ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کھلتی کلیاں – نوردسمبر ۲۰۲۰

خالی ہاتھ

مبشرہ یعقوب

کسی کے ساتھ بھلائی کرنا بہت بڑی نیکی ہے لیکن اگر اس میں ہمارا اپنا کوئی مطلب یا غرض ہو تو پھر وہ نیکی نہیں رہتی۔ نیکی وہی ہے جس کا اجر ہم صرف اللہ سے چاہتے ہیں ۔ جب ہم اللہ کی خوشنودی کے لیے دوسروں کے کام آتے ہیں تو اللہ تعلیٰ دنیا اور آخرت دونوں میں اس کا اجر دیتے ہیں ۔ یہ اجر ہماری نیکی کے مقابلے میں دس سے لے کر سات سو گنا تک زیادہ ہو سکتا ہے ۔ جونیکی جتنے اخلاص سے کی جائے اس کا اتنا ہی زیادہ اجر ہوتا ہے ۔ دوسری طرف آپ کسی سے نیکی کر کے بار بار اُسے جتلائیں تو ایسی نیکی کا کوئی ثواب نہیں ملتا بلکہ الٹا اپنے مسلمان بھائی کا دل دکھانے کا گناہ سرزد ہوجاتا ہے ۔ اگر کسی تھیلی میں چھید ہو توآپ اس میں جو کچھ بھی ڈالیں گے ، وہ باہر گر جائے گا اور تھیلی خالی کی خالی رہ جائے گی۔ اسی طرح آپ اپنی نیکیاںضائع کر کے آخرت میںخالی ہاتھ نہ رہ جائیں۔

٭…٭…٭

قدرت کے رنگ

حسان زبیر

آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی نے ہمیں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ ہمارے پاس اپنے ارد گرد پھیلی خوب صورتیوں کودیکھنے اور ان سے لطف اٹھانے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔ بچے ہیں تو اسکول، اکیڈمی اور امتحان کے چکر میں گھوم رہے ہیں ، بڑے ہیں تو زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے میں گھن چکر بنے ہوئے ہیں ۔ کسی کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ وہ صبح کی تازہ ہوا میں سانس لے کر اس کی تازگی کو محسوس کرے۔ رنگ برنگے پھولوں ، ان پر منڈلاتی تتلیوں کودیکھ کر خوش ہو ۔ پرندوں کی چہچہاہٹ سن کر محظوظ ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو بہت حسین بنایا ہے ۔ ہم نے اس کی خوب صورتی سے تو کیا فائدہ اٹھانا تھا ، الٹا اسے بد نما بتا رہے ہیں ۔ گاڑیوں کا دھواں ، ہارن کا شور، آسمان کو ڈھانپتی ہوئی اونچی اونچی عمارتیں ، کچرے کے ڈھیر ، اس کے حسن کو گہنا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہماری صحت کو بھی گھن لگا رہے ہیں ۔ آئیے خود سے وعدہ کریں کہ ہم کچھ ایسا نہیں کریں گے جو ہمارے ماحول کو خراب کرے اور زندگی میں کچھ نا کچھ وقت ضرور نکال کر اللہ کی نشانیوں پر غور بھی کریں گے اور ان سے لطف اندوز بھی ہوں گے۔

٭…٭…٭

بچوں کی تنظیم

محمد یوسف ملک

حامد کے گھر پر اس کے کزنز کی محفل جمی ہوئی تھی۔ سعد ،علی ، شہزاد ،حارث کراچی سے لاہور عثمان چچاکے گھر مع سازو سامان چھٹی منانے پہنچے ہوئے تھے۔ لاہور سے تین گھنٹے کی مسافت پر ان کا آبائی گاوٗ ں تھا جہاں کسی قریبی عزیز کی شادی تھی ۔ان کی اور عثمان چچا کی ساری فیملی شادی پر مدعو تھی لیکن بچوں کے والدین نے انھیں گھر چھوڑکر جا نے کا فیصلہ کیا ۔بچوں کے لیے اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی تھی۔انھوں نے فوراً حارث کے بیگ سے بلا اور گیند نکلی ،سعد کے بیگ سے فٹ بال نکلی، شہزاد اور علی کے بیگوں سے مختلف کھیل کے سامان نکلے،اور حامد بھی اپنے ذخیرے میں سے کھیلنے کے لیے بہت سی چیزیں اٹھا لایا۔اگلے دن سویرے چچاچچی اورامی ابوکی ٹرین تھی۔حامد عثمان چچا کا بڑابیٹا تھا اور عبداللہ حامد کا چھوٹا بھائی تھا جو ان سب سے بڑھ کر شرارتی تھا اورجس کا پسندیدہ شغل لوگوں کوتکلیف پہنچانا تھا، چنانچہ اس کو والدین اپنے ساتھ ہی لے گئے تھے ۔
جیسے ہی وہ سب روانہ ہوئے، تمام لڑکوں کا کھیل شروع ہوگیا جو کسی وقفے کے بغیر چلتا رہا !کھانے پینے کا ہوش کسی کو نہیں تھا ۔ کھیل سے تھکتے تو درخت پر چڑھنے اترنے کا شغل شروع کر دیتے ۔ بہت دیر بعد جب پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تو سعد اور علی نے بر گرآ ڈر کیا۔حامد کی فر مائش پرساتھ میں پیزا بھی منگوایا گیا ۔ کھا پی کر اور نئی طاقت کے ساتھ انہوں نے عثمان چچاسے اپنے گھرقائد اعظم کے بارے میں پروگرام کروانے کے بارے میں پوچھا ۔ چچاشادی کی تقریب میں مصروف تھے۔انہوں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے اجازت دے دی ۔ اجازت ملنے کی دیر تھی کہ کاروائی شروع ہوگئی ۔’’ـــ فرمودات قائد‘ ‘نامی کتاب سے سعد ، شہزاد اور حارث نے پوسٹر پر ڈرائنگ اور قائد اعظم کے بارے میں معلومات لکھیں ۔ان کے ساتھ قائد اعظم کی تصویر بنا کر اسے پینٹ بھی کیا ۔ بچوں کی دلچسپی کے لیے گیمز بھی سوچے گئے ۔ پروگرام کی تیاری کے ساتھ ساتھ اطلاع کے لیے دعوت نامے تیار کیے جو علی نے ہمسائیوں اور علاقے کے دوسرے گھروں میں جاکر دیے ۔ حامد نے پروگرام کی تیاری مثلا مایئک اور ٹینٹ اور شرکاء کی تواضع کے لیے انتظام کیا۔ان کے ہمسائے میں لڑکوں کے گورنمنٹ سکول کے پرنسپل رہتے تھے ، جنھیں مہمانِ خصوصی بنا لیا گیا ۔
پرو گرام کا آغاز تلا وت کلام پاک سے ہوا۔اس کے بعد حدیث پھر نظم پھر قائد کے اقوال اور پھرتقاریر پیش کی گئیںاور اول دوم اور سوم آنے والوں کو انعامات دیے گئے اور دوسروںکی حوصلہ افزائی کی گئی ۔پھر شر کا ء کی تواضع کی گئی اور پانچوں بھائیوں نے قائد اعظم کے بارے میں کوئز کیا ۔ حاضرین نے حوصلہ افزائی کی اور مہمان خصوصی نے کہا کہ بچوںکے پروگرامز ہونے چاہیے تاکہ بچوں کی معلوما ت میں اضافہ ہو سکے۔ اس سے ان بھائیوں کا حوصلہ بڑھا ۔ پروگرام کے آ خر میں دعا کی گئی کہ اللہ پا کستا ن کو قائداعظم اور علامہ اقبال کی چاہت جیسا بنا دے۔ اگلے دن انہوں نے اپنے والدین کو اس پروگرام کی ویڈیو دکھائی جس پر ان کے والدین نے شاباشی دی۔ان کے گروپ کا نام فائیو تھا۔ان کی ٹیم کا مقصد بچوں کے پروگرام کر نا تھا۔یہ بعد میںبچوں کی یہ تنظیم ایک بڑی تنظیم بزم ساتھی کا حصہ بن گئی ، جس کا ماٹو تھا :’’ نیک بنو ، نیکی پھیلائو !‘‘

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x