ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشرِ خیال – بتول مارچ ۲۰۲۳

ام ریان۔ لاہور
فروری کا بتول موصول ہؤا۔ سر ورق متاثر نہ کر سکا ۔ اس ماہ حصہ نظم کم رہا لیکن افسانوں نے ساری کمی پوری کردی۔ اتنے افسانے کم ہی کسی ماہ میں شائع ہوئے ہیں اوروہ بھی سب ہی اچھے۔
پہلے نمبر پر تو بلا شبہ عینی عرفان کا ’’ کن ‘‘ تھا ۔ اس موضوع پر بہت لکھا جاتا ہے لیکن جس خوبی سے اس افسانے میں پیغام پہنچایا گیا ہے ،وہ اکثر تحاریر میں عنقاہوتا ہے ۔ افسانے کی بجائے ایک لمبی چوڑی نصیحتی گفتگو معلوم ہوتی ہے جبکہ ’’ کن‘‘ میں افسانوی ہیٔت قائم و دائم ہے۔
نبیلہ شہزاد مزاح تو اچھا لکھتی ہی ہیں مگر ’’ رمضان جی‘‘ میں بھی ان کے قلم نے خوب جوہر دکھائے ہیں ۔ شہلا خضر کی تحریر دن بدن نکھرتی جا رہی ہے اور زیادہ مربوط ہو گئی ہے ۔ عالیہ حمید کے لکھنے کا اپنا ایک انداز ہے اور خوب ہے ۔ ’’ ہیں کواکب کچھ ‘‘ میں صائمہ صدیقی نے ماہر نباض کی طرح معاشرے میں بڑھتی ہوئی نا آسودگی اورڈپریشن کی وجہ کی نشاندہی کی ہے ۔ عالیہ زاہد بھٹی نے بھی اچھا لکھا ہے ۔ ام ایمان نے افسانے کے تاروپود عمدگی سے بنُے، تاہم شہلا کے اپنے شوہر سے تعلقات اس نہج پر کیوں کر پہنچے ، اس کی کچھ تفصیل ہوتی تو افسانہ فطری انداز میں انجام کو پہنچتا، ابھی کچھ جلد بازی محسوس ہوئی ۔ دوسری طرف قانتہ رابعہ کے افسانے کا آخری پیرا گراف غیر ضروری تھا ۔ افسانے کواس وقت ختم کر دینا چاہیے تھا جب اریبہ پر بلند بخت کی اصلیت کھلی۔
مہوش خولہ نے اچھے موضوع پر قلم اٹھایا ۔ انداز تحریر میں بہتری کی گنجائش ہے غالباً نئی لکھنے والی ہیں آہستہ آہستہ قلم منجھ جائے گا ۔ دانش یار کی گائوں کی کہانیاں سچی ہونے کے باوصف معاشرے کی تصویر آنکھوں میں کھینچ دیتی ہیں۔
میمونہ حمزہ کے مضامین ان کے کثیر مطالعہ ، قوتِ استنباط و استدلال اور اپنی بات کو دوسرے تک عمدگی سے پہنچانے کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتی ہیں ، بات سیدھی دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔
٭…٭…٭
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
’’ چمن بتول ‘‘ شمارہ فروری 2023ء سامنے ہے ۔ سب سے پہلے خوش رنگ ٹائیٹل بہار کی آمد آمد کا مژدہ سنا رہا ہے ۔ اللہ کرے ہمارے پیارے وطن پاکستان پر بھی بہار آجائے ہمارا یہ گلستان بھی رنگا رنگ پھولوں سے مزین ہو جائے (آمین)۔
۔’’ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ نے فکر انگیز اداریہ میں ملک کے دگر گوں معاشی حالات پر بجا تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ کاش ہمارے سیاسی لیڈر مل بیٹھیں اور ملک کو اس معاشی بھنور سے نکالنے کی تدابیر کریں اور کاش ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہوجائیں ۔ایک عرصہ کے بعد کراچی والوںنے جماعت اسلامی کو اپنی خدمت کے لیے چنا ہے ۔ امید ہے حافظ نعیم الرحمن صاحب کی انتھک اور مخلصانہ کوششوں سے کراچی کے حالات پھر جائیں گے اور عوام کے زخموں کا کچھ مداوا ہوگا۔ ہمارے کالجز اور یونیورسٹیوں میں کچھ جرائم پیشہ افراد نشے کی لت کو فروغ دے رہے ہیں ۔ اس سنگین مسئلہ پر آپ نے زبر دست جملے لکھے ہیں ’’ افسوس تربیت نہ گھروں میں ہے نہ سکولوں میں … سوچنے کا مقام ہے کہ مہنگی اور جدید تو ایک طرف ایسی تعلیم ہی کا کیا فائدہ جو انسان کے بچوں کو انسان کے مقام سے گرا دے ‘‘۔
۔’’گناہ گاروں کی سزا‘‘( ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے اس بصیرت افروز مضمون میں وضاحت سے بیان کیا ہے کہ اللہ کے ہاں عدل و انصاف کا کڑا نظام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا جزاو سزا کا نظام بڑا عادلانہ ہے

البتہ اس نے انسان کے لیے توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھا ہے ۔
۔’’ دعوت دین چند گمنا م گوشے ‘‘عبد المتین صاحب نے اہم نکات بیان کیے ہیں کہ دین کی دعوت کے کام میں بہت حکمت عملی سے کام لینا چاہیے ۔ خلوص نیت شر ط ہے ، دعوت نرمی سے دی جائے ، مدعو کو اعتماد میں لیا جائے ۔ داعی کو اپنے ارد گرد کے لوگوں سے کٹ کر نہیں رہنا چاہیے بلکہ ان کی غمی خوشی میں شریک ہوناچاہیے۔ داعی کو خدمت ِ خلق کے جذبے سے معمور ہوناچاہیے اور کسی قسم کا ذاتی لالچ مد نظر نہ ہو۔
۔’’مولانا کی منجھلی صاحبزادی سے ایک ملاقات‘‘آسیہ راشد صاحبہ کاخوبصورت مضمون آپ نے مولانا کی صاحبزادی کے بارے میں تعارفی جملے ہی بڑے خوبصورت لکھے ہیں ’’ پیکر مہرو محبت ، ایثار وفا، رواداری و برد باری ،فرحت و راحت کو یکجا کر دیا جائے تو منجھلی آپا بنتی ہیں۔آپ کی شخصیت ہوا کے لطیف جھونکے کی مانند ہے جونہایت سیک سبک فرامی سے دوسرے کے دل میں نرمی اور ٹھنڈک کا احساس پیدا کرتا ہے ۔ آپ سے مل کربے پناہ پاکیزگی کااحساس جا گریں رہتا ہے ، سراپا اللہ کی بندی دکھائی دیتی ہیں ‘‘۔ بے حد دلچسپ ملاقات کا احوال ہے ۔ پورے مضمون میں دلچسپی برقرار رہتی ہے اس مضمون میں کئی شخصیات کے کردار اورزندگی کا احاطہ کردیا گیا ہے ۔ مولانا مودودیؒان کی اہلیہ محترمہ ، ان کی والدہ محترمہ اور خاص طورپر اسما مودودی صاحبہ کی شخصیت کے بارے میں دلچسپ معلومات ہیں ۔یہ مضمون پڑھ کے مولانا مودودی اور ان کے اہل خاندان کی عظمت کا احساس دلوں میں جا گزیں ہو جاتا ہے اور دین اسلام سے ان کی محبت اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کاعلم ہوتا ہے ۔
۔حبیب الرحمن صاحب کی غزل سے دو منتخب اشعار
یہ کیا کہ سچی رفاقتوں کی گھنیری چھائوں کوڈھونڈتے ہو
ہرے بھرے کھیت بستیوں میں بدل کے گائوں کو ڈھونڈتے ہو
کسی کے آنچل نہیں ہیں محفوظ گر سروں پر تمہارے ہاتھوں
توکس بنا پر تم اپنے گھر کے لیے ردائوں کو ڈھونڈتے ہو
۔’’ دریچہ منتظر ہوگا ‘‘ شگفتہ ضیا کی شاعری کا شاہکار ، ایک خوبصورت نظم اتنا خوبصورت خیال ، اتنی خوبصورت منظر کشی ۔ مدھر ندی کے پانی کی طرح رواں شاعری… جگہ کی قلت مانع ہے وگرنہ میں یہ ساری نظم یہاں نقل کرتا ۔ ساری نظم ہی خوبصورت ہے ۔
۔’’راکب زمانہ ‘‘ دانش یار صاحب اکثر دیہاتی پس منظر میں اچھی کہانیاں لکھتے ہیں ۔ عافیہ ایک تعلیم یافتہ اور سلیقہ شعار لڑکی تھی اگرچہ اس کا رنگ قدرے سانولا تھا لیکن اُس نے اپنے حسنِ کردار اور حسنِ عمل سے سسرال میں سب کے دل موہ لیے ۔ واقعی سلیقہ مند خواتین کا اپنا ایک الگ ہی مقام ہوتا ہے ۔
۔’’ زمین کے بوجھ‘‘قانتہ رابعہ صاحبہ کے قلم سے ایک کہانی ۔ لڑکے کے حسن سے اریبہ بہت متاثر ہوگئی شادی بھی کر ڈالی لیکن وہ تو بالکل زنانہ نکلا ۔ وہ بیچاری مشکل میں پھنس گئی ۔
۔’’ چاندی کا تاج محل‘‘(ام ایمان ) یہ ایک المیہ ہے کہ بعض بے وفا خاوند اپنی وفا شعار بیوی سے چوری چوری دوسری شادی کر لیتے ہیں تو جب اس بے چاری کو علم ہوتا ہے تو اس نے اپنے دل میں جو چاندی محل بنا رکھا ہوتا ہے وہ چکنا چورہو جاتا ہے ۔ مرد کی ستم ظریفی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔
۔’’ جوڑی فٹ ہے ‘‘( مہوش خولہ رائو ) شادی کے بعد بعض جوڑے فٹ اور بعض ان فٹ قرر پاتے ہیں ۔ لیکن اگر خیالات میں ہم آہنگی ہو ایک دوسرے کے احساسات اورجذبات کا خیال رکھا جائے تو جوڑی فٹ ہی سمجھی جاتی ہے ۔ ایک خوبصورت کہانی۔
۔’’ برف، ہوا اوربھوک‘‘(عالیہ زاہد بھٹی) یہ کہانی اس المیے کی یاد دلاتی ہے جب پچھلے موسم سرما میں شدید برف باری کے طوفان میں لوگ پھنس گئے تھے ۔ کئی سردی سے ٹھٹھر کے مر گئے تھے لیکن سنگ دل ہوٹل والوں نے کمروں کے کرائے کئی گنا بڑھا دیے ۔ کھانے پینے کی اشیاء کئی گنا مہنگی کردی گئیں ۔ ظالموں کو ذرا بھی خوف ِ خدا نہ ہؤا۔
۔’’ ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ‘‘( صائمہ صدیقی) بعض خواتین تصنع اورظاہری شان و شوکت کا ملمع اپنے اوپر چڑھا لیتی ہیں

اور پھر تباہی و ندامت ان کا مقدر بنتی ہے ۔ تصنع اورجھوٹ سے بچے رہنے میں ہی عافیت ہے ۔ یہی سبق یہ کہانی سکھاتی ہے۔
۔’’ کشت ویراں‘‘عالیہ حمید صاحبہ کی بچوں کی نفسیات پر مبنی کہانی ہے کہ اگر ہم بچوں کی مناسب رہنمائی کریں ان کے اندر خود اعتمادی پیداکریں تو وہ کامیابی سے تعلیم کے مراحل طے کرسکتے ہیں ۔ اگر ہروقت ان کی حوصلہ شکنی کی جائے تو یہ نقصان دہ ہو گا۔
۔’’ کن ‘‘( عینی عرفان) سچ ہے جو اللہ سے لو لگا لیتے ہیں ، خلوص دل اور خلوص نیت کے ساتھ اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اللہ ان کی ضرور سنتا ہے ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں’’ مومن کوکسی پہاڑی پر چڑھنے کی ضرورت نہیں مومن کے تودل میں کوہ طور پیوست ہے بس ادراک ہونے کی دیر ہے ‘‘۔
۔’’ رمضان جی‘‘(نبیلہ شہزاد) ہیں توسب اللہ کی مخلوق، خوبصورت یاواجبی صورت والے دراز قد یا ٹھگنے ۔ لیکن رشتہ کرتے وقت یہی چیزیں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ رمضان جی ٹھگنے قد کے ، واجبی سی شکل، لڑکی والوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
۔’’قسمت کے پھیرے ‘‘( شہلا خضر) تلا شِ روز گار میں اسے غیر ملک جانا پڑ گیا نئی نویلی دلہن اوروالدین سے جدائی کا غم برداشت کرنا پڑا خوب صورت جملے لکھے ہیں ۔ ’’ ابھی تو سفر کا آغازہؤا ہے لوٹنے کی کیا خبر … ابھی تو بس چلتے جانا ہے ، لمبی مسافتیں سنگلاخ راستے اور تنہائیوں کی رفاقتیں میری منتظر ہیں ‘‘۔
۔’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘( اسما اشرف منہاس کاسلسلہ وار ناول) کہانی نے ایک پر اسراراوردلچسپ موڑ لیا ہے پون کو خفیہ پولیس جاسوسی اور دہشت گردی کے الزام میں پکڑ کے لے جاتی ہے ۔ اُس کی تفتیش کے لیے جو افسر مقرر ہؤا ہے وہ پون کا یونیورسٹی کا کلاس فیلو ہے دیکھیں اب آگے کہانی کیسے بڑھتی ہے ۔ اسما صاحبہ کو بلا شبہ کہانی لکھنے کا فن آتا ہے۔
۔’’ محترم اسما مودودی کی یاد میں ‘‘( ڈاکٹر فلزہ آفاق) مولانا مودودی ؒ کی منجھلی صاحبزادی اسما مودودی صاحبہ کی شخصیت وکردار پر ایک مختصر مگر جامع مضمون ۔یہ جملے محترمہ اسما مودودی کی شخصیت کا مکمل خاکہ سامنے لے آتے ہیں ’’ وہ ایک گوہر نایاب تھیں ، کتنے ہی دل ان کی محبت سے ایمان ، سکون ، اطمینان اور توکل کی دولت لے کر لوٹے تھے ۔ وہ بے حد مخلص ، اپنائیت اور محبت کرنے والی بڑی پیاری ہستی تھیں ، انتہائی مہمان نواز متواضع ، پر وقار ، وضع دار ، نفیس طبیعت کی مالک تھیں ۔ ان کا نرم ، ٹھہرا ہؤا لہجہ ، حق بات کہنے میں استقامت اور رعب ان کے والد محترم سے مماثلت رکھتا تھا۔
۔’’ ایک ہنگامی ادبی مجلس‘‘(سعیدہ قمر ) محترمہ قانتہ رابعہ کے ساتھ منائی گئی ایک شام کاخوبصورت احوال ۔ خاص کران کے افسانے سنانے کا احوال زبردست ہے ’’ دم سادھے افسانے کے اتار چڑھائو کے ساتھ بنتے ہوئے شرکائے محفل نے جیسے ہی افتتاحی پیرا گراف سنا آنکھوں کی نمی کو پلکوں کے بند توڑ کر گالوں پر بہہ جانے سے نہ روک پائے ‘‘ بلاشبہ ایک یاد گار محفل رہی ہوگی۔
۔گوشہِ تسنیم ’’ لوگ کیاکہیں گے ‘‘( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ کا مستقل کالم) آپ نے بجافرمایا کہ انسان جرم کرنے سے پہلے نہیں سوچتا کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ جس کواپنی عزت نفس پیاری ہو وہی اس کے پامال ہونے کا کچھ خوف بھی رکھتا ہے ۔ ہمیں کچھ کرنے سے پہلے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ لوگ کیا کہیں گے بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ میرا قول و فعل قرآن و سنت کے مطابق ہے کہ نہیں ۔
آخر میں ’’ چمن بتول‘‘ ادارہ بتول اور قارئین کے لیے نیک خواہشات۔
٭ محترم! مضمون ارسال کرنے کاشکریہ۔ انشاء اللہ اپریل میں شامل اشاعت ہوگا ( مدیرہ)
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x