار سال تک جیسے تیسے باپ کی سرپرستی میں پلتا رہا پر اچانک سکینہ کے بھائی کے انتقال پر اس کی بھاوج گردش دوراں کی زد میں آگئی۔ بیوگی کے ساتھ چھے بچوں کی پرورش آسان نہ تھی۔ اس نے ملنگا کو خیراتی ادارے میں بھرتی کرانا چاہا تو سکینہ کا دل نہ مانا۔ وہ اپنے بھتیجے کو اپنے ساتھ لے آئی۔ ویسے بھی نیکی کا کوئی بھی موقع ہو سکینہ ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی ۔خود اس کی بس ایک ہی بیٹی تھی صالحہ، جو اب ماشاءاللہ جوان ہوچکی تھی۔
اس نے صالحہ کی تلاش میں نظریں دوڑائیں وہ کچھ شکوہ بھری نگاہوں کے ساتھ پیچھے ہی کھڑی تھی ۔
’’اگر اپنے لاڈلے سے فرصت مل گئی تو ہمیں بھی دیکھ لیں آتے ہی اس کی فکر پڑ جاتی ہے‘‘۔
’’ارے وہ تو جھلا ہے تو تو اس کے ساتھ جھلی نہ بن جایا کر…اس سے چڑنا چھوڑ دے، اللہ لوک بندہ ہے اسے محبت دیا کر ۔دیکھنا جنت میں تیرا ہاتھ پکڑ کے کھینچ کے لے جائے گا۔ لے یہ کھانا نکال کر اپنے ابا کے پاس جا میں ذرا کبوتروں کو دیکھ کر آتی ہوں‘‘۔
اماں سکینہ نے کھانے کی تھیلی صالحہ کو پکڑائی اور صحن کی منڈیر کی طرف بڑھ گئی۔
’’اپنے کھانے کو کچھ ہو نہ ہو تم نے آدھی روٹی ان کبوتروں پر ضرور لٹانی ہے‘‘ صالحہ بڑبڑاتی ہوئی کھانا نکالنے چلی گئی ۔
’’لو بھلا میں کون ہوتی ہوں کسی کو رزق کھلانے والی…یہ تو ان کے حصہ کی روٹی ہوتی ہے جو رب سوہنا میرے ہاتھ بھیجتا ہے۔ آج ہاتھ

روکوں گی تو اللہ کل کوئی دوسرا قاصد مقرر کرلے گا‘‘۔
سکینہ صحن کی منڈیر کے پاس آگئی جہاں کچھ جنگلی کبوتر کافی دیر سے غٹر غوں کر رہے تھے اماں نے اپنے پلو کے کونے میں بندھی ہوئی آدھی روٹی کھولی جووہ ہمیشہ پہلے ہی کبوتروں کے لیےالگ کر لیتی تھی اور چھوٹے چھوٹے ٹکرے کر کے کونڈی میں ڈالنے لگی۔ سب کبوتر پھڑپھڑاتے ہوئے کونڈی کے گرد جمع ہوگئے۔ سکینہ دانہ ڈالتی جاتی اور ان سے باتیں کرتی جاتی۔
’’مجھے معلوم ہے تمہیں بہت انتظار کرنا پڑتا ہے…دانہ ڈالنے میں بہت دیر کر دیتی ہوں… پر کیا کروں ماں ہوں نا…ممتا غالب آجاتی ہے، گھر میں گھستے ہی نظریں اپنے بچوں کو ڈھونڈتی ہیں ان کی بھوک کا خیال مجھے تم سے پہلے آتا ہے… مجھے معاف کردینا اس معاملے میں بےبس ہوں‘‘۔
’’ارے بھلی لوک اب آ بھی جاؤ کھانے پر تمہاری لاڈو انتظار کر رہی ہے‘‘۔
اندر سے شبیر احمد کی آواز آئی تو سکینہ ہاتھ جھاڑتے ہو ئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔سکینہ کو پتہ تھا بیٹی کا تو بہانہ ہے ورنہ خود شبیر ہی اس کا انتظار کرتا تھا ۔صالحہ تو کسی کا بھی انتظار کیے بغیر کھانا شروع کر دیتی تھی ۔
دو سال پہلے تک اس گھر کے حالات اتنے خستہ نہ تھے ۔شبیر مزدوری پر جاتا تھا، محنت کش تھا اچھا کمالیتا، گزر بسر اچھی تھی ،پر تقدیر کے پھیرے میں آنے سے کب کوئی بچ سکا ہے! زندگی کے امتحان کا پرچہ بدل بدل کے پکڑایا جاتا ہے تاکہ کھرے کھوٹے کی جانچ ہوسکے ۔
شبیر مزدوری کے دوران پاؤں پھسلنے کی وجہ سے دوسری منزل سے گر پڑا تھا ۔بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی، لاکھ علاج کے باوجود ایک ہاتھ سے معذور ہوگیا۔ تعلیم یا ہنر پلّے نہ تھا، مزدوری کرنے جوگا نہ رہا تھا تو سکینہ نے ہی حوصلہ پکڑا، دونوں بچوں کو شبیر کے حوالے کرکے کام ڈھونڈنے نکلی۔ وہ تو برتن پونچھا پر بھی راضی تھی پر اللہ کی کرم نوازی تھی کہ بڑی بیگم صاحبہ کے گھر میں کھانا پکانے کا کام مل گیا۔ کچھ ہی عرصے میں سکینہ کی صفائی ستھرائی اور دین داری دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنے بیٹے کو سیپارہ پڑھانے کا کام بھی اس کو سونپ دیا۔ اگرچہ سکینہ نے پہلے ہی بڑی بیگم صاحبہ کو بتادیا تھا کہ وہ قرآن پاک مجہول پڑھتی ہے اس کو تجوید سے پڑھنا نہیں آتا پر بڑی بیگم صاحبہ نے کہا کون سا ان کو اپنے بیٹے کو مولوی بنانا ہے، جیسا بھی آتا ہے ویسا پڑھادو۔ اس کی تنخواہ میں اضافہ ہوگیا۔ سکینہ خوش تھی اضافی رقم سے وہ صالحہ کا جہیز بنارہی تھی۔ صالحہ جھنجھلاتی۔
’’ آخر تم روز بیگم صاحبہ کے گھر سے یہ بچا ہؤا کھانا کیوں لاتی ہو؟ ہم اپنے گھر میں بھی تو دال دلیہ پکا سکتے ہیں۔اور جب ان کے ہاں اتنا پکتا ہے تو وہ پہلے ہی تازہ میں سے کیوں نہیں دیتیں؟‘‘
’’ارے ان کے حق حلال کی کمائی ہے اگر وہ ہم کو نہیں دینا چاہتیں تو ہم کون اعتراض والے اور باسی تو اس لیے لے آتی ہوں کہ وہ سب پھینک دیتی ہیں رزق ضائع ہوتا ہے تو میرا دل دکھتا ہے۔ اور چار پیسے جو دال دلیہ کے بچ جاتے ہیں وہ تیرے ہی واسطہ تو جمع کرتی ہوں۔ کل کو تو خوش رہے یہ ہی میری دعا ہے بچے‘‘وہ صالحہ کو محبت سے پچکارتی پر کبھی مطمئن نہ کر پاتی۔
جانے کیسی قناعت اور شکر گزاری اماں سکینہ کی گھٹی میں پڑی تھی۔ شوہر بھی نصیب سے خدا ترس ہی ملا تھا۔ سکینہ کے پیچھے ملنگا کی دیکھ بھال کرتا بیٹی کے ساتھ اس کا ہاتھ بٹاتا گھر کا خیال رکھتا پھر بھی سکینہ کا ممنون رہتا کہ مشکل وقت میں اس کے بدلے کی ساری ذمہ داری اپنے نازک کاندھوں پر اٹھا لی تھی۔بس صالحہ ہی تھی جو اپنے حالات سے غیر مطمئن رہتی ۔بیٹی کے لیے ہر وقت ہی سکینہ کا دل پریشان رہتا۔
رات کو عشا کی نماز پڑھ کے سکینہ صحن میں آئی تو صالحہ سیڑھیوں پر بیٹھی آسمان کو تک رہی تھی۔ سکینہ بھی اس کے برابر آکر بیٹھ گئی۔
’’کیا ہوا میری بیٹی کو… پریشان ہے کیا؟‘‘
’’اماں ایک بات بتا آخر ہم غریبوں نے کیا گناہ کیا ہوتا ہے جو اللہ ہمیں اپنی نعمتوں سے نہیں نوازتا ؟‘‘
صالحہ نے دھیرے سے سوال کیا اور دوبارہ آسمان کو تکنے لگی۔
سکینہ کا اتنے بڑے شکوے پر دل ہول گیا ۔صالحہ کو مطمئن کرنا ضروری تھا ورنہ جانے اس کے دل میں پلتی ہوئی شکایتیں اس کا ایمان کتنا

کمزور کر دیتیں۔
’’کس نے کہا وہ سوہنا سائیں ہمیں نعمتوں سے نہیں نوازتا۔ نعمتیں تو ہر انسان کو اس نے اتنی بخشی ہیں کہ گننا محال ہے ۔ہاں اگر تمہارا مطلب مال دولت سے ہے تو بچےمال دولت نری زندگی کی آزمائش ہے۔ اللہ فرماتا ہے میں دے کر بھی آزماتا ہوں اور لے کر بھی آزماتا ہوں۔ امیری ہو یا تنگی دونوں میں انسان کے ظرف کی آزمائش ہوتی ہے۔ ویسے بھی غریبی تو انبیا کی میراث ہے۔ ہمارے سوہنے نبیؐ پاک نے اپنی ساری زندگی تنگدستی میں گزاری اور تم کو پتہ ہے یہ ان کا اپنا انتخاب تھا ،اگر وہ چاہتے تو اللہ سائیں ان کو پورے کے پورے سونے کے پہاڑ عطا کر دیتے پر انہوں نے درویشی پسند کی۔غریبی تو زیادہ شکر کی حقدار ہوتی ہے کہ وہ اعمال نامہ کو حساب کتاب سے بوجھل نہیں کرتی۔ حالات جیسے بھی ہوں شکر لازم ہے‘‘۔
سکینہ نے صالحہ کا سر اپنے کندھے پر رکھا اور بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔
’’تو ایک ہی تو زندگی ہے اس کو ہم بس صبر شکر سے گزار دیں اجر کے انتظار میں کیا دنیا کی سہولیات میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے‘‘ صالحہ کے لہجے میں مایوسی تھی ۔
’’مایوس نہیں ہوتے بیٹا پتہ ہے نا مایوسی کفر ہے اور مایوسی کو کفر اس لیے کہا گیا کہ مایوس بندہ خدا سے مانگنا چھوڑ دیتا ہے جب کہ اللہ چاہتا ہے کہ اس کا ہر بندہ اس سے دعا کا رشتہ استوار رکھے دعا ہی رب اور انسان کے درمیان سب سے گہرا رابطہ ہے‘‘سکینہ نے رسان سے سمجھایا ۔
’’چلو مان لیا امیری غریبی دونوں آزمائش ہیں لیکن اگر میرا دل امیری والی آزمائش کے لیے مچلتا ہو تو ؟‘‘صالحہ نے منہ بسور کر کہا۔
’’تو اللہ سے مانگو وہ دل کی مراد ضرور پوری کرتا ہے‘‘ سکینہ نے دلاسہ دیا۔
’’پھر تو یہ تو نہیں کہے گی کہ دعا میں پیسہ مانگنے سے گناہ ملتا ہے‘‘۔
’’ارے جھلی دعا میں کچھ بھی مانگنے سے گناہ نہیں ملتا اللہ کہتا ہے اگر جوتے کا تسمہ بھی چاہیے تو مجھ سے مانگو اس لیے جو دل چاہے مانگو سچے دل سے مانگو بس اس بات کا خیال رکھنا کہ دنیا کبھی اکیلی مت مانگنا ہمیشہ دنیا کی بھلائی کے ساتھ آخرت کی بھلائی بھی مانگنا‘‘۔
’’اماں کیا ایسی کوئی خاص چیز ہے جو تم ہمیشہ دعاؤں میں مانگتی ہو ‘‘ صالحہ نے کندھے سے سر اٹھا کے سکینہ کا چہرہ دیکھا۔
’’تمہارے اور ملنگا کے لیے میں بہت دعائیں کرتی ہوں اس کے علاوہ ایک خواہش ہے جو میں ہر روز رب سوہنے کے حضور پیش کرتی ہوں‘‘۔
’’کیا خواہش؟‘‘صالحہ نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’میں ایک بار اللہ کے در پر حاضری دینا چاہتی ہوں تمہارے ابا کے ساتھ حج پر جانا چاہتی ہوں‘‘ سکینہ کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی۔
صالحہ بےساختہ ہنس دی ۔
’’اماں پتہ ہےحج سات سے دس لاکھ تک کا ہوچکا ہے تم نے تو کبھی دس ہزار بھی اکھٹے نہ دیکھے ہوں گے تم کیسے جاسکتی ہو وہ بھی دو دو بندے۔
’’جو ہمارے لیے نا ممکن ہو وہ رب کےلیے ناممکن تھوڑی ہوتا ہے ہم نے تو صرف عرضی ڈالنی ہے کیا کب کیسے اس کا انتظام اس نے کرانا ہے اس کی کن ہو جائے تو کچھ مشکل نہیں ہوتا‘‘۔
جانے رات کا فسوں تھا یا سکینہ کے لہجے کی تاثیر… صالحہ کا دل گداز ہونے لگا ۔وہ نماز کے لیے اٹھ گئی اسے دعا مانگنی تھی اور اس دن کے بعد سے صالحہ کی دعائیں بڑھ گئی تھیں۔ وہ بھی سکینہ کی طرح خشوع وخضوع سے دعا مانگنے لگی تھی۔
وہ ایک عام سا دن تھا پر سکینہ کے لیے خاص ہونے والا تھا ۔وہ بیگم صاحبہ کے ہاں پہنچی تو انہوں نے اسے کمرے میں بلالیا ۔ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ نے سکینہ پر شادی مرگ کی کیفیت طاری کردی۔
’’بھائی جان کافی دنوں سے خواب میں دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے مرحوم امی ابو حج کرنا چاہتے ہیں۔ اب بھائی جان اس مہینے انگلینڈ جا رہے ہیں وہ تو حج البدل کے لیے نہیں جا سکتے۔ مجھ سے کہا مگر مجھے اپنی این جی او کا بہت کام ہے میں بھی نہیں جا سکتی ۔میں تو خیر ان خواب وغیرہ کو بھی کوئی

اہمیت نہیں دیتی پر بھائی جان پریشان ہیں وہ چاہ رہے ہیں کہ کسی کو پیسے دے کر امی ابو کا حج البدل کرالیتے ہیں مجھے تمھارا خیال آیا تم اتنی نماز وغیرہ پڑھتی ہو دینی کام کرتی ہو اگر تم اپنے میاں کے ساتھ حج پر چلی جاؤ تو بھائی جان سارا خرچہ اٹھائیں گے اور میں بھی تمہیں دو مہینے کی تنخواہ ایڈوانس میں دے دوں گی‘‘۔
بیگم صاحبہ سکینہ کی حالت سے بے خبر بولے جارہی تھیں جبکہ اس کا دل سجدہ ریز تھا ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ہاتھ لرز رہے تھے آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ بلاوہ آگیا تھا، کن کہہ دیا گیا تھا۔
جب صالحہ نے سنا تو وہ بھی حیرت سے گنگ رہ گئی۔
’’اماں کون سی پہاڑی پر چڑھ کے دعا مانگتی ہو جو اتنی جلد مان لی گئی‘‘۔
’’مومن کو کسی پہاڑی پر چڑھنے کی ضرورت نہیں مومن کے تو دل میں کوہِ طور پیوست ہے بس ادراک ہونے کی دیر ہے‘‘۔
سکینہ کے گلے میں آنسوؤں کا گولہ اٹک رہا تھا شبیر کی آنکھیں بھی جھلمل تھیں ملنگا بھی تالیاں بجا بجا کر شور کر رہا تھا گویا گھر میں کوئی تہوار اتر آیا تھا۔
دو دن بعد بیگم صاحبہ کا بھتیجا آیا تھا بڑی سی گاڑی میں اماں ابا کو لینے، ان کا پاسپورٹ بنوانا تھا۔ اس کے آنے اور جانے کا دورانیہ بمشکل پندرہ منٹ رہا تھا اور ان پندرہ منٹوں میں صالحہ کو مستقل کسی کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس ہوتی رہی تھیں۔
دوسرے دن مامی آئی تھیں کلو مٹھائی کا ڈبہ لے کر اماں ابا کو مبارکباد دینے۔ ملنگا کو کتنی ہی دیر لپٹا کر روتی رہیں اماں کو گلے لگا کر مبارکباد دی صالحہ کو بھی خوب پیار کیا ۔جانے کتنی دیر اماں سے کھسر پھسر کرتی رہیں۔ اماں خوش لگ رہی تھیں ۔رات بہت دیر ہوگئی تو اس کو کچھ پوچھنے کا موقع نہ ملا صبح اماں کام پر چلی گئیں۔ واپسی پر ساری خوشی مفقود تھی کچھ بجھی بجھی تھیں۔
’’کیا ہؤا اماں؟‘‘ پریشان ہو صالحہ نے ہمدردی سے سوال کیا ۔ ویسے بھی جب سے اس نے اللہ کے ذکر میں دل لگایا تھا اس کی طبیعت میں ٹھہراؤ آگیا تھا۔
’’پریشان نہیں ہوں بس کچھ الجھ گئی ہوں فیصلہ نہیں کر پارہی کیا کروں‘‘۔
’’مجھے بتاؤ کیا پتہ میں کچھ مدد کردوں‘‘ صالحہ نے پوچھا۔
’’تمہیں تو بتانا ہی ہے معاملہ تمہارا ہی ہے اور آخری فیصلہ بھی تمہارا ہی ہوگا‘‘۔
’’وہ جو اس دن بیگم صاحبہ کا بھتیجا آیا تھا اس کو تم پسند آگئی ہو پہلی بیوی کو طلاق دے چکا ہے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ بہت بڑے بنگلے میں رہتا ہے دو گاڑیاں بھی ہیں آگے پیچھے کوئی نہیں صرف ایک باپ ہے وہ انگلینڈ جا رہا ہے‘‘۔
’’جب بیگم صاحبہ سب بتارہی تھیں تو ان کے لہجہ میں بڑی ناگواری تھی ظاہر ہے ہم کب ان کے جوڑ کے ہیں۔ پر بھتیجے کا پیغام تو پہنچانا ہی تھا۔ میرا تو دل چاہا فوراََ ہی انکار کردوں، امیری غریبی کا فرق اگر رہنے بھی دو تو بھی ہمارا ان سے نہ مزاجوں کا جوڑ ہے نہ طور طریقوں کا ۔پر سوچا کیا پتہ یہ تمھاری دعاؤں کا ثمر ہو تمہیں دھن دولت سہولیات سب کچھ چاہیےتو اللہ سائیں نے تمہارے لیے یہ سبیل نکالی ہو اس لیے خاموش ہوکر آگئی۔ کل تمہاری مامی بھی تنویر کا رشتہ لائی تھیں۔ تنویر کی نوکری لگ گئی ہے کہہ رہی تھیں حج پر جانے سے پہلے نکاح کر دیتے ہیں رخصتی واپس آنے کے بعد کر دینا۔ ویسے بھی میرے پیچھے تمہیں اور ملنگے کو ان کے گھر ہی رہنا ہے اکیلا تو گھر میں چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ اگر رشتہ ہوجاتا تو دل بے فکر رہتا ۔باقی تمھاری مرضی ہے سوچ سمجھ کر بتادو استخارہ کرلو تو اچھی بات ہے تم جو چاہو گی وہ ہی ہوگا میں نہیں چاہتی کہ ماں باپ کی طرف سے کوئی شکوہ تمہارے دل میں رہ جائے‘‘ ۔
سکینہ فیصلہ کا سارا بار صالحہ کے کاندھے پر ڈال کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔
عصر کی نماز پڑھ کے سکینہ باہر آئی تو صالحہ ملنگے کے ساتھ لڈو کھیل رہی تھی۔ دونوں بہت شور مچا رہے تھے ۔سکینہ مسکراتے ہوئے ان کے پاس چار پائی پر آکے بیٹھ گئی ۔

’’دیکھ اماں ملنگاں کتنی بےایمانی کرتا ہے کچھ زیادہ ہی سیانا ہوتا جارہا ہے‘‘۔
صالحہ نے ملنگے کو زبان چڑائی تو اس نے بھی پلٹ کر زبان چڑادی
سکینہ ہنس دی۔
’’ پتہ ہے اماں ابا تیرے پیچھے اس کے ساتھ بہت محنت کرتا ہے اس کو دو کلمے یاد کرادیے اور بسم اللہ بھی اپنے ہاتھ سے کھانا بھی اب ایسے کھاتا ہے کہ ایک دانہ بھی نیچے نہیں گرتا اب تو اپنا بستر بھی گیلا نہیں کرتا‘‘۔
ملنگا سمجھ گیا تھا اس کی تعریف ہورہی ہے اس نے شرما کر اپنا سر سکینہ کی گود میں چھپا لیا۔
’’اماں یہ وہ کمزور پودا تھا جس کی اپنی زمین پر جڑیں مضبوط نہیں تھیں۔ تم نے اس کو اپنے آنگن میں لا کے لگایا ،تم نے اور ابا نے مل کے اسے سینچا سنوارا اس کی دیکھ بھال کی۔ اب اس پر ہریالی آنے لگی ہے میں نہیں چاہتی کہ اس پر کوئی بھی ایسا وقت آئے کہ یہ پھر سے مرجھا جائے ۔تنویر اس کا سگا بھائی ہے جتنا درد اس کے دل میں اس کےلیے ہوگا کسی غیر کے دل میں نہیں ہوگا ۔تم کب تک اس کی ذمہ داری سنبھال سکتی ہو میں چاہتی ہوں یہ اپنوں کے درمیان جائے، اپنی ماں کے پاس جائے، اس کے حصے کی ساری محبتیں اس کو ملیں اور میں بھی اس کے ساتھ جاؤں تاکہ اس کی شرارتوں کے بدلے لے سکوں، جب جب یہ میری چوٹی کھینچے میں اس کے کان مروڑ سکوں‘‘ سنجیدگی سے بولتے بولتے اچانک ہی صالحہ نے ملنگے کے کان مروڑ دیے تو پلٹ کر اس نے بھی صالحہ کی چوٹی کھینچ لی تو وہ جھوٹ موٹ کا شور مچانے لگی۔
وہ کیا کہہ رہی تھی سکینہ سمجھ رہی تھی آخر وہ ماں تھی۔
’’تمہیں اپنی مامی کے گھر کے حالات پتہ ہیں نا !اس نے ساری زندگی کپڑے سلائی کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالا ہے اب تنویر کی نوکری لگ گئی پر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں وقت لگے گا تمہاری امیر ہونے کی خواہش وہ اتنی جلد پوری نہ کر پائے گا‘‘۔
صالحہ نے سوچا بیٹی کا من ٹٹول لے کہیں یہ فیصلہ جذباتی نہ ہو کہ بعد میں والدین کو کوئی الزام دے۔
جلد یا بدیر… انسان خواہشات پوری کر بھی کب سکتا ہے اماں ! میں نے جان لیا ہے کہ جب وہ کن کہتا ہے تو ہر ناممکن ممکن میں بدل جاتا ہے اللہ نے مجھے میرے حصے کی جتنی آسائشات دینی ہوں گی وہ تنویر کی سنگت میں ہی دے دے گا کیونکہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے اور دعا مانگنے کے لیے کسی موقع یا مقام کی ضرورت نہیں ہوتی بس لگن اور ایمانِ کامل ہی کامیابی کا کلیہ ہے اور تو ہی تو کہتی ہے ہمارا کوہِ طور ہمارے دلوں میں پیوست ہے اس سے کلام کے لیے ہمیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے بس ادراک کی ضرورت ہے‘‘۔
سکینہ نے مسکرا کر بیٹی کو گلے سے لگا لیا پیچھے سے شبیر نے بھی جھلمل آنکھوں کے ساتھ اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا جو جانے کب سے پیچھے کھڑا اس کی باتیں سن رہا تھا۔
صالحہ مطمئن ہو کر ملنگا کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگی وہ چاہتی تھی کہ جب اماں ابا ملنگا کے ساتھ جنت میں جارہے ہوں تو وہ صالحہ کا بھی ہاتھ پکڑ کے کھینچ کر جنت میں لے جائے۔ اس کی ذات میں بھی قناعت اور شکر گزاری سر اٹھانے لگی تھی ۔آخر بیٹیاں اپنی ماں کا ہی تو پرتو ہوتی ہیں۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x