ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

روئے سخن – بتول جون ۲۰۲۲

وبا کے دو گزشتہ برسوں کی یاد میں کچھ احساسات نظم ہوئے)
مکالمہ تو خدا سے تھا بس
خدا کے عہدِ وفا سے تھا بس
قبولیت تھی اسی کے آگے
اور اس سے ہٹ کےجو بات بھی تھی
اسی تسلسل کا مرحلہ تھا
اسی تکلم کا سلسلہ تھا
جو التجا تھی جو مشورہ تھا
سوال تھا جو دلیل تھی جو
کوئی تھا دعویٰ کہیں تھا شکوہ
اسی تخیل سے مل رہا تھا
کہیں تڑپنے کا واقعہ تھا
کسی کے لٹنے کا سانحہ تھا
کسی کے مٹنے کا ماجرا تھا
(اور اس پہ گریائے دل زدہ تھا)
اسی سے کہنے اسی سے سننے کا اک یقیں برملا رہا تھا
جو دل دکھا تھا
سوال پھر اب کسی سے کرتے
جواب خواہ اب کہیں سے آئے
دراصل اس سے ہی مل رہا تھا
مطالبہ تو رضا کا تھا بس
اسی سے ملتی عطا سے تھابس
اسی کی سچی پنہ سے تھا بس
مکالمہ تو خدا سے تھا بس
خدا کے عہدِ وفا سے تھا بس
عطائے رب کی ثنا سے تھا بس

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x