ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ماہِ رمضان میںقبولیت کی آرزو – بتول اپریل ۲۰۲۲

کائنات کا وہ حسین ترین منظر ثبت ہے تاریخ کے سینے میں ۔ یہ ایک مثالی باپ بیٹا ہیں ۔عزیمت کی وہ داستانیں رقم کی ہیں انہوں نے جنہیں قیامت تک خراجِ تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔
اس وقت یہ دونوں معمارِ حرم تعمیر میں مصروف ہیں ۔ اللہ کا گھر تعمیر کر رہے ہیں ، دنیا کے گھروں میں عظیم گھر ، جس کی اینٹیں رکھی جا رہی ہیں۔ بیٹا ردّے اٹھا اٹھا کر دیتا ہے اور باپ ردّے پر ردّا رکھتے ہوئے صرف گا را نہیں لگاتا بلکہ وہ دعائیں کرتا ہے جن کو قرآن نے رہتی دنیا تک ثبت کر دیا ۔
کتنی پیاری تھی وہ دعا … اللہ کو کتنی پسند آئی … قرآن میں محفوظ ہے ۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم
ترجمہ: اے ہمارے رب ہم سے قبول فرما لے ۔ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔ چشم تصور کو وا کریں ۔ یہ دو عظیم ہستیاں جو پیغمبر کے منصب پر فائز ہیں اس سے قبل آزمائشوں کی کن کن بھٹیوں سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں ۔ کوئی فخر کا جذبہ نہیں ہے ۔ خود پراعتماد نہیں کہ اللہ نیتوں کو جانتا ہے ، سب قربانیاں اسی کے لیے ہیں ۔ بلکہ ہلکان ہیں ۔ قلب کا اضطرار دعا بن کر زبان پر آ رہا ہے کہ مولا تو نے قبول نہ کیا تو کسی بڑے سے بڑے عمل کی حقیقت ہی کیا ؟
قرآن اس روح پرور کیفیت کو ہمارے لیے نصیحت بنا کر پیش کرتا ہے کہ جب دنیا کے سب سے عظیم معمار عظیم ترین گھر کی بنیادیں رکھتے ہوئے قبولیت کے لیے لرزاں ہیں تو ہم اپنے اعمال کی قبولیت کی فکر سے کیسے بے نیاز ہو سکتے ہیں ؟
قبولیت کی فکر جتنی گہری ہو گی عمل اتنا ہی ریا کاری سے دور ہو گا ۔ اللہ اعمال سے قبل نیت کو دیکھتا ہے ۔نیت میں اخلاص شرط ہے ۔ اخلاص کے لیے شرطِ اول یہی قبولیت کی فکر ہے ۔
رمضان المبارک کے اعمال ’’ خاص الخاص‘‘ اعمال ہیں ۔ ان کی انجام دہی میں عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
اس مہینے بھر کے تربیتی سیشن کا مقصد تو اپنے جسم کے ’’ حیوانی تقاضوں‘‘ پر قابو پا کر اپنے وجود کے ’’ ملکوتی حسن ‘‘ کو ابھارنا ہے ۔ جب اعمال رسم یا عادت بن جاتے ہیں تو قبولیت کی وہ تڑپ باقی نہیں رہتی ۔!
رمضان المبارک میں روزے رکھنے کی توفیق ملی ، نمازیں ، تہجد ، اذکار، تلاوت ، صدقہ ، شب بیداری ، اعتکاف … اور کیا کر سکتے تھے ؟ رمضان بہت اچھے گزرے یہ سارے کام اللہ کی توفیق سے ممکن ہو گئے ! جب کہ قبولیت کی سند کا علم نہیں ہے ؟
تشہیر کی فکر
آج کل سوشل میڈیا کے دور میں تو ہر کام ’خبر‘ ہے ۔ غریب کے گھر راشن پہنچانے سے لے کر ، افطار پارٹیاں اور شب بیداریاں تک اپنے اندر ’’ خبریت ‘‘ رکھتی ہیں ۔ ہر کس و نا کس اپنے جملہ امور سے ’سماج کو با خبر رکھنا ضروری سمجھتا ہے ‘ بلکہ اس میں انتہائی چوکس ہے ۔
شیطان اکساتا ہے کہ خیر کی تشہیر ہو گی تو خیر کو فروغ ملے گا ۔ صرف خیر کی تشہیر ہی تو نہیں ہوتی بلکہ جب اعمال حسنہ کی وجہ سے لوگوں کی شاباش کے ساتھ سماجی تعارف حاصل ہو جاتا ہے تو نظریں اسٹیج پر نشست تلاش کرتی ہیں ۔ نفس اپنا مقامِ ممتاز خود متعین کر لیتا ہے ۔ یہ بڑی باریک لکیر ہے ۔ شیطان ہمارا انتہائی’ عیّار دشمن‘ ہے ۔ وہ ہمیں ہماری نظروں میں ’معزز‘بنا دیتا ہے!
ہم خبریت کے لیے بے چین اور قرآن دل کے بہت قریب آکر سر گوشی کرتاہے کہ ’’اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْر(الملک14) کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا اور جو باریک بین اور با خبر ہے !
شیطان بسا اوقات اس پر قادر نہیں ہوتا کہ ہمیں عمل سے روک دے مگر وہ نیت کو اغوا کرنے کے لیے مسلسل سعی کرتا ہے تاکہ عمل کو قبولیت سے دور کر دے ۔
سبقت کی جستجو
شیطان کا ایک کامیاب حربہ یہ ہے کہ وہ ہمیں اعمال پر مطمئن رکھنا چاہتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑی ہو کر ہمیں پندارِ نفس میں مبتلا کرنے کا باعث بن جاتی ہیں ۔ روزے ہی کو لے لیں ۔کتنے روزہ دار بروقت نمازوں کی ادائیگی اور روزے کے دیگر و اجبات پورے ہونے کو عمل کی ’’ معراج‘‘ سمجھتے ہیں جبکہ کتنے روزہ دار اپنے ذاتی اعمال کو اس کی خلق کی بھلائی سے جوڑ دیتے ہیں ۔ وہ تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ ’’ مخیر‘‘ لوگوں سے لے کر مستحقین تک پہنچا دیں ۔ رشتہ داروں کے علاوہ آس پڑوس کو بھی خیر کی دعوت دیں اور محاسبہ نفس پر ابھاریں ۔ مزدوری کے اوقات میں رضا کارانہ اضافہ کر لیتے ہیں ۔
احتسابِ نفس
روزہ تو مشروط ہے ایمان اور احتساب کے ساتھ ۔ ہم معرفت ایمان بھی رکھتے ہیں اور تصدیق قلب کے ساتھ اقرار باللسان بھی مگر ، ہم میں سے کتنے ’’ احتساب ‘‘ کی حقیقی روح سے آشنا ہیں ؟ ہمارا حیلہ گر نفس ہمیں سجھاتا ہے کہ احتساب کی ضرورت تو ’لوگوں‘ کو ہے ۔ ہم سماجی برائیوں پر نوحہ گر رہتے ہیں مگر احتساب کی ان توپوں کا رخ خود اپنی جانب کم ہی ہوتا ہے ۔
اگر ’احتساب‘ ہمارے پیش نظر ہو تو رمضان گزرنے کے بعد ہم ویسے نہ رہیں جیسے رمضان کی آمد سے قبل تھے۔
آرام سے بے رغبتی
شاید ہم میں سے کچھ لوگ رمضان کو آرام کا مہینہ سمجھتے ہیں ۔ ماسیاں ( کام والیاں ) شکایت کرتی ہیں کہ ’ بیگم صاحبہ‘ نماز ظہر سے قبل آرام کر رہی ہوتی ہیں اس لیے وہ گھر جہاں کام والیاں صبح آٹھ بجے جاتی ہیں رمضان میں ہر بیگم صاحبہ کا اصرار ہوتا ہے کہ ان کا کام بعد نماز ظہر کے بعد کیا جائے ۔ یہ غریب مخلوق رمضان میں باقی گیارہ مہینوں کے مقابلے میں زیادہ ستائی جاتی ہے۔!
رمضان کا نصف دن اگر ہم سوتے ہوئے گزارتے ہیں ۔ عام دنوں میں چوبیس گھنٹوں میں پانچ سے چھ گھنٹے سوتے ہیں اور رمضان میں آرام کا دورانیہ بارہ ، چودہ گھنٹے پر محیط ہو جاتا ہے ؟ رمضان تو قلیل الطعام ، قلیل المنام اور قلیل الکلام ہونے کا تقاضہ لے کر آتا ہے ۔
اجر کی آرزو
ہم ان وظیفوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن پر زیادہ سے زیادہ اجر کی بشارت ہو ۔ قرآن کی سورتوں کی فضیلت پر بے شمار کتابیں ، مقالے اور مضامین ہیں ۔ ہم کثرت سے ان سورتوں کو تلاوت کرتے ہیں جن پر زیادہ اجر کی خوش خبری ہے ۔ ہم ہر روزے سے زیادہ اجر کمانے کی آرزو رکھتے ہیں ۔ یہ بھی بڑے نصیب کی بات ہے ۔ یہ جستجو بھی ہر ایک کے نصیب میں کہاں ! مگر ہمارے بیچ کچھ لوگ ’ مال غنیمت‘ کے شوق میں نہیں ’جام شہادت‘ کی آرزو میں میدان جہاد کا رخ کرتے ہیں ۔ اللہ رب کریم ہمیں بھی عشاقِ شہادت میں شامل فرما لے ۔
’الا صابہ‘میں روایت ہے کہ … قادسیہ کا معرکہ تھا ۔ دوسروں کے ساتھ’ قبیلہ تحع‘ کے لوگ بھی میدانِ کارزار میں تھے ۔ جنگ کے بعد شہدا کی گنتی میں علم ہؤا کہ ’تحع‘ کے لوگ زیادہ شہید ہو ئے ہیں ۔ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروقؓ نے اس کی وضاحت طلب کی کہ ایسا تو نہیں ہؤاتھا دیگر لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ہوں اور وہ میدانِ جنگ میں تنہا رہ گئے ہوں ؟استفار پر میدان جنگ کے مجاہدین نے وضاحت کی کہ …
’’ تحع والوں نے اہم ترین محاذ آگے بڑھ کر تنہا خود سنبھال لیے تھے ‘‘۔
عاشقوں کی شان نرالی ہوتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے رکعتوں کی تعداد اور منزل کی قرات سے آگے سوچ ہی نہیں پاتے اور کچھ عاشق نئے محاذوں کی طرف پیش رفت کر کے رمضان گزارتے ہیں ۔ ان کی دور بین نگاہیں ان محاذوں کو پا لیتی ہیں ۔ وہ آرام کے نہیں تھکان کے طالب ہوتے ہیں ۔ میدان جنگ میں زخم تو اسے لگیں گے جو اگلی صفوں میں ہوگا۔
ایر کنڈیشن کی کولنگ پسینہ کیوں بہنے دے گی ؟ جس نے اپنے گھوڑے ( نفس) کی مالش کی ہو گی وہ میدانِ جہاد کے لیے تیار ہو گااسی کاگھوڑا میدانِ کار زار میں دشمن کے دانت کھٹے کرے گا ۔
وقت جن کو کھجور اور دودھ بھی افطار میں مشکل ہی سے میسر ہوتی تھی وہ رمضان میں میدانِ جہاد بھی سجا لیتے تھے ۔ ہم لذت کام و دھن کے خو گر دستر خوان کی وسعت پر نازاں و فرحاں رہتے ہیں ۔ رمضان میں نفیس غذائیں ، بہت سا کھانا ، لذیذ کھانا … باقی گیارہ مہینوں سے زیادہ ہم شاید رمضان میں کھاتے یا کھانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
رمضان تو مجاہدہ پیدا کرنے کے لیے ہے ۔ جب اللہ کے نبیؐ رمضان میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی تیز ہو جاتے تھے یعنی عبادات و جملہ امور کو معیار کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیتے تھے ۔ مقامی مارکیٹ میں جو چیز بکتی ہے اس کا معیار وہ نہیں ہوتا عموماً جو ایکسپورٹ کی جانے والی چیز کی کوالٹی ہوتی ہے ۔ یعنی چیز کا معیار اس کی ’منڈی‘ طے کرتی ہے ۔
روزے کی فضیلت کے لیے یہی بشارت ِ ربی کافی ہے کہ’ ’ وانا اجزی بہ‘‘ یعنی اس کی جزا میں دوں گا ۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ روزہ براہ راست اس کی بارگاہ میں پیش ہو رہا ہے جس نے جزا کا وعدہ کیا ہے ۔ لہٰذا روزے کی کوالٹی اس بار گاہ کے شایانِ شان ہونا چاہیے۔ قبولیت کی تڑپ ہی اس معیار کو بڑھا سکتی ہے ۔ ایمان خوف اور رِجا کی درمیانی حالت ہے ۔ قبولیت کی امید کے ساتھ رد ہونے کا خوف بھی شامل ہونا چاہیے ۔ تب ہی تو حضرت عمر فاروق ؓ جیسی ہستی ہلکان رہتی تھی کہ ’’ برابر سرابر بھی چھوٹ جائوں تو خیر ہے ‘‘۔
شیطان روزے کی حالت میں بھی بار بار وسوسہ ڈالتا ہے کہ بس بہت کر لیا ، تم پر اس سے زیادہ مکلف نہیں تھی ، کیوں خود کو ہلکان کر لیا ، اب آرام کر لو بہت تھک گئی ہو ، دوسرے تو اتنا بھی نہیں کرتے اور یوں ہماری نظر وہاں جا کر ٹھہرتی ہے جو نیکی میں ہم سے کم ہیں ۔ جبکہ پیمانہ یہ دیا گیا تھا کہ دنیا کے معاملے میں اپنے سے کم تر اور نیکی کے معاملے میں اپنے سے بلند تر پر نگاہ رکھو ۔
جب قبولیت کی فکر دامن گیر رہتی ہے تو عمل کو نئی توانائی ملتی ہے خوب سے خوب تر کی جستجو بیدار ہوتی ہے ۔
سلمان فاتحین کی تاریخ پڑھیں بیشتر جنگیں ماہ رمضان میں لڑی گئیں کیونکہ رمضان مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا مہینہ ہے ۔ انہیں بیدار کرنے ، اوپر اٹھانے اور نیا کچھ کرانے کے لیے آتا ہے ۔ یہ زیادہ کھانے اور زیادہ سونے کا مہینہ نہیں ہے ۔ اللہ رب کریم ہمارے ٹوٹے پھوٹے اور ادھورے اعمال کو شرف قبولیت عطا فرما دے ۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x