ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سیرتِ نبویؐ کا سیاسی پہلو – شہناز اخترشانی ؎۱

حضور اکرم ؐ کی سیرت مبارکہ کے لاتعداد پہلو ہیں۔ آپ کی پاکیزہ زندگی کے واقعات لاتعداد کتابوں میں محفوظ اور ہر مسلمان کو ازبر ہیں۔ لیکن بنی نوعِ انسان کی پوری تاریخ کا ایک عظیم انقلاب جس نے پہلے عرب کا اور پھر پوری دنیا کا نہ صرف سماجی ، اخلاقی اور معاشرتی بلکہ سیاسی منظر نامہ بھی بدل ڈالا ،اس طرف لوگوں کی توجہ بہت کم جاتی ہے۔ یوں عام لوگوں کی نظر سے آپؐ کی زندگی کا سیاسی پہلو اوجھل رہتا ہے۔
پیارے آقا محمد ؐنے نہ تو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور نہ ہی زمام کارکفر کے ہاتھ میں رہنے دی۔اللہ تعالیٰ نے جس طرح بہت سے پہلے پیغمبروں کو حکومت سے نوازا بھی اور جہانبانی اور فرمانروائی کے گُر بھی سکھائے اسی طرح محمد ﷺ کو بھی سکھایا کہ طرز حکومت کیا ہو – فرمایا :
’’حکم اللہ کے سوا کسی اور کا نہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ اس کےسوا کسی اور کی بندگی نہ کرو یہی صحیح دین ہے‘‘۔(یوسف 40:12)
سورہ المائدہ آیت 44 میں فرمایا:
’’ جو خدا کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی دراصل کا فر ہیں‘‘۔
سورہ آل عمران آیت 154 میں فرمایا: ’’وہ پوچھتے ہیں کہ اختیارات میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے؟ کہو کہ اختیارات تو سارےاللہ کے ہاتھ میں ہیں‘‘۔
اس کے مطابق حاکمیت صرف اللہ کی ہے قانون ساز وہی ہے اور انسان اللہ کے خلیفہ اور نائب ہیں۔اللہ نے پیغمبروں کو اپنا خلیفہ بنایا کوئی بھی نبی یا رسول بذات خود حکم دینے اور منع کرنے کا اختیار ر نہیں رکھتا تھا۔ نبی خود بھی اللہ کے حکم کے پیرو ہیں،اللہ کے دین کو نافذ کرنےوالے ہیں اور تمام انسانوں کو پیغمبر کی اطاعت کا حکم ہے۔ سورہ النساء آیت 64میں فرمایا:
’’ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘ کہ اطاعت کی زندگی گزارنا ہی دین اسلام کی زندگی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے دین اسلام کو ہی پسند فرمایا ہے دین ایک طرزِ زندگی کا نام ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے‘‘(آل عمران :19)۔ اور پھر اللہ عزوجل نے یہ بھی فرمایا : ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ‘‘۔ ( البقرہ 208)
کیا اس سےاللہ کا مقصود صرف عبادت و ذکر ہے اور مسلمان صرف نماز، روزہ تک محدود رہیں اور جب زندگی گزارنے کے لیے کوئی قانون بنانا ہو، عمل درآمد کروانا ہو، آپس میں لین دین، تعلقات اور دیگر معاملات در پیش ہوں ، قانون نافذ کرنا ہو، عدل اور سزاؤں کا معاملہ ہو تو وہ سب غیروں کے حوالے کر دیں؟ تاکہ اللہ کا قانون نافذ کرنے کی بجائے باطل کا قانون چلے اور انفرادی زندگی میں تواللہ موجود ہو اور اجتماعی زندگی سےاللہ اور اس کے دستورِ زندگی کو نکال دیا جائے؟ اور سیرت نبوی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے جس کے لیےاللہ نے رسولوں کو بھیجا؟
اللّٰہ نے فرمایا : ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو ہر دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو‘‘۔(التوبہ (34)
اس دین کے غالب ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ یہ کہ تمہارے معاملات خواہ معیشت سے تعلق رکھتے ہوں یا معاشرت سے، سیاست سے یا عبادات سے ہر معاملہ اللہ کے حکم کے مطابق سر انجام دیا جائے ۔ اور پھر یہ کہ اس دین کو لانے والا ہمیشہ مطاع بن کر آیا مطیع بن کر نہیں آیا۔جیسا کہ النساء کی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے کہ کسی رسول کو نہیں بھیجاگیا مگر اس لیے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے ۔
فرمایا :’’اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے حکمران / امیر ہوں‘‘(انساء59 )اور حکمرانوں کے لیے حکمرانی کی راہیں متعین کردیں کہ: ’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتےہیں‘‘۔
اور ہمارے آقا محمدؐ مصطفیٰ نے فرمایا ’’بے شک اللہ اس چیز کو سلطان (اقتدار) کے ذریعے دور کرتا ہے جو قرآن کے ذریعے دور نہیں کرتا ‘‘( کنز العمال حدیث 14284،تفسیر ابنِ کثیر)۔
جب ہم آنحضرت ؐ کی سیرت پاک اور زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں دو واضح دور نظر آتے ہیں۔ مکہ کی زندگی کا 31 سالہ دور جو انتہائی نامساعد اور مشکل حالات میں لوگوں کواللہ کی توحید کی طرف لانے کی جدوجہد کا دور ہے۔ ابھی تو لوگ اللہ کو نہیں پہچان پا رہے تھے، رسول کو مان کر نہیں دیتے تھے کیونکہ آخرت کا یقین نہیں تھا تو آپ اللہ کے نظام کو کیسے نافذ کر سکتے تھے۔اللہ کے دین کو پورے کا پورا نافذ کرنے کے لیے ایک سر زمین کی ضرورت تھی جس کے باسی آپ کو عزت و توقیر کے ساتھ رسولؐ ما نیں ۔ سواللہ پاک نے اپنے پیارے رسول کو وہ سر زمین مدینہ طیبہ کی صورت میں دی۔ اور وہاں جانے سے پہلے سورہ بنی اسرائیل میںاللہ عزیز حکیم نے 14 نکاتی منشور بنا کر دے دیا اور جب مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تواللہ نے خود یہ دعا تلقین فرمائی :
’’ اور کہو اے میرے رب مجھے جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک سلطان (اقتدار) کو میرا مدد گار بنا‘‘۔(بنی اسرائیل :80)
ذرا سوچئے! ہجرت کے وقت اقتدار کی دعا ہی کیوں منگوائی گئی ؟ اقتدار کی آخر کیا اہمیت ہے الله کے نزدیک ؟ الله پاک عزوجل نے جس دین کو نافذ کرنا تھا کیا وہ قوت اور زور کے بغیر نافذ ہو سکتا تھا ؟ نہیں نا ! اس کے لیے قوت نافذہ کی ضرورت تھی ۔ الله تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر بھیجا۔ اور اپنے رسولوں کو ہدایت کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اللہ کی حاکمیت کو دنیا میں قائم کرے۔ ورنہ ذکر و طاعت کے لیے تو فرشتے بہت تھے ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے صرف محمدؐکو ہی اقتدار قائم کرنے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ کتنے ہی انبیاء علیہم السلام آئے ہیں جنہیںاللہ تعالیٰ نے فرمانروائی سے نوازا ۔ اور جب اللہ کا نبی برسراقتدار ہو تو زمین خوشحالی اور برکتوں سے معمور ہو جاتی ہے۔
’’اور اس طرح ہم نے یوسف علیہ السلام کے لیے اس سر زمین پر اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہیے اپنی جگہ بنائے ‘‘۔(یوسف56:12)
سورہ ص آیت 26 میں فرمایا :- ۔ ’’ اے داؤود ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کرو‘‘۔
سورہ انبیاء آیت 79 میں فرمایا ہے’’ پس ہم نے سلیمان کو صحیح فیصلہ سجھا دیا اور ہم نے حکم و علم دونوں ہی تو عطا کیا تھا ‘‘
’’اور ہم نے داؤود ؑکو سلیمان عطا کیا جو بہترین بندہ تھا اور کثرت سےاللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا‘‘(صٓ 30) ۔
حضرت سلیمانؑ کے بارے میں تو سب جانتے ہیں کہ اُن کو کیسی عظیم بادشاہت عطا فرمائی تھی ۔ بلکہ انہوں نے دعا کی تھی کہ ایسی بادشاہت عطا فر ماجو نہ پہلے کسی کو ملی نہ آئندہ ملے گی ۔ اور ایک بادشاہ، ایک حاکم، ایک با اختیار اور برسراقتدار شخص کی اس سے بہتر تعریف نہیں ہو سکتی جو اللہ پاک نے سورہ ص میں بیان فرمائی۔ اسی طرح حضرت محمد ؐ نے بھی اقتدار کو مدد گار بنانے کی دعا مانگی تاکہ مدینہ میں مطیع بن کے نہیں مطاع بن کے اللہ کا قانون نافذ کریں ۔
اور پھر ہجرت کے بعد مدینہ کی ساری زندگی اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کی سیاسی جدوجہد کی زندگی ہے۔وہاں (مدینہ) پہنچتے ہی آپ نے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ دس سال کے مدنی دور میں آپ نے صدر مملکت ، قاضی القضاۃ، سپہ سالار ،معلم و مربی، ہر حیثیت سے امور انجام دیے ۔ آپ نے انتظامی احکامات جاری کیے اور سفارتی تعلقات قائم کیے۔ معاہدات کیے، افواج کو منظم کیا اور دفاعی انتظامات کیے۔ جنگیں لڑیں اور عدالتی فیصلے کئے۔ تعلیمات کا نظام قائم کیا، قرآن کی تعلیمات کو پہنچایا۔ معاشرتی اور معاشی اصلاحات کیں اور احکامات صادر فرمائے۔ الغرض ریاست کو چلانے کے لیے جس جس کام کی ضرورت پیش آئی آپ نے ان سب کا بندو بست فرمایا اور انتظام کیا۔ کیا یہ سب کام منصب نبوت سے خارج تھے ؟ ہر گز نہیں ! یہ سب ’’سلطاناً نصیرا‘‘ کی تعبیر و تشریح تھی ۔ آپ نے مدینہ طیبہ میں جاتے ہی ایک حاکم کی حیثیت سے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور وہاں کے لوگوں کی حیثیت متعین کی – انصار اور مہاجرین کو اخوت کے خوبصورت رشتے میں باندھ دیا اور یوں مہا جرین کی آباد کاری کا بہت بڑا مسئلہ اپنے تدبر سے حل کر دیا۔مہاجرین نے بھی انصار بھائی پر بوجھ بننے کی بجائے خود تجارت کا پیشہ اختیار کیا تاکہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں ۔ اس طرح تجارت و معیشت جس پر یہودیوں کا قبضہ تھا اپنے قبضہ میں کرکے اپنی معیشت کو مضبوط کیا۔ آپ نے مدینہ میں جس اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی وہ چند واضح اصولوں پر تھی۔ جو درج ذیل ہیں:
1۔قانون کی بالاتری اور قانون بھی الٰہی۔ ’’ جس چیز کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے اختیار کر لو اور چیز سے روکا گیا ہے اس سے رک جاؤ‘‘ (کنزالایمان ج1ح886)
2۔ عدل بين الناس۔’’ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے۔ درمیان عدل کروں‘‘ (الشوری5:4)
3۔مساوات بین المسلمین : ’’انما المومنومن اخوة‘‘’’ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘الحجرات(10:49
4۔حکومت کی ذمہ داری / عدل و انصاف۔
’’ اللہ تم کوحکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اللہ تمہیں اچھی نصیحت کرتا ہے یقیناً اللہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے‘‘ (النساء 4: 58 )۔
رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے : خبردار رہو تم میں سے ہر ایک راعی ہے۔ ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے اور مسلمانوں کا سب سے بڑا سردار جو سب پر حکمران ہو وہ بھی راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ ( صحیح بخاری کتاب الاحکام باب 1)
5۔ شورائیت
مسلمان ریاست کا سربراہ مسلمانوں کے مشورے اور ان کی رضامندی سے مقرر ہونا چاہیے ۔ اور اسے حکومت کا نظام بھی مشورے سے چلانا چاہیے۔ آپ نے جنگ احد اور خندق میں بھی صحابہ اکرام سے مشورہ کیا حضرت سلمان فارسی کے مشورے سے خندق کھود کر مدینہ کی حفاظت فرمائی اور بدر کےقیدیوں کے بارے میں اکابر صحابہ سے مشورہ فرمایا اور امت کو بھی سکھایا فرمایا’’میری امت کے عابد لوگوں کو جمع کرو اور اس معاملے کو آپس میں مشورے کے لیے پیش کرو (جہاں قرآن میں کوئی حکم نہ ہو) کسی ایک شخص کی رائے پر فیصلہ مت کر ڈالو‘‘ (تفسیر روح المعانی)قرآن میں بھی اللہ پاک ہدایت فرماتا ہے’’اور اُن (مسلمانوں) کے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں (الشوریٰ (38:42) ، اور اے نبی اُن سے معاملات میں مشاورت کرو ‘‘ ( آل عمران159:3)۔
6۔اطاعت فی المعروف :
’’ اوریہ کہ وہ کسی امر معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی‘‘(الممتحنہ 12:60)
رسول ؐاللہ کا ارشاد ہے ’’ایک مسلمان پر اپنے امیر کی سمع و اطاعت فرض ہے خواہ اس کا حکم اسے پسند ہو یا نا پسند تا وقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے(بخاری کتاب الاحکام باب4)۔ ’’اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ۔ اطاعت صرف معروف میں ہے‘‘ ۔ (مسلم کتاب الامارہ ،باب 8)آپؐ نے اپنی ساری قوت ان اصولوں کو نافذ کرنے میں صرف کر دی جو انسان کی فلاح کا بنیادی پتھر ہیں ۔
آپؐ نے 23 سال کی مختصر مدت میں وہ سو سائٹی قائم کر کے دکھا دی جس کا خواب آپؐ نے انسانیت کو دکھایا تھا۔ آپؐ کا قائم کردہ معاشرہ خالص خدا کی بندگی کے اصولوں پر تعمیر ہؤا جس میں داخلے کی شرط صرف لاالہ الا الله محمد الرسول الله تھی۔یہ کلمہ طیبہ تحریک اسلامی کا وہ نعرہ تھا جس میں نظریاتی روح کا پورا عکس آ گیا۔ توحید رسالت اور آخرت تینوں بنیادی عقیدے اس میں سمو دیے گئے تھے ۔ اس مختصر کلمے نے عرب کے دل دہلا دیے۔ اس ایک کلمے کی ضرب سے بڑے بڑے سرداران قریش بلبلا اٹھے مکہ میں جب اس کلمے کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مستقر بدل کر اپنی قوم اور عالم انسانیت کی تقدیر بدل ڈالی ۔ اور پھر آپؐ کی دعا سے قبلہ بیت المقدس سے بدل کر مسجد حرام بن گیا تو مسلمانوں کا جدا گانہ تشخص بھی قائم ہو گیا ۔ اور پھر یہ اسلامی تحریک اسلامی نظام کے قیام کی جدو جہد کے لیے پیش قدمی کرنے لگی جس کےاہم سنگ میل یہ تھے:
1۔سب سے پہلے میثاق مدینہ کے ذریعے سے اسلامی ریاست کا سنگ بنیاد رکھا اور حضور نے ایک منشور مرتب فرمایا جس پر مختلف گروہوں کے دستخط لیے اور یہ باقاعدہ نئی حکومت کا آئین بن گیا جس میں سب کے حقوق کا خیال رکھا گیا، یوں باہمی تعاون حاصل کیا۔ اب مدینہ میں ایک مرکزی قوت وجود میں آگئی اور تمام فیصلوں کا آخری اختیار محمد الرسول اللہؐ کے ہاتھ میں آگیا۔ یوں مرکزی اقتدار اسلام کی طرف منتقل ہو گیا اور وہی اقتدار اسلامی ریاست کا مرکز و محور قرار پایا۔
2 ۔ مواخات کے ذریعے نظریاتی اسلامی برادری کا قیام عمل میں آیا اور یوں سیاسی، معاشرتی، اقتصادی اور نفسیاتی سارے ہی مسئلے حل ہو گئے۔
3۔ دعوت اسلامی کے مرکز کی تعمیرہوئی۔ حضور حد درجہ دور اندیش مفکر و مدبر، با بصیرت، ہدایت یافتہ سیاست دان تھے۔ چنانچہ پہلی ہی فرصت میں مسجد نبوی کی بنیاد رکھی جو دین ودنیا کے مشترکہ اقتدار اور بندگی رب کی حامل تحریک کی کھلی کھلی علامت تھی۔
یہ عبادت گاہ دارالشوریٰ اور مسلمانوں کا مقام اجتماع تھی۔ یہ پہلی اسلامی ریاست کا ایوان یاپارلیمنٹ ہاؤس بھی تھی اور عدلیہ اور عسکری یونٹ بھی ۔ یہیں معاہدے ہوتے ،یہیں وفود کا استقبال کیا جاتا ، جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری ہوتی ، انفاق فی سبیل اللہ کی اپیل ہوتی اور نزاعات کے فیصلے بھی یہیں ہوتے ۔ مبلغین کی قیام گاہ یہیں مقام صفہ پر تھی اور حضور اکرم کے رہا ئشی حجرے بھی اس سے متصل تھے ۔
4۔ مدینہ آنے کے چھے ماہ بعد حضور نے اسلامی ریاست کا نشان ایک جھنڈا بھی تیار کر لیا جو سب سے پہلے عبید اللہ بن حارث کو عطا کیا گیا جو دشمن کے مقابلے میں بلند کریں اور ساتھ ہی کلمہ حق کا نعرہ بھی دیا جس سے اسلامی ریاست کا تشخص وجود میں آ گیا۔ یوں مدینہ اسلامی قوت کا مرکز بن گیا ۔
مدینہ اسلامی ریاست کا دارالخلافہ تھا تو مسجد نبوی اسلامی حکومت کا مرکزی سیکریٹریٹ، پارلیمنٹ، عدالت عالیہ، عسکری تیاریوں کا مرکزی اور تربیتی سرگرمیوں کا محور تھی ۔ یہ مسجد معاشرتی ، اخلاقی اور دینی اور نظم و ضبط کی تربیت گاہ تھی۔ یہیں سے ہمدردی، تعاون اور حریت فکر کے سوتے پھوٹتے تھے اور معاشرتی عدل کی تربیت بھی ہوتی تھی۔ ایک امام کی قیادت میں باجماعت نماز کا اہتمام کر کے اطاعت امیر اور ایک آواز پر حرکت کرنے کی مشق پیدا کی گئی ۔ آپ نے خبر رسانی کا مؤثر انتظام کیا ، دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ اندرونی فتنوں کو بر وقت رفع کیا ۔ بدر و احد و احزاب کے معرکے ہوئے۔ ساتھ ہی یہودیوں کی سازشوں کا مقابلہ کیا اور معاہدے کی خلاف ورزی پر ان کا قلع قمع کیا۔
5۔ آپ نے چھ ہجری میں قریش مکہ سے صلح حدیبیہ کر کے دعوت و تبلیغ کے لیے وقفہ حاصل کر لیا ۔ باطل کے خلاف حضور کی جدوجہد میں صلح حدیبیہ ایک حیرت انگیز اور تاریخ ساز معاہدہ ہے ۔ یہ آپ کے تدبر و سیاست کا شاہکا رہے۔
6۔آپ نے صلاحیت و جوہر قابل کا اعتراف اور استعمال کیا ۔ ایک نیا نظام اپنے لیے افراد کی ایک زبردست ٹیم کا تقاضاکرتا ہے ۔ آپ با صلاحیت افراد کو تلاش کرتے اور ان کی اہلیت کے مطابق ذمہ داریاں سونپتے۔مثلاً حضرت عمر ؓکے ایمان کے لیے دعا فرمائی، رشتہ داریاں قائم کیں ،وظائف دیے ۔ ابو سفیان کے گھرانے کی جنگی اور انتظامی صلاحتیں بروئے کار لائے۔ ان کے گھر کو فتح مکہ کے وقت امن گھر قرار دے دیا ۔ حضرت معاویہ کو کاتب وحی مقرر کیا ۔ خالد بن ولید کی عسکری صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اُن کے اسلام لاتے ہی فوج میں اعلیٰ منصب دیا۔ بدترین دشمن ابو جہل کے بیٹے عکرمہ میں جوہر قابل پایا تو فوج کی کمان دے دی۔
ہر باصلاحیت فرد کی قدر افزائی کی۔ یہ آپ کی اعلیٰ سیاسی بصیرت کا شاہکار ہے۔ اسی وجہ سے آپ کے گرد ایسے افراد جمع ہو گئے جو میدانوں کے فاتح ، مجالس صلح کے بہترین مشیراور غیر ملکی مشنوں میں اسلام کےبہترین سفیر ثابت ہوئے۔
7۔ دشمن کے خلاف وقت آنے پر قوت کا اظہار بھی کیا۔ خطرے کا بروقت نوٹس لیتے اور اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر بر وقت فیصلہ اور اقدام کرکے اسلام کی فتح کے راستے کھول دیے۔
8۔ معاہدات صلح کے ذریعے قبائل کو حلیف اور غیر جانبدار بنایا ۔
9۔ہرچیلنج کو جرأت و مردانگی سے قبول کرتے ، دعوتی قوت اور سیاسی دباؤ کا بھی استعمال کیا۔ آخر کار مکہ فتح کیا اور اس کے بعد دوسرے سلاطین اور سرداران قبائل ، چھوٹی ریاستوں کے سلاطیں اور بڑے بڑے بادشاہوں کے نام مکاتیب ارسال کیے ۔ اور اسلام کی دعوت دی۔
10۔ساتھیوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک رکھا ۔’’ وہ آپس میں رحمدل اور کفار پر سخت ہیں ‘‘ (الفتح 29)۔یعنی:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
ایک اور جگہ قرآن نے ذکر کیا’’اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہےکہ تم ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ‘‘(آل عمران 159)
11۔ فتح مکہ کے موقع پر دشمنوں کے ساتھ بلند پایہ اخلاقی سلوک کیا ۔ اور لرزتے کا نپتے مکہ کے مفتوح دشمنوں کو حضرت یوسف کی طرح فرمایا : لا تثریب علیکم الیوم ’’جاؤ آج تم سے کوئی محاسبہ نہیں‘‘۔
12۔ جانشین کے مسئلہ کا پیشگی حل دیا ۔ دنیا کو جو خوبصورت تصور سیاست دیا وہ شورائی تھا۔ نسلی جانشینی کا تصور نہیں دیا ۔ اپنی بیماری کے وقت حضرت ابو بکر صدیق کو اپنی جگہ امامت کے لیے کھڑا کر کے اشارہ دے دیا ، نامزد نہیں کیا۔
13۔ عالمگیر دعوت کا منشور
نو ذی الج 10 ہجری کو جمعہ کے دن آپ نے میدان عرفات میں جہاں ساری دنیا کے دینداروں کی موثر نمائندگی تھی اور جس سے بڑی عالمگیر اسمبلی کا اجلاس دنیا کے کسی خطے میں کہیں بھی منعقد نہیں ہؤا ، آپ نے پورے عالم انسانیت کے لیے جو منشور پیش فرمایا اس کی ہر دفعہ انسانوں کے بوجھ اتارنے والی اور انہیں اخوت انسانی کی لڑی میں پرونے والی تھی۔ اس منشور نے اس دعوت کو زندہ و پائندہ رواں دواں اور عالمگیر بنا دیا ۔ یہ منشور خطبہ حج الوداع کے نام سے جانا جاتا ہے اور آج بھی ہر مسلمان کو ازبر ہے۔ یہی وہ عظیم منشور انسانیت ہے جو ملکوں، نسلوں، قبیلوں رنگوں، زمانوں اور قرنوں کی حدود پھاند کر پوری انسانیت کے سارے ادوار کو اپنی حدود میں سمیٹ لیتا ہے ۔ جسکی دعوت عالمگیر ہے اور یہ قیامت تک کے لیے ایک زندہ ؤ تابندہ اور درخشان ہدایت کا صحیفہ ہے ۔ جس کے بعد انسا نیت کو کسی مزید ہدایت کی ضرورت نہیں۔ حضورؐ اکرم نے یہ منشور پیش فرما کر انسان کو ایک عالمی ریاست کا شہری بنا دیا۔ یہ تھی آپؐ کی وہ سیاست جو عبادت کی مانند پاکیزہ تھی اورجس نے ایک عظیم انقلاب برپا کیا ۔
آپ ؐمعاہدات ، جنگ و جدل اور مذاکرات کے مختلف سیاسی مراحل طے کرتے ہوئے ایک اسلامی ریاست کے سر براہ مملکت بن گئے۔ آپؐ کی سیاست اتنی ہی پاک صاف ستھری ، پاکیزہ اور طاہر و مطہر تھی جیسے کہ آپ ؐکی نماز ، روزے، حج اور دیگر عبادات تھیں۔ فی سبیل اللہ سیاست بھی اور عبادت بھی ۔ آپؐ نے الله ہی کی خاطر سارے امور سر انجام دیے۔ کبھی ایک وعدہ خلافی نہیں کی ، کبھی ایک معاہدہ شکنی. نہیں کی ۔ سیاسی مذاکرات میں کبھی مکرو فریب اور دھوکہ دہی سے کام نہیں لیا ۔ آپ ؐ نے دشمنوں کو ہمت، جرأت، قوت بازو اورتائید ایزدی سے پچھاڑا ۔ حضور نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ سبق دیا کہ ایمانداری، صداقت امانت داری جس طرح انفرادی زندگی کی خوبیاں ہیں اجتماعی اور سیاسی زندگی میں بھی انہی چیزوں کا وزن ہے۔
آپؐ کی سیاسی جدو جہد میں جو محکم اصول شروع سے آخر تک دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ آپؐ ایک مامور من اللہ انسان ہیں۔ اور اپنے مالک کا عائد کیا ہؤا فریضہ احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں ۔ آپ ؐ نےاللہ کے دین کا نفاذاللہ کی رضا کے مطابق کر کے دکھایا ۔ پتھر کھائے ، طائف کے بازاروں میں پاؤں زخمی کیے ، شعب ابی طالب کے مصائب برداشت کئے ، اپنے گھر اور پیارے وطن سے نکالے گئے۔بدر و احد و خندق کے معرکے بھی صبر، برداشت ، جفاکشی اور جرأت و شجاعت کے نشان ہیں ۔حضور کے مشن کی کامیابی سب سے بڑی اور مثالی کامیابی ہے۔ اورحضور کا راستہ ہی دین و سیاست اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا مستند راستہ ہے۔ اس پر اللہ نے یہ کہہ کر مہر لگادی کہ’’ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا‘‘۔(المائدہ:3)
’’اور جب اللہ کی مدد آگئی اور فتح نصیب ہو گئی اور تم نے دیکھا کہ لوگ گروہ در گروہ دین میں داخل ہورہے ہیں تو پھر اپنے رب کی تسبیح بیان کر اور استغفار کر بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے (سورہ النصر) ۔ یعنی پوری زندگی ایک عظیم سیاسی جدو جہد کے بعد دین نافذ ہو گیا اور غالب آگیا تو اب سکون سے بیٹھ کر عبادت کرنے کی ہدایت آئی۔
اس میں ہمارے لیے عمل کی کیا بات ہے ؟
’’بے شک اللہ کے رسول کی سنت میں تمہارے لیے بہترین مثال ہے‘‘( الاحزاب :21)۔ حضور کی 23 سالہ جدو جہد خصوصاً مدینہ میں دس سالہ مجاہدانہ مساعی سے وہ نظام قائم ہوا جو کائنات کے خالق کو منظور و مطلوب ہے ۔ یہ امر اس بات پر خود گواہ ہے کہ اللہ کے نزدیک انسان کی کامل رہنمائی کے لیے محض تلقین و وعظ سے کہیں بڑھ کر اسلامی نظام کا عملی نفاذ ہے۔ یہ نظام زمین پراللہ کی نیابت یا خلافت تھی اور اس کے قوانین خدائی قوانین تھے ۔ اس کے لیے حضوؐر نےاللہ کی ہدایات کی روشنی میں مختلف حکمتوں سے کام لیا۔ اس عظیم کارنامے کو سر انجام دینے میں حضورؐ کی سیاسی بصیرت و دانش و تدبر کا بڑا ہاتھ ہے۔ آپؐ کی بصیرت و حکمت سیاست وتدبر اور تدبیر مملکت حضوؐر کی سیرت کا اہم ترین حصہ ہے۔ ہمیں سیرت کے اس پہلو پر توجہ دینی ہوگی اور اس پر عمل کرتے ہوئے دین و دنیا کے جداگانہ تصور کو مٹاکر دین کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی ۔ جیسےاللہ نے فرمایا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ ۔ یہ نہیں کہ نماز روزہ حج زکوٰۃ تو کر لو اور جب اللہ کے دین کو معاشرے اور ملک پر نافذ کرنے کا معاملہ ہو تو وہ دنیا داروں کے لیے چھوڑ دو جو باطل اور اپنی نفسانی خواہشات کے غلام ہیں۔ اگر اسلام صرف چند عبادات کا نام ہے تو ملک میں امن و امان قائم رکھنا ، عدل و انصاف مہیا کرنا، سودی معیشت کو ختم کرنا ، زنا و شراب کا سد باب کرنا ، عدل و انصاف کے لیے قوانین بنانا اور نافذ کرنا ، چوری، ڈاکہ زنی اور قتل و غارت گری کو روکنا ، لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا یہ کس کا کام ہے ؟ قوانین شریعہ کو حکمت کے ساتھ ریاستی اختیار استعمال کرکےنافذ کرنا، احکام الٰہی کے مطابق حلال و حرام کو واضح کرنا ، حرام ذرائع اور حرام روزی کا سد باب کرنا، منکر کی حوصکہ شکنی اور معروف کے پنپنے کا ماحول بنانا، یہ کس کا کام ہے ؟ کیا سیاست کا میدان صرف ان لوگوں کے لیے خالی چھوڑ دیا جائے جواللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی بجائے باطل کے قوانین بنائیں ۔ ذرا سوچیے! کیا نبیؐ کی پوری زندگی اللہ کا پیغام پہنچانے اور دین کے نفاذ کے لیے سیاسی جدو جہد میں نہیں گزری ؟
لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ اسلام میں اصلی حاکم اللہ ہے اور زمین میں جو لوگ خدا کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے اٹھیں وہ اصلی حاکم کے نائب ہوں اوراللہ کا قانون نافذ کریں۔قرآن میںاللہ پاک نے فرمایا ’’جو تم میں سے ایمان لائیں اور نیک عمل کریںاللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین خلیفہ بنائے گا۔ اسی طرح جس طرح ان سے پہلے اس نے دوسروں کو خلیفہ بنایا تھا ‘‘ (سورہ النور 55:24)
ہمیں بھی سیرت نبوی ؐکی پیروی کرتے ہوئے دین کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ اور دین اور دنیا کو دو الگ الگ خانوں میں نہیں تقسیم کرنا چاہیے ۔ تو آئیے حب رسولؐ کا صرف دعویٰ نہیں عملی ثبوت بھی دیں۔اللّٰہ پاک ہمیں اتباع رسول ؐ کی توفیق عطا فرمائےآمین۔
٭٭٭

 

؎۱ پرنسپل،ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ر)

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x