ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

یہودیوں کے تاریخی جرائم – بتول فروری ۲۰۲۱

مصنف :پروفیسر ڈاکٹر محمد آفتاب خان واہلیہ
پروفیسر ڈاکٹر محمد آفتاب خان صاحب ایک منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔مختلف موضوعات پر درجن بھر سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی ہو تو زندگی چین سے گزر جاتی ہے۔عموماً زوجین اولاد اور خاندان سے آگے کم ہی سوچتے ہیں۔یہ جوڑا زمین پر اللہ کی رحمت ہے جو تمام خانگی امور کے ساتھ سالہا سال سرجوڑے مختلف تفاسیر قرآن سے لفظوں کے موتی چن رہے ہیں، کتاب کی مالا میں پرو رہے ہیں۔ یہ سارا غور و خوض اور کاوش اس لیے ہے کہ مسلمانوں کو اور پوری انسانیت کو ان خطرات سے آگاہ کریں جو یہودیوں سے درپیش ہیں۔
انھوں نے مختلف تفاسیر سے ان مضامین کو یکجا کیا اور مسلمانوں کو یاد دلایا کہ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہی قوم ہے۔نسلی طور پر خود کو معزز سمجھنے والی یہ متکبر قوم دوسرے انسانوں کو کمتر بنیادی حقوق دینے کی بھی روادار نہیں ہے۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تاریخ کے اولین دور سے آج تک یہودی ایک سازشی گروہ اور احسان ناشناس قوم رہی ہے۔ چار ہزار سال تک لاتعداد انبیاء کی تعلیمات کے باوجود یہ اپنی منافقت اور سازشی تھیوری سے باز نہیں آئی۔
مذکورہ کتاب کا ایک نمایاں پہلو اس کا پیش لفظ ہے جو محمد الیاس کھوکھر ایڈوکیٹ نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہودیوں کو اصل خطرہ مسلمانوں سے نہیں اسلام سے ہے۔اس خطرے سے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمان کو بداعمال اور بد کردار بنا دیا جائے……..اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دوسرے مذاہب کی اہمیت اور ضرورت کو ختم کردینا یہودی پروٹوکول کی بنیادی شق ہے۔ تمام اقوام بالخصوص مسلمانوں کو ایسے معاشی گرداب میں لا پھنسانا کہ مذہب اور معاشرتی اخلاقی اقدار پر غور و خوض کا کوئی وقت ان کے پاس نہ بچے یہی یہودیت کی کامیابی کا راز ہے۔ اس مقصد کے لیے انسانوں کو دو طبقوں میں تقسیم کرکے باہم مد مقابل کھڑا کرنا اور اس جنگ کو کبھی سرد نہ ہونے دینا یہودیت کی کامیابی کا مقصد اولین ہے‘‘۔
کتاب کےانتہائی پر اثر پیش لفظ میں اس کتاب کا مصنف جوڑا اس بات پر تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ:
’’دنیا کی امامت نہ صرف مسلمانوں سے چھینی بلکہ آج اقوام عالم کی صفوں میں ہم کوئی نمایاں حیثیت نہیں رکھتے۔ اتنی کثیرعددی طاقت نیز وسائل حیات کے بے شمار خزانوں کی حامل ہونے کے باوجود چند لاکھ یہود کے گھناؤنے عزائم کا مقابلہ کرنے کے بھی ہم قابل نہیں ہیں۔ فلسطین، کشمیر،شام ،مصر،ہندوستان کہاں کہاں امت مسلمہ ان اغیار کے ہاتھوں زخم خوردہ نہیں ہے۔اہلیانِ فلسطین ہی ان کے ظلم اور ستم کا نشانہ نہیں بلکہ کشمیر کے مسلمانوں کا روز بہنے والا خون بھی یہود و ہنود کی ملی بھگت اور ریشہ دوانیوں کا ایک ایسا عبرت ناک واقعہ ہیں جس کے آگے عالمی ضمیر بھی اپنے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے‘‘۔
آغاز سخن میں جناب یوسف ظفر کی کتاب کا شاندار حوالہ دیا گیا ہے جس کا ہرلفظ عبرت کا نمونہ ہے۔
’’آج فلسطین میں احسان کش یہود، عربوں سے اس خلوص اور مروت کا انتقام لے رہے ہیں جو انہوں نے گزشتہ چودہ صدیوں تک روا رکھی۔ اس سلسلے میں یہ جونکیں، یہ دیمک اپنے پیش روؤں سے مختلف نہیں۔خلافت عباسیہ کے احسانات بھی انہوں نے اسی طرح چکائے تھے۔ اسپین میں بھی ان کا کردار یہی رہا تھا۔ترکی نے گزشتہ پانچ سو برس انہیں دو بار موت کے منہ سے نکالا،ہالینڈ سے دھتکارے ہوئے، جرمنی سے نکالے ہوئے،برطانیہ سے ہانکے ہوئے، فرانس سے کچلے ہوئے یہودی جب پناہ لینے ترکی پہنچے تو انہوں نے اپنی آغوش ان پر وا کر دی اور گزشتہ صدی میں جب پولینڈ اور روس نے ان کی اس طرح نسل کشی کی یہ سر چھپانے کے لیے جگہ تک نہ ڈھونڈ سکتے تھے تو انہوں نے قسطنطنیہ کا رخ کیا جہاں دولت عثمانیہ کے پرچم نے انہیں سایہ دیا۔لیکن انھوں نے ترکی کو مرد بیمار بنا کر اسلام کے مرکز کی حیثیت سے ختم کرکے اپنے احسان کا بدلہ چکایا۔ترکی کی مہربانیوں کے عوضانہ کے لیے آج بھی یہ قبرص میں ترکوں کی قبریں کھود رہے ہیں۔ پناہ دینے والی چھت اور مہربانی کرنے والے ہاتھ یہود نے آج تک فراموش نہیں کیے۔ آج بھلا وہ تخصص کیسے برت سکتے ہیں؟‘‘
کتاب میں ایک چونکا دینے والا پہلو من و سلویٰ کے اس قوم پر اثرات کے حوالے سے بھی ہے کہ خوراک کے اثرات کئی نسلوں تک باقی رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دماغوں کا بےپناہ استعمال کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ’’یہودی قوم اس زمینی گولے پر موجود تمام اقوام میں اپنے فکر و عمل کے حوالے سے بالکل جدا اور علیحدہ کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ اس قوم کی اس درجہ عقلی پرورش کیسے ہوئی؟ اور کون سے محرکات تھے جنہوں نے اس قوم کو بحیثیت قوم متحرک رکھا ؟اس قوم نے اپنی4000 سالہ عمر میں کیا کیا کرب جھیلا، اس کی کیا وجوہات تھیں؟ ماضی بعید میں بھی لاکھوں کی تعداد میں قتل ہونے کے باوجود 70 عیسوی سے لے کر پچھلی صدی تک یہ در در اپنی اور اپنی نسلوں کی قربانی دیتے رہے لیکن اپنے نظریے اور عقیدے کی قربانی کبھی نہ دی۔ وہ کیا وجوہات تھیں کہ اس کے قبائل تبدیلی مذہب کے تین سو برسوں بعد دوبارہ یہودیت سے رجوع کرتے رہے؟‘‘
اہلِ دانش کے لیے یہ چند سوالات انھوں نے اٹھائے ہیں۔
اللہ نے قرآن میں بنی اسرائیل کے کردار کو اتنا کھول کر کیوں بیان کیا ؟اس پر مصنف نے لکھا :
’’اس کی حکمت یہ سمجھ آتی ہے کہ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جس امت کو اب امامت کے منصب پر فائز کیا جارہا تھا اسے آگاہ کر دیا جائے کہ قیامت تک انہیں ان تمام کمزوریوں،خامیوں اور دین حق کے خلاف ان حرکتوں کا مقابلہ کرنا ہے جو بنی اسرائیل کی معزولی کا سبب بنیں۔ یہ امر از خود اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک رحمت ہے کہ امت محمدیہ کو پیش آمدہ حالات سے آگاہ کر کے ان سے احتراز کرنے کی ہدایت کر دی گئی۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امت محمدیہ بھی ان تمام گڑھوں میں گری اور اندھیروں میں ایک طویل عرصے سے ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے جس کا نتیجہ وہ ذلت ونکبت ہے جس کا اشارہ درج بالا سطور میں کیا گیا ۔
ان سطور کا مقصد آج امت کے اس طبقہ کو جو قیادت و سیادت(مذہبی، سیاسی،تعلیمی اور ہمہ اقسام اختیارات) پر فائز ہے، بنی اسرائیل کا وہ داغدار چہرہ دکھانا ہے تاکہ وہ اس آئینے میں یہود کے طرز عمل سے اپنی مشابہت و مماثلت کا اندازہ کر سکیں۔ واضح رہے کہ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی ایک مسلمان کی بھلائی کا صرف ایک ہی پیمانہ ہے کہ وہ اس آئینے میں اپنے چہرے پر پائے جانے والے داغوں سے نہ صرف نجات حاصل کر لے بلکہ بحیثیت مجموعی امت مسلمہ میں پائی جانے والی خرابیوں، کمزوریوں، کوتاہیوں اور فروگزاشتوں کا بھی مداوا کر سکے‘‘۔
بنی اسرائیل کا کردار اتنا گھناؤنا اور دورس مضمرات کا حامل ہے کہ اللہ رب العزت نے امت محمدیہ کے لیے نہایت تفصیل سے واضح کر دیا کہ یہ امت ویسی نہ ہو جائے۔
’’اللہ نے امت محمدیہ کو امت وسط بنایا کہ آخرت میں جب پوری نوع انسانی کو اکٹھا کیا جائے گا اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نمائندے کی حیثیت سے گواہی دیں گے کہ فکر اور عمل صالح اور نظام عدل کی جو تعلیم ہم نے اسے دی تھی وہ اس نے تم کو بلا کم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور مطالبے کے مطابق کام کر دکھایا۔
اس کے بعد رسول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اٹھنا ہوگا اور یہ شہادت دینا ہوگی کہ رسولؐ نے تمہیں جو پہنچایا وہ تم نے انسانوں کو پہنچانے میں اور جو کچھ رسولؐ نے تمہیں دکھایا،تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسولؐ اللہ کی ذمہ داری بڑی سخت تھی حتیٰ کہ اگر وہ اس میں ذرا سی بھی کوتاہی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے۔ اسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک ہدایت پہنچانے کی نہایت اہم ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگرہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکیں کہ اے اللہ جوہدایت تیرے رسولؐ کے ذریعہ ہم تک پہنچی تھی تیرے بندوں تک پہنچانے میں ہم نے کوتاہی نہیں کی تو بہت بری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کافرض ہمیں وہاں لے ڈوبے گا ۔ آخری امت کے دور میں ہماری کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہی دنیا میں پھیلی ہے،جتنے فساد بھی خدا کی زمین پر برپا ہوئے اس کے لیے روز محشر ہم بھی ماخوذ ہوں گے ۔ہم سے بھی پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا تو تم کہاں مر گئے تھے تھے‘‘۔(سورہ البقرہ آیت 142تفہیم القرآن حاشیہ 144)
کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔یہودیت کا چہرہ قرآن کے آئینے میں دکھانے کے ساتھ ان مکالمات کا بھی بھرپور جائزہ لیا گیا ہے جو مختلف گروہوں کے درمیان روز حشر روبرو ہوں گے۔مذاہب عالم پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کے ساتھ شرک کو انسانی ذہن کی اختراع ثابت کرنے کے لیے مصنفین نے ٹھوس عقلی دلائل دیے ہیں۔باب ششم میں اس فتنہ کے ارتداد کے عملی قدم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب تک امت بالخصوص نوجوان نسل اقامت دین کا فریضہ انجام نہیں دے گی محض مہدی موعود کا انتظار ہمیں اس پستی سے نہ نکال سکے گا۔
ہم دعاگو ہیں کہ مصنفین کی یہ پرخلوص کاوش امت کی بیداری کا سبب بنے۔ہم قوم یہود کے اس قرآنی مطالعہ میں اپنے خدوخال کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لے کر اپنی نسلوں کو ان کے فتنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کے قابل ہوسکیں آمین۔
یہ کتاب مکتبہ فروغ فکر اقبال نے شائع کی ہے۔366 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت 600 روپے ہے۔کتاب سلیقے سے شائع کی گئی ہے۔آئندہ اشاعت میں پروف پر مزید توجہ دی جائے تو معیار مزید بہتر ہو جائے گا۔

افشاں نوید

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x