ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئینِ کرام !
سلام مسنون
اس بار تو بیان کرنے کو بس غزہ پر ٹوٹی ہوئی قیامت ہے، اہلِ غزہ کے ایمان و استقامت پراظہارِ رشک ہے اور امت پر حکمرانی کرنے والے طبقے کی بے حسی کے نوحے ہیں۔ انتیس روز سے غزہ کی آبادی پرانتہائی مہلک بموں سے بمباری جاری ہے، جن کے مقابلے میں حماس کے پاس بس اپنی جانیں ہیں اور جذبہِ جہاد ہے۔سب کو نظر آرہا ہے کہ حماس کو ختم کرنے کے نام پہ یہ غزہ کے شہریوں کاقتل عام ہے جس میں اب تک ساڑھے تین ہزار بچوں سمیت ساڑھے آٹھ ہزار افراد جام شہادت نوش کرچکے ہیں اورجن میں ستر فیصد سے بھی زیادہ عام شہری ہیں۔اس اندھا دھند بمباری میں اسرائیل نے نہ مساجد اورہسپتالوں کو چھوڑا، نہ ہی پریس اور امدادی عملے کو،نہ خود ان کی ہدایات پر نقل مکانی کرتے قافلوں کو ۔اسرائیل نامی ناجائز قوت نے شیطانیت اور درندگی کا ایسا کھیل رچایا ہے کہ دنیا چیخ اٹھی ہے۔ ہر خطے اور ملک میں عام لوگ اپنی حکومتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے احتجاج کے لیے نکل آئے ہیں۔جس شخص کے اندر بھی انسانیت کی رمق موجود ہے اور ضمیر ذرا سا بھی بیدار ہےوہ اسرائیل کی مذمت کررہا ہے۔ مگر امریکہ جیسی گلوبل طاقت کی غیر مشروط اور غیر متبدل حمایت نے کرہِ ارض کے اس شیطان کو تمام جرائم کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ساتھ یورپی ممالک کی حمایت اور مدد اس کو حاصل ہے۔ عملی طور پہ اس وقت غزہ کے مٹھی بھر مجاہدین کرہ ارض کی سب سے بڑی طاقت سے نبرد آزما ہیں۔ان کے مقابل امریکہ کی پوری جنگی صلاحیت ہے۔اور وہ اس ناجائز ریاست کو بچانے کے لیے ساحلوں پر اپنے تمام سازوسامان سمیت آکھڑا ہؤا ہے۔مگر یہ سب مل کر بھی ان بے یارومددگار محصور مجاہدین کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اسی لیے زمینی حملے سے کترا رہے ہیں اور بزدلوں کی طرح باہر سے شہریوں پر بم برسا رہے ہیں۔
فلسطینی عوام اپنی تاریخ میں شہادتوں کا ایک اور خونیں باب رقم کر رہے ہیں جس سے ایک بار پھر اسرائیل کا ایک قابض ، غاصب اور نسل پرست طاقت ہونا ، اپنے بلاجواز قبضے کو ظلم ، طاقت اور نفرت سے برقرار رکھنا، اورفلسطینیوں سے غیر انسانی سلوک کرنا دنیا کے سامنے بہت کھل کر آگیا ہے۔مغربی ممالک کے عوام سراپا احتجاج ہیں مگر ان کی حکومتیں اسرائیل کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ اسرائیل کا فلسطینیوں کی زمین پہ قبضہ کر کے ان کو ستر سالوں میں آہستہ آہستہ نکال باہر کرنا، اور بچے کھچے لوگوں کی مزاحمت کو اس طرح ختم کرنا کہ ان کی شہری آبادی ہی ختم ہوجائے ، یہ عمل اہلِ مغرب کے نزدیک بہت جانا پہچانا اور نارمل ہے۔ اسی طریقے سے انہوں نے امریکہ پر قبضہ جمایا کیا، کینیڈا میں مقامی لوگوں کی جگہ ہتھیائی اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈکو بھی کالونیاں بنایا ۔دوسروں کی زمین بدمعاشی سے ہتھیانے کو اپنے لیے جائز سمجھنا ان کاماضی بھی ہے اور حال بھی۔ بوسنیا میں ہم نے مسلمان آبادی کی نسل کشی دیکھی ہےجسے ان سب مجرم طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ پھر کسی کو بھی دہشت گرد ڈکلیئر کردینا ان کا ایک اور جدید منصوبہ ہےجبکہ دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف موجود ہی نہیں۔کسی بھی تحریک آزادی اور مزاحمت کو دبانے کے لیے میڈیا کے زور پہ دہشت گردی کا لیبل لگانا، نیکی اور برائی کے کیمپ بنا دینا یہاں تک کہ خدا کو بھی بزعم خود اپنے ساتھ ملالینا ان کا طریقہ ہے۔ انہوں نے اپنے مکروہ غاصبانہ سیاسی مفادات کی خاطر مذہب کو استعمال کرنے کا طریقہ جدید دنیا میں متعارف کروایا ہے۔ایک وقت آتا ہے کہ اپنا تھوکا ہؤا انہیں چاٹنا پڑتا ہے۔ نیلسن منڈیلا اور طالبان کی مثالیں اس کا ثبوت ہیں۔
اہلِ مغرب تو جوہیں سو ہیں، عرب ممالک کی بے حسی ہمیشہ کی طرح برقرار ہے۔امریکہ نے اپنے بحری بیڑے ساحل پہ اتاربھی دیے اور مسلمان ہمسایہ ممالک اپنے معصوم بہن بھائیوں بچوں ،بزرگوں اور مریضوں پر دن رات وحشیانہ بمباری دیکھ کر ہنوزچپ سادھے ہوئے ہیں۔رہا پاکستان ، تو ہم نے اسرائیل کو تسلیم تک نہیں کیا، قائد اعظم محمد علیؒ جناح اس بارے میں ہمیں واضح پالیسی دے گئے ہیں۔ مگر ہمارے نگران وزیراعظم نے نجانے کس کی فرمائش پر ہماری اب تک کی خارجہ پالیسی کے برعکس بیان دے ڈالا کہ ہم دو ریاستی حل کے حامی ہیں۔ صحیح موقف یہ ہے کہ فلسطین سارے کا سارا فلسطینیوں کا ہے ۔ اسرائیل کی ریاست ایک ناجائز ریاست ہے اس کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ یہ فلسطینیوں سے ان کی زمین زبردستی چھین کر بنائی گئی ہے ۔جماعت اسلامی کے تحت کراچی اور اسلام آباد میں بہت بڑے مظاہرے ہوئے ہیں اور عوام نے بھر پور شرکت کی ہے۔ اس وقت کوئی عوام کی نمائندہ حکومت موجود ہوتی تو عوامی امنگوں کے مطابق بات کرتی۔اور کوئی جرأت مند قیادت ہوتی تو اس سے بڑھ کر اس ظلم کو رکوانے میں اپنا کردار بھی ادا کرتی۔
حماس کے حملے کے بارے میں بہت قیاس آرائیاں گردش کرتی رہیں ۔ ابتدا میں لگا کہ یہ ان کے خلاف ایک جال ہے مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ اسرائیل تو نہتے شہریوں پر بم برسا رہا ہے مگر حماس کے ایک ہی حملے نے دشمن کا بہت فوجی نقصان کیا ہے۔یرغمالیوں کے ذریعے بے گناہ فلسطینیوں کو ظالمانہ قید سے چھڑوانے کا موقع بھی میسر آیا ہے۔ اب وہ زمینی جنگ کے لیے اتنے تیار ہیں کہ دشمن کو داخل ہونے کی جرأت نہیں ہورہی۔عرب ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤہٹا ہے، اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کا سلسلہ رکا ہے، کئی ممالک نے اسرائیلی نمائندوں کو نکالا ہے۔ امریکی عوام اپنی حکومت سے ناراض ہیں کہ ہمارے ٹیکسوں کی رقم سے غزہ میں بچے شہید کیے جارہے ہیں، خود یہودی آبادی نے نیویارک میں بہت بڑا مظاہرہ کیا ہے اور صیہونیت کی مذمت کی ہے۔ اور تو اور امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ کھل کر اہلِ فلسطین کے حق میں نکل آئے ہیں، اسرائیل کے پرچم روند رہے ہیں۔ ان کا صیہونی میڈیا پریشان ہے کہ ہم نے کیسی تعلیم دی ہے کہ یہ ’’دہشت گردوں ‘‘کی حمایت میں نکل آئے ہیں۔سوشل میڈیا کی قوت نے جھوٹ کی بنیاد پر بنے ہوئے بین الاقوامی میڈیا کے تمام بیانیے دو ہفتوں میں ہی زمیں بوس کردیے ہیں اور تمام یورپ اپنی حکومتوں کی اسرائیل نواز پالیسیوں کی مذمت سے گونج اٹھا ہے۔ مجرموں کے چہرے اتنا کھل کر بے نقاب ہوئے ہیں کہ اب اس زمین پر موجود ہر شخص پر حجت تمام ہو گئی ہے کہ وہ کس کیمپ میں کھڑا ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کئی پہلوؤں سے حماس کی فتح دکھائی دینے لگتی ہے۔ ان حالات میں افسوس کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نےاسرائیل کی کھل کر حمایت کی ہے۔ یعنی یہود و ہنود کے گٹھ جوڑکا کھل کر ثبوت دے دیا ہے۔
حالات کے تناظر میں اس بار خاص مضمون کے طور پہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تحریر شامل کی ہے جو مسئلہ فلسطین کے تاریخی پس منظر پہ روشنی ڈال رہی ہے۔
ہماری بہت عزیز قلم کار نبیلہ شہزاد کی شگفتہ تحریریں آ پ بتول میں ملاحظہ کرتے ہیں۔ نہایت صدمے کی خبر ہے کہ ان کے شوہر کو زمین کے تنازع پر ذاتی دشمنی کے تحت کسی نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ مرحوم بہت نیک فطرت انسان اور بہت اچھی شہرت کے مالک تھے۔اتفاق یہ کہ اس بار نبیلہ کاکالم میاں بیوی کے عنوان سے ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ہماری بہن کوخصوصی صبروحوصلے سے نوازے آمین۔
اکتوبر کا سرورق شگر قلعہ بلتستان کی ایک تصویر پر مبنی ہے، اداریہ میں اس کا تذکرہ کرنا رہ گیا۔ اس بارسرورق پر غزہ کی موجودہ حالت کا ایک لمحہ ہےجوکیمرے نے قید کیا ۔
اگلے ماہ تک اجازت دیجیے بشرطِ زندگی۔
دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x