ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مولانا مودودی ؒ کی شخصیت کے چند پہلو – بتول دسمبر۲۰۲۲

شروع شروع جب پاکستان میں کمپیوٹر اتنا عام ہونے لگا کہ گھروں کے دروازوں پر اس کی دستک سنائی دینے لگی تو مجھے اس بات کی تو بے حد خوشی ہوئی کہ اس میں نہ صرف ہر فرد کے مزاج کے مطابق بہت کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے بصارتی، صوتی اور تحریری لوازمات موجود ہیں بلکہ ہر قسم کی تحریریں، کتابیں، اخبارات اور رسائل بھی ہیں جن کو دیکھ کر، سن کر اور مطالعہ کرکے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن دکھ اس بات کا ہؤا کہ اردو کے زبان و ادب سے تعلق جوڑنے والے بہت بڑے بڑے ذخیرے دور دور تک دکھائی نہیں دیا کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر قسم کی علمی معلومات مکڑی کی اس جالے، جس کو ویب سائٹ اور انٹر نیٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے،میں دیکھی، سنی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔ بے شک اب بھی کسی بھی قسم کے اردو ادب کا تمام تر ذخیرہ تو موجود نہیں لیکن پھر بھی لائقِ ستائش ہیں وہ لوگ جو اردو کے علمی ذخیرے کو جدید دور کے مکڑی کے جالے میں محفوظ کرنے میں رات دن کوشاں ہیں اور اگر ان کی کوششیں بنا تکان جاری رہیں تو ایک دن وہ ضرور آئے گا جب ہر عام و خاص اپنے ذوق کے مطابق ہر قسم کی معلومات اپنے لیپ ٹاپ، کمپیوٹر یا موبائل فون وغیرہ پر جب اور جہاں سے چاہے گا حاصل کر سکے گا۔
پاکستان میں عام طور پر ہر مسلک اور فرقے سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام سخت تنقید کی زد میں رہے ہیں لیکن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (علیہ الرحمہ) ایک ایسے مجدد اور عالم ہیں جن کی قدر اور عزت نہ صرف پاکستان میں ہے بلکہ اس کی علمیت اور قابلیت کا اعتراف صرف پورا عالم اسلام کرتا ہے۔ ان کی قابلیت اور ان سے عقیدت رکھنے والوں کا اندازہ لگانےکے لیےصرف یہی بات بہت ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب آپ ہی کی تحریر کردہ ہیں جن میں مقبول ترین کتاب قرآنِ کریم کا وہ ترجمہ و تشریح ہے جس کو تفہیم القرآن کے نام سے دنیا بھر میں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
آج اگر ہم مولانا ؒ کی شخصیت پر معلومات حاصل کرنا چاہیں تو مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مکڑی کے اس جالے میں اسلام سے محبت رکھنے والوں نے مولانا کی ذاتی زندگی سے لےکر ان کی اسلامی خدمات کے متعلق اتنی معلومات فراہم کردی ہیں کہ کوئی طالبِ علم ہو، کوئی ان کا عقیدت مند ہو، کوئی اسلام کی والہانہ محبت سے سر شار ہو، کوئی ایسا فرد جو اسلام کے سیاسی، سماجی، معاشی اور اسلام کے حقیقی نظامِ زندگی کے متعلق آگاہی حاصل کرنا چاہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودی کے علمی ذخائر کو نظر انداز کرکے گزر جائے۔
میں ذیل میں کچھ محققین کی تحریروں میں سے چند اقتباسات ضرور تحریر کرنا چاہوں گا تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ دنیا مولاناؒ کی علمی شخصیت کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہے۔
مجھے اس بات کا علم تو نہیں لیکن لکھنے والے نے مولاناؒ کی سوانح حیات کے بارے میں اجمالاً کچھ اس طرح لکھا ہے کہ ’’سید ابوالاعلٰی مودودی کا سنِ ولادت 1321ھ بمطابق 1903ء ہے۔ جائے پیدائش اورنگ آباد دکن ہے اور آبائی تعلق سادات کے ایک ایسے خاندان سے ہے جو ابتدا میں ہرات کے قریب چشت کے معروف مقام پر آکر آباد ہؤا تھا۔ اس خاندان کے ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان خواجہ مودود چشتی کے نامِ نامی سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلا تا ہے۔ انہوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک مکمل مذہبی گھرانا تھا۔ ان کے والدِ محترم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ سید مودودی کی تربیت ان کے والد نے خاص توجہ سے کی۔ وہ انہیں مذہبی تعلیم خود دیتے تھے۔ اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث کی تعلیم بھی اتالیق کے ذریعے گھر پر دی جانے لگی۔ تعلیم کے ساتھ اخلا قی اصلاح کا بھی وہ خاص خیال رکھتے تھے۔ اسی لیے سید مودودی کے والد نے انہیں کسی مدرسے میں داخل نہیں کرایا، بلکہ گھر پر ہی پڑھاتے رہے۔ ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس انہوں نے اپنے بیٹے کو براہِ راست اپنی نگرانی میں رکھااور کسی مکتب یا مدرسہ میں بھیجنا گوارہ نہ کیا بلکہ ان کی تعلیم کا گھر پر اتالیق رکھ کا انتظام کیا تاکہ مدرسے اور اسکول میں زمانے کی بگڑی ہوئی رو سے وہ اپنے بچے کو بچا سکیں‘‘۔ بحوالہ انٹر نیٹ۔
آگے چل کر وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’سید صاحب کو گیارہ سال کی عمر میں گھریلو تعلیم کی مناسب تکمیل کے بعد مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیاگیا۔ اس وقت ان کی معلوما ت تمام مضامین میں اپنے ہم جماعتوں سے بہت زیادہ تھیں، حالانکہ وہ آٹھویں جماعت میں سب سے چھوٹی عمر کے طالب علم تھے۔ کلاس میں آنے کے بعد سید صاحب کو جدید علوم کیمیا،طبیعیات،ریاضی وغیرہ سے واقفیت اور دلچسپی پیدا ہوئی۔اور پھر جدید معلومات میں بھی وسعت پیدا ہوتی چلی گئی‘‘۔
جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ مولاناؒ صرف پاکستان میں ہی معروف نہیں تھے بلکہ ان کے علمی ادبی ذوق اور اسلام پر دسترس کے قائل مغربی و اسلامی ممالک کے محققین بھی تھے۔شاہ عمران حسن (ہندوستان نئی دہلی) لکھتے ہیں کہ’’ میرا وجود دنیا میں قائم ہونے سے بہت پہلے مولانا مودودی کی وفات ہو چکی تھی۔ اس لیے انھیں دیکھنے یا سننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم میں اِس تعلق سے چند باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ طالب علمی کے زمانہ میں جن اصحابِ قلم کی تحریروں اور تخلیقی ایجادوں نے راقم الحروف کو متاثر کیا اور جن کے فکر وخیالات نے میرے ذہن میں غوروفکر کا مادّہ پیداکیا۔ اُن اصحاب قلم میں مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کا نام بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا مودودی کی اسلامی انقلاب کی تحریک بیسوی صدی عیسوی کے نصف اوّل میں شروع ہوئی اور صدی کے آخرتک پوری دنیا میں پھیل گئی۔ جس کے دوررس نتائج سامنے آئے۔ مولانا مودودی نے اپنی وسعت نظری سے بہت کم عمری میں ہی ہندوستان میں بدلتے ہوئے حالات اور ہونے والے تغیرات کو بھانپ لیا تھا۔ جس وقت اُنھوں نے اپنے قلم کو جنبش دینی شروع کی اس وقت خلافت اسلامیہ کا زوال اور اشتراکیت کاعروج ہو رہا تھا‘‘’۔
آگے چل کر شاہ عمران حسن (ہندوستان نئی دہلی) لکھتے ہیں کہ ’’اس وقت ہندوستان کی تاریخ کا ہم جائزہ لیں تو ملت اسلامیہ ہندیہ کے گہن لگے ہوئے معاشرہ میں مولانا مودودی آفتاب کی مانند نمودارہوئے اور کفر اور الحاد،شرک و لغویات میں مبتلا اور الجھی ہوئی قوم کے درمیان دین کی شمع روشن کرنے کی کوشش کی،اور اس میں وہ کافی حدتک کامیاب ہوئے۔ اورجب ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذریعہ دینی آواز کو عوام کے سامنے پیش کیا توعوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان کی آواز پر لبیک کہا‘‘۔
مولاناؒ اسلامی سیاسی نظام کے سلسلے میں نہایت واضح سوچ رکھتے تھے۔ وہ جمہوریت کے حامی ضرور تھے لیکن وہ جمہوریت جو مغرب زدہ یا ملحدانہ سوچ کی حامل ہے، اس کے کہیں سے کہیں تک قائل نہ تھے۔ مغرب یا ملحدانہ نظامِ جمہورت کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ عوام ہوتے ہیں۔ جمہورت کی تعریف مغرب کے نزدیک یہ ہے کہ ’’جمہوریت عوام کی، عوام کے لیےاور عوام سے ہوتی ہے‘‘جبکہ اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ اللہ کے سوا اور کسی حاصل نہیں اور زمین پر جس کو حکمرانی کرنے کا حق رکھتاہے وہ اس کا نائب ہوتاہے۔ وہ جو بھی فیصلہ کرے گا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں کرے گا۔ مغربی طرزِ جمہورت میں فیصلہ اور حکم وہی مانا جائے گا جس کو عوام کی اکثریت مانتی ہو۔ مولاناؒ اس قسم کی جمہوریت جو آج کل مروج ہے اسے ایک غیر اسلامی اور اللہ کے احکامات سے بغاوت قرار دیتے ہیں۔ جناب آصف علی صاحب اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ ’’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے سیاسی فلسفے کی بنیاد یہ ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات سمجھتے ہیں جو عبادات و معاملات سےلے کرمعاشرت، معیشت اور سیاست تک تمام معاملات میں رہنمائی کرتا ہے۔اپنی سیاسی فکر میں وہ سب سے پہلے دین و سیاست کے تعلق پر بحث کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام اللہ اور بندے کے درمیان انفرادی تعلق کا ہی نام نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے جس میں سیاست اور ریاست بھی شامل ہے۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اسلامی ریاست کیسی ہوگی تو سید مودودی واضح کرتے ہیں کہ ”مغربی جمہوریت میں جہاں لوگوں کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے وہیں اسلامی نظام میں بندے رب تعالیٰ کے بنائے گئے قوانین و ضوابط ہی کو نافذ کریں گے‘‘۔
جناب آصف صاحب مزید حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح وہ (مولانا) پاپائیت پر بھی تنقید کرتے ہوئے اسے اسلام کے خلاف قرار دیتے ہیں کہ اس نظام میں مذہبی طبقہ قانون سازی کرتا ہے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتا ہے‘‘۔
کسی بھی دور میں کتابوں کا مطالعہ ایک تھکا دینے والا کام رہا ہے۔ پھر ایسی کتابیں جن کا تعلق مذہبی تعلیمات سے ہو، ان کو پڑھنا اور بھی مشکل کام یوں ہے کہ ایک جانب تو پڑھنے والے کو اس میں خشکی بہت محسوس ہوتی ہے تو دوسری جانب عام طور پر تقریباً تمام محققین اور معلمین جس قسم کی تحریریں کتابی شکل میں پیش کرتے ہیں اس میں ادبی چاشنی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، ایک تو مذہب جیسا سنجیدہ موضوع ہو اور وہ الفاظ کے حسین اتار، چڑھاؤ، چناؤ اور موزوں انتخاب سے بھی محروم ہو تو کسی کا ایسی تحریریں پڑھنے کا دل کیوں کر چاہے گا۔ مولانا کی تمام تحریریں حتیٰ کے قرآن کا ترجمہ و تشریح تک اتنی مرصح، بامحاورہ، لفظوں کے خوبصورت امتزاج اور واقعات کے مطابق الفاظ کے اتار چڑھاؤ کے چناؤ سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی آسان فہم و سہل ہوتی ہیں کہ پڑھنے والے کو کسی مقام پر بھی طبیعت میں گرانی محسوس نہیں ہوتی اور اس کا سہل اور عام فہم ہونا پڑھنے والے کو ایک ایک لفظ اور جملے کا مطلب صاف صاف سمجھاتا چلا جاتا ہے۔
مولانا کی تحریر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جو بھی بات کہنا یا سمجھانا چاہتے ہیں وہ نہایت تحقیق کے بعد کہتے اور سمجھا تے ہیں یعنی ان کی بیان کردہ ہر بات نہایت مدلل اور پُر تاثیر ہوتی ہے۔ مولاناؒجہاں ضرورت محسوس کرتے ہیں وہاں اپنی رائے کا اظہار بھی ضرور کرتے ہیں۔ اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بعد بیشتر علما و فقہا کی طرح وہ اسے کبھی حتمی قرار نہیں دیتے بلکہ اپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتے ہیں کہ کہ وہ ان کی رائے کو حتمی اور آخری سمجھ کر نہ مانیں بلکہ چاہیں تو اس سے بہتر کوئی اور راہ دکھائی دے تو اس کا انتخاب کرلیں۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ علمائے کرام اپنے بہت سارے انداز ایسے اختیار کر لیتے ہیں جو عام لوگوں سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں۔ لباس کی تراش خراش سے لے کر بول چال کا انداز ہو یا ہنسنے، مسکرانے، بات چیت کرنے، اٹھنے بیٹھنے، حتیٰ کہ ملنے جلنے کے سارے طور طریق، وہ عام معاشرے سے اس حد تک مختلف ہوجاتے ہیں کہ عام فرد ان کے پاس آنے، بات چیت کرنے، ان کے ساتھ بیٹھنے، مختلف تقاریب میں شانہ بشانہ شریک ہونے یا ان کی ضیافت میں عام انسانوں کی طرح جانے سے گھبراہٹ محسوس کر تا ہے۔ مولاناؒ اپنی آخری عمر تک ان سب باتوں سے بہت دور تھے۔ احباب بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولاناؒ سے ملنے کا شوق ان کو اچھرہ لے گیا۔ دن چڑھ چکا تھا، خیال یہی تھا کہ مولاناؒ جاگ رہے ہوں گے۔ پہلی حیرت تو ان سب کو یہ ہوئی کہ گھر کے دروازے پر دستک دینے تک کوئی ایک فرد بھی انھیں ایسا نہیں ملاجس کو محافظ کے طور پر پایا ہو یا راستے میں کسی نے اجنبیوں کو دیکھ کر مولاناؒ کے گھر کی جانب جاتے دیکھ کر ٹوکا ہو۔ دوسری حیرت یہ ہوئی کہ دروازے پر دستک دیتے ہی فوراً جواب ملا، دروازہ کھلا، پوچھا گیا کہ کیا کام ہے، جواب میں جب یہ کہا کہ ہمیں مولاناؒ سے ملنا ہے تو فوراً ہی ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیا گیا۔ احباب نے یہ سن رکھا تھا کہ مولاناؒ مہمانوں سے ملنے میں تاخیر نہیں کیا کرتے اس لیے (ان کے حساب سے) مولاناؒ غیر معمولی تاخیر سے تشریف لائے، سب احباب کو سلام کیا اور ان کے سامنے بیٹھنے کے ساتھ ہی معذرت چاہی کہ وہ عام طور پر لکھنے لکھانے کا کام رات دیر گئے تک کرتے ہیں اور فجر کی نماز کے بعد اپنی نیند پوری کرنےکے لیےدوبارہ سو جاتے ہیں۔ جس وقت آپ لوگ آئے میں گہری نیند میں تھا۔ گھر والوں نے بیدار کرکے کہا کہ آپ سے کچھ مہمان ملنے آئے ہیں تو میں بیدار ہوکر ہاتھ منہ دھونے لگا جس کی وجہ سے مجھے تاخیر ہوئی۔ احباب کہتے ہیں کہ معذرت خواہ ان کو ہونا چاہیے تھا کہ وہ آرام میں مخل ہوئے لیکن دنیا کا اتنا بڑا عالم اور مجدد ہم سے معذرت خواہ تھا۔ واللہ کیا عاجزانہ انداز تھا۔
احباب نے ان کو پان کھاتے دیکھا تو کہا مولاناؒ آپ اتنا بہت تمباکو کیوں کھاتے ہیں تو دلکش مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا کہ میں ہر کام بہت کرنے کا عادی ہوں۔
مولاناؒ قریب کی مسجد میں عصر کی نماز کے بعد لوگوں تک کچھ دین کی باتیں پہنچایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ لوگوں تک کچھ باتیں پہنچا رہے تھے کہ ایک موٹر سائیکل سوار نہایت کریہہ آواز کے ساتھ مسجد کے قریب سے گزرا۔ شور کی وجہ سے مولاناؒ خاموش ہو گئے۔ جب سوار گزر گیا تو نہایت تمکنت سے فرمایا کہ موٹر سائیکل کی سواری ہے تو چھوٹی لیکن شور اتنا مچاتی ہے جیسے آسمان سر پر اٹھا یا ہؤا ہو۔
اردو ادب نے بڑے بڑے نقاد پیدا کیے ہیں جن میں مولانا ماہرالقادری ایک بڑا نام ہے۔ میں نے ماہرالقادری کو بہت تو نہیں پڑھا لیکن جتنا بھی پڑھا ہے وہ میرے لیے بہت متاثر کن ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی نے اپنی ایک (بیہودہ) کتاب ’’یادوں کی بارات‘‘ماہرالقادری کے پاس تبصرےکے لیےبھیجی۔ جوش اردو کے ان’’دانوں‘‘میں شمار ہوتے ہیں جن کے منہ سے کوئی بھی نکلا ہؤا لفظ سند تصور کیا جاتا ہے۔ شاید جوش کا خیال ہو کہ ماہر القادری ان کی اردو دانی کے سحر میں آجائیں گے۔میرا اپنا خیال یہ تھا کہ ماہرالقادری اس کی بیہودہ گوئی کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے لیکن انھوں نے ان تمام مبتذل باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جوش کی اردو دانی کی وہ بخیہ ادھیڑی کہ مجھ جیسا جوش کا دلدادہ بھی ہونق بن کر رہ گیا۔
میں ماہرالقادری کو اپنے بچپن سے پڑھتا اور شعر و شاعری کے حوالے سے سننا آیا تھا اور بلا شبہ اس بات کا معترف تھا کہ وہ اردو ادب کے نقادوں میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں لیکن جب میں نے مولانا کی تنقیہات و تفہیمات کا مطالعہ کیا تو میں بلا تردد اس بات کا قائل ہو گیا کہ پورے برصغیر میں اگر اردو کا کوئی سب سے بڑا نقاد ہو سکتا ہے تو وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اردو شاعری میں غالبؔ ایک ایسا نام ہے جس نے میر ؔکے بعد اپنے فن کا لوہا منوایا۔سچی بات یہ ہے کہ شاعری کے خاندان میں اگر میر پہلے پیدا نہ ہوئے ہوتے تو پوری دنیا میں شاید غالب سے بڑا مقام کسی کو بھی نہیں ملتا۔ غالب پر تنقید کرنے والوں کو قلم اٹھانے سے پہلے برسو ںسوچنا پڑتا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ مولاناؒ نے غالب کی شاعری اور اس کی اردو دانی پر جس مدلل انداز میں تنقید کی اس نے غالب کی شاعری اور اس کی اردو دانی پر نہ جانے کتنے سوالات اٹھا دیے۔
مولانا ؒنے یہ میدان اپنے لیے منتخب نہیں کیا ورنہ وہ جانے کس کس کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دیتے۔ ان کی جد و جہد کا مشن اس سے بہت عظیم یعنی لوگوں کو حق کے راستے کا درس دینا تھا جس کے لیےانھوں نے اپنی ساری سانسیں وقف کرنے کا عزمِ صمیم باندھا ہؤا تھا۔
مولاناؒ نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ ملک کسی بھی مرحلے پر افتراق و انتشار کا شکار ہو اور ملک کے شہری آپس میں ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگنے لگیں۔ اس لیے ان کو اپنی زندگی میں ایک بہت مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ ملک کے مستقبل اور سلامتی کے پیشِ نظر انھوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جس اندازِ فکر کے ساتھ وہ دعوتِ الی الحق لے کر اٹھے تھے شاید مولاناؒ کا یہ فیصلہ ان کے بہت سارے ساتھیو ںکے لیے مناسب نہیں تھا۔ اس فیصلے پر انھوں نے شدید اختلاف کیا اور پھر یہی اختلاف ان سب کا جماعت اسلامی سے علیحدگی وجہ بنا۔ مولاناؒ بہر کیف اپنے فیصلے پر قائم رہے جس پر آج تک جماعت اسلامی کے اکابرین عمل پیرا ہیں۔ غور کیا جائے تو دونوں اپنی اپنی جگہ درست تھے لیکن نکلنے والوں کو یہ ضرور بتانا چاہیے کہ ان سب نے جماعت سے باہر نکلنے کے بعد دعوت الی اللہ کے لیےکون کون سے اقدامات اٹھائے اور دین کو عملاً نافذ کرنےکے لیےکیا جد و جہد کی۔ اسی طرح جماعتِ اسلامی کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ انتخابات در انتخابات میں شریک ہونے کے باوجود ان کے اب تک کیا کچھ ہاتھ آیا۔
مولانا ؒ پاکستان کو ایک خالص اسلامی ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاسمجھتے تھے کہ اقتدارِ اعلیٰ عوام کی بجائے اللہ رب العزت کے پاس ہونا چاہیے۔ حکمران حاکمِ اعلیٰ نہیں اللہ کا نائب ہوتا ہے اور وہ عوام الناس کو جو حکم بھی دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں دیتا ہے۔ مغربی جمہوریت میں حاکمِ اعلیٰ عوام ہوتے ہیں اور ان کی اکثریت جو بھی فیصلہ کرے وہ مانا اور قبول کیا جاتا ہے۔ مولاناؒ فرماتے ہیں کہ اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے۔اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتے ہیں۔اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکل پاک ہے اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے، اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہی اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔
اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیائے کرام وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کے تابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کے لیےخالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے۔قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسفؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت داؤدؑ اور نبی کریم ؐنے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں،اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی اسی طرح کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے۔ ایک طرف انہوں نے اسلام کے پورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کیساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے۔ ان کی تحریروں کے مطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انہوں نے ہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔دوسری طرف انہوںنے یہ بھی بتایا ہے کہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے۔انہوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے دور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کے لیےکی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرمائے (آمین)۔ (بحوالہ کتاب و سنت ڈاٹ کام)
ایسے ہی ہیروں اور موتیوںکے لیےعلامہ اقبال فرماگئے ہیں کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہماری مولانا کے لیے دعا ہےکہ
ٓٓٓٓٓآسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہِ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x