ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دنیا بدل جائے گی؟- بتول جون ۲۰۲۱

تبدیلی ایسا پرکشش لفظ ہے جس کے پیچھے یقینی بہتری اور امید کا تصور ہی غالب رہتا ہے۔ تبدیلی کی ایک حقیقت وہ ہے جو خالق نے انسان کے اندر فطرتاً ودیعت کر دی ہے۔ بہتر سے بہترین کی تلاش اسے ہر وقت متحرک رکھتی ہے۔ غذا سے لے کر بودوباش تک تبدیلی کی خواہش جسمانی و ذہنی آ سودگی کا باعث بنتی ہے۔ گھروں میں ہر ممکن آرام و آسائش کے مالک معمول کے لیل و نہار سے نکل کر دریا و صحرا دیگر قدرتی مناظر میں خیمے لگا کر شب وروز گزار کر تبدیلی کا شوق پورا کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی کے پاس سارے قدرتی مناظر گھروں کے اندر قید کر لینے کی قدرت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بھی کائنات میں دن کے پہر اور سال کے موسم بدلنے کی ترتیب رکھ دی ، موسم کے لحاظ سے پھل سبزیاں مہیا کر دیں، کہیں خشک سالی ہے تو کسی خطے میں بارشوں کا لا متناہی سلسلہ ہے۔
کرۂ ارضی میں کچھ تبدیلیاں ترتیب وقت سے ہٹ کر بھی لائی جاتی ہیں۔ طوفان بادو باراں سیلاب اور زلزلے، وبائیں ,ناگہانی حادثے جو تبدیلی کا مظہر ہوتے ہیں تو مصائب کا پیام بھی ہوتے ہیں۔
ہر مصیبت انفرادی ہو یا اجتماعی انسانی زندگی کو متاثر کرتی اور معمولات کا رخ تبدیل کرتی ہے۔ جسمانی صحت، معاشی حالات کی تبدیلی اور نقل مکانی سے بھی، معاشرتی اور سماجی رویوں میں تبدیلی آ جاتی ہے کوئی چاہے یا نہ چاہے یا کوئی مانے یا نہ مانے۔
کیا ہمارے سامنے ایسے واقعات نہیں ہیں کہ ہجرتوں کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے فقیر تو امیر ہوگئے اور امیر محتاج ہوگئے۔ زلزلے ، سیلاب اور ناگہانی حادثات پل بھر میں عرش سے فرش پہ لا پٹختے ہیں لیکن انہی مصائب کی بدولت کچھ لوگوں کی حالت بہتر ہوجاتی ہے تبدیلی تو دونوں کے ساتھ ہوئی۔
یہی وہ اسکیم ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
تلک الایام نداولھا بین الناس
حالات تبدیل کر دینے کی اسکیم میں وہی حکمتیں پوشیدہ ہیں جو دن رات اور موسموں کے تبدیل ہونے میں ہیں۔
تقدیر پہ ایمان وہ سکینت ہے جو ہر حال میں انسان کو رب سے راضی رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے پہ ایمان کا پیمانہ اسی وقت پتہ چلتا ہے جب حالات و واقعات کی اکھاڑ پچھاڑ انسان کے جمے جمائے معمولات زندگی میں ہلچل پیدا کرتی ہے، اور نفع یا نقصان سے واسطہ پڑتا ہے اور مفادات میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ تبدیلی سماجی ہو معاشی۔ مکانی یا معاشرتی، اچھی ہو یا بری، مومن کا دل رب سے تعلق بڑھانے کا باعث ہی بنتی ہے۔ اگر حالات نامساعد ہو جائیں تو مومن اپنا محاسبہ کرتا ہے کہ کیا یہ بری تبدیلی میری کسی خطا کا باعث ہے یا امتحان ہے ؟اور بہتر تبدیلی میں میری کیا آزمائش مضمر ہے؟ اور غیر متوقع ترقی سے کہیں میری نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی دینا مقصود تو نہیں؟
یہ افکار اگر ہر فرد یا اکثریت کے ذہن میں آ جاتے ہیں تو قوم کسی ناقابل تلافی نقصان سے محفوظ رہتی ہے۔ اور اعتدال کے راستے پہ گامزن رہتی ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے پوری دنیا میں غیر متوقع اور غیر معمولی تبدیلی کی لہر نے لوگوں کے کاروبار زندگی کو معطل کر رکھا ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی کا دنیا سے رخصت ہونا قلبی، ذہنی افسردگی، پژ مردگی اور خوف میں اضافہ کرتا ہے۔ لواحقین سے ہمدردی اور تعزیت کے اطوار میں تبدیلی آنے سے دل مہجور رہتے ہیں۔
جب رواں دواں زندگی میں آفاقی تعطل برپا ہو جاتا ہے تو یہ قدرت کی طرف سے اشارہ ہوتا ہے کہ اپنے ماضی کی روشنی میں اپنے حال پہ غور کرو اور مستقبل کے لیے بہتر تبدیلی کا شعور پیدا کرو۔
کسی بھی پھسڈی طالب علم کو ماضی میں کی گئی شرارتوں ، کوتاہیوں

کا حوالہ دے کر اس کے حالیہ نتیجہ پہ غور وفکر کی دعوت دی جاتی ہے اور مستقبل میں بہتر نتائج لانے کی نصیحت کی جاتی ہے۔
امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کے اس مدرسہء کائنات میں ایک بہترین کارکردگی دکھانے والی جماعت ہے۔ جس کا نصاب قرآن پاک اور جس کا استاد محبوب رب العالمین ہے۔
کیا اس کرہ ارضی پہ برپا ہونے والی آفت پہ اس جماعت کے کسی بھی طالب علم کو اپنے نالائق ہونے کا احساس ہؤا؟ رواں دواں زندگی کے اس تعطل میں کس نے اپنے ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں پہ کماحقہ‘ معافی طلب کی؟ اور کس اسلامی ملک کے سربراہ نے امت مسلمہ کے موجودہ دگرگوں حالات پہ پریشانی کا اظہار کیا اور کتنے اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے امت مسلمہ کے مستقبل میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے ایجنڈا پیش کیا؟
جب اجتماعی تعطل ہے تو قدرت کا اشارہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں پوری اجتماعی قوت بہتر تبدیلی کا عہد کرے۔ تبدیلی کی سب سے خوب صورت اصطلاح’’ توبہ‘‘ ہے۔ انفرادی تنبیہہ ہے تو انفرادی توبہ، اجتماعی تنبیہ ہے تو اجتماعی توبہ۔ اور توبہ انفرادی ہو یا اجتماعی خالص اور سچی اصلاح کی شرط کے ساتھ مطلوب ہے۔ توبہ کے ذریعے مثبت تبدیلی کا یہ احساس دنیا کا سب سے زیادہ طاقت ور احساس ہے۔ جس سے زندگی ذلت سے عزت کی طرف اور جہنم سے جنت کی طرف لوٹ آتی ہے۔
خوب اور ناخوب کے پیمانے یکسر بدل جاتے ہیں۔ گویا گردش لیل و نہار کے زاویے مثبت پہلوؤں کا نشاں اور کامیاب منزل کا سنگ میل بن جاتے ہیں۔
عوام الناس کا خیال ہے کہ اب دنیا بدل جائے گی پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ کون جانے کہ دنیا بدل جانے کا بیانیہ کس نہج پہ دیا جا رہا ہے؟ دنیا کے کسی خطے میں انسانوں کے نہ رنگ بدلیں گے اور نہ نقش و نگار اور کون کہتا ہے احسن تقویم کی جسمانی ہیئت یہ نہ رہے گی۔ پہاڑ اپنی جگہ سے ہلیں گے، نہ سمندر انسانو ں نے اٹھا کر کہیں اور لے جانے ہیں۔ آسمان یہی رہے گا اور زمین بھی کوئی جدید نہیں لائی جا سکے گی۔ اولاد آدم میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہے گا اور موت وارد ہوتی رہے گی۔ وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ دنیا پہلے جیسی نہ رہے گی۔ معلوم نہیں دنیا میں تبدیلی اچھی آنے کے امکانات ہیں یا بری تبدیلی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ایک معقول طریقہ موجود ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ تبدیلی آئے گی یا نہیں اور اچھی آئے گی یا بری۔
کرونا کی وجہ سے دنیا میں جو معمولات میں تعطل پیدا ہوگیا ہے اس کے بعد دنیا میں کچھ تبدیلیاں رونما ہونے کے امکانات ہیں۔ ہر فرد اپنے نقطہء نظر سے اندازے لگا رہا ہے۔ اور بحیثیت قوم کے بھی ہر ملک اپنے انداز سے اپنا مفاد دیکھ رہا ہے۔
امت مسلمہ کاایک فرد اور پاکستانی ہونے کے ناطے میرے اور آپ کے اندر کیا تبدیلی آئی ہے؟ یا کیا تبدیلی لانے کا منصوبہ بنایا ہے؟
کیا دنیا کی محبت رخصت ہوگئی ہے؟ کیا باہمی تنازعات کی معاملہ فہمی کے لیے انا کا بت پاش پاش کر دیا ہے؟ کیا رشوت خور تائب ہوگئے ہیں یا سود خوری ختم ہوگئی ہے؟ خوراک میں ملاوٹ کرنے والے اللہ کے خوف سے راہ راست پہ آگئے ہیں یا دوائیں خالص ملنے کا یقین ہوگیا ہے؟ چھابڑی والے اور حکومت کے ادارے یکساں ایمان دار ہوگئے ہیں؟ بچوں کی معصومیت محفوظ ہوگئی ہے اور کیا ظالم کو سر عام سزا دینے کا قانون لاگو ہوگیا ہے؟ قانون کی پاسداری کی عادت پختہ ہوگئی ہے؟ کیا زبان اور ہاتھ سے دوسروں کی عزت نفس محفوظ ہے؟ کیا ہم نے حیا کا چلن عام کر دیا ہے؟
کیا میرا اور آپ کا دل دنیا سے زیادہ آخرت کا طلب گار ہوگیا ہے؟ کیا اپنی شخصی برائیوں کا ادراک ہوگیا ہے؟ اور کیا کچھ ایسے اقدامات کر لیے ہیں کہ یہ برائیاں اچھائیوں میں بدل دی جائیں۔ اور کیا ’’ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ کے معیار پہ پورا اترنے کا میدان تیار کر لیا؟ اگر ہر فرد نے اپنا معیار زندگی ایسا مثالی بنا لیا ہے تو دنیا لازماً جنت نظیر ہو جائے گی۔ اگر افکار و اقوال اور اعمال وہی ہیں قلب و ذہن میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں تو پھر اس فساد بھری دنیا کے بدل جانے کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اگر میرا اور آپ کا دل نہیں بدلتا تو ہماری فرمائش پہ دوسرے اپنا دل کیوں بدلیں جب کوئی دل ایمان و اخلاق وفاداری

کے پیمانے پہ پورا نہیں اترے گا تو بھلا دنیا سے کیوں اور کیسے فتنہ و فساد ختم ہو جائے گا ؟
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x