ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

تربیت کہاں رہ گئی! – بتول اپریل ۲۰۲۲

ایک مرتبہ ایسا ہؤا کہ ایک والدہ نے کال کی کہ ان کی بچی کو او لیول کی ٹیوشن چاہیے ۔
ان دنوں میری بیٹی MS Chemistry کے بعد شہر کے ایک well known ادارے میں او لیول اور اے لیول کی بچیوں کو کیمسٹری پڑھارہی تھی.. یہ کسی کے توسط سے ایک ڈاکٹر والدین کی بیٹی کے لیے والدہ نے کال کی کہ ان کی بیٹی، میری بیٹی کی طالبہ تو نہیں یعنی کسی اور ادارے میں پڑھتی ہے لیکن وہ چاہتی تھیں کہ میری بیٹی ان کی بچی کو ٹیوشن پڑھائے ۔
اس خاتون نے اتنی محبت اور عاجزی سے بات کی کہ میں نے ان سے وعدہ کر لیا کہ آپ بچی کو بھیج دیا کریں ۔
بیٹی کو بتایا کہ میں نے وعدہ کر لیا ہے تو آپ اب اپنا ٹائم ٹیبل سیٹ کر لیں.. ایک ہی مہینے کی تو بات ہے۔
یہ گرمیوں کی چھٹیوں کے دن تھے\۔بڑی والی بیٹی چھٹیوں میں پاکستان آئی ہوئی تھی\۔اس کی بیٹی کے لیے بہت سارے کھلونوں کے ساتھ ساتھ بار بی والے کارٹون ڈائون لوڈ کر کے فلیش میں ڈال کے رکھے ہوتے تھے۔
اگلے دن سے وہ بچی مقررہ وقت پہ آگئی۔
بچی 13یا 14 سال کی تھی….. بہت پیاری کم گو اور نیک فطرت سی مجھے وہ بہت پیاری لگی…..چند دن تک تو وہ پڑھائی کے ختم ہونے کے بعد بالکل خاموشی سے بیٹھ کے اپنے ڈرائیور بابا کا انتظار کرتی رہتی۔
کچھ دنوں کے بعد وہ میری نواسی سے تھوڑی فری ہو گئی۔ یہاں میں ایک بات اور بھی بتانا چاہتی ہوں کہ ان دنوں میرے دونوں بیٹے شہر سے باہر رہتے تھے اپنی پڑھائی یا جاب کے سلسلے میں تو اگر بچیاں کبھی بیٹی سے پڑھائی میں مدد لینےکےلیے آتی تھیں تو ان کے والدین انہیں بے خوف ہو کے بھیج دیتے تھے۔
بہرحال اب وہ بچی آپ اس کا نام ماہا فرض کر لیں تھوڑی سہولت کے ساتھ رہتی۔ جب تک اس کا ڈرائیور آتا وہ میری نواسی سے باتیں کرتی رہتی ایک دن وہ پڑھائی ختم کر کے میری نواسی سے ملنے اس کے کمرے میں گئی تو وہاں باربی والے کارٹون لگے ہوئے تھے۔
ماہا کی آنکھیں اور منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا اور وہ بہت شوق سے کارٹون دیکھنے میں محو ہو گئی۔
تھوڑی دیر کے بعد اس کے ڈرائیور بابا آگئے تو میں نے اسے کمرے میں آکے بتایا لیکن وہ ایسی مگن ہوکے کارٹون دیکھ رہی تھی کہ اس کے کانوں میں میری آواز جاہی نہیں رہی تھی۔
میں نے جا کے اس کا شانہ ہلا کے بتایا کہ بیٹا آپکا ڈرائیور آگیا ہے ۔ کمرے کے دروازے سے باہر جانے تک اس کی نظریں ٹی-وی کی سکرین کی طرف ہی رہیں ۔
اس کے بعد جتنے دن اس نے ہمارے ہاں پڑھائی کی وہ ضرور ٹی وی دیکھتی۔
ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو یہ کارٹون بہت پسند ہیں…. اور کون کون سے کارٹون آپ شوق سے دیکھتی ہیں؟
ماہا کے جواب نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔
آنٹی، ہمارے گھر میں کسی بھی قسم کے کارٹون یا ڈرامے دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
اس بات کو کچھ عرصہ گزر گیا…..جب وہ دوبارہ مجھے ایک شادی کی تقریب میں ملی اس ماہا میں اور پرانی والی ماہا میں بہت زیادہ فرق تھا۔
کہاں وہ بچی جس کے لیے باربی کارٹون ایک بہت بڑی عیاشی تھے….. اور کہاں یہ ماہا جو خود باربی ڈول بنی ہوئی تھی۔
سلیولیس بلائوز کے ساتھ تھوڑی سی کمر بھی نظر آرہی تھی گلا بھی بڑی سٹائلش کٹنگ کے ساتھ فرنٹ اور بیک سے کافی low تھا۔
میں کبھی بھی کسی کی ڈریسنگ پہ اعتراض نہیں کرتی….حتیٰ کہ میری اپنی بیٹیوں کو بھی مثبت اور منفی پہلو سے آگاہ کرنے کے بعد کہتی تھی کہ’’اب خود دیکھ لو اگر دل مانتا ہے تو اپنی مرضی کرلو‘‘۔
خیر میں جس بات سے ٹھٹکی تھی وہ یہ تھی کہ اس بچی کی والدہ سے جو چند ایک مرتبہ آتے جاتے ملاقات ہوئی تھی اس کے مطابق ایسا لباس اس نے کیسے پہن لیا…. جب کہ وہ گھرانہ اس طرح کا تھا نہیں ۔
ماہا اس فنکشن میں کسی تتلی کی طرح اڑتی پھر رہی تھی جب مجھے دیکھا تو بڑی محبت سے آکے ملی…. میری نواسی کا اور اپنی ٹیچر کا حال احوال پوچھا۔
میں نے بھی اس کی امی کا حال پوچھا اور اس کا پوچھا کہ اب کیا کررہی ہو آپ؟
بچی نے بتایا کہ آنٹی، لاہور رہتی ہوں ہوسٹل میں….وہیں پڑھ رہی ہوں۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اتنی پابندیوں میں رہنے کے بعد بھی بچوں کو جونہی فری ہینڈ ملتا ہے وہ ساری پابندیوں کا چولا اٹھا کے دور کیوں پھینکتے ہیں؟
شاید ہم یہی غلط کرتے ہیں کہ بچوں کو بجائے اچھے اور برے کا فرق سمجھانے کے، برائی سے نفرت اور نیکی سے محبت ڈالنے کے، صرف پابندیاں لگا دینا کافی سمجھتے ہیں۔
اور پھر جونہی انہیں آزادی ملتی ہے تو وہ بچے اگلی پچھلی کسریں نکال دیتے ہیں۔ فی زمانہ مائوں کو ہمارے زمانے سے بہت زیادہ چیلنجز کا مقابلہ کرنا پڑ رھا ہے۔
ہم لوگ گھروں میں رہتے تھے، عورتوں کا نوکریوں کا رواج کم تھا۔ ٹی وی محدود وقت کےلیے چلتا تھا ڈرامے صاف ستھرے ہوتے تھے اور وہ بھی پی ٹی وی کی اپنی پالیسی کے مطابق ذرائع ابلاغ کے ذریعے بچوں کی رسائی بھی آج کی طرح لامحدود نہیں تھی۔
اور سب سے بڑا انٹرنیٹ کا منفی استعمال جو کہ اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں ہے وہ نہیں تھا۔
ہم اپنے بچوں کو اس نیٹ سے دور نہیں رکھ سکتے لیکن ایک ماں کی حیثیت سے ہم انہیں برائی اور اچھائی کا تصور دے سکتی ہیں…..نہ صرف بیٹیوں کو بلکہ بیٹوں کو بھی بہت زیادہ حفاظت اور رہنمائی کی ضرورت ہے ۔ ہمارے پاس جو سب سے قیمتی چیز اپنی اولاد کو دینے کےلیے ہے وہ ہمارا وقت اور ہماری تربیت ہے۔
ہم خواتین کو بھی رہنمائی کی ضرورت ہے کہ اپنی حد مقرر کریں کہ صرف اتنا وقت ہم نے اس نیٹ کو دینا ہے۔
زیادہ وقت اپنے بچوں کو دیں۔ بچوں کو ہر بات میں نصیحت کے بجائے خود ان کے سامنے ایک مثال بن کے رہیں۔مثبت طریقے سے ایسے بچوں کا زکر ان کے سامنے کریں کہ جو اچھے کردار اور ادب آداب کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔
اللہ ہماری آنے والی نسلوں کی حفاظت فرمائیں آمین ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x