ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سات دن – بتول جون ۲۰۲۲

کراچی شہر میں آباد ہوئے انہیں عشروں کا عرصہ گذر چکا تھا ۔
ابتدا میں جب وہ یہاں آئے تھے تو پلے میں کچھ ہی روپے تھے۔ اسٹیشن کے قریب ایک نچلے درجے کے ہوٹل میں ایک چھوٹا کمرہ کرایہ کا لیا۔کمرے کے ساتھ غسل خانہ نہیں تھا وہ باہر مشترکہ تھا آج کے عبد الصمد صاحب نے کل اس بات کو محسوس ہی نہیں کیا ۔پلے جو پیسے تھے انہیں بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرنا تھا ۔
دو دن تو سوچ بچار میں ہی لگائے ۔
اسٹیشن کے ہوٹل سے نکل ادھر اُدھر آوارہ گردی کی لوگوں کو دیکھا پرکھا راستوں کو جانا صبح کا ناشتہ گول کر کے دوپہر کو بارہ بجے چھپر والے ہوٹل میں بیٹھ جاتے ۔ اور پیٹ پوجا کر کے دوبارہ ہوٹل کے تنگ کمرے کا رخ کرتے۔
کچھ دیر قیلولہ کرتے اور ذرا دھوپ کے ڈھلتے ہی دوبارہ باہر کارخ کرتے۔ سڑکیں ناپتے ہوئے کبھی کسی فٹ پاتھ پربیٹھ جاتے ۔ زن زن جاتی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے چکرآنے لگتے تواٹھ کھڑے ہوتے۔ کسی دوکان میں اے سی چل رہا ہوتاتوضرور شوق میں داخل ہوتے ۔ کچھ نہ لینا ہوتا لیکن پھر کچھ چیزوں کی قیمتیں معلوم کرکے کچھ ٹھنڈی ہوا کی سانسیں لے کر باہرنکل جاتے ۔
بارہ بجے کا کھایا کھانا تو کب کا ہضم ہوچکا ہوتا آخر مغرب کے وقت پھر کسی بہتر ہوٹل میں بیٹھ کر دال یاسبزی کی پلیٹ منگا لیتے ۔ دو روٹی کھانے میں کوئی گھنٹہ بھر لگا تے۔
شیشے کی شفاف دیوار والی طرف کی کرسی پر بیٹھتے باہر بھی دیکھتے اور چھوٹے چھوٹے نوالے توڑ کردال سے لگاتے اس ڈر سے کہ کہیں روٹی سے پہلے دال یا سبزی ختم نہ ہو جائے ۔ لیکن معاملہ الٹا ہوجاتا روٹی ختم ہوجاتی اور پلیٹ میں کچھ سالن بچ جاتا ۔
در اصل وہ شیشے سے باہر دیکھنے میں اور دروازے سے اندر آتے لوگوںکودیکھنے میں اتنے مصروف رہتے کہ تناسب سے کھانے کاخیال ہی نہ رہتا ۔ پھر بھی پلیٹ میں دال یاسبزی چھوڑنا انہیں گوارانہ ہوتا انگلی سے چاٹ چاٹ کر پلیٹ صاف کر لیتے۔ کھانے کے بعد چائے کی تو عادت نہ تھی ۔ ہاں لسی پینے کادل چاہتا ۔ ان دودنوں میں انہوں نے ایک ہی دفعہ کھانے کے بعد لسی منگوائی ۔ ہلکے ہلکے اس کی چسکیاں لیتے وہ کچھ دیر یہ بھی سوچتے کہ شہر کی لسی اور گائوں کی لسی میں کیا فرق ہے۔
پیچھے بھا عبد الواحد بھابھی اور چھوٹا مجیداکیا کررہے ہوں گے ۔ انہوںنے مجھے یاد کیا ہوگا یا نہیں’’ اماں ابا کے بغیر انہوں نے کتنے سال میرا خیال تورکھا ہے ‘‘۔عبد الصمد کے دل نے فوراً یہ جملہ دہرایا۔
عبد الصمد ان کے بارے میں کوئی غلط بات سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا ۔ سو ہمیشہ ان کے اس خیال رکھنے اور دل داری کرنے کالحاظ رکھتے ہوئے یہ جملہ دہراتا ۔
ہاں تو اب کب تک وہ لوگ میری بچوں کی طرح دیکھ بھال کرتے ؟ آخر کو مجھے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہی تھا نا !
کچھ عرصے سے بھائی بھابھی کے انداز بدل جانے پر شہر جانے کا فیصلہ عبد الصمد نے کئی ہفتے سوچ بچار کے بعد کیا تھا ۔ پیسے کے لیے بھائی سے کہا ظاہر ہے خالی جیب لے کر شہر کیسے جاتا۔
پتہ نہیں بھائی بھابھی میں کیا مشورہ ہؤا لیکن عبد الصمد کو کچھ پیسے مل گئے پیسے تو اتنے نہیں تھے لیکن پیسوں کے ساتھ ملنے والا جملہ بہت بھاری تھا ۔ اتنابھاری کہ آج کئی دن کے بعد بھی وہ جملہ بھاری بوجھ کی طرح کندھوں کو شل ساکر رہا تھا ۔
صمد ے! کچھ بن کر آنا… دوبارہ ہاتھ پھیلانے نہ آنا… بھا عبدالواحدکی آواز کی باز گشت صمد کے کانوں میں گونج اٹھی … پھر یہ گونج

ہر اس موقع پر ان کے کانوں میں اٹھتی جب کوئی مشکل کھڑی ہوتی معاملہ ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہوتا اور وہ اس گونج کی حرارت سے کمر کس کے اٹھ کھڑے ہو جاتے ۔
کام تو دو دن بعد ہی سوچ لیا تھا کہ کیا کرنا ہے … بلکہ ایک لمبی منصوبہ بندی بھی کرلی تھی کہ جس چھپر ہوٹل میں ابھی ملازمت کرنی ہے ایساہی ہوٹل کھولنا ہے سیٹھ بن کر گلّے پر بیٹھنا ہے ۔ کائونٹر کی کرسی اونچی رکھنی ہے ۔ تاکہ نظر دور تک اورسب تک جائے خواب توجلدی میں بڑا اونچا دیکھا تھا ۔ لیکن تین سال ہی میں اس کاکچھ حصہ پورا ہو گیا ۔ ایمان داری اور محنت نے ہوٹل کے مالک کا معتمد بنا دیا۔
شروع میں جو کام کوئی نہ کرتا وہ صمدے کے حوالے ہو جاتا اور وہ بغیر کسی جھجک کے کرتا ۔ صفائی برتن دھونا پانی کا دھیان رکھنا پھر مارکیٹ سے سودا لانا منڈی جانا ہروہ کام جس میں پیسوں کا معاملہ ہوتا مالک صمدے کے حوالے کر دیتا ۔ برابر کی دکان خالی ہوئی تو صمدے نے شراکت داری میں مالک سے مشورہ کر کے لے لی ہوٹل میں کام کرتے مصالحوں پر ہاتھ سیٹ تھا۔ابتدا میں صرف بریانی رکھی ۔ پھر قورمہ اور کھیر بھی شامل کرلی ۔ بس پھر تو جیسے کام ایسا بڑھاکہ لوگ قطار بنا کر سودا لینے لگے۔صمد نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ایک سے دواور دو سے چار دکانیں بڑھتی گئیں ۔ شہرت ایسی کہ لوگ دور دور سے آتے ۔ بہترین مصالحہ پورا تول اور ذائقے کے تو کہنے ہی کیا ۔ جو ایک دفعہ کھائے دوسری دفعہ کھانے کے لیے للچائے کوئی پورے علاقے میں اس سے بہتر بریانی اور قورمہ کہیں ڈھونڈ کر دکھائے۔
کچھ بن تو گئے صمدے اب گھر بھی بنا لے۔
یہ جملہ پرانا سیٹھ جو اب شراکت دار اور دوست تھااکثر دہراتا… کبھی صمدے کے دل میں بھی یہ جملہ گونجتاتو اس کو جمیلہ کی یاد کسک بن کر چبھتی۔ جمیلہ بھابھی کی بہن تھی اور بھابھی نے بڑے چائو سے اماں ابا سے کہہ کر اسے صمد کی منگ بنایا تھا لیکن اماں ابا کے بعد جیسے بھابھی کے انداز ہی بدل گئے تھے ۔ انہوں نے صمدے کو نکھٹو سمجھ لیا تھااور نکھٹو کے ساتھ اپنی بہن کو کون جوڑے۔
صمد کو بھائی عبد الواحد کا آخری جملہ یاد آیا … اب تو میں کچھ بن گیا ہوں ۔ بھا اور بھابھی کودکھانا چاہیے چل صمدے گائوں کا ایک چکرتولگا۔
دل نے صلاح دی اور ساتھ ہی جمیلہ کی کالی لٹ یاد آئی گردن اور ماتھے پر ناگن کی طرح ناچتی سیاہ لٹیں چہرے کے گرد ہالہ سا کیے رہتیں۔
کیا پتہ بھابھی نے اس کو بیاہ دیاہو ؟
دل میں جیسے کسی نے چٹکی کاٹی ہو۔
صمد نے خیال جھٹکا اور اگلے ہفتے پورے سات دن کے لیے گائوں روانہ ہو گیا۔
پیچھے سیٹھ شراکت دار نے خاص طور سے کہا تھا کہ سات دن کو سات دن ہی رکھنا ۔ رمضان شروع ہونے کو ہے اور پھر اس کے بعد عید کا سیزن ہوگا ۔ میں تو کام سنبھال نہ سکوں گا۔
گائوں کے لیے صمدے نے ریل کے فرسٹ کلاس کے ٹکٹ لیے تو اب کی دفعہ سفر کرتے ہوئے سارے راستے گائوں سے شہر کا سفر یاد کرتا رہا ۔ سخت لکڑی کی سیٹ پر ٹک کر پندرہ گھنٹے بیٹھا تھا ۔ کھانے میں چنے روٹی کھائے ایک وقت دوسرے وقت بھنے چنوں پر گزاراکیا اسے ایک ایک کرکے سب یاد آ رہا تھا۔
فرسٹ کلاس میں سفر کی کیابات تھی ۔ نہ دھول مٹی نہ تھکن گائوں کے اسٹیشن پر سیاہ نئے سوٹ کیس کے ساتھ اترا تو ترو تازہ تھا۔
اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے سوٹ کیس کو چلانا شروع کیا تو کئی یکے اور ٹیکسی والوں نے پوچھا ۔
بائو جی کہاں جانا ہے۔
ٹیکسی چاہیے … کسی نے تانگہ کی طرف بلایاصمد نے ٹیکسی کوغور سے دیکھا ۔ بوسیدہ اور پرانی تھی لیکن تانگے سے بہتر رہے گی بس یہ ہی سوچ کر ٹیکسی کرلی۔
ٹیکسی والا خود بھی بولے جا رہا تھا اور صمدے سے بھی سوال پر سوال کر رہا تھا۔

چک یوسف والا کے عبد الواحد کو وہ نہیں جانتا تھا البتہ چک یوسف والا کا راستہ خوب جانتا تھا ۔
یوسف والا کا راستہ توخود صمدے کو بھی پتہ تھا ۔ لیکن چپ بیٹھا رہا ۔ ٹیکسی جلد پکی سڑک کو چھوڑ کرکچے راستے کی طرف مڑ گئی۔
دھول اڑاڑ کر ٹیکسی کے اندر آنے لگی تو صمدے نے شیشہ بند کرنا چاہا لیکن وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہ کھسکا۔
خراب ہے بائو جی۔
تو ٹھیک کرانا تھا۔صمدے نے ذرا چڑ کر کہا۔
دھول اس کے صاف کپڑوں اورجمے ہوئے بالوں پربیٹھنے لگی لیکن کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔
دوچار موڑ کے بعد بھا عبد الواحد کا گھر سامنے تھا ۔ کچھ دیر وہ دیکھتا ہی رہ گیا ۔ بچپن کی یادیں دستک دیے بغیر آتی ہی جا رہی تھیں۔
بابوجی سوٹ کیس اتاروں؟
ٹیکسی والے کی آواز پر صمد چونک گیا ۔
اتر کرکھڑا ہؤا ادائیگی کی اور ادھر اُدھردیکھنے لگا پوری گلی میں بچے کھیل رہے تھے ۔ گلی ڈنڈا ، کنچے ایک چھوٹا بچہ لکڑی لے کر ننگے پیر ٹائر کے پیچھے پیچھے بھا گ رہا تھا ۔ سوٹ کیس کے ساتھ وہ دروازے پر کھڑا تھا ۔ ٹیکسی والا جا چکا تھا۔
اسے دستک دینے کا حوصلہ کرنے میں دیر لگ رہی تھی۔اتنے میں دروازہ کھلا اوراندر سے کوئی باہر آیا ۔صمدے نے غور سے دیکھا زیر لب منہ سے نکلا بھا…
آنے والے نے ٹھٹھک کر صمدے کو دیکھا اور بانہیں پھیلا دیں صمد بڑھ کر ان پھیلی بانہوں میں سما گیا ۔ بھائی کا سینہ باپ کا سینہ تھا وہ سسک کر رو دیا۔
دونوں ہی کے آنسو بہہ رہے تھے ۔ صمدے تونے تو کوئی اتہ پتہ ہی نہیںدیا ایسا گیا کہ کوئی خیر خبر نہ دی۔
بھا صمدے کو سمیٹ کر اندر لے گیا ۔ بھابھی سے ملایا تو اس نے بڑھ کر سر پر ہاتھ رکھا ۔ چھوٹا مجیدا کہاںہے؟
صمدے نے پوچھا ۔ باہر گلی میں کھیل رہا ہے بلاتا ہوں۔
بھا کے اٹھنے سے پہلے بھابھی نے دروازے سے آواز دی و ہی لڑکا جوننگے پیر ٹائر کے پیچھے بھاگ رہا تھا اندر آیا۔
صمدے کو مجیدے کی حالت دیکھ کرہی اندازہ ہو گیا کہ بھائی کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ ایک دن تو اس نے آرام کیا ساتھ ساتھ بھائی کے گھر کا جائزہ لیتارہا ۔ سب ہی ظاہر تھا کہ بھا عبد الواحد کس طرح گھر کی گاڑی کھینچ رہا ہے ۔ کھانے میں بس دال دلیا ہی چل رہا تھا بھابھی نے ایک دن تو پراٹھے اور انڈے دیسی گھی میں بنا دیے جسے چھوٹا مجیدا للچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ صمدے نے اسے اپنے پاس بیٹھا کر خود نوالے کرکے کھلایا اور بھائی بھتیجا کی حالت پر دل میں کڑھتا رہا۔شام کی چائے پیتے اس نے بھابھی سے جمیلہ کے بارے میں پوچھ ہی لیا۔
بھابھی نے خالی خالی نظروں سے اسے دیکھا اور نظریں جھکا کر بتایا کہ اس کی شادی کردی تھی دو سال پہلے۔
صمدے کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر دبا دیا ہو اس نے بے ساختہ سینے پر ہاتھ رکھا۔
لیکن چھ ماہ پہلے ایکسیڈنٹ میں اس کا گھر والا دنیا چھوڑ گیا۔ جمیلہ کا ایک بیٹا ہے ۔ ابھی مشکل سے سال کا ہؤا ہے۔
بھابھی نے اپنی بات پوری کی ۔
صمدے دونوںہاتھوں کو بے چینی سے مسلنے لگا بھابھی کو شکایتی نظروںسے دیکھا۔
صمدے صدمے اور غصے سے کھڑا ہو گیا ۔ کیا کرتے صمدے تو نے بھی تو پلٹ کر خبر نہ لی بھابھی نے گلہ کیا۔
صمدے کچھ دیر کھڑا رہا پھر بیٹھ گیا جیسے جان نہ رہی ہو ۔ ہاتھوں میں سر تھامے سوچ میںڈوبا کتنی ہی دیر وہ بیٹھا رہا ۔ جمیلہ کی تصویر آنکھوںمیں بنتی اور بگڑتی رہی ۔ ذہن کی روکبھی ایک طرف جاتی اور کبھی دوسری طرف کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔
وہ ایک دم چونکا بھائی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے اٹھنے کا اشارہ کیا گھر سے نکل کر و ہ باہر کھیت کھلیان کی طرف نکل گئے۔

گائوں کے گلی کوچے کھیت کھلیان صمدے جیسے پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا۔ سبزے کی خوشبو اور دورتک پھیلے کھیت ایک حسین تصویر کی طرح لگ رہے تھے۔
نو عمر چرواہے اپنے اپنے ڈنگر لیے واپسی کے سفر پرتھوڑی تھوڑی دیر میں گزرتے ۔بھٹے کی چمنی کا دھوا ں دھیما ہو گیا تھا ۔ سورج کی کرنیں نرم ہو گئیں تھیں ۔ صمدے چلتا جا رہا تھا بھانے اشارہ کیا درخت کے نیچے بچھی چار پائی پر بیٹھنے کا … وہ ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیٹھ گیا کافی دیر وہ کھیتوں کی ہریالی میں گم رہا۔ بھا عبد الواحد غور سے اس کو جانچ رہا تھا ۔
اچھا تو توجمیلہ کی یاد کی ڈور تھام کر آیا ہے۔
انہوں نے صمد ے کی کمر پر ہلکے سے دھپ لگائی۔ صمدے چپ رہا۔
یار جاتے ہوئے بولتا دونوں کو ساتھ ہی رخصت کر دیتے، بھا نے کھل کر قہقہہ لگایا۔
صمدے نے شکایت اوردکھ کے ساتھ بھائی کو دیکھا۔ کچھ بن کر آنا… دوبارہ ہاتھ پھیلانے نہ آنا،جملے کی حرارت نے گویا صمدے میںجان ڈال دی ہو پھر بھی ایک آنسو چپکے سے آنکھ کے کونے سے ڈھلک آیا ۔
دیکھ صمدے کوئی بات نہیں جمیلہ بیوہ ہے تو اس کو آج بھی اپنا سکتا ہے ۔ ہمارے پاک نبیؐ نے اس کا کتنا ثواب بتایا ہے ۔ ساتھ یتیم کی پرورش … ایک پنتھ تین کاج۔
بھا نے ہولے ہولے صمدے کی کمر کو سہلایا۔جیسے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہو۔
پھر صمدے کے دل نے رضا مندی دے دی اس شرط پر کہ جمیلہ راضی ہو تو … پھر یہ سات دن جیسے کھینچ کر لمبے ہوگئے۔
گائوں میں ایک کی خوشی سب کی خوشی ہوتی ہے اور ایک کا غم سب کا غم … سارا گائوں صمدے کی خوشی میں خوش تھا ۔ مسجد کے مولوی صاحب نے نکاح کے بعد لمبی دعا کی اور صمدے کو گلے لگا کر مبارک باد کے ساتھ شاباش بھی … دیکھ صمدے! یتیم کی پرورش کاامتحان مشکل ہے لیکن رب کی رضا سے تو پاس کرلے گا ۔
آج عشروں بعد بھی عبد الصمد صاحب کو یہ واقعہ کل کی بات لگتی ہے ۔خیال کی اڑان انہیں لمحوں میں سب یاد کرا دیتی ہے ۔یتیم کی آمد گویا برکت کے خزانوں کی آمد تھی ۔ کل کا صمدے آج کا عبد الصمد صاحب تھا۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x