ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

حوری – بتول فروری ۲۰۲۱

میں داخلہ وارڈ کے لمبے برآمدے کے تقریباً آخر میں پہنچ چکی تھی کہ یکدم پیچھے سے غیر متوازن تیز تیز قدموں کی چاپ سنائی دی اور ساتھ ہی آواز کی پکار بھی، ’’ڈاکٹر ذرا رُکیے‘‘۔
قدم وہیں ساکت ہو گئے، جو پلٹ کر دیکھا تو وہ مارگریٹ سمتھ تھی، جو دو روز پہلے ہی سات نمبر وارڈ میں داخل ہوئی تھی اور اِس کے ساتھ صرف اتنا ہی تعارف تھا کہ اِس کا پورا معائنہ میں نے کیا تھا۔ دائیں ہاتھ کی کلائی کو گہرے زخم اُس نے خود لگائے تھے۔ جب بھی اُس پر رنج و الم کا دورہ پڑتا، وہ اپنی کلائیاں کاٹ لیتی اور اِسی حالت میں ہسپتال بھیج دی جاتی۔
اِس مرتبہ بھی جب وہ آئی، تو وارڈ سسٹر اور سٹاف کے لیے کوئی نئی مریضہ نہیں تھی۔ معمول کے مطابق اِس کی مرہم پٹی کر دی گئی اور ساتھ ہی معائنہ کے لیے ڈاکٹر کو کال بھیج دی گئی۔ میرے لیے البتہ وہ بالکل نئی تھی، چونکہ مجھے تو اِس ملک میں آئے چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ سنہری لمبے بال، بڑی بڑی خوبصورت بادامی رنگ کی آنکھیں، سُرخ و سفید رنگت اور دراز قد کی یہ سمارٹ سی اٹھارہ سالہ لڑکی نجانے کیوں اِس حالت میں دماغی بیماریوں کے ہسپتال میں آجاتی ہے۔ اُس کا معائنہ کرتے ہوئے کئی ایک سوال ذہن میں آرہے تھے جو ذاتی قسم کے تھے اور وہ مجھے نہیں پوچھنے تھے، البتہ اُس کے انچارج ماہرِ نفسیات اُس کی باری آنے پر انٹرویو کرتے ہوئے تمام باتیں پوچھیں گے، جن میں سے زیادہ تر تو اُس کی ہسٹری فائل میں پہلے سے ہی درج ہوں گی۔ ویسے اُ س کی ایک بات سے ذہن کو خاصہ دھچکا لگا۔ پچھلی بیماریوں کے متعلق پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ بچپن میں پولیو ہؤا تھا، اس لیے ایک ٹانگ ذرا چھوٹی ہے۔
’’تمہاری والدہ نے تمہیں پولیو سے بچائو کی دوائی نہیں دلوائی تھی؟ وہ جو ہر بچے کے لیے لازمی ہوتی ہے۔‘‘
’’ماں تھی ہی کب، جو وہ یہ کام کرتی‘‘۔ اس نے یکدم جواب دیا۔ ’’تو پھر تمہاری پرورش کس نے کی؟‘‘
’’میری نانی نے‘‘۔ اُس کا مختصر سا جواب تھا۔ اُس کے بعد وہ زیادہ باتیں کرنے کے موڈ میں نہ تھی، اس لیے مزید کوئی سوال نہ پوچھا گیا۔
اُس روز جب میں برآمدے میں داخل ہوئی تھی تو اُس نے اپنے وارڈ سے مجھے دیکھ لیا تھا اور بھاگی آئی تھی، جیسے کوئی ضروری بات کرنی ہو۔
قریب آکر ذرا شرمندہ شرمندہ سے لہجے میں کہنے لگی:
’’معاف کرنا ڈاکٹر! ایسے ہی راستے میں روک لیا ہے آپ کو۔ دراصل مجھے ایک بات پوچھنی ہے، کیا آپ بتا سکیں گی‘‘؟
’’کیوں نہیں، اگر میں جانتی ہوئی تو‘‘!
’’کیا میں حُوری بنوں گی‘‘؟
’’کیسی حُوری، میں سمجھی نہیں؟‘‘
’’اوہ‘‘! یکدم میرے منہ سے نکلا… ’’تمہارا مطلب جنت کی حُور سے ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک میں ہے، مگر تمہیں یہ کیسے معلوم ہؤا‘‘؟
وہ کہنے لگی: ’’میں نے پکتھال کا ترجمہ کئی مرتبہ پڑھا ہے، مجھے بہت پسند ہے اور اُس میں سے مجھے یہ سمجھ آئی ہے کہ اچھی لڑکیاں وہاں حُوریں بنیں گی۔‘‘
میں نے بغور اس کا جائزہ لیا، وہ واقعی بڑی معصوم اور خوبصورت سی حُور لگ رہی تھی، سنہری لمبے ریشم جیسے بالوں کی دو چٹیاں آگے ڈالی ہوئیں، غزالی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیر رہی، جیسے بھرے کٹورے ابھی چھلک پڑیں گے۔ وہ میرے جواب کی منتظر تجسّس بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے میں نے کہا: ’’مار گر یٹ یہ باتیں تو بڑی لمبی ہیں، کوئی مختصر جواب اِس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہا۔ اِس وقت میں ذرا جلدی میں بھی ہوں، پھر کبھی فرصت کے وقت اِس موضوع پر تفصیلی باتیں کریں گے‘‘۔ میں نے اِسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
وہ بولی ’’اِن شاء اللہ‘‘!
’’حیرت ہے، یہ لفظ تم نے کہاں سے سیکھا‘‘؟
’’میری نانی جوانی کے زمانے میں کچھ عرصہ مراکش رہی تھی، وہاں ہر کوئی یہ لفظ استعمال کرتا ہے اور میں نے نانی سے سیکھا ہے‘‘۔
’’بہت اچھا، ان شاء اللہ پھر ملیں گے‘‘ اور میں آگے چل دی۔ اگلے وارڈ میں وہ انچارج ماہرِ دماغی امراض موجود تھے، جنہوں نے مارگریٹ کا علاج کرنا تھا۔ ڈاکٹر فریزر سے اِس لڑکی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی، اِس لیے اُن سے دریافت کیا کہ اُس کا مفصل انٹرویو کب لیں گے۔ اُنہوں نے بتایا کہ کل صبح یا دوپہر کے وقت اُس کی باری آجائے گی۔ ’’ویسے میں تو اُس کو پچھلے دو سال سے جانتا ہوں، اس لیے تھوڑے وقت میں ہی انٹرویو مکمل ہو جائے گا‘‘۔
میں نے کہا: ’’مہربانی کرکے صبح ہی کو اُس کو لِسٹ پر رکھ لیں کیونکہ دوپہر کو مجھے بوڑھوں کے وارڈ میں جانا ہے۔ اِس لڑکی کی کہانی میں مجھے بھی دلچسپی ہے۔
وہ مان گئے، ہاں ضرور، بلکہ میں تو کہنے والا تھا کہ جب موقع ملے، انٹرویو لینے والے انچارج کے ساتھ شامل ہؤا کرو تاکہ تمہیں کچھ دماغی امراض کی معلومات حاصل ہوں۔ تمہارا شوہر تو اِس مضمون کا بہت اچھا ماہر بن چکا ہے‘‘۔
’’جی ٹھیک ہے، کل صبح میں نو بجے مارگریٹ کے وارڈ میں آجائوں گی‘‘۔
’’ایک بات ہے‘‘۔ ڈاکٹر فریزر نے چلتے ہوئے کہا: ’’تم اُس کی کیس ہسٹری اچھی طرح دیکھ لو تو اُس کو سمجھنے میں آسانی رہے گی‘‘۔
’’جی ٹھیک ہے‘‘۔
اگلے روز میں مقررہ وقت سے پہلے ہی مارگریٹ کے وارڈ میں پہنچ گئی تاکہ اس کی فائل کا مطالعہ کر لوں۔
اُس کی کہانی کی ابتدا ہی ایسی دُکھ بھری تھی کہ غور سے پڑھنے پر ذہن پر خاصہ بوجھ پڑ رہا تھا، مگر میں نے خود ہی اس کام میں ٹانگ اڑا لی تھی، اس لیے اب اُسے پورا کرنا ضروری تھا۔
وہ ابھی اِس دُنیا میں آئی بھی نہیں تھی کہ اُس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ کر اُس شہر سے ہی جا چکا تھا۔ مارگریٹ کی والدہ مَیری بھی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اُس کا والد بھی چھوٹی بچی کو اکیلی ماں کے پاس چھوڑ کر کہیں لاپتہ ہو گیا تھا۔ ماں نے نرسنگ کرکے بیٹی کی پرورش کی تھی۔ مَیری ماں کی خواہش کے مطابق نرس تو نہ بن سکی، البتہ ٹائپنگ وغیرہ سیکھ کر سیکرٹری بن گئی تھی۔ بمشکل بیس سال کی ہو گی کہ اُسی فرم کے منیجر سے دوستی ہو گئی، جس فرم میں وہ جاب کرتی تھی۔ چند ماہ کے اندر اندر والدہ کی مرضی کے خلاف شادی ہو گئی۔ بیچاری ماں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور بیٹی کی خوشی میں شامل رہی۔
مشکل سے ایک سال ہی خوشی کا گزرا ہو گا کہ وہ آدمی کسی دوسرے شہر میں دورے کی غرض سے گیا اور وہاں سے چند روز بعد مَیری کو خط لکھ دیا کہ اب وہ واپس گلاسکو نہیں آرہا، کیونکہ اِس کو آسٹریلیا میں بڑی اچھی نوکری مِل رہی ہے اور وہ مَیری سے اپنا تعلق ختم کر رہا ہے۔
اِس واقعہ کے ایک ماہ بعد ہی مارگریٹ اِس دُنیا میں آگئی۔ اُس کی والدہ مَیری کا ہر وقت کا رونا دھونا نانی سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ ایک روز اُس نے مَیری سے کہا کہ تمہاری بیٹی کی پرورش میں کر لوں گی، تم بے شک کسی اور جگہ جانا چاہو تو جا سکتی ہو۔ دو ماہ کی بچی کو چھوڑ کر وہ ایسی لاپتہ ہوئی کہ کبھی پلٹ کر نہ دیکھا۔
جب مارگریٹ دو سال کی تھی تو اُسے پولیو ہو گیا، نانی اس کے ساتھ کافی عرصہ ہسپتال رہی، مگربچی پوری طرح ٹھیک نہ ہو سکی۔ اُس کے خاص بوٹ بنوا دیے گئے، جن سے وہ قدرے بہتر چلتی تھی۔ پھر مارگریٹ نے ہائی سکول پاس کیا اور ٹائپنگ سیکھی، مگر ابھی پورے سولہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک اسے پہلا دورہ پڑا۔ اُس نے اپنی دونوں کلائیاں کاٹ لیں کہ میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔
سوائے نانی کے نہ کوئی رشتہ دار تھا، نہ غم خوار، نہ کوئی سہیلی، نہ کوئی ہمدرد۔ ہسپتال میں وہ اس کا پہلا داخلہ تھا، اُس کے بعد دو مرتبہ اور داخل ہوئی۔ ڈاکٹروں کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ اُس کو جلد از جلد ٹھیک کرکے ہسپتال سے گھر بھیج دیں، کیونکہ یہ ماحول بھی اُس کے لیے موزوں نہیں تھا۔ یہاں تو اُدھیڑ عمر یا بوڑھے آدمی اور عورتیں رہتے تھے۔
ابھی اس کی کیس ہسٹری مکمل ہونے کو تھی کہ ڈاکٹر فریزر آگئے اور میگی (سب اس کو اسی چھوٹے نام سے بلاتے تھے) کو لے کر انٹرویو کے کمرے میں چلے گئے، میں بھی ساتھ ہی تھی۔
اُس کا حال وغیرہ پوچھ کر سیدھا سوال یہ کیا کہ اِس مرتبہ کلائی کیوں کاٹی؟
’’میں زندہ نہیں رہنا چاہتی، پوری دُنیا میں صرف ایک ہمدرد ہستی نانی کی تھی، وہ بھی فوت ہو گئی ہے، اب میں نے اکیلے کیا کرنا ہے‘‘۔ ڈاکٹر فریزر نے اُس کو ہمدردی کے کچھ الفاظ کہے، تھوڑا بہت سمجھایا، اُس کی دوائیوں پر نظرثانی کی اور اُس کو بستر پر بھیج دیا۔
اُس کے جانے کے بعد میں نے ڈاکٹر فریزر سے کہا: ’’محسو س ہوتا ہے کہ مارگریٹ مذہب سے کچھ دلچسپی رکھتی ہے۔ کیا اِس بارے میں اسے کچھ بتایا جا سکتا ہے‘‘؟
’’بالکل نہیں‘‘۔ اُنہوں نے یکدم جواب دیا۔ ’’ڈاکٹر تم نہیں جانتیں، اِس ملک میں مذہب پر کس قدر بحثیں اور مار کُٹائی تک ہو جاتی تھی۔ عیسائیوں کے دونوں فرقے رومن کیتھلک اور پروٹسٹنٹ ہمیشہ ایک دوسرے سے الجھتے رہتے تھے۔ اِس لیے کئی سال پہلے حکومت نے سرکاری اداروں میں مذہب پر ہر قسم کی گفتگو منع کر دی ہے، چنانچہ ہسپتالوں میں اِس موضوع پر بالکل کوئی بات نہیں ہو سکتی‘‘۔
میں نے خاموشی سے سب کچھ سن لیا اور اب اِس فکر میں تھی کہ میگی سے کہاں اور کیسے اِس موضوع پر بات کروں۔ اپنے گھر میں بھی اِس لڑکی کے بارے میں بات ہو، تو میرے میاں ڈاکٹر ذکاء صاحب نے بتایا کہ میگی کو ہسپتال کا پورا سٹاف جانتا ہے، بلکہ جب وہ پہلی مرتبہ اِس ہسپتال میں آئی تھی تو انہیں دنوں انہوں نے یہاں سروس شروع کی تھی اور اس کا کیس میٹنگ میں زیرِ بحث لایا گیا تھا۔ اِس واقعے سے چند روز بعد کی بات ہے کہ میں ہسپتال کی نچلی سڑک پر سیر کر رہی تھی۔ میرے ساتھ ڈاکٹروں کی بیگمات انجم ہارون، صوفیہ یعقوب اور ان کی بہن تحسین جہاں بھی تھیں۔
بہت ہی خوبصورت منظر تھا، بارش ذرا تھمی تھی۔ پھول، پودے، درخت، گھاس وغیرہ سب کچھ دُھلا ہؤا صاف ستھرا نظر آرہا تھا۔ وڈلی ہسپتال اُونچائی پر واقع ہے، تین سڑکیں اُوپر نیچے سامنے والے گیٹ سے پچھلے گیٹ تک جاتی ہیں، اُوپر کی دو سڑکوں پر تو وارڈاور ڈاکٹروں کے میس، دفاتر اور کئی قسم کی بلڈنگیں بنی ہوئی ہیں، البتہ نیچے والی سڑک پر کوئی تعمیر نہیں، اِس لیے قدرے خاموشی رہتی ہے اور اُس کے دامن میں ایک ندی اُوپر کی پہاڑی سے نیچے کی طرف تیزی سے شور مچاتی، پتھروں پر سر پٹختی گزرتی ہے۔ اُس کا شور بھلا معلوم ہوتا ہے، جیسے خود ہی کوئی راگ الاپ رہی ہو۔ ہم خواتین کی سیر کے لیے یہ پسندیدہ جگہ تھی، البتہ مرد لوگ ہسپتال کے پچھلی طرف پہاڑی کے دامن میں بڑی بڑی چراگاہوں میں سیر کیا کرتے تھے۔
اِس موسم کا لُطف اُٹھاتے ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اچانک مارگریٹ ایک طرف سے نمودار ہوئی۔ پاس آکر رُکی اور کہنے لگی: ’’کیا آپ میرے ساتھ کوئی بات نہیں کریں گی‘‘؟
’’کیوں نہیں۔ آئو یہاں ندی کے پاس جنگلے پر کھڑے ہو کر تمہاری باتیں سنتی ہوں۔ میری سہیلیاں تو اپنی سیر جاری رکھیں گی‘‘۔
اُس وقت وہ خاصی بہتر لگ رہی تھی، اِس لیے اسے باہر آنے کی اجازت مِل گئی تھی۔ وہ کچھ اپنے مسائل کے بارے میں اور کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی اور میں سارا وقت یہی سوچتی رہی کہ اُس کو کیسے خالقِ کائنات کا پتہ بتائوں اور کیسے اُس سے تعارف کرائوں؟ لڑکی خاصی ذہین تھی، اُس نے میری ذہنی اُلجھن کو بھانپ لیا اور پوچھنے لگی: ’’کیا سوچ رہی ہیں آپ‘‘؟ اور اِسی لمحے وہ دیوانہ وار بہتی ندی میری مشکل کا حل بن گئی۔ ’’ہاں‘‘ میں نے چونکتے ہوئے کہا: ’’میگی! میں یہ سوچ رہی تھی کہ یہ سب چیزیں مثلاً ندی،پھول، درخت پہاڑ وغیرہ کس نے بنائے ہوں گے‘‘؟ وہ بولی: ’’اِس بات کا تو مجھے یقین ہے کہ یہ سب خدا نے بنائے ہیں، جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے۔ مگر اِس سے آگے میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اُس نے مجھ جیسے انسانوں کو کیوں پیدا کیا‘‘۔
’’میگی ہر انسان کی زندگی میں مشکلات ضرور آتی ہیں، مگر حالات تو بدلتے رہتے ہیں، پھر آسانی بھی پیدا ہو جاتی ہے‘‘۔
’’ڈاکٹر! یہ دوسروں کے لیے صحیح ہو گا، مگر مجھے تو اپنی زندگی کا کوئی بھی مُصرف نظر نہیں آتا۔ صرف ایک ہستی تھی اِس دُنیا میں جس سے مجھے پیار تھا، میری نانی۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ مردوں سے مجھے شدید نفرت ہے، اِسی لیے میں سروس بھی پرائمری سکول میں کرتی ہوں، بطور ٹائپسٹ، وہاں سارا خواتین کا عملہ ہوتا ہے‘‘۔
’’مگر یہ ڈاکٹر بھی تو مرد ہیں، جو اتنی ہمدردی سے تمہارا علاج کرتے ہیں‘‘۔
’’اِن کو میں فرشتوں کی فہرست میں رکھتی ہوں‘‘۔ وہ بولی اور مجھے ہنسی آگئی۔
’’میگی! اِس روز تم مجھ سے حُوروں کے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔ حُور بننا اور جنت کی دوسری خوبصورت چیزیں حاصل ہونا انعامات ہیں ان لوگوں کے لیے جو اِس دُنیا میں اچھے کام کرتے ہیں‘‘۔
وہ فوراً بولی: ’’ہاں اِس لیے تو میں کوشش کرتی ہوں کہ اچھے کام کروں۔ میں نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا، نہ کبھی جھوٹ بولا ہے، نہ چوری کی ہے، نہ میرا کوئی بوائے فرینڈ ہے، اِس لیے سوچتی ہوں خدا مجھے ضرور حُوری بنائے گا‘‘۔
اِس معصومانہ تجزیے پر میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔ ہمیں باتیں کرتے خاصا وقت گزر چکا تھا، میری سہیلیاں بھی واپس پہنچ چکی تھیں۔ ساڑھے چھ بج رہے تھے جو کہ وارڈوں میں کھانے کا وقت ہوتا ہے، اِس لیے میگی کو بھی جانا تھا، وہ خدا حافظ کہہ کر چلی گئی۔
وہ اگست کے آخری دن تھے، ستمبر سے میرا ہائوس جاب بچوں کے ہسپتال میں شروع ہو گیا جو کہ وڈلی سے بیس میل دُور تھا۔ وہاں دن رات ڈیوٹی کی مصروفیت رہتی، دو ہفتے بعد ہفتہ اتوار کی چھٹی نصیب ہوتی تو اپنے وڈلی والے فلیٹ میں آجاتی۔ مگر یہاں کے سٹاف اور مریضوں سے کوئی رابطہ نہیں رہا تھا۔ اِس چھ ماہ کے ہائوس جاب نے بہت تھکا دیا تھا۔ اِس کے بعد چند ماہ کے لیے مجھے وڈلی ہی میں جگہ مِل گئی۔ یہاں بڑی آسانی تھی، جب رات کی ڈیوٹی لگتی تو ڈاکٹر ذکاء خود ہی کال پر چلتے جاتے۔ ویسے بھی بقول اُن کے یہ اُن کا اپنا ہسپتال تھا اور زیادہ تر مریض اُن کے جانے پہچانے ہوتے تھے۔
ہر جمعہ کو بارہ بجے ڈاکٹروں کی میٹنگ ہوتی تھی، جس میں سوشل ورکرز بھی شامل ہوتی تھیں جو کہ اِن مریضوں کے متعلق معلومات فراہم کرتیں، جنہیں دوائیوں کے ساتھ گھر بھیجا جاتا تھا۔ اُس روز سب ڈاکٹر اپنے خاص خاص مریضوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرکے مزید مشورے دے دیتے۔
کئی ہفتے گزر گئے، ایک روز جمعہ کی میٹنگ کے درمیان اچانک خیال آیا کہ میگی کے متعلق پوچھنا چاہیے۔ ایک اُدھیڑ عمر کی سوشل ورکر مس ہارورڈ اُس کو اچھی طرح جانتی تھیں۔ بعد میں ان سے آہستہ سے پوچھا کہ میگی کس حال میں ہے؟
مس ہارورڈ حیرانی سے میری طرف دیکھ کر بولی: ’’ڈاکٹر تمہیں نہیں معلوم‘‘؟
’’نہیں کیا ہؤا‘‘؟
’’میگی نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی تھی۔ دو روز بعد ہمسایوں کی اطلاع پر پولیس نے دروازہ توڑ کر یہ سب دیکھا‘‘۔
یہ بات سُن کر میرے دِل کو شدید دھچکا لگا۔ کاش! میگی کو وہ علم حاصل ہوتا جو اذیتوں کی انتہا میں بھی انسان کو سنبھالے رکھتا ہے۔
میں سوچتی رہی، نجانے کائنات کا مالک اِس ’’حُوری‘‘ کے ساتھ اب کیا معاملہ کرے گا؟
نوٹ:واضح رہے کہ عالمِ اسلام میں خود کشی کا تناسب بہ نسبت دُنیا کے دوسرے ممالک کے بہت کم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے مصائب کو صبر و تحمل سے برداشت کرنے کے اُخروی اجر و ثواب کی اُمید دلا کر اور خود کشی کو حرام قرار دے کر اِس بات کا بندوبست فرمایا ہے کہ انسان اس عارضی دنیوی زندگی کے دُکھ سُکھ کو صبر و تحمل سے برداشت کر لے اور زندگی سے فرار حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔

ڈاکٹر ثمین ذکاء

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x