ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عمر پر کیا گزری – نور جنوری ۲۰۲۱

رابعہ سے ملاقات اور بات چیت کے کئی دنوں بعد تک نینا اُداس اور بے چین رہی۔ وہ سوچتی تھی کہ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ شاید اس کے دوستوں کے حق میں بہتر نہ ہو ۔ وہ کبھی بالکل چُپ ہو جاتی ، کبھی بے تحاشہ ہنسنے لگتی ۔ اس ذہنی دبائو نے اس کی صحت پر بھی اثر ڈالا تھا ۔ وہ بہت کمزور اوربیمار نظر آنے لگی تھی ۔ بلو سائیں کی عقابی نگاہوں نے نینا میں آنے والی تبدیلی بھانپ لگی تھی ۔
اتوار کی رات بلوسائیں اور فہیم بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ نینا تیار ہو کر باہر جانے کے لیے نکلی۔
’’ کہا جارہی ہو؟‘‘ بلو چیخا۔
’’ مجھے نہیں معلوم۔‘‘ نینا نے جواب دیا۔
’’ تو مجھے معلوم ہے ۔تم کہیں نہیں جا رہی ، بیٹھ جائو۔‘‘ بلونے اسے زبردستی کرستی پر بٹھاتے ہوئے کہا۔
’’ مجھے جانا ہے بلو۔ پلیز مجھے جانے دو،۔‘‘ نینا نے التجا کی۔
بلو سائیں ایک دم طیش میں آگیا ۔وہ اسے کھینچتا ہوادوسرے کمرے میںلے گیا ۔ نینا نے مزاحمت کی ۔ اسی وقت گھنٹے نے بارہ بجائے ۔ آدھی رات ہو چکی تھی۔اب باہر جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔وہ تھک کر بیٹھ گئی۔ بلو اس پر چیخ چلا کر واپس فہیم کے پاس چلا گیا۔
’’ آخر یہ لڑکی باہر جانے پر اتنی بضد کیوں تھی؟ ‘‘اس نے پوچھا۔
’’ نہ جانے کیا مسئلہ ہے ۔‘‘ فہیم نے سوچتے ہوئے جواب دیا ۔
تھوڑی دیر بعد نینا کمرے سے باہر آئی تو اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے لال ہو رہی تھیں ۔ فہیم جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ۔ نینا اسے دروازے تک چھوڑنے آئی ۔
’’ پیاری نینا۔ بلو تم پر ظلم کرتا ہے ۔ تم آخر کیوںاسے … ‘‘ جاتے جاتے فہیم نے سرگوشی کی اور اپنا جملہ نا مکمل چھوڑ دیا ۔ وہ بلو سے نفرت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ نینا اسے مار ڈالے ۔ نینا یہ بات سمجھتی تھی۔
’’ اچھا اس کے بارے میںبعد میںبات کرتے ہیں ، لیکن یاد رکھنا پیاری نینا ! اگر لوگ تمھیں کتے کی طرح ماریں ، تو میرے پاس آجانا۔‘‘
’’ میں جانتی ہو۔ ‘‘ نینا نے جواب دیا اور دل میںسوچا ۔
’’ فہیم میں تمھاری مکاری بھی جانتی ہوں۔‘‘
’’خداحافظ!‘‘ نینا نے جلدی سے کہتے ہوئے دروازہ بند کردیا۔
فہیم نے سوچا کہ شاید نینا راز داری سے کسی اور سے ملنے باہرجانا چاہتی ہے ۔ اس کے شیطانی دماغ نے ایک منصوبہ بنایا ۔ وہ اس آدمی کا نام معلوم کر کے نینا کو دھمکائے گاکہ وہ بلو کوبتا دے گا ۔ نینا بلو سے خوفزدہ ہوکر کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائے گی ۔ پھر فہیم اس کو کوئی چیز دے گا جسے پینے سے بلو کی موت واقع ہو جائے گی ۔ پھر وہ نینا سے جو مرضی چاہے ، کام کروائے گا ۔ فہیم اپنے اس منصوبے سے بہت خوش و مطمئن تھا، اب اس کو ایک شخص کی تلاش تھی جو نینا کی نگرانی کرسکے ۔ جلد ہی اسے اپنے مطلب کا آدمی مل گیا ، عمر کا پرانا دشمن …نعمان !
نعمان اب صابر صاحب کے یہاں کام نہیں کرتا تھا ۔ اس نے ان کے یہاں سے کچھ رقم چوری کی اور وہاںسے لاہور بھاگ آیا ۔ وہ رہائش کے لیے جگہ ڈھونڈ رہا تھا کہ فہیم سے ملاقات ہو گئی۔ فہیم نے نعمان کو نینا کی جاسوسی کرنے پر لگایا اور اس کام کے لیے رقم کا لالچ دیا۔
’’نعمان ، میں تمھیں دکھا دوں گا کہ نینا کون ہے ۔ ہر رات جب وہ باہر جائے توتمھیں اس کا پیچھا کرنا ہوگا ۔‘‘
اگلی اتوار فہیم بہت پر جوش تھا ۔
’’مجھے یقین ہے نینا آج رات ضرور باہر جائے گی ۔ بلو بھی گھر پر نہیں ہے ۔ چلو آئو میرے ساتھ۔ ‘‘ اس نے نعمان سے کہا۔
دونوں تیزی سے باہر نکلے اور بلوکے گھر کی نگرانی کرنے لگے ۔ اس کا خیال درست تھا۔ کچھ ہی دیر میں نینا باہر آئی اور ایک طرف چلنے لگی ۔ نعمان نے نظروں میں آئے بغیر اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا ۔ نینا پُل تک پہنچی ۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا ۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ کوئی اسے دیکھ نہیں رہا تواس نے پل پار کیا۔ جیسے ہی گھنٹے میں بارہ بجے ، ایک تانگہ پل کے قریب آکر رُکا ۔ اس میں سے ایک بوڑھاآدمی اور ایک جوان عورت نیچے اترے ۔ نینا تیزی سے چلتے ہوئے ان کے پاس پہنچی ۔ نعمان خاموشی سے سب کچھ دیکھتا رہا۔
’’ میں آپ سے یہاںبات نہیں کر سکتی ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔ پلیز اس سڑک سے ہٹ کر سیڑھیوں کی طرف چلیں ۔‘‘
نعمان نے اس جانب دیکھا جہاں نینا نے اشارہ کیا تھا ۔ وہ تیزی سے ان لوگوں کی نظروں میں آئے بغیر ان سے پہلے وہاں پہنچ گیا اور پل کی دیوار کے پیچھے جس طرف اندھیرا زیادہ تھا ، چھپ کر ان کی باتیں سننے لگا۔
’’ یہ جگہ توبہت دور ہے ۔ تم ہمیںیہاں کیوں لائی ہو ؟ ہم سڑک پر کھڑے ہو کر بات کیوں نہیں کر سکتے ؟‘‘ بوڑھے آدمی نے پوچھا ۔
’’ میں وہاں پر آپ سے بات کرتے ہوئے خوفزدہ تھی ۔‘ ‘ نینا نے جواب دیا ۔
’’ تمھیں کس چیز کا ڈر ہے ؟‘‘ آدمی نے پوچھا۔
’’ معلوم نہیں ۔‘‘ نینا نے کہا۔
’’ اس سے آرام سے بات کریں ۔‘‘ نوجوان لڑکی بولی۔
’’ تم پچھلی اتوار کی رات نہیں آئی تھیں۔ ‘‘ آد می نے کہا۔
’’ ہاں ، مجھے کسی نے آنے نہیں دیا ۔ اسی نے جس کے بارے میں ، میں نے ان خاتون کوبتا یا تھا ۔‘‘
’’ اور آج؟‘‘آدمی نے سوال کیا۔
’’ آج گھر پر کوئی نہیں تھا ۔‘‘ نینا نے جواب دیا۔
نعمان خاموشی سے ان کی گفتگو سنتا جا رہا تھا۔
’’ اچھی بات ہے ۔ اب میری بات سنو۔ ان خاتون نے مجھے وہ سب کچھ بتا دیا ہے جو تم نے ان کو بتایا ۔ ہم منصور نامی شخص سے اس کا راز جاننے کی کوشش کریں گے لیکن اگر ہم اس تک نہ پہنچ سکے تو تمھیں فہیم تک پہنچنے میں ہماری مدد کرنی ہوگی۔‘‘
’’ نہیں ! میں ایسا نہیں کر سکتی ! فہیم بہت براسہی، لیکن میں ایسابالکل نہیں کروں گی ۔‘‘
’’ کیوں ؟‘‘ آدمی جو برہان صاحب تھے ،نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ فہیم اور اس کے آدمی برے بھی ہیں اور ظالم بھی ۔ لیکن انھوں نے میرے ساتھ کبھی برا نہیں کیا ۔ لہٰذا میں بھی ان کے خلاف کچھ نہیںکروں گی۔‘‘ نینا نے کہا ۔
’’ تو پھر تم ہمیں منصور کے بارے میں سب کچھ بتائو ۔ ہم اس سے خود ہی نمٹ لیں گے ۔‘‘ برہان صاحب نے کہا۔
نینا نے انھیں وہ سب معلومات دیں جو وہ جانتی تھی ۔ اس نے یہ بھی بتا یا کہ وہ اسے کہاںتلاش کر سکتے ہیں۔
’’ تم نے آدمی کا کافی درست حلیہ بتایا ہے ۔ شاید میں اسے جانتا ہوں ۔ اچھا لڑکی اب یہ بتائو کہ میں تمھارے لیے کیا کرسکتا ہوں ۔مجھے خوشی ہوگی کہ میں تمھارے پرانے دوستوں سے دور، تمھارے لیے ایک پر سکون رہائش کا انتظام کر سکوں ۔‘‘
نہیں ،آپ کچھ نہیں کر سکتے ۔‘‘ نینا نے جواب دیا اور رونے لگی۔
’’ میں اپنی سابقہ زندگی کونہیں چھوڑ سکتی ،گو کہ مجھے اس سے نفرت ہے لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے ۔ مجھے پھر سے ڈر لگ رہا ہے ۔ مجھے گھر جانا چاہیے۔ کسی کو مجھے آپ سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہیے۔ چلے جائیے ۔ پلیز چلے جائیے۔‘‘
’’ یہ ر قم رکھ لو پلیز ۔ یہ شاید تمھارے کام آجائے ۔‘‘ رابعہ نے کہا۔
’’ نہیں ۔ میںنے یہ سب کچھ پیسے کے لیے نہیں کیا ۔ ہاں ، میں یاد گار کے طور پر کچھ رکھنا چاہوں گی ، پیاری خاتون ۔ مجھے اپنی کوئی چھوٹی سی چیز دے دیں، جیسے کہ اپنا رومال۔ رابعہ نے اپنا رومال نینا کو دے دیا۔
’’ آپ بہت نیک دل خاتون ہیں ۔ شب بخیر! ‘‘ نینا نے کہا۔
ان لوگوں کے جانے کے بعد نینا وہیں سیڑھیوں پر بیٹھی کافی دیر تک روتی رہی ۔ پھر وہ اُٹھی اور آہستہ آہستہ چلی ہوئی وہاں سے روانہ ہو گئی۔
نعمان دیوار کے پیچھے سے نکلا اور فہیم کے گھر کی جانب دوڑ لگا دی ۔ اس نے فہیم کو نینا کی برہان صاحب اور رابعہ سے ملاقات کی تمام روداد سنا ڈالی۔ فہیم کے مکروہ چہرے پر غم و غصے کے تاثرات نمایاںتھے ۔ اس کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے تھے ۔ وہ خوفزدہ تھا ۔ اسے سمجھ نہیںآ رہا تھا کہ وہ بلو کو کس طرح نینا کے بارے میں بتائے گا ۔ اتنے میں گھنٹی بجی ۔ فہیم نے دروازہ کھولا ۔ بلو ایک بڑا سا تھیلا لیے کھڑا تھا ۔
’’ اسے دھیان سے رکھ دو ۔ اسے حاصل کرنے کے لیے مجھے کافی مشقت اٹھانی پڑی۔‘‘ بلو نے تھیلا میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
فہیم نے تھیلا الماری میںرکھ کر تالا لگا دیا ۔
’’ بلو ! ‘‘ فہیم نے بیٹھتے ہوئے کہا ،’’ مجھ تمہیں کچھ بتانا ہے ۔‘‘
’’ جلدی بولو ۔ مجھے گھر جانا ہے، ورنہ نینا سمجھے گی کہ میں گم ہوگیا ہوں ۔‘‘ بلو بولا ۔
نینا تو یہی چاہتی ہے کہ تم واقعی گم ہو جائو۔‘‘ فہیم نے مکروہ مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا۔
’’ کیا مطلب ؟‘‘ بلو نے اس کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔
’’ میری بات سنو بلو، ‘‘ فہیم نے آہستہ سے کہا۔’’ ذرا سوچو، اگر وہ لڑکا خاموشی سے ہماری مخبری کرے اور کچھ لوگوں کو ہمارے بارے میں سب کچھ بتا دے کہ ہم کیا کرتے ہیں ، تو تم اس کے ساتھ کیا سلوک کرو گے ؟‘‘ فہیم نے فرش پر سوئے ہوئے نعمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ میں اسے جان سے مار دوں گا !‘‘ بلو چلایا۔
’’ کیا واقعی بلو! سوچ لو۔‘‘ فہیم عیاری سے بولا۔
’’ ہاں ! کوئی بھی ہو ۔ میں اس کے ساتھ یہی سلوک کروں گا ۔‘‘
’’ کیا تمھیں یقین ہے ؟‘‘ یہ کہتے ہوئے فہیم نے سوئے ہوئے نعمان کو ہلایا۔
’’ بیچارہ لڑکا ۔ اس کی اتنی لمبی نگرانی کرتے کرتے تھک گیا ۔‘‘ فہیم بولا ۔
’’ کیا مطلب؟‘‘ بلو جلدی سے بولا۔
’’ پھر سے بتائو تم نے نینا کا کس طرح پیچھا کیا ۔ میںچاہتا ہوں اسے سب علم ہو۔‘‘ فہیم نے بلوطرف اشارہ کرتے ہوئے نعمان سے کہا۔
نعمان نے پوری روداد پھر سے سنائی ۔ بلوخاموشی سے ستنا رہا ۔ اس کا چہرہ بدہئیت ہو رہا تھا۔
’’ ہاں ۔ اس نے یہ سب کچھ کہا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ پہلی بار جب وہ اس نوجوان خاتون سے ملنے گئی تھی تو اس نے تمھیںسُلانے کے لیے کوئی نشہ آور چیز پلائی تھی ۔ ہا ہا ۔ ہا ہا ۔‘‘ نعمان نے ہنستے ہوئے اپنی بات ختم کی۔
غصے سے پھنکارتے ہوئے بلو اپنی جگہ سے چھلانگ مار کر اٹھا اور تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا نیچے بھاگا ۔ اس نے دروازہ کھولا اور خاموش گلیوں میں غائب ہو گیا ۔
فہیم بیٹھ گیا ۔ ایک مکارانہ مسکراہٹ اس کے بد صورت جہرے پر پھیل گئی
٭…٭…٭
بلونے گھر پہنچ کر آہستہ دروازہ کھولا اوراندر داخل ہو کر تالالگا دیا ۔ پھر اس نے بھاری میز اٹھا کردروازے کے آگے رکھ دی ۔ نینا کمرے میںموجود تھی۔ وہ خوفزدہ نظر آ رہی تھی ۔ اس نے بلوکو دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کی ۔
’’ بلو تم ۔ تم واپس آگئے؟ ‘‘ وہ بولی۔
’’ اٹھو ‘‘ بلونے حکم دیا ۔
’’ بلو ! تم کیا کرنے جا رہے ہو ۔ تم مجھے اتنی عجیب نظروں سے کیوںدیکھ رہے ہو؟‘‘ نینا نے خوفزدہ آواز میں کہا۔
بلوچند لمحوں تک اسے دیکھتا رہا پھر اس نے نینا کو گردن سے دبوچا اور گھسیٹتے ہوئے کمرے کے بیچوں بیچ لے آیا ۔ اس نے اپنا ہاتھ مضبوطی سے اس کے منہ پر رکھ دیا ۔
’’ بلو ، بلو۔ کیا ہوا ہے ۔ میں نے کیا کیا ہے ؟‘‘ نینا نے بمشکل بولنے کی کوشش کی ۔
’’ تمھیںمعلوم ہے تم نے کیا کیا ہے۔ کل رات کوئی تمھاری نگرانی کر رہا تھا اور اس نے ایک ایک لفظ سنا جو تم نے کہا۔ ‘‘ وہ چلایا۔
’’ بلو ، مجھے نہ مارو، میںتمھاری وفا دار ہوں ۔ میں نے تمھارے اور دوسروں کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا سوائے منصور کے۔ ‘‘ نینا اس کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔
بلو نے اپنی جیب سے پستول نکالی ۔ وہ گولی چلانا ہی چاہتا تھا کہ رُک گیا ۔ اسے خیال آیا کہ گولی کی آواز لوگوں تک پہنچ جائے گی ۔ اس نے نینا کے چہرے کی طرف دیکھا اور بے دردی سے اس کے چہرے پرمارنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد نینا نے چلانا بند کر دیا اور فرش پر بے سُدھ ہو کر گر پڑی۔
صبح ہو گئی ۔ سورج کی روشنی کمرے میں پھیل گئی ۔ نینا فرش پر بے حس و حرکت پڑی تھی ۔ وہ مر چکی تھی۔٭

(اگلے شمارے میں آخری قسط )

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x