ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جبر سہ لیتا ہوں کہ …مزدور ہوں میں ! – بتول جون ۲۰۲۳

میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی ۔ ہمارے گھر سفیدی ہو رہی تھی ۔ سفیدی کرنے والے ادھیڑ عمر کے صاحب سورج چڑھے دوپہر کے کھانے کے لیے جاتے تھے ۔ ہم گھر کے بچے ان کے جانے کے بعد خوشی خوشی جائزہ لیتے کہ کمرہ میں یہ رنگ ، داروازے پر یہ پینٹ کتنا بھلا لگ رہا ہے ۔
اُس دن چھوٹی بہن نے ان کے چمڑے کے کالے بیگ میں ایک موٹی سی ڈائری دیکھی بولی ’’ انکل تو پڑھے لکھے ہیں ‘‘۔ بھائی نے شرارتاً وہ ڈائری نکال لی اور با آوازبلند پڑھنے لگا ۔میں بھی شوق میں ڈائری لے کر صفحے پلٹنے لگی ہر صفحہ پر کوئی غزل یا نظم تھی ۔ شاعر کا نام مقطع میں سفیدی والے انکل کا نام تھا۔ امی بھی بہت متاثر ہوئیں کہ گفتگو سے تو مہذب آدمی ہی معلوم ہوتے ہیں ۔ جب ان کی واپسی پر بھائی نے پوچھا تو وہ سفیدی کا کام چھوڑ کر اپنی کتھا سنانے لگے کہ وہ کس ادبی گھرانے کے فرزند ہیں ۔والد بڑے شاعر۔ ان کی ملازمت بوجوہ چھوٹی تو خاندان والوں نے منہ پھیرلیا۔ ان کے پاس کاروبار کے لیے پیسہ نہ تھا اس لیے دوست کے ساتھ مل کر سفیدی کرنا سیکھ لی اور بچوں کے پیٹ پالنے کے لیے یہ روز گار اختیار کرلیا ۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ وہ کندھے پر پڑے رومال سے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔
اس نو عمری میں اس واقعہ کا ذہن پر ایسا اثر ہؤا کہ زمانہ بیت گیا مگر یہ واقعہ ذہن پر آج بھی اسی طرح نقش ہے جیسے کل کی بات ہو ۔ اس وقت بھی معصوم ذہن بہت مثاثر ہؤا تھا کہ ہمارے گھر میں سفیدی ایک شاعر، ایک ادیب نے کی ہے ۔
یہ واقعہ مجھے یوں یاد آیا کہ پچھلے دنوںمیرا بیٹا مجھے اپنے موبائل پر ایک تصویر دکھانے لگا جس میں ایک صاحب این ای ڈی یونیورسٹی کے ڈائس پر طلبا و طالبات سے خطاب کر رہے ہیں ۔ بیٹا بولا ابھی جو صاحب بائیکیا پر میرا پارسل لائے ہیں وہ یہ صاحب تھے ۔ چونکہ موبائل پر ان کے نمبر کے ساتھ ڈی پی پر ان کی تصویر آرہی تھی جس پر بیٹا بہت حیران ہؤاجب وہ پارسل لائے تو بیٹے نے ادائیگی کرتے ہوئے ان کا تعارف اور ڈی پی پر ان کی تصویر کے بارےمیں پوچھ لیا ۔انہوں نے بتایا کہ وہ انجینئرنگ یونیورسٹی میں استاد تھے ۔ پھر بیرون ملک کئی سال رہے وہاں اپنا بزنس کرتے رہے ۔ پاکستان واپس آکر پارٹنر شپ میں کاروبار کیا ۔ پارنٹر فراڈ کر کے فرار ہو گیا اور ان کے لیے روٹیوں کے لالے پڑ گئے ۔ سو، پیٹ کا دوزخ بجھانے اور بیمار بیوی کے علاج کے لیے ان کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہ تھاتو دوست کے مشورے پر وہ بائیکیا چلانے لگے ۔ دن بھر میں ہزار روپے بمشکل آمدنی ہو جاتی ہے ۔
بیٹا ان کی تصویر دکھاتے ہوئے بہت دکھی تھا کہہ رہا تھا’’ وہ بار بار اللہ کاشکر ادا کر رہے تھے کہ لاکھوںسے بہتر ہوں، محتاج نہیں ہوں ، محنت کر کے کھاتا ہوں ‘‘۔
ہماری ماسی ہاجرہ قدرے شائستہ گفتگوکرتی ہے اور صاف ستھرا لباس پہنتی ہے۔اس کی بہن نے فزکس میں ماسٹرز کیا ہے ۔ اس کی شادی اسکول کے زمانے میں ہو گئی ۔باپ نے جائیداد میںبڑی جاگیر چھوڑی۔ بھائیوں نے چچا کے ساتھ مل کر غصب کرلی باپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی۔ بہنوں کوایک ٹکانہ دیا کہ ہمارے خاندان میں عورتوں کووراثت نہیں دی جاتی۔
یہ بے چاری کراچی آگئی۔ میاں کو دل کا دورہ پڑ ا تو اس نے پانچ کم سن بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے گھروں میں کام شروع کردیا ۔ اس کی گفتگو بتاتی ہے کہ وہ کسی شریف خاندان کی آبرو ہے ۔ بچوں کو پڑھا رہی ہے ۔ جب اپنے ماضی کو بیان کرنے لگتی ہے تو بے تکان بولتی چلی جاتی ہے ۔ لگتا ہے اس کا سینہ غم سے پھٹ جائے گا۔

ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں ہوں گی ہمارے اطراف ۔ یہ جو ہمارے خدمت گار ہیں ، ہمارے ملازم ہیں یہ کوئی دوسرے درجے کی مخلوق نہیں ہیں ۔ یہ چونکہ ڈرائیور ، مالی، چوکیدار ، خانساماں، رائڈر یا کام والیوں کی صورت میں ہمارے ماتحت ہوتے ہیں تواکثر ہم ان کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھتے۔چونکہ ہمارا ہاتھ اوپر والا ہاتھ ہوتا ہے تو ہم ان کو ان کی بے بسی کا احساس دلانے سے نہیں چوکتے ۔ اگر کسی کی مجبوری اس کو ہمارے در پر لے آئی ہے تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ اس کی عزت ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔’’ غریب کی آہ آسمانوں تک براہ راست جاتی ہے۔‘‘ ہماری نانی مرحومہ ہمیں کسی ملازم یا فقیر کے ساتھ سخت کلامی کرتے دیکھتیں تو بار ہا یہ جملہ کہتیں کہ ’’ غریب کی آہ سے ڈرو یہ عرش کو ہلا دیتی ہے ‘‘۔
یہ بات مجھے اس وقت شدت سے یاد آئی جب اس روز ماسی کام کرتے ہوئے بے تحاشہ رو رہی تھی اور قسمیںکھا رہی تھی کہ ’’ میں چورنہیں ہوں!‘‘ ہؤا یوں کہ وہ باجی جن کے ہاں وہ دو برس سے جھاڑ پونچھ کا کام کرتی ہے ان کی سونے کی بالیاں کھو گئیں ۔ انہوں نے ہمارے سماجی دستور کے مطابق ماسی پر الزام لگایا۔ اس سے قرآن پر ہاتھ رکھوایا۔ اس کو بد دعائیں دیں کہ تمہارے بچوں کے سامنے آئے گا جو تم نے میرے ساتھ کیا ہے ! ساتھ میں یہ دھمکی بھی دی کہ محلے بھر میںتمہاری چوری کومشہور کروں گی۔
اس غریب ، لاچار عورت کے ساتھ اس سے زیادہ ظلم اور کیا کیا جاسکتا تھا ۔ پھر تا دیباً اس کو ملازمت سے بھی فارغ کردیا ۔ ماسی کی آہ وبکا سن کر میں سوچ رہی تھی کہ ہماری عبادت، وظیفہ ، صدقہ و خیرات کا کیا حاصل جب ہم ایک غریب کا اتنا دل دکھاتے ہیں۔ یہ ہمارے یہاں کا عام چلن ہے کہ گھر کی کوئی چیز ادھر اُدھر ہوئی اور ذہن فوراً ماسی کی طرف گیا۔ کچھ ماسیاں ایسا کرتی بھی ہیں مگر ہر ایک ایسا نہیں ہوتا۔
اسی لیے میںماسی سے کسی چیز کے گم ہونے کا ذکر کرنے سے پہلے حتی القدور جگہ جگہ تلاش کر لیتی ہوں کیونکہ ماسی اطلاع دینے کا مطلب بھی الزام لگانا ہی سمجھتی ہے ۔ اطلاع دینا یوںضروری ہوتا ہے کہ جھاڑ پونچھ کے حوالے سے گھر کا کونا کونا دیکھتی ہے ممکن ہے اس کی نظر پڑ جائے مگر وہ بے چاریاں سمجھتی ہیں کہ ہم پر الزام لگا رہے ہیں کیونکہ ان دکھیاریوں پر اتنے الزام جو لگ چکے ہوتے ہیں۔
ویسے اتفاق کی بات ہے کہ آج تک ہمارے گھر سے الحمد للہ کسی ماسی نے کبھی چوری نہیںکی ۔ اگر کبھی دل میں خیال آئے کہ ماسی نے چرایا ہوگا تو فوراً یہ خیال بھی آتا ہے کہ اللہ تو دلوںکے حال جانتا ہے اور ہماری شریعت نے بد گمانی سے منع کیا ہے ۔ ماسیوں کی غیبتیں اور ان سے بدگمانی حلال نہیں ہے ۔میںنےپڑوسنوں کا دل چسپ مشغلہ دیکھا ہے کہ جب اکٹھی ہوتی ہیں ۔ماسیوں کی غیبت ایک ’’عنوان ‘‘ ہوتا ہے ۔ بالخصوص اگر ماسی مشترکہ ہو حالانکہ ان ماسیوں کے بغیر ایک دن گزارنا مشکل ہے۔
’’ماہنامہ بتول‘‘ نے جب اس حساس عنوان کو موضوع بنانے اور لکھنے کی دعوت دی تو مجھے لگا کہ یہ اہم ترین موضوع واقعی زیر بحث آنا چاہیے ۔ یہاں ( کیلیفورنیا ) میں تین ماہ کے عرصے سے میں قیام پذیر ہوں اور ہر دن سوچتی ہوں کہ تیسری دنیا کے ایک ملک کی بہت بڑی نعمت ہمارے ’’ خدمت گزار ‘‘ ہیںجو ہمیں معمولی معاوضوں پرحاصل ہیں ۔ ہم اس بات کی قدر ہی نہیں کرتے ۔ نہ صرف نا قدری کرتے ہیں بلکہ ان کی عزت نفس تک کاخیال نہیں رکھتے ۔ ہم سمجھتے ہیں یہ خدمات ہمارا پیدائشی حق ہیں۔
میںنے بیٹی سے کہا ( جویہاں ڈاکٹر ہے ) کہ ’’ ہسپتال میں ماسیاں ایسے تیار ہو کر آتی ہیں جیسے ڈاکٹر ہوں۔ ان کی بدن بولی ( باڈی لینگوئج) کس غضب کے اعتماد کوظاہر کرتی ہے ۔ ان کے ہاتھ میں وائپر ہوتا ہے مگر نہ شخصیت میں لاچارگی کا عنصر نہ نظریں سوالی؟‘‘
بیٹی بولی’’ امی ! یہاں ڈاکٹر اور سوئپر ایک درجے کے ملازم گردانے جاتے ہیں عزت نفس کے لحاظ سے ۔ یہاں صفائی والی کبھی ڈاکٹر سے مرعوب ہوتی ہے نہ ان کی جھڑکیں سنتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ آپ اپنے کام کا معاوضہ لے رہے ہیں میںاپنے کام کا ۔ یہاں کام کی بہت عظمت ہے‘‘۔

میں نے سوچا کہ تعلیم تو ہمارے دین کی ہے کہ ’’ الکاسب حبیب اللہ ‘‘ یعنی محنت کرنے والا اللہ کادوست ہے ۔ مگر جو اللہ کے دوست ہیں ان کے ساتھ ہم مسلمانوں کے کیا رویے ہیں۔
کراچی میں ایک چھوٹی سی ورکشاپ پر بیٹے نے ٹائر میں ہوا ڈالنے کے لیے گاڑی رکوائی تو ورکشاپ کا شاید مالک ہوگا جس نے ہوا ڈالنے کے لیے پائپ اٹھاتے ہوئے نو عمر بچے کو ’’ لونڈے ‘‘ کہہ کرمخاطب کیا ، میرے اندر چھن سے کچھ ٹوٹ گیا اس خوٹ غلامی کی بو پا کر ۔ یہ ہماری ذہنی غلامی ہوتی ہے جو ہمیں اپنے ماتحت ’’ لونڈے ‘‘ یا ’’لونڈیاں ‘‘ دکھائی دیتے ہیں ۔
یہ معمولی بات نہیں ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں ۔ اللہ کے نبیؐ جب دنیا سے تشریف لے جا رہے تھے تو ان کی آخری فکر اللہ کی ماتحت مخلوق کی تھی ۔ آپ ؐ کی زبان مبارک سے جاری تھا کہ ’’ تمہاری عورتیں اور تمہارے غلام ‘‘۔
عورتیں باپ، بھائی یا شوہر کی کفالت میں ایک طرح ان کی ماتحت ہی ہوتی ہیں لہٰذا قوامیت کا غلط مفہوم سمجھتے ہوئے اکثر ان کے ساتھ ناروا رویے رکھے جاتے ہیں ، ان ے حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ تحریر کی ابتدا میں ماسی کا واقعہ درج ہے کہ باپ کی چھوڑی ہوئی بڑی جائیداد میں بھائیوںنے بہنوں کو حق نہ دیا اس لیے کہ بہنیں بے چاریاںبگاڑ ہی کیا سکتی ہیں۔’’ ماںجایا‘‘ تو دل کا قرار ہوتا ہے اس سے محض جائیداد کے لیے تعلقات خراب کر کے حاصل کیا ہوگا ؟ ایک غریب عورت لوگوں کے گھروں کی گندگی صاف کر کے اورجھوٹے برتن دھو کر بھائیوں کے ’’ بھائی‘‘ ہونے کی لاج رکھ لیتی ہے۔
جب آپ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں محنت اور مزدور کی قدردیکھتے ہیںتوشدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے وطن میں جو تعیش حاصل ہیں ہمیں ان کا ادراک ہے نہ شکر گزاری۔
یہاں امریکا میں اگرآپ کو بچے کی دیکھ بھال کے لیے صبح سے شام تک آیا درکار ہے تو اس کی ماہانہ اجرت کم از کم 10لاکھ پاکستانی روپے ماہانہ ہوگی ۔ اگر آپ کو گھر بے ترتیب اور گندہ محسوس ہو رہا ہے آپ چاہتی ہیں کہ کوئی گھنٹہ دو گھنٹہ آکر آپ کی مدد کر جائے تو اس کا معاوضہ پاکستانی روپے میں 25ہزار سے کم نہ ہوگا ۔صاحب بہادر کو کیاری میں پودوں کی ترتیب اور خود رو غیر مطلوبہ گھاس پھوس کاٹنے کی فرصت نہیں ۔ بڑھی ہوئی گھاس دیکھ کر شہری حکومت کی طرف سے ’’ پراپرٹی کیئر‘‘ کا نوٹس موصول ہوتا ہے کہ آپ اس ریاست کے ایک ذمہ دار باشندے ہیں تواس کا ثبوت ہرجگہ مہیا کیجیے۔ اگر گھر کے باہر کیاری کی ترتیب درست نہ کی تو آپ کو فلاں تاریخ تک جرمانہ دینا ہوگا ۔ آپ نے فون اٹھایا ۔ ایک نوجوان قینچی اور دوچار پچھاڈڑے نما چیزوں کے ساتھ حاضر۔ آن کی آن میں ان الیکٹرک آلات نے آپ کی کیاری ( باغ یا لان نہیں ) کی ترتیب درست کردی ۔ چند منٹ کی مشقت کا کم سے کم معاوضہ پاکستانی 25سے 30ہزار روپے ہے۔
یہاں پرانی چیزوں کی مرمت کا کوئی تصور نہیں ۔ فرنیچر اگر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے تو ہتھوڑی نکالیں اور مرمت کرلیں اگر نہیں کر سکتے تو نیا فرنیچر لے آئیں یہاں کوئی اتنا فارغ نہیں کہ چند روپوں میں آپ کی پرانی چیزوں کی مرمت کرتا رہے ۔ جو تا ٹوٹ گیا ، فارغ کردیں ۔ کہیں موچی نام کی ہستی کا وجود نہیں۔
مجھے شدت سے یاد آتی ہیں وہ آوازیں جو گھر کے سامنے سے دن میں کئی بار آتی تھیں کہ واٹر کولر ، سلائی مشین ، کوکر ، گیزر ، اوون درست کرالو ۔ سارا دن گلیوں میںآوازیں لگانے والے دن بھر میں شاید بچوں کا پیٹ پالنے کو روٹی بھی نہ کما سکتے ہوں۔
یہاںدکانیںسر شام بند ہو جاتی ہیں اس لیے کہ رات کے اوقات کے معاوضے اتنے زیادہ ہیں کہ بڑی بڑی برانڈ کمپنیاں وہ افورڈ نہیںکر سکتیں۔
ہم رکشے والے غریب سے بھی پچاس روپے کم کراتے ہیں ۔ روڈ پر کپڑے کے چھپر کے نیچے بیٹھے ہوئے موچی کو بھی سو کے بجائے اسی روپے دے کر اپنا شانہ تھپکتے ہیں کہ ان لوگوں کو ان کی اوقات میں رکھنا چاہیے۔ ہمارے گھر پر سبزی دینے جو سبزی والا آتا ہے ہم اس سے اسی نرخ کا اصرار کرتے ہیں جوبازار کانرخ ہے۔ اگر وہ پانچ روپے زیادہ

نرخ بتائے توہم اسے بے ایمان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں یہ احساس کیے بغیر کہ سارا دن یہ گلیوں میں چکر لگاتا ہے ، سورج اس کے سر پر ٹھنڈا ہو جاتا ہے ۔ ایک آدمی جو دکان میں بیٹھا ہے ، ایک جو ہمارے دروازے تک ہمیں سہولت مہیا کرنے آتا ہے تو کیا اس کی ’’خدمت ‘‘ کا کوئی بھی معاوضہ نہیں ہونا چاہیے۔
وہ آپ ہی ہیں جواپنے وطن میں معمولی کاموں کے لیے مزدوروں کی خدمات حاصل کرتے ہیںاورجب بیرون ملک جاتے ہیں تو اپنا ہر کام خود کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ یہاں مزدور کا معاوضہ اتنا زیادہ ہے کہ ہرفرد خود مزدوری کرنا پسند کرتا ہے ۔ ہمارے رویوں نے بندہ مزدور کے اوقات بہت تلخ کردیے ہیں ۔
ماہنامہ بتول نے یہ خاص مدد گار نمبر نکال کر ہمیںاپنے رویوںپر نظر ثانی کی دعوت دی ہے۔’’ اوروں‘‘ کے لیے یہ صرف معاشرتی مسئلہ ہو مگر ہماری آخرت سے جڑا ہے ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x