ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

رائے، اپنا تعارف ہے – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

رائے قائم کرنے کا مطلب کسی واقعہ، معاملہ، خبر، یا کسی بات کی اطلاع ہونے کے بعد اپنے علم و فہم، ذہن، تعلیم و تربیت، حالات، ماحول، خصوصاً مزاج اور نیت کے مطابق اظہارِ بیان کرنا یا ردِّعمل ظاہر کرنا ہے۔ اور یہی بیان یا ردِّعمل انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
سب سے پہلا اظہارِ بیان جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے وہ آدم کے زمین پہ خلیفہ بنائے جانے کی خبر پہ فرشتوں کی طرف سے تھا۔ فرشتوں نے اپنے علم کے مطابق یہ رائے قائم کی کہ’’وہ تو خلیفہ بن کر فساد کرے گا‘‘ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ زمین پہ جنات کو اختیارات دیے گئے تھے تو انہوں نے زمین کو فساد سے بھر دیا تھا۔ دوسری رائے فکر و اندیشے لیے ہوئے تھی کہ ایسا تو نہیں کہ ہم الله رب العزت کی حمد و ثنا میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہوں۔
اس کے بعد شیطان کی طرف سے اظہارِ بیان، اور رائے آتی ہے تو یہ کہ’’میں اس سے بہتر ہوں‘‘ اور ردِّعمل میں اولادِ آدم سے انتقام کا جذبہ سامنے آتا ہے۔ گویا کہ شیطان نے اپنا تعارف خود کرا دیا… الله الخالق نے فرشتوں کی رائے پہ اظہار فرمایا’’انی اعلم مالا تعلمون‘‘ یہ کامل علم کے منبع و سرچشمہ کی طرف سے اپنا خود تعارف تھا…. فرشتوں نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ’’سبحانک لا علم لنا إلا ما علمتنا انک أنت العلیم الحکیم‘‘ مگر شیطان نے اپنی منفی اور متکبرانہ رائے پہ اصرار کیا اور ہٹ دھرمی دکھائی۔ الله رب العزت نے اسے راندہ درگاہ قرار دے دیا۔ شیطان اپنے اظہارِ بیان اور منفی ردِّعمل کے نتیجہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رسوا ہوگیا۔
اسی طرح تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے ظہور پہ انسانوں نے اپنی اپنی ذہنیت اور ظرف کے مطابق اظہارِ رائے کیا اور ردِّعمل دکھا کر معاشرے میں اپنا کردار نبھایا۔ تو دو طرح کی شخصیات کے نمونے سامنے آئے کوئی نمرود، فرعون، ہامان اور ابوجہل، ابو لہب بنا تو کوئی عیسیٰ علیہ السلام کے حواری بنے یا آخری نبیﷺ کی پکار پہ کوئی صدیق یارِغار بنا اور کسی نے فاروق کا لقب پایا۔ باقی تمام صحابہ کرام بھی آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے (رضوان اللہ علیہم ) قرار پائے۔
عوام ہوں یا خواص انفرادی ہو یا اجتماعی کسی بھی چھوٹے یا بڑے، معمولی یا غیر معمولی معاملے میں اظہارِ رائے سے لوگوں کے لیے گریز ممکن نہیں ہوتا…. اور اس طرح سب اپنی اپنی باطنی شخصیت کو اجاگر کرنے پہ اور اپنا تعارف خود پیش کرنے کے لیے بے قرار ہوتے ہیں۔ کسی خبر یا اطلاع پہ بغیر سوچے سمجھے، فوری اور پہلا ردِّعمل اور رائے جذباتی یا غیر منصفانہ ہو سکتی ہے۔ عقلمند انسان ہر معاملے کے سارے پہلووں پہ غور و فکر کرنے کے بعد اپنا ردِّعمل یا رائے قول و فعل سے ظاہر کرتا ہے۔ اسلام اس انداز کو حکمت سے تعبیر کرتا ہے۔ اور حکمت وہ خوبی ہے جس کے لیے ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خصوصی دعا کی’’رب هب لی حکماً و الحقنی بالصالحین‘‘۔ حکمت اور ہدایت جوڑا ہے، اور ایک دوسرے کا تکملہ ہے۔ حکمت والا ہدایت کی طرف گامزن ہوتا ہے اور ہدایت یافتہ حکمت سے اپنے رتبہ کو سرفرازی اور صالحین کی معیت سے ہمکنار کر لیتا ہے…. ہدایت کی اعلیٰ ترین شان حکمت سے جڑی ہوئی ہے اور صالحین میں شامل ہونے کا موجب ہے…. ہدایت و حکمت دونوں کا خاصہ یہ ہے کہ طلب، خواہش اور دعا کرنے سے عطا کی جاتی ہیں….شریعت پہ خود عمل کرنا ہو یا کسی دوسرے کو نیکی کی تلقین کا معاملہ ہو، حکمت سے کام لینا ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے….یہی وہ دانش یا حکمت ہے جو انسان کسی کے بارے میں رائے قائم کرتے وقت ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح وہ دراصل اپنی شخصیت کی حقیقت کو نمایاں کرتا ہے۔ روزانہ قومی معاملات پہ نام نہاد دانشور ملکی حالات پہ مکالمے کرتے ہیں اور ٹی وی چینلز کی بدولت اپنی اپنی رائے کو حرفِ آخر ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی کھوکھلی شخصیت کو ہر روز اک نئی جہت سے نمایاں کراتے ہیں۔ معاملے کو کس نقطہٴ نظر سے، کس پہلو سے، کن الفاظ کے ساتھ، کس نہج پہ لے جایا جاتا ہے یہ ہر شخصیت کے اپنے ظرف اور فہم کی کہانی ہے۔ کسی جماعت سے، ادارے یا کسی شخص سے کیسا تعلق ہے، اس کی عزت، ماضی کے کردار یا تعلق داری پہ کیا لحاظ و تحفظات ہیں، سب کچھ باہمی اختلافات میں رائے کا اظہار کرتے وقت سامنے آ جاتا ہے۔
رائے کے اظہار کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ’’بالقسط‘‘ کی شرائط پہ پورا اترے۔ بالقسط یہ ہے کہ اگر کسی فرد سے ذاتی رنجش ہے یا کوئی ناپسند ہے یا سیاسی حریف ہے تو بھی عدل سے رائے قائم کی جائے۔ یعنی یہ تعلق اس بات پہ نہ اکسائے کہ اس فرد کے بارے میں منفی خبر یا اطلاع (صحیح یا غلط) ملنے پہ اپنی تسکین کے لیے اسے حقیقت کا رنگ دینے میں پیش پیش ہو جایا جائے اور یک طرفہ اطلاعات پہ فریقِ ثانی سے مکالمہ کیے بغیر حتمی رائے قائم کر لی جائے۔ اور یہ بھی کہ کسی جماعت یا فرد کے متعلق بہت سے لوگوں کی رائے مثبت ہو تو اس کو تسلیم نہ کیا جائے مگر کسی ایک فرد کی منفی رائے سے مکمل بھرپور اتفاق کیا جائے اور اس کے ہر جگہ حوالے دیے جائیں، اس لیے کہ وہ ہمارے اپنے دل کی آواز ہے۔ اور اس سے ہماری خواہشِ نفس کے مطابق شکوک و شبہات یقین میں بدلتے ہیں۔ دنیا کے سارے سیاسی و معاشرتی معاملات اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ اور’’ظھر الفساد فی البر والبحر‘‘ کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے۔ ٹی وی چینلز کے بے مقصد ٹاک شوز نے عوام الناس کے گھروں میں بھی بے مقصد بحث مباحثہ کا کلچر عام کر دیا ہے اور باہم مسائل کو ٹاک شوز کی طرح ہر کسی کے سامنے رکھنے اور کریدنے کی عادت بنتی جا رہی ہے…. اس معاملے میں’’آپ کی کیا رائے ہے‘‘،’’آپ کا کیا خیال ہے‘‘ جیسے مکالمے درپردہ معمولی مسئلے کو طول دینے کا باعث بنتے ہیں۔ اور لوگوں کے لیے محض تفریح کا ذریعہ بن جاتے ہیں…. شیطان کا یہ طریقہ بہت کامیاب رہتا ہے کیونکہ لا یعنی کاموں میں وقت کی بربادی، مسائل کا گھمبیر ہوتے جانا اسے بہت پسند ہے۔ تفرقہ پھیلانے کے لیے بھی شیطان’’نجویٰ‘‘ کا سہارا لیتا ہے اور رائے لینے دینے کی آڑ میں گھناونا کھیل جاری رکھتا ہے۔
جب کسی مسلمان کی انفرادی یا خاندان، جماعت، قوم و قبیلہ کی جھوٹی عیب جوئی ہو رہی ہو یا عزتِ نفس کو پامال کیا جا رہا ہو تو شریعت نے ان لوگوں کی سخت مزمت کی ہے جو جانتے بوجھتے اس کا دفاع نہ کریں۔ قرآن پاک میں سنی سنائی بات پہ بغیر تحقیق حتمی رائے قائم کرنے اور اس کو پھیلانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ منفی رائے دراصل بد گمانی ہے اور بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ رائے ایک گواہی بھی ہے جو ووٹ کے ذریعہ بھی دی جاتی ہے…. اور گواہی بھی حق کے ساتھ عدل اور قسط کا تقاضا کرتی ہے۔ معاشرے میں ایک دوسرے کے بارے میں رائے دینے سے پہلے ہم سب کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ ہم اپنا تعارف کیسا کروا رہے ہیں اور یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سب کے یہی قول و فعل الله رب العزت کی بارگاہ میں پیش ہوں گے اور ان کی وضاحت کے لیے زبان، دل، دماغ، آنکھ کان، ہاتھ پائوں کو خاص قوتِ گویائی عطا کر دی جائے گی پھر ہمارے بارے میں ہمارے اعضاء جو رائے رکھیں گے وہ ہی معتبر رائے اور سچی گواہی ہوگی۔
ہم سب اپنے بدن اور روح کی عافیت کے خود ذمہ دار ہیں۔ اخروی دائمی عافیت حاصل کرنے کے لیے اپنے جسم کے ہر عضو کو اور اپنی روح کو ایسا مُصفّا بنانا ہوگا کہ فرشتوں کی محفل میں الله رب العزت ہمارے بارے میں’’فساد فی الارض‘‘ کے مجرم کی بجائے’’خلیفہ فی الارض‘‘کی بہترین رائے کا اظہار فرما رہے ہوں اور فرشتے اس رائے کی تائید کر رہے ہوں یہ کہتے ہوئے کہ۔
’’سبحٰنک لا علم لنا إلا ما علمتنا انک أنت العلیم الحکیم‘‘
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x