ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جھوٹ پکڑا گیا – نوردسمبر ۲۰۲۰

’’امی جان جنید ابھی تک مدرسے سے واپس نہیں آیا؟‘‘
جواد سکول یونیفارم پہنے ناشتے کی میز پر پہنچ چکا تھا۔لیکن جنید ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔
’’آرہا ہوگا …ایک تو یہ لڑکا بہت سست ہے۔‘‘ امی جان نے گرما گرم پراٹھا اور آملیٹ کی پلیٹ جواد کے سامنے رکھی اور واپس باورچی خانے میں چلی گئیں۔
’’جنید کی وجہ سے میں ہر روز لیٹ ہوجاتا ہوں۔استاد صاحب ڈانٹتے ہیں پھر۔‘‘ جواد نے پہلا نوالہ توڑا اور روز والی بات پھر سے دہرائی۔
دونوںبھائی ایک ہی سکول میں زیر تعلیم تھے۔ابو نے خصوصی تاکید کر رکھی تھی کہ چھوٹے بھائی جنید کے ساتھ آیا جایا کرو۔اور اسی لیے جواد کو روز جنید کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔
جواد اور جنید دو ہی بھائی تھے۔ان کے ابو ایک فرم میں ملازمت کرتے تھے۔جواد ساتویں اور جنید پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔جواد قرآن مجید پڑھ چکا تھاجبکہ جنید کے چند سپارے رہتے تھے۔ پچھلی گلی میں ہی مدرسہ تھاجہاں جنید صبح اور شام قاری صاحب سے قرآن پاک پڑھنے جاتا تھا۔
کچھ ہفتوں سے وہ صبح کے وقت بہت لیٹ گھر آنے لگا تھا۔جواد اس کی اس روٹین سے زچ ہوچکا تھا۔ہر روز وہ اسمبلی سے رہ جاتا اور کلاس میں استاد صاحب سے ڈانٹ پڑتی،وہ کبھی اسے مرغا بنا دیتے یا کبھی آدھا دن کھڑا کیے رکھتے۔
جنید لیٹ جاکر بھی سزا سے صاف بچ نکلتا،کیوںکہ اس کا استاد خود بھی دیر سے سکول آتا تھا۔ان کا گھر شہر سے باہر تھا۔
جواد جنید پر سختی کرنے لگا اور مدرسے سے لیٹ آنے پر اس سے باز پرس کرتا۔جنید روز کوئی نیا بہانہ بنا لیتا۔کبھی کہتامجھے سبق یاد نہیں تھا۔قاری صاحب نے دیر سے چھٹی دی۔کبھی یہ بیان کہ چند شرارتی بچوں نے میری چپل چھپا دی تھی جسے تلاش کرنے میں مجھے دیر ہوگئی۔
ایک دن جواد ناشتے کا سامان لینے دکان پر گیا۔واپسی پر دیکھا تو مدرسے کے گیٹ پر تالا لگا تھا۔گھرآیاتو جنید نظر نا آیا۔امی سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی واپس نہیں آیا۔
’’لیکن امی جان!مدرسہ تو بند ہے۔میں نے خود بڑا سا تالا لگا دیکھا دروازے پر۔‘‘ جواد حیرت سے بول اٹھا۔
’’راستے میں ہوگا۔آجائے گا ابھی ،لووہ دیکھو آ گیا۔‘‘ امی جان کی نظر بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتے جنید پرپڑی۔
’’کہاں تھے تم؟مدرسہ تو بند تھا۔اتنی دیر سے کہاں مٹر گشت کر رہے تھے؟ ‘‘جواد نے کڑے تیوروں سے جنید کو گھورا۔
’’وہ…وہ…بھائی…ہماری گلی کے کونے پر تین چار آوارہ کتے کھڑے ایک دوسرے پر بھونک رہے تھے۔آپ جانتے ہیں مجھے کتوں سے کتنا ڈر لگتا ہے، اسی لیے ایک لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف سے گھر آیا۔‘‘ جنید نے مسمسی سی شکل بنائی۔
کتے تو جواد نے بھی کھڑے دیکھے تھے۔اس نے سوچا جنید سچ کہہ رہا ہے۔ناشتے کے بعد دونوں سکول روانہ ہوگئے تھے۔

٭…٭…٭

اتوار کو چھٹی تھی ۔ جنید اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کا بتا کر چلا گیا۔جواد نے امی کے ساتھ گھر کے چند کام نبٹائے۔گیارہ بجے کے قریب بڑی خالہ ملنے چلی آئیں۔
جازم اورعائشہ بھی ان کے ساتھ تھے۔جواد اپنے کزنز سے مل کر بہت خوش ہوا اور ان سے گپ شپ کرنے لگا۔امی جان مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے باورچی خانے میں چلی گئیں۔کچھ دیر بعدانھوں نے جواد کو آواز دی۔
’’جی امی؟‘‘ جواد باورچی خانے میں داخل ہوا۔
’’بیٹا۔بسکٹوں کا جار خالی ہے۔تم قریبی دکان سے بسکٹ لے آئو،ذرا جلدی آنا۔‘‘انھوں نے اسے پیسے دیے۔
محلے میں ایک کریانے کی دکان تھی جہاں سے وہ چھوٹی موٹی اشیاء خرید لیتے تھے۔جواد دکان پر پہنچا تو ٹھٹک کر رُک گیا۔دکان کا شٹر نیچے تھا۔
’’اوہ…اب سڑک پر جانا پڑے گا۔‘‘جواد جھنجھلا اٹھا۔
اچانک اسے یاد آیاکہ مدرسے والی گلی میں بھی ایک چھوٹی سی دکان کھلی ہے۔اس کے قدم اب اس جانب اٹھنے لگے۔
جواد دکان میں داخل ہوا تو پہلی نظر جنید پرپڑی جو ایک بینچ پر بیٹھا مزے سے ٹی وی پر کارٹونز دیکھ رہا تھا۔
’’جنید تم اور یہاں؟‘‘جواد بے یقینی سے بولا۔
جواد کو دیکھ کر اس کی سٹی گم ہو گئی۔اس سے کوئی جواب نا بن پڑا۔
’’تم تو اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے گئے ہوئے تھے؟‘‘ جواد نے اسے گھورا۔
جنید شرم سے پانی پانی ہوا جا رہا تھا۔
جواد نے بسکٹ خریدے اوراسے لے کر گھر آگیا۔
’’تو مدرسے سے لیٹ آنے کی یہ وجہ تھی؟‘‘ جب خالہ اور ان کے بچے چلے گئے توجواد نے جنید سے تفتیشی انداز میں پوچھا۔وہ سر جھکا کر رہ گیا۔
جنید کو ٹی وی دیکھنے کا بہت شوق تھا۔چوں کہ ان کے گھر ٹی وی نہیں تھا اسی لیے وہ پڑوسیوں اور اپنے دوستوں کے گھر ٹی وی دیکھنے چلا جاتا تھا۔مدرسے والی گلی میں ایک ٹافی ٹکیوں کی نئی دکان کھلی تھی۔دکان پر ایک ٹی وی بھی رکھا ہوا تھا جس پر وہ دکان والا سارا دن کارٹون موویز لگائے رکھتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے اس کی دکان کا رخ کریں۔
’’بھائی جان۔پلیز مجھے معاف کر دیں۔میں آج تک آپ سے جھوٹ بولتا آیا۔‘‘ جنید شرمندگی سے بولا۔
’’جنید تمھیں علم تو ہے ٹی وی دیکھنے کا کتنا نقصان ہے۔انسان کا وقت اور اخلاق دونوں خراب ہوتے ہیں۔اب اپنی مثال ہی لے لو۔ٹی وی نے تمھیں جھوٹ بولنا بھی سکھا دیا۔ جھوٹے شخص پر کوئی اعتماد نہیں کرتا،اس کے الفاظ بے اثر ہوجاتے ہیںاور جھوٹ بولنے والے سے فرشتے بھی دور ہو جاتے ہیں۔‘‘ جواد نے اسے سمجھایا۔
’’ ہمارے پیارے نبیؐ نے فرمایا کہ جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کی طرف لگاتا ہے اور فجور (گناہ) آگ کی طرف لے جاتے ہیں۔کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں مبالغہ کی حد تک پہنچ جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ سچائی اختیار کرو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی یقینا جنت کی طرف لے جاتی ہے۔انسان سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے، حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سچا لکھا جاتا ہے۔‘‘
(سنن ابی داؤد، جلد سوم کتاب الادب 4989)
جنید کی آنکھیں نم ہوگئیں۔اس نے جواد سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولے گا تاکہ وہ جھوٹا نا لکھا جائے۔ جواد نے اُسے سینے سے لگا لیا ۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
فائزہ احسن
فائزہ احسن
3 years ago

عمدہ

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x