ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

آس کے دیپ – شاہدہ سحر کا مجموعہ کلام – بتول جنوری ۲۰۲۲

محترمہ شاہدہ سحر صاحبہ کا مجموعہ کلام آس کے دیپ بذریعہ ڈاک روبینہ فرید بہن کی وساطت سےمو صول ہؤا ۔
سرورق پر بنی آبی پینٹنگ نے بہت متاثر کیا اور آس کے دیپ کے عنوان نے امید کے جگنو چمکائے ۔
شاعری احساس کے مترنم اظہار کا نام ہے ۔اللہ تعالی نے یہ کائنات بے حد حسین و جمیل بنائی ہے اسے حسن سے آراستہ کیا ہے اور کائنات میں بکھرا جمالیاتی حسن رب کی مدح اور تسبیح کرتا نظر آتا ہے ۔ اسی مدح کو نغمگی کے قالب میں ڈھال دیا جائے اور لفظوں کا پیرہن دے دیا جائے تو شاعری بن جاتی ہے ۔
پیڑوں پر ہوا سے جھولتے اور جھومتے پتوں کی سرسراہٹ صبح کے اولین سحر آگیں لمحات میں چڑیوں کی چہچہاہٹ زبان فطرت کی شاعری ہے ۔
اللہ نے جن دلوں کو حساسیت سے نوازا وہ عجب لذت کرب سے دوچار رہتے ہیں اور یہ کرب گویائی مانگتا ہے ۔ کبھی یہ کرب ذات کا ہوتا ہے کبھی اجتماعی صورت حالات کا ۔اور جنھیں رب اظہار کا سلیقہ اور ہنر عطا کرتا ہے وہ نثر اور شعر میں اس ہنر کا کمال دکھاتے ہیں ۔
شاعری کیسے اور کیوں کر ہوتی ہے اس کا جواب آسان نہیں ۔کبھی بے ساختہ آمد کبھی جذبات کی شدت اور کبھی شعور اور آگہی کی کوئی جہت شاعری کی صورت نمودار ہوتی ہے
موجودہ دور میں پاک و ہند میں خواتین شاعرات کی بڑی تعداد سامنے آئی ہے اور اظہار کے مختلف رویے بھی سامنے آئے ہیں ۔
نسوانی شاعری یا نسائی شاعری عموماً نرم دل گداز جذبوں کی شاعری رہی ہے ۔عورت جو کبھی محبوبہ تھی اور شاعری کا مرکز تھی اب خود اعتماد سے سر اٹھائے کھڑی نظر آتی ہے اور ہجر کی کیفیت ہو یا انتظار شکوہ اور شکایت سارے رنگ عورت کی شاعری میں بڑے خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ شاہدہ سحران اہلِ قلم میں سے ہیں جو قلم کو امانت سمجھتے ہیں اور زندگی کے حسن کو بندگی کے شعور سے تعبیرکرتے ہیں۔
شاہدہ سحر کی شاعری میں سلاست اور روانی ہے ۔ذات سے زیادہ زمانے سے وابستہ موضوعات ہیں ۔مجموعہ کلام میں طویل نظموں کی ایک فہرست ہے جو شاعرہ کے کمالِ فن اوراظہار پرقدرت کی آئینہ دار ہے۔
شاہدہ سحر صاحبہ کےمجموعہ کلام سے انتخاب پیش خدمت ہے ۔
حمدیہ غزل کا ایک شعر:
غم غلط کرنے کا مجھ کو اک بہانہ مل گیا
بے قرار و مضطرب دل کو ٹھکانہ مل گیا
دشت عالم میں بھٹکتی پھر رہی تھی زندگی
شکر ہے انساں کو تیرا آستانہ مل گیا
مدینے سے تعلق پر نعتیں بہت کہی جاتی ہیں لیکن مکہ سے تعلق رکھنے والی نظم بیاد مکہ بہت خوب ہے ۔
زمیں پر رہو یا کہ جاکے فلک پر
یہاں بھی ہے مکہ وہاں بھی ہے مکہ
نہیں فاصلہ عبد و معبود میں یاں
زمیں بھی ہے مکہ زماں بھی ہے مکہ
رخصتی کی نظم ’’کہاروتم ذرا ٹھہرو‘‘ دل کو چھو لینے والی نظم ہے ۔میکےسے دلہن کی رخصتی بھی اور دنیا سے رخصتی بھی۔
تلاش، کارگل، گواہ رہنا، بہارو تم کبھی آنا شدت احساس پر مبنی

تلاش، کارگل، گواہ رہنا، بہارو تم کبھی آنا شدت احساس پر مبنی نظمیں ہیں۔
بہت دور جا کر ٹھکانہ کیا
نہ آنے کا اچھا بہانہ کیا

دیوار و در و کوچہ و کہسار تھے روشن
الفت کی وہی شمعیں جلا کیوں نہیں دیتے

میں نے منصف تجھی کو جانا ہے
فیصلہ اور کیا کرے کوئی

جہاں پر تتلیاں جگنو جہاں پر کہکشاں چمکے
سہانا اک جہاں ایسا یہاں آباد کرتے ہیں
محترمہ شاہدہ سحر اتنے مختلف موضوعات پر بھرپور انداز میں شاعری کرنے پر مبارکباد کے لائق ہیں۔
ڈاکٹر عزیزہ انجم
٭ ٭ ٭
شاہدہ سحر ملتان میں خواتین کے ادبی و سماجی حلقوں کے لیے کوئی نیا نام نہیں ہیں ۔ان کی منظوم تخلیقات’’ آس کے دیپ‘‘ کے نام سے حال ہی میںشائع ہوئی ہیں ، ما قبل ان کے ناولٹ اور افسانے بھی پڑھنے کا موقع ملا ۔ وہ نظم اور غزل کے ساتھ افسانہ ، ناول ، مضمون نگاری کو بھی ذریعۂ اظہار بناتی ہیں۔
شاعری سے خاص شغف رکھتی ہیں ۔ حمد یہ کلام بھی خوب ہے اور عشق رسولؐ سے سر شاری نعت گوئی تک لے گئی۔ ملاحظہ کیجیے:
سحرؔ کو شام نے چپکے سے یہ مژدہ سنایاہے
نبیؐ کا ساتھ بخشے گی تمہیں الفت محمدؐ کی
معاملہ بندی جہاںکی، خوب لطافت سے کی مثلاً:
اس مریضِ عشق کو سچا مسیحا چاہیے
زخمِ دل ناسوربن کراب صدا دینے لگے
یایہ دیکھیے:
سنگ باری مری قسمت میں ہی کیوں لکھی ہے
بارِ گل بھی کبھی سرپر نہ اٹھایا میں نے
شاہدہ سحر کی شاعری ان کی آپ بیتی دکھائی دیتی ہے ۔ آپ بیتی وہی لکھ سکتا ہے جسے زیست کو برتنے کا سلیقہ آتا ہو۔ ان کی آپ بیتی کہانی بھی سناتی ہے اوران کے عہد کی داستان بھی ۔ ان کی رموزِ حیات کے افسانے میں جو بھی موڑ آتا ہے وہ نعمتِ خدا وندی کے شکرانے کے طور پر برتتی ہیں۔
شاہدہ سحر کی شاعری پڑھتے ہوئے ان کی آواز اور ٹھہرا ٹھہرا سا لہجہ سماعتوںمیںرس گھولتا ہؤا محسوس ہوتا ہے ۔ وہ اندر کی گفتگو کو گویا تحریر میں لانے کا فن جانتی ہیں ان کی دل سے کی گئی شاعری بہت سادہ ہے۔مثلاً:
جب اپنی بیٹیوںکو
رخصت کیا تو جانا
آساں نہیں بھلانا
گزرا ہؤا زمانہ
جب وہ میکہ کو یاد کرتی ہیں تو سکھیوں سہیلیوں کے ساتھ وہاں کے درختوں، بارشوںاورگڑیا کی شادی کے سارے منظر دہرا دیتی ہیںجو ان کے کمال حافظے میںمحفوظ ہیں۔
نوجوان بیٹی کی جدائی کا غم سہا۔ اپنا دکھ یوںبیان کرتی ہیںگویا دکھی ان کی مامتا نہیں ہے ، وہ بیٹی جو تنہا قبر میںہے وہ ماں کو یاد کر رہی ہے اور دلاسہ کی ضرورت ماں کونہیںان کی بچھڑی شہزادی کو ہے ۔ نہ کوئی نوحہ ، نہ شکوہ بلکہ بیٹی کو بتا رہی ہیں کہ اصل مکاں تو یہی ہے ۔سنیئے کیا کہتی ہیں:
اتارو لحد میں یہی ہے مکاں
مدد گار کوئی یہاں نہ وہاں
میری پیاری لخت جگر غم نہ کر
سدا نور برسے تری لحد پر
دوسری جانب انہوں نے غم دوراں کو بھی غم جاناں سمجھ کر نبھایا ہے ، البدر بنگال، مجاہد ین کشمیر کے نام ترانہ کشمیر یا خطہ کشمیر سے واپسی کی یادیں پر ان کی سادہ بحر کی طویل نظم ان کے گہرے احساس کی آئینہ دار ہے۔

پر ان کی سادہ بحر کی طویل نظم ان کے گہرے احساس کی آئینہ دار ہے۔
وہ میری مائیں بہنیں …میری راہ تک رہی ہیں
وہ کھلتی پھول کلیاں…سر راہ کٹ رہی ہیں
شہید اپنے سروںکی …بھی فصلیں بو گیا ہے
مراکچھ کھو گیا ہے … مرا کچھ کھو گیا ہے
یہ آخری مصرعہ ایک المیہ کی داستان ، ایک ہمہ وقت کسک کے سوا اور کیا ہے ؟
شاہدہ سحر نے مجموعہ کلام کا نام ’’ آس کے دیپ‘‘ رکھاہے ۔ ان کا کلام پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے مشرب میںمایوسی حرام ہے ۔ وہ زندگی کے رنگوںکو بھرپور طور پر برتنے کی قائل ہیں ۔ ان کی شاعری میںبلا وجہ کی نشتر زنی کے بجائے زندگی کو جینے اور برتنے کی امنگ نظر آتی ہے ۔
نہ غم کر اے دلِ نادان حبسِ بے جا میں
سحرؔ کرے گی شبِ غم کو ضوفشاں لوگو
یا
زخم پر زخم جو کھائے تو زمانے نے کہا
وارِ کاری ہی تو اپنوںکی ادا ہوتا ہے
وہ اپنے خیالات و تصورات ایک خوش گوار مسکراہٹ کے ساتھ قرطاس پر بکھیرتی ہیں تو ان کا قاری اسی شادابی سے اس کا مفہوم وصول کر لیتا ہے ۔درجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں:
گرتے ہی بن جاتے وہ تو لعل و گہر نایاب
آنکھوں سے آنسو ٹپکانا اچھا لگتا تھا
خواہش تھی آنگن میں دیکھیں پر یوں کی بارات
سکھیوں کا آنچل لہرانا اچھا لگتا تھا
وقت کبھی نہ بیتے گا ،گر مل کر گائیں گیت
ایسے سب کو خواب دکھانا اچھا لگتا تھا
شاہدہ سحر کی ’’ آس کے دیپ‘‘ ڈھائی سوصفحات پرمشتمل ان کی منظوم تخلیقات کو ماورا پبلشر لاہور نے سلیقے سے شائع کیا ہے ۔
مجموعہ کلام کے پیش لفظ میںوہ لکھتی ہیں :
’’ یہ زندگی کامختصر فسانہ ہے ، قلم پکڑا تو قلم کی قسم کھانے والے نے انگلی پکڑ لی ۔‘‘
شاہدہ کو یہ سنگت اور سعادت مبارک ہو ۔دعا ہے کہ ان کے لفظوںکی خوشبو ذہنوں میںاجالا بن کر پھیل جائے ۔ شاعرانہ ذوق ِ نفیس رکھنے والوںکی لائبریری کے لیے ’’آس کے دیپ‘‘ ایک اچھا اضافہ ثابت ہو گی ۔
دعائیں
افشاں نوید
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x