ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

شہری جنگلات – نور اپریل ۲۰۲۱

دن بہ دن بڑھتی ہوئی آلودگی زندگی کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے ۔ ایک طرف توجنگلی اور آبی حیات ختم ہورہی ہے، دوسری طرف نت نئی بیماریاں انسان کوکھوکھلا کررہی ہیں اور یہ سب انسان کی اپنی کمائی ہے ۔کچرے کے ڈھیر ، صنعتی فضلہ، فیکٹریوں ، گاڑیوںکا دھواں ، پلاسٹک کے شاپر ، درختوں کی بے تحاشا کٹائی غرض انسان اپنے ہاتھوں اپنی موت کا بندوبست کررہا ہے ۔
حال یہ ہے کہ کراچی جو کبھی عروس البلاد اورروشنیوں کا شہرکہلاتا تھا ، اب اُسے کچرے کے ڈھیر سے تشبیہہ دی جا رہی ہے ۔ لاہور جو اپنی قدیم عمارتوں اوراہل علم و فن سے پہچانا جاتا تھا ، آج اس کی شہرت دنیا کے آلودہ ترین شہر کے حوالے سے ہے ۔ہر سال سردیوں میں اسموگ سے حادثات اورسانس کی بیماریوں کارونا رویا جا تا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی سے بچائو کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ کچرے کو مناسب طریقے سے تلف کیا جائے ۔پلاسٹک کا استعمال بند یا کم از کم محدود کیا جائے۔ گاڑیوں کی دیکھ بھال کی جائے تاکہ دھواں کم سے کم نکلے۔ فیکٹریوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹ ہوں تاکہ ان کا فضلہ پانی کو آلودہ کرکے آبی حیات کے لیے نقصان کا باعث نہ بنے ۔ وہاں زیادہ سے زیادہ درخت اورپودے لگانے کی بھی ضرورت ہے ۔ درخت ماحول کوصاف رکھنے کا بہترین قدرتی تحفہ ہیں ۔
یوں توایک بیج کوتن آوردرخت بننے میں طویل مدت لگتی ہے ، مگر ایک جا پانی ماہر نباتات نے کئی سال کی تحقیق کے بعد ایساطریقہ دریافت کیا ہے جس سے یہ مدت دس گنا کم ہو گئی ہے ۔ پہلے جہاں 200سے300سال میں جنگل تشکیل پاتا تھا، اب دس سے بیس سال میں تیس گنا زیادہ گھنا جنگل بنانا ممکن ہوگیا ہے ، اس طریقہ کار کو سائنس دان کے نام پر ’ میاواکی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس طریقہ کارمیں مقامی پودوں کی مختلف قسموں کو قریب قریب لگایا جاتا ہے جس سے پودے کوصرف اوپر سے سورج کی روشنی ملتی ہے ۔چناں چہ وہ اوپر کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں ۔ دن میں آٹھ گھنٹے کی دھوپ ضروری ہے ۔ پانی دان میں ایک دفعہ دینا ہوتا ہے ۔پہلے دو سال دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ فالتو جڑی بوٹیاں نہ پیدا ہوں ۔تین سال کے بعد دیکھ بھال کی ضرورت نہیں رہتی ۔
زمین کی زرخیزی کے لیے اس میں نا میاتی اجزا جیسے گوبر ، چاول ، گندم اور مکئی کا بھوسا ڈالتے ہیں جوپودے کی نشوونما کوتیز کرتے ہیں۔ مقامی پودے جوگھنے بھی ہوں ، یوں بکھیر کر لگائے جاتے ہیں کہ ایک ہی قسم کے پودے اکٹھے نہ لگیں بلکہ مختلف قسم کے پودے آس پاس ہوں۔ کم از کم دو سے اڑھائی فٹ اونچی پنیری لگانی چاہیے اوسطاً ایک مربع میٹرمیں تین سے پانچ پودے لگتے ہیں۔ پودے لگانے کے بعد زمین پرگلی سڑی سبزیوں کی کھاد ڈال دی جاتی ہے تاکہ زمین کی نمی بخارات بن کرنہ اڑ جائے ۔شروع میں پودوں کولکڑی کا سہارا دینا چاہیے تاکہ وہ جھک نہ جائیں۔ کیمیکل کا اسپرے نہیں کرنا نہ پودوںکوتراشنا ہے۔
اس طرح کے جنگل کو ’ شہری جنگلات‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ شہری آلودگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔لاہور میں کئی مقامات پر یہ جنگل لگائے جا رہے ہیں اور اب سندھ کی ساحلی پٹی پر بھی لگانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے ۔
یہ کرہ ٔ ارض ہمارا گھر ہے ۔اسے صاف، ستھرا اورپاکیزہ رکھنا ہم سب کا فرض ہے ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x