ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اردو زبان کاتدریجی سفر – بتول اپریل ۲۰۲۲

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاںمیںدھوم ہماری زباں کی ہے
انسانوں کی طرح زبانوں کا تعلق بھی کسی گھرانہ ،خاندان ، قبیلے اور نسل سے ہوتا ہے منگول ساحی آریہ نسل کی زبانیں اپنی وسعت اور پھیلائو کے اعتبار سے بڑی زبانیں ہیں، منگول سے ترکی کی ساحی سے عربی ، اور آریہ نسل سے یورپ کی بیشتر زبانوںمثلاً یونانی، لاطینی، پر تگالی ، ولندیزی،فرانسیسی اور انگریزی کے علاوہ ایشیا کی زبانوںمیں سنسکرت اور فارسی وہ اہم زبانیں ہیں جن سے اردو زبان کے قومی رشتے ہیں ۔ زبان کو ئی بھی ہو پہلے ایک بولی ہوتی ہے جو کسی علاقے کے عوام بولتے ہیں ، اگر اس بولی کا ہاتھ کوئی مذہب تھام لے یا اسے حکومت نصیب ہو جائے تو وہ ترقی کر کے زبان بن جاتی ہے اردو کس ادب کی ترقی یافتہ شکل ہے یہ دریافت کرنا زبان پر تحقیق کرنے والوں کا کام ہے اور اس بحث میں الجھنا فی الحال ہمارے مفید مطلب نہیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ترقی کر کے جن بولیوں نے زبان کی شکل اختیار کرلی ہے ان میں اردو اتنی اہم زبان ہے کہ دنیا کی تیسری بڑی زبان شمار ہوتی ہے اور امکانات کا یہ حال ہے کہ کہا جاتا ہے 25سال بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی زبان ہوگی ( ہندی رسم الخط شامل کر کے ) دنیا کی آبادی میں ہر پانچواںآدمی کسی نہ کسی حد تک اردو سمجھ لیتا ہے ۔ اردو روز بروز مقبول ہو رہی ہے اور اپنی جغرافیائی حدود سے باہر نکل رہی ہے ۔ مسلمان برصغیر میںترکی اور فارسی بولتے ہوئے آئے ، حکومت قائم کی مختلف علاقے فتح کیے تو ان کے کھانوں اوراستعمال کی اشیا کے نام مرکز اور مرکز کے قریب کی بولیوں میںرائج ہوئے ، پھر تبلیغی ضرورت نے صوفیا کو متوجہ کیا کہ مذہبی مسائل کو عوامی بولی میں ادا کریں،اسلام پھیلا ،حکومت مستحکم ہوئی تو مقامی بولیاں نیا رنگ روپ اختیار کرنے لگیں آج سے 700سال پہلے اس زبان کی وہ شکل تھی جو حضرت امیر خسرو کے دوہوں، گیتوں، کہہ کرنیوں ، پہیلیوں اور دوسخنوں کی شکل میں آج بھی زندہ ہے
گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈارو کیس
چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چوندیس
دکن میں مسلمان پہنچے تو اردو کا دکنی روپ سامنے آیا ، بہت سی کتابیں دریافت ہوئی ہیں، بہت سی کتابیں ایسی جن کے نام کتابوںمیں ملتے ہیں ، مگر کتابیں نایاب ہیں، تلاش جاری ہے۔ قطب شاہ سلطان دکن نے اسے سینے سے لگایا تو بے شمار کتابیں اورشعری مجموعے ہمیں ملتے ہیں جنہوں نے اس نئی زبان کو آبرو مند بنایا بہت سے صوفیا نے اسے روحانیت سے مالا مال کیا سید بندہ نواز گیسودراز نے معراج العاشقین لکھ کر صوفیا اور مبلغین کو راہ سمجھائی عبد اللہ نے کتاب الصلوٰۃ لکھی جو نماز اور روزہ کے مسائل بیان کیے تو فضلی نے روضۃ الشہدا کاترجمہ دہ مجلس کے نام سے کیا اور ملا حسن واعظ کاشفی نے اسے خالص اردو نام ’’ کربل کتھا ‘‘ دیا ۔
ولی اور وجہی قطب شاہی دربار سے وابستہ تھے ، وجہی نے مثنوی قطب و مشتری لکھی اور نثر میں محمد یحییٰ ابن سیک فتاحی ہشیار پوری کی ’’ حسن و دل‘‘ کا ترجمہ ’’ سب رس ‘‘ کے نام سے کیا ۔ یہ اردو نثر کا پہلا ادبی نمونہ ہے ، اس کی زبان پر دکنی اثرات اتنے زیادہ ہیں کہ آج پڑھنا بھی دشوار ہوتا ہے ، وؔلی شمالی ہندوستان آئے تو سعد اللہ گلشن نے مشورہ دیا کہ شمالی ہندوستان کے محاورہ میں شعر کہو ، یہ مشورہ اتنا صحائب تھا کہ جب ولیؔ کا دیوان دکن سے دلی پہنچا تو یہ حال ہؤا کہ
میں چمن میںکیا گیا گویا دابستاںکھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں
خاں آرزوؔ ، مرزا مظہر جان جاناںؔ اور شاہ حاتم ؔ نے ولیؔ کی دی ہوئی بنیاد پر وہ عمارت کھڑی کی جس کے صحن میں بیٹھ کر میر ؔ ، سوداؔ اور میر درد ؔنے محفلیں سجائیں۔
قطب شاہ سلطان دکن کا درباری شاعر تھا ۔ قلی قطب شاہ کا کلیات شائع ہوچکا ہے ۔ عوامی ، اصمعی، نظامی ، وجہی کے علاوہ ولیؔ بھی درباری شاعر تھا۔
سعد اللہ گلشن کی ہدایت پرولیؔ نے شمالی ہندوستان کی زبان سے اپنا رشتہ جوڑا تو زبان کی ایسی نکھری ہوئی شکل سامنے آئی کہ معلوم ہوتا ہے جیسے آج کی زبان ہے ۔
راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن
ولیؔؔ کا دیوان دلی پہنچا تو قیامت برپا ہوگئی ، ہر شخص اسی زبان میں گیت گانے لگا ۔ میرؔ صاحب کی بے دماغی نے اس کے سامنے یہ کہہ کر سر جھکادیا کہ :
معشوق جو اپنا ہے باشندہ دکن کا تھا
مضمون ، شاکر ، ناجی ، یک دنگ، بڑے بڑے شاعراردو کے دامن سے وابستہ ہو گئے ۔ سب سے زیادہ خاں آرزو ، شاہ حاتم اورمیرزا مظہر جان جاناں نے اسے شاگردوں کی رہنمائی کی ۔ میرؔ اور سوداؔ اورمیردرد ؔ نے وہ چراغ جلائے جن کی روشنی آج تک مدہم نہیں ہوئی ۔ ہمارے شاعربقول آزاد آج بھی میری ہیں یا سودائی ، میر درد بھاری پتھر ہیں لہٰذا ہمارے شاعر انہیں چوم کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ دلی اور آگرہ نے غالب ،مومن ذوق نظیر اکبر آبادی پیدا کیے تو دلی والوں نے لکھنو جا کرمصحفی ، انشاء ،آتش ناسخ ، انیس اور دبیر کی تشکیل کی ۔ داغؔ نے زبان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ۔
جگست، اقبال ، جوشؔ ، فراق ، اور ترقی پسند شعرا نے بلند باگ لہجہ دیا اور جدید شعور عطا کیا ۔
اردو نثر کی پہلی کتاب سب رس کی زبان شاعری کی طرح تاریخی حوالوں میں زندہ ہے ۔ شمالی ہند میں عبد اللہ کی کتاب الصلوٰۃ اورفضلی کی دہ مجلس کی زباںتو اب مقبول نہیںمگر میر مہر افروز دلبر بہت مقبول ہے ۔
ہمارا زمانہ تلاش اور تحقیق کا زمانہ ہے زندگی کے ہرشعبہ میںتلاش اورتحقیق نے انقلاب برپا کر دیا ہے، اب ہم کوئی بات بغیر دلیل اور ثبوت کے ماننے کے لیے تیار نہیں ہماری زندگی میں زبان کی اہمیت ہر دور سے زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ علم اب چند ہستیوں تک محدودنہیںرہا ۔ روز بروز نیا خون اس میںشامل ہو رہا ہے ۔ علم عام ہو رہا ہے اور ہر شخص اسے حاصل کرنے کی کوشش میں جی جان سے لگا ہؤا ہے ۔ اردو زبان پر بھی اسی طرح تحقیقی کام ہو رہاہے جس طرح دنیا کی دوسری ترقی یافتہ زبانوں پر ۔ اردو برصغیر کی زبانوں میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ زبان ہے ، اگر ہم اس بحث میں الجھ گئے کہ اردو برصغیر کس خطہ میں پیدا ہوئی تو نظریات کی بھیڑ میں کھو جائیں گے ۔
ایک بات بہر حال طے شدہ ہے کہ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے اور کوئی دن جا تا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی زبان ہو گی ۔ ہماری زبان اپنے جغرافیائی حدود توڑ کر باہر نکل رہی ہے جو اس کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x