ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دعاکی برکت – نور جنوری ۲۰۲۱

” اوہ! آج تو دیر ہوگئی‘‘۔وہ ہر بڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ ”لیکن الارم کیوں نہیں بولا ؟‘‘وہ یہ سوچ کر ہی رہ گیا۔دیرہورہی تھی۔اس نے جلدی سے کمبل اُتارکر پھینکااوربرش لے کر غسل خانےمیں گھس گیا۔
’’امی جان!اسکول کاوقت ہورہا ہے۔آج الارم بھی نہیں بجااورآپ نے بھی نہیں جگایا۔“اس نے اپنی امی کی جانب دیکھتے ہوئے منہ بسور کر کہا:
’’بیٹا! میں سمجھی آپ جاگ گئے ہو‘‘۔ امی جان نے اس آگے ناشتہ رکھتے ہوئے کہا۔
حماد نے جلدی جلدی ناشتہ کیااور امی جان کو خدا حافظ کہتا ہوا اسکول کے لیے روانہ ہو گیا۔
حماد اپنی پیاری سائیکل کو تیزی سے چلاتے ہوئے اسکول جا رہا تھا۔ ُاس نے اپنی سائیکل کا نام ”صبارفتار“ رکھا ہوا تھا۔اسےاس کی رفتارپربڑانازتھا۔پچھلے سال کلاس میں اول آنے پر بابا جانی نے اسے یہ تحفہ میں دی تھی۔اچانک سامنےسے ایک کار تیز رفتاری سے اس کی جانب آئی۔وہ بوکھلااٹھا۔ کار سے بچنے کےلیے اس نے جلدی سے سائیکل کا رخ دوسری جانب موڑا لیکن بد قسمتی سے سائیکل فٹ پاتھ کے ساتھ کھڑےگھنے درخت سے جا ٹکرائی ۔ اس کے حلق سے دہشت ناک چیخ بلند ہوئی، اس کی آنکھوں کےآگےاندھرا چھا گیا اور اسے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔وہ اچھلتا ہوا دور جا گرا۔ حواس بحال ہونے پر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنا یونی فارم جھاڑ کر صاف کرنے لگا ۔ اُس کی کہنی اور پاؤں پر خراشیں آئی تھیں۔حماد نے اپنی گری ہوئی سائیکل اٹھائی ،اس پر سوار ہوااور اسکول جا پہنچا ۔
٭ ٭ ٭
حمادجب اپنی جماعت میں پہنچاتوسبق شروع ہوچکاتھا۔سب بچے قرآن پاک کا سبق بلند آواز میں پڑھنے میں مصروف تھے۔قاری عبدالرشید صاحب نے حماد سے دیر سےآنےکاسبب پوچھا۔اس نےجب اپنےساتھ پیش آنے والے حادثے کا بتایاتوانھوں نےاسےکچھ نہیں کہا۔
قرآن پاک کا سبق سننے کے بعدقاری صاحب نے ڈائس پر ہاتھ مار کر بچوں کو متوجہ کیا۔
’’ آپ سب باری باری آتے جائیں اورجودعاکل ہم نےیادکی تھی، ترجمے کے ساتھ سناتے جائیں‘‘۔
سب بچوں نے ایک ایک کر کے قاری صاحب کو دعا ترجمہ کے ساتھ سنائی ۔قاری صاحب بچوں کو سپارے کا سبق دینے کے بعد چھوٹی چھوٹی دعائیں ترجمے کے ساتھ زبانی یاد کراتے ۔اس طرح بچوں کو بہت سی دعائیں زبانی یاد ہوگئی تھیں۔

٭ ٭ ٭

چوں چوں چوں…….ننھی منی بھولی بھالی پیاری پیاری چڑیاں دانہ چگتےبڑی بھلی لگ رہی تھیں۔وہ ایک دم سے پُھر کر کےایک ساتھ اڑتیں ،پھر ایک دم واپس آتیں۔حمادروزانھیں دانہ ڈالتاتھا۔ننھی منی چڑیاں ڈرتے ڈرتےدانہ چُگنےمیں مشغول تھیں۔ایک چڑیااپنےدو ننھے منے بچوں کوبھی ساتھ لاتی۔ باجرے والی پرات سے دانہ اپنی ننھی چونچ میں اٹھاتی اوران کےمنہ میں ڈالتی۔ یہ چڑیاں روز انہ یہاں باجرہ کھانےاور پانی پینے آتیں ۔کبھی کبھی دوسرے پرندے بھی آجاتے ۔صبح آسمان پر نیلی روشنی جب اندھیرے کوچیرتی ہوئی نمودار ہوتی، تو ایک ایک کر کے چڑیاں اور دوسرے پرندے دانہ چُگنے آنے لگتے۔حماد کا دل اُن کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا،اسے پرندے بہت پسند تھے ننھی ننھی چڑیاں چوں چوں چوں کرتیں اسے بہت ہی پیاری لگتیں۔وہ روز اسکول جانے سے پہلےان کےلیےباجرہ اور پانی رکھ کے جاتا۔
آج حماد اسکول سے واپس آیاتو چڑیاں چوں چوں کرکے شور مچا رہی تھیں۔ وہ بھاگا بھاگا چھت پر گیا۔ ’’ارے!دانہ ختم ہوگیا۔‘‘ وہ زیرلب بڑبڑایا۔اسے یاد آیا آج اسکول کی جلدی میں وہ باجرہ پانی رکھنا بھول گیا تھا۔
” حماد بیٹا! آپ پہلے ہاتھ منہ دھو کر کپڑے تبدیل کروپھرآکر کھانا کھاؤ۔“ امی جان نےباورچی خانے میں سے آواز لگائی۔
’’امی جان! پرندے بھوکے ہیں ،پہلے انہیں کھانا دے آؤں‘‘۔ حماد نے جواب دیا۔
امی جان مسکرا دیں۔وہ جانتی تھیں کہ چڑیوں سےحمادکی دوستی ہے۔
’’ارے! باجرہ تو ختم ہوچکاہے۔ بس میں ابھی بازارسےلایا‘‘۔باورچی خانے میں باجرہ نہ پاکر وہ بولا۔
’’یہ لوپیسے لواورجلدی سے باجرہ لے آؤ‘‘۔ امی جان نے اسےپیسے پکڑا ۓ۔
حماد کے ماموں بازار میں کھڑے پھل والے سے آم خرید رہے تھے۔اچانک دس بارہ لوگوں کا رش لگ گیا۔سڑک کے بیچ میں ایک موٹر سائیکل اور رکشہ والا کھڑا تھا۔ماموں رش کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے۔دیکھا کہ ایک آدمی حماد کو تھپکی دیتے ہوئے کہہ رہاہے۔
’’بچت ہوگئی۔شکر ہے اللہ نے محفوظ رکھا‘‘۔
ماموں گھبرا کر آگے بڑھے۔خیریت معلوم کرنے کے بعد اسے اپنے ساتھ گھر لے آئے۔
” کیا ہوا بیٹا! کہاں چوٹ لگی میری جان۔‘‘حماد اور اس کے ماموں نےگھر میں قدم رکھا تو اس کے گندے کپڑے دیکھ کر امی جان نے بدحواسی سے پوچھا۔
’’کچھ خاص نہیں امی جان!میں جب چڑیوں کے لیے باجرہ لے کر آرہا تھا تو ایک موٹر سائیکل کو بچاتے بچاتےایک رکشا بے قابو ہو گیا۔ میں قریب ہی سڑک پار کر رہا تھا لیکن اللہ پاک نے مجھے اپنے حفظ وامان میں رکھا‘‘۔حماد نے اپنی امی جان کو تفصیل بتائی۔
اتنے میں اس کے بابا جان تیز تیز قدم اٹھاتے گھر میں داخل ہوئے۔انھیں باہرہی کسی نےحادثےکابتادیاتھا۔وہ ماموں جان سے اس تفصیل پوچھنے لگے۔امی جان نے اسے اپنے سینہ سے لگا لیا۔
’’اف میرے اللہ!دھیان سے چلتے ہیں بیٹا ‘‘۔وہ اس کی بلائیں لے رہی تھیں۔
’’ پتا ہےامی جان ! اللہ پاک نے مجھے کیوں بچایا‘‘۔اس نے امی جان سے الگ ہوتے ہوئے سوال کیا۔
’’تم ہی بتاؤ بیٹا! “انھوں نے کہا۔
”میری پیاری امی جان! ہمارے استاد نے دو دن پہلے ہمیں ایک بہت پیاری دعا یاد کروائی تھی ۔گھر سے باہر نکلتے وقت کی دعا۔میں جب بھی گھر سے باہر قدم رکھتا ہوں تو پہلے یہ دعا پڑھ لیتا ہوں۔ “بسم اللہ تو کلت علی اللہ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘۔
ماموں جان نے اسے مسکرا کر دیکھا اور شاباشی دی۔
”بابا جان!ہمارے استاد محترم نےاس کا ترجمہ اور فضیلت بھی یاد کروائی ہے“۔حماد نے بابا جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’اللہ کے نام کے ساتھ، اسی پر بھروسہ کیا۔نہیں ہے کسی کی طاقت اور نہ ہی قوت سوائے اللہ کے‘‘۔ حماد نے ترجمہ سنایا تو بابا جان نے اسے پیار کیا۔
’’ بابا جان! جو کوئی بھی گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو فرشتہ ُاس شخص کے لیے تین خوش خبریاں سناتا ہے۔ تمہاری حفاظت کی گئی۔تمہاری کفایت کی گئی۔جس کام کے لیے نکلے ہو اس میں تمہاری امانت یعنی مدد کی گئی۔ بابا جان !ہم سب کو گھر سے باہر قدم رکھتے ہی یہ دعا پڑھنی چاہیے“۔
ماموں جان نے کہا۔’’حماد میاں! اب ہم بھی یہ دعا پڑھ کر گھر سے باہر جایا کریں گے‘‘۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x