ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جب دین مکمل ہؤا -بتول اکتوبر ۲۰۲۱

عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ
جب دین مکمل ہؤا

حیاتِ پاک کا وہ حصہ جومدینہ میں گزرا، انسانیت کے لیے ابدی رہنمائی کا الہامی نصاب مکمل کر گیا ۔ سیرت النبیؐ سے ایک جھلک

خدا حافظ مکہ
تحریک اسلامی اب ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی مکہ کے لگائے ہوئے زخموں پرمرہم رکھنے کے لیے مدینہ دیدہ ودل ِفرشِ راہ کیے ہوئے تھا ۔ یثرب جو بیماریوں کا گھر تھا ۔ مدینہ النبی بن کر وادی نا پر ساں مکہ کے دیے ہوئے دکھوں کو نبی آخر الزماں کی راحتوں میں بدلنا چاہتا تھا ۔ مدینہ کے پاکیزہ چہرے پر جب نظر پڑتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ مدینہ شیطان کی دسترس سے محفوظ کوئی بستی تھی جو ہر آنے والے مہمان کے بے تاباں استقبال کی خورکھنے والے انسانوں سے آباد تھی۔
مکہ سے ہجرت اگر اہل مکہ کا دیا ہؤا آخری وہ غم ہے جو انہوں نے حضور ؐ کو دیا تو یہی ہجرت وہ پہلا قدم بھی ہے جو اسلام کو کامیابی کی آخری منزلوں تک لے کر گیا ۔ ہجرت مدینہ سے نہ صرف حضور ؐ کو پہنچنے والی اذیتوں کا باب بند ہو گیا ۔ بلکہ انسانیت پر راحتوں کے دروازے کھل گئے۔
وطن کی محبت بلا شبہ اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے مگر جب اس سے بھی بڑے مقاصد پیش نظر ہوں تو یہ محبت اپنی اہمیت کھو دیتی ہے ۔ مسلمان کا وطن اس کا نظریہ حیات ہے ۔ ہجرت سے یہی پیغام ہر مسلمان کو ملتا ہے ۔ ملک اور جائیدادیں مقاصد سے بڑھ کر نہیں ہوتیں ۔
عقدہِ قومیّتِ مسلم کشود
از وطن آقائے ما ہجرت نمود
حکمتش یک ملتِ گیتی نورد
بر اساسِ کلمہ ئی تعمیر کرد
ہجرت آئینِ حیاتِ مسلم است
ایں ز اسبابِ ثبات مسلم است
معنیِ او از تنک آبی رم است
ترکِ شبنم بہر تسخیرِ یم است
(رموز بیخودی)
مکۂ ام لقریٰ کا دل ماں کی طرح نہ تھا ۔ ورنہ وادیوں کی یہ ماں اپنے جگر گوشوں کو کسمپرسی کے اس عالم میں اپنے بطن سے جانے نہ دیتی۔ اس کے سینے میں دل زندہ ہوتا تو وہ جسم و جاں کی دیواریں توڑتا ہؤا جانے والے ہادی اعظم کے قدموں میں آگرتا ۔ نہ جائو ہم اپنی روش پر شرمندہ ہیں ۔ تمہیں دکھ دے کر ہم نے کون سے سکھ پائے ہیں ۔ کانٹوں کی جو فصل ہم نے بوئی ہے ۔ وہ ہم سے کاٹی نہ جائے گی ۔ اپنی زندگی کے راستوں پرجو کھائیاں ہم نے بنا لی ہیں وہ ہم سے پاٹی نہ جائیں گی ۔ مگر ایسا نہ ہو سکا ۔ جانے والوں نے ایک الوداعی نظر وادیٔ مکہ پرڈالی خدا حافظ کہتے ہوئے لرزاں ہاتھوں کے ساتھ صاحبانِ جمال کے دل رو رہے تھے ۔ خدا حافظ مکہ۔ خدا حافظ ۔ تیرے جگر گوشوں نے ہمارا رہنا یہاں پسند نہ کیا ۔ غفلت شعار ان مکہ خدا حافظ ۔ علامہ اقبال اگر اس وقت ہوتے تو فراق کی اس داستان میں زمانے بھر کا درد بھر دیتے۔
کافی بحث و تکرار کے بعد مشرکین مکہ کی منعقد کردہ مجلس عاملہ میں ابو جہل کی اس تجویز پر اتفاق کرلیا گیا کہ تمام قبائل کے نمائندہ نوجوان مل کر یکبارگی محمد ؐ پر حملہ کریں اور انہیں ہلاک کر ڈالیں ۔ اس طرح سے بنو ہاشم کسی ایک قبیلہ سے انتقام لینے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے ۔ یہ وہ تجویز تھی جو مشرکین کی دانست میں قابل عمل بھی تھی اورمسئلے کا آخری حل بھی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی پاک ؐ کو بھی ہجرت کی اجازت مل چکی تھی۔ غارثور

س مقدس قافلے کا پہلا پڑائو تھا ۔ جو نجاشی کے دربار تک مسلمانوں کا پیچھا کرسکتے تھے۔ اُن کے لیے مکہ کے گرد ونواح اور مدینہ جانے والے راستوں کے پیچ و خم سے آگہی کوئی مشکل کام نہ تھا ۔ اہل مکہ کی زندگیاں ان ہی راستوں پر آتے جاتے گزری تھیں ۔ سو سرخ اونٹ ۔ یہ سوچ کر سراقہ کی باچھیں کھل اٹھیں ۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔گھڑ سوار وہ بہت اچھا تھا اور راستوں کے نشیب و فراز سے بھی واقف ، قسمت نے یاوری کی تو نسلوں کا آسودہ رزق تھے سو سرخ اونٹ ۔ وہ قسمت بنانے والے رب کے ہاتھ سے قسمت چھیننے نکلا تھا ۔ مگر تقدیر ساز سراقہ کو کسی اور ہی راستے پر لے جانے والا تھا ۔
مکہ سے مدینہ جانے والے راستوں پر سراقہ کا آمنا سامنا رسول خدا اور ابو بکر صدیق سے ہو گیا ۔ اس نے سوچا کہ قسمت اس کا ساتھ دے رہی ہے ۔ اُس نے اپنا گھوڑا حضور ؐ کے قریب لانا چاہا تو وہ لڑ کھڑا کر گر گیا ۔ دوسری کوشش نے اسے حیرت زدہ کر دیا ۔ اس کا گھوڑا نصف تک زمین میں دھنس چکا تھا ۔ نبی پاک ؐ نے سراقہ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ میں تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں ۔ سراقہ نے امان طلب کی جو اسے دے دی گئی ۔پھر اس کے بعد کوئی ایسا سوار مدینہ تک نہ تھا جو آپ ؐ کی راہ میں مزاحم ہوتا ۔ کسریٰ کے کنگن سراقہ کے لیے بہت بڑی خبر تھی ۔ افلاس کے مارے سراقہ نے اس خبر پر کوئی توجہ نہ دی ۔ یہ ایک ایسی بات تھی جو اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آ سکتی تھی۔ جوچیزیں انسان کے قد سے بہت اونچی ہوتی ہیں انہیں چھو لینے کا خیال بھی کم تر انسانوں میں کم کم ہی آتا ہے ۔ مگر یہ رسولؐ خدا کی بات تھی ۔ جو حضرت عمرؓ کے دور میں اللہ نے پوری کر دی ۔ حضرت عمرؓکو اللہ کے رسولؐ کا سراقہ کے ساتھ کیا ہؤا یہ وعدہ یاد تھا ۔ سراقہ اس وقت تک ایمان لا چکا تھا اسے ڈھونڈ کر لایا گیا اور کسریٰ کے دو کنگن اس کے ہاتھوں میں پہنا دیے گئے ۔
ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے
پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضور نے
اس رات مشرکین مکہ کے جنگ جو بیدار آنکھوں کے ساتھ نبی پاک کے گھر کے باہر پہرہ دے رہے تھے۔چاروں طرف سے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا جا چکا تھا۔کھلی آنکھوں والوں کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ سرکارِ دو جہاں کب اُن کے درمیان سے ہی گزر کر عازم مدینہ ہو بھی چکے تھے ۔ ابوبکر صدیق اور ان کے خاندان کی رفاقتیں سفر ہجرت کی یاد گار رفاقتیں ہیں ۔ جاں نثاری اور فدا کاری کے اوہ اونچے معیارات ہیں ۔ جن تک کوئی وفا کرنے والا کبھی نہ پہنچ سکے گا ۔ حضرت علی پر بستر رسولؐ پر سونے کی وہ سرشاری مسلط تھی کہ انہیں یہ احساس تک نہ رہا کہ اس بستر پر سونے کا مطلب کیا ہے ؟ موت کے سوا اس کا دوسرا کوئی مطلب نہ تھا موت سے محبت کرنے والوں سے اُن کی زندگی تو روٹھ جاتی ہے ۔ مگر اُن سے پیار کچھ موت بھی کم ہی کرتی ہے ۔حضرت علی ؓ کو مشرکین نے پکڑ لیا انہیں خانہ کعبہ میں لایا گیا اورتھوڑی دیر بعد چھوڑ دیا گیا۔ ابو لہب میدان کا مردنہ تھا ۔ صرف بستر کا معاند تھا ہجرت کی اس داستان ہوش رُبا میں کہیں اس کا اور اس کی بیوی ابو سفیان کی بہن ام جمیل کا تذکرہ نہیں ملتا ۔ اللہ اپنی روشنی کو پورا کر کے رہتا ہے ۔ خواہ کسی کو کتنا ہی نا گوار گزرے ۔ اس روشنی کے آگے پردہ تاننے کے لیے نہ جانے ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل کہاں چلے گئے تھے ؟
بہر حال قریش کے سارے ہی منصوبے اُن کی اپنی اڑائی ہوئی خاک میں ہی گم ہو کر رہ گئے ۔ مدینہ دیدہ و دل فرش راہ کیے سراپا منتظر تھا اور مکہ الفراق ،الفراق کی صدائوں سے سوگوار ۔ فراق ووصال کی یہ داستان اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی ۔ مکہ میں جس کام نے اپنے جس انجام تک پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا ۔ جو نعمتِ عظمیٰ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو عطا کی تھی اسے ان سے واپس لے کر مدینہ کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور تاریخ اپنے دوسرے سفر پر روانہ ہو گئی۔
شہر وفا مدینہ:
مزاج اور طبیعتیں انسانوں ہی کی نہیں ، بستیوں اور درو دیوار کی بھی ہوتی ہیں۔ روئے خوف انسان ہی نہیں ، مٹی کے گھروندوں پر بھی گریہ طاری ہوتا ہے ۔ آج اہل مکہ نہ سہی اس کے درودیوار ضرور اُداس ہوں گے ۔ کوئی اداس ہو نہ ہو ۔ بہر حال آج مدینہ شاداں و فرحاں تھا ۔ قدرت نے وہ گوہر مقصود اس کی جھولی میں ڈال دیا تھا ۔ تھوڑی دیر قبل ہی

جس کی اُسے کوئی تمنا نہ تھی ۔ شہر نبی بننے والا مدینہ اپنے آپ پر آ پ ہی نچھاور ہوأ جا رہا تھا ۔ اس سے اس کی خوشی سنبھل نہ پا رہی تھی ۔ چہروں کی طمانیت ، بچوں کی سج دھج کسی اعلیٰ وارفع مہمان کی خبردے رہی تھیں۔
مکہ تو مکہ ہی تھا ۔ سیاہ خشک پہاڑوں میں گھری ہوئی ایک بے آب و گیاہ وادی ، لذت تخلیق سے محروم ، جو ماحول لذت تخلیق سے محروم ہوتے ہیں ۔ اُن کے اندر محبتوں کی کمی رہ جاتی ہے ۔ بارانِ رحمت کا کھل کر نہ ہونا شجر اشجار کی عدم پر داخت، ندی نالوں کی بُرودت سے محروم زمینیں ، ان سب کا تعلق بلا شبہ زمینوں کے بانجھ پن سے ہی ہے ، مگر پھر بھی اس سب کچھ کے اثرات انسانوں پر بھی ضرور پڑتے ہیں ۔مگر طائف کی شاداب وادیوں کو کس کی نظر لگ گئی ؟ آپؐ ہی کے ایک فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ دل خوش کر دینے والے سبزوں کے نیچے بھی بعض اوقات سانپ اور بچھو ہوتے ہیں ۔ مکہ نے جو سب سے بڑا تحفہ حضور پر نور کو دیا تھا وہ حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہ کے قبول اسلام کا تحفہ تھا اور وہ بھی بڑے بوجھل دل کے ساتھ ، مگر اہل مکہ کے ستم آپ ؐ کی غمگسار بیوی حضرت خدیجہ اور محبوب چچا ابو طالب کی جان لے گئے۔
وہ فار قلیط (محمد رسول اللہؐ) جس کی تمناحضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے رب سے کی تھی اور زبور کے مطابق جس کی روشنی نے ابد تک جہاں کو منور بنائے رکھنا تھا۔ آج مکہ کی تنگ نائوں سے نکل کر مدینہ کی شاداب وادیوں میں اُتر رہا تھا ۔ جس جوش و خروش میں آج پورا مدینہ رنگا ہؤا تھا ۔ اس سے قبل اس طرح کا منظر کبھی نہ دیکھا گیا تھا ۔ ہر بچہ ، جوان ، بوڑھا ایک کیف کے عالم میں تھا ۔ لوگ روز ہی آنے والے مہمانوں کا انتظار کرتے اور تھک ہار کر روز ہی گھروں کو واپس چلے جاتے ، انصار کی بیٹیوں کے چہروں پر حوروں سے مانگا ہوا حسن جھلک رہا تھا ۔ حوروں نے اپنی ساری پاکیزگی بنو نجار کی بیٹیوں کو دے دی تھی۔
مشرکین مکہ ، جن سے زخم کھا کر کائنات کا سب سے بڑا انسان وادی یثرب کو شرف قدم بوسی بخشنے والا تھا ۔ اپنے درمیان میں سے روز ہی کسی نہ کسی پیار ے کومرتے دیکھتے تھے ۔ ظاہر ہے ہر مرنے والا نہ اپنی خواہش ، نہ اپنی مرضی سے مر رہا ہوتا تھا اور نہ ہی اس مرنے میں اس کے عزیز و اقارب کی خواہش اور مرضی شامل ہوتی تھی ۔ موت کی مسموم ہوائیں روز ہی اُن کی زندگیوں کے کھلیان اجاڑتی تھیں ۔ وہ روز ہی اپنے پیاروں کو سسکیوں اور آہ و زاری کے درمیان مٹی میں اتارتے تھے ۔ کوئی تو ہو گا جس نے انہیں موت و حیات کے اس نظام میں جکڑ رکھا تھا ۔ کبھی اس پر انہوں نے سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی ۔
انسان کا اپنا بنایا ۂوا کوئی معبود ، کوئی دیوتا اس قابل نہیں ہوتا کہ ان کی ساری ضروریات پوری کر سکے ۔ یہ مشرکین کا وہ نظریہ ہے جو اُن کے عمل سے ابھر کر سامنے آتا ہے ۔ اسی لیے الگ الگ ضرورتوں سے متعلق الگ الگ معبود اور دیوتا ان کی ضرورت تھے اور وہ سارے دیوتا یا معبود بہر حال تھے انسان ہی ، اختیارات کی تقسیم خود کہہ رہی ہے کہ حاملین اختیارات میں سے کوئی بھی عقل کل کا مالک نہیں ہے ۔ عقل کل کا مالک نہ ہونے کا تصور ہمیں انسان کے ساتھ لگے اس داغ کی طرف لے کر جاتا ہے کہ اس کی آگہی میں ضرور اک خلا موجود ہے ۔ اس خلا کی موجودگی میں خود خدا ہونا تو بہت دور کی بات ہے ۔ خدا کی کوئی ایک ادنیٰ ذمہ داری نہیں نبھائی جا سکتی ۔اتنا بڑا نظام تقاضا کرتا ہے کہ اس کو تخلیق کرنے والا اور چلانے والا ہر عیب سے پاک ہو ۔ وہ علیم و بصیر ہو اور قادر مطلق بھی۔
یہ ساری صفات اگر انسان میں نہیں ہو سکتیں اور کسی بھی دور میں موجود نہیں پائی گئیں تو کیا یہ بات مشرکین کے لیے غور و فکر کا مرکزی نقطہ نہ ہونی چاہیے تھی ؟ کہ اس انسان کی صدائے درد ناک پر کان دھر دیں جو ان میں سے ہر ایک کا کچھ نہ کچھ لگتا تھا اور اپنی زندگی کے شاندار ریکارڈ کی تصدیق بھی انہی سے مانگ رہا تھا ۔ اپنے کردار پر ان ہی سے گواہیاں طلب کر رہا تھا ۔ اپنے گزرے بچپن ، لڑکپن اور جوانی کی کہانیاں اُن ہی سے سننا چاہتا تھا ۔ انہیں موقع دے رہا تھا کہ اٹھیں اور اس کے کردار پر ایک دھبہ لگا کر ، اس کو تکذیب حق کا بہانہ بنا لیں ، مگر ایسا ہونہ سکا بس ضد ایک ہی تھی کہ جو آپ کہہ رہے ہیں وہ صرف اس بنیاد پر نا حق ہے کہ ان تک آبائو اجداد سے اس کی خبریں نہیں پہنچیں ۔ جس دین پر ان کے آبائو اجداد کا ر بند تھے۔ انہوں نے اسی کو دین حق قراردے دیا۔
انسان آج ایک بات کو قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتا ہے

کہ اس کی عقل و فکر اس بات کے نا قابل قبول ہونے کا فتویٰ جاری کرتی ہے ۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ایک دوسرا زاویہ نظراپنے ہی بنائے ہوئے پہلے نظریہ کی تکذیب کر دیتا ہے ۔ جو بات تھوڑی دیر قبل کوئی عقلی جواز اس لیے نہ رکھتی تھی کہ وہ ایک غیر عقلی بات ہے ۔ ابھی اس بات سے بہتر کوئی دوسرا عقلی رویہ نہیں قرار پاتا ۔ جس بات پر وہ پیش کرنے والے کی جان کے در پے تھا ۔ اب اسی پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے اپنی جان کو ہتھیلی پر لیے پھرتا ہے ۔ جو چیز جو رویہ بعض اوقات آپ کو عقل پر پورا اترتا محسوس نہیں ہوتا۔وہ تو صرف آپ کی عقل پر پورا نہیں اُتر رہا ہوتا ۔ کسی امر کا عقلی ہونا اور بات ہے اور آپ کی عقل کے مطابق نہ ہونا ایک دوسری بات ، یہی المیہ اہل مکہ کے ساتھ ہؤا۔حیاتِ انسانی کے سب سے بڑے عقلی رویے کو اہل مکہ کی عقلوں نے مسترد کر دیا ۔ اس لیے کہ وہ ان کی عقلوں پر پورا نہ اترتا تھا ۔ وحی سے آزاد عقل انسان کو ہمیشہ ہی خسران کے راستے پر لے کر گئی ہے۔
مسترد کیے جانے کا یہی غم لیے ، رحمت دو جہاں کا ورود ایک ایسی بستی میں ہو رہا تھا ۔ جس کا ہر مکین آنے والے کے لیے دیدہ و دل فراش راہ کیے ہوئے تھا۔ یہ روز و شب کی گردشیں ، ساکنان شہر وفا کو کس مرحلہ پر لے کر آگئی تھیں کہ ہر ایک اپنے ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا ۔ عقبہ کی گھاٹیوں میں باندھے گئے عہد وفا کی آبرو پر آج سارا مدینہ بچھا جا رہا تھا ۔ پانی گھاس کے اندر اس کی جڑوں تک سرایت کر چکا تھا ، مگر اہل مکہ دشمنی کے طورطریقوں پر ہی عقل و فکر دوڑاتے رہ گئے ۔ جو فصل بوئی مکہ میں گئی تھی ۔ اس کی پر داخت کے لیے مدینہ کی آب و ہوا کا انتخاب ہو چکا تھا۔ اہل صفا کھیچ کھیچ کر رحمت دوجہاں کے سائبان کے تلے جمع ہو رہے تھے ۔ مکہ میں رہنے والوں کی شقاوتِ قلبی پر اہلیان مدینہ کا دل گرویدہ بازی لے گیا۔
کسی بھی قوم کا سردار وہ ہوتا ہ ، جو اس کی خدمت کرے یا جس سے قوم یہ امید لگا لے کہ وہ ہماری خدمت کرے گا۔ مدینہ کا ہر ایک باشندہ نبی پاک کی ذات اقدس سے یہ امید لگا چکا تھا کہ اس سے بہتر کوئی دوسرا نہ کر پائے گا ۔ وہ خدمت جو انہیں اللہ کے دربار میں آبرو مند کر دے ۔ انسان اپنی اور دوسروں کی نظر میں آبرو مند ہوگا تو آبرو مندی کے اس سفر کو آسانی سے طے کر سکے گا ۔ معاشرت کے ابتدائی تشکیلی مراحل میں ہی یہ پابندی لگا دی کہ کوئی دوسرے کے بارے کوئی ایسی بات نہ کہے جواگر اس کے سامنے کہی جائے تو اسے بری لگے ۔ خواہ وہ بات درست ہی کیوں نہ ہو۔
ہر خوشی ،ہر غم کے اثرات انسان پر ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ عقبہ کی گھاٹیوں میں چھپ چھپ کر اقرار الفت کرنے والے قدسی الاصل انسان ، غفلت شعار ان مکہ کے مقابلہ میں ایک دوسری طبیعت کے مالک انسان تھے۔ مدینہ کی وادی ایک ایسی وادی تھی ، جس پر برسی ہوئی ہلکی پھوار ہی اس پر نکھار لے آئی، مگر مکہ تو ایک نوکیلی چٹان تھی ۔ جس پر برسنے والی تیز بارش کا ایک قطرہ بھی اس پر نہ رک سکا ۔ آگے چل کر تحریک اسلامی کو جن دشواریوںسے گزرنا تھا مکہ در اصل اس کی تربیت گاہ تھی ۔ مکہ کے جو روستم در اصل ایک انسان کو اُن حالات کے لیے تیار کر رہے تھے ۔ جن میں افراد سے کی گئی نفرتیں ، نظریے سے محبت میں بدلنے والی تھیں ۔ بہر حال رحمت دو جہاں کے لیے مدینہ کی کھلی بانہیں ، بچھڑے ہوئے بچے کے لیے ماں کی آغوش سے کم نہ تھیں ۔
جگر پر جوتھے درد اور غم کے داغ
بجھے وصل سے ہجر کے وہ چراغ
( میر حسین)
غارِ ثور سے مدینہ تک کا سفر ایک ایسا سفر ہے جس نے انسان کی تقدیر بدل کر رکھ دی ۔ یہ ایک شخص کا پر اذیت ماحول سے نکل کر راحت کدے تک کا سفر نہیں ہے ، بلکہ ایک نظریہ حیات کی بقا کا سفر ہے ۔ مکہ چھوڑتے ہوئے جب آقائے دوجہاں نے ایک آخری نظر مکہ کے درودیوار پر ڈالی ہوگی تو اس نظرکا سارا درد اس ایک جملہ میں موجود ہے کہ : ’’ اے مکہ تو مجھے بہت عزیزہے۔ مگر کیا کروں تیرے فرزند مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے ۔‘‘(مفہوم) مکہ آپ کا وطن تھا آپ کا گھر تھا ۔ مکہ کی ہر گلی ہر گوشہ آپ کے لمس سے آشنا تھا ۔ آپ کا سارا خاندان ، آپ کا سارا کنبہ ہی مکہ میں رہتا تھا ۔ اسی مکہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سر فراز کیا ۔

سی مکہ کی ایک پاکباز عورت حضرت خدیجہؓ نے آپ پر اپنی نوازشات کا ہر دروازہ کھول دیا ۔ اسی مکہ کا ایک ناتواں بچہ آپؐ کے آگے پیچھے ایسا دوڑتا پھرتا تھا، جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ارد گرد دوڑتا بھاگتا ہے ۔ اسی مکہ میں وہ صدیق رہتا تھا ، جسے آپ ؐ کے ساتھ رہنے سے دنیا کا کوئی مفاد نہ روکتاتھا ۔ اسی مکہ نے آپ کو حضرت عمر ؓ اور حضرت حمزہ ؓ کی عظیم الشان رفاقتیں عطا کیں ۔ مگر اے مکہ ، اے وادی درد نا آشنا میں کیا کروں ؟ تیرے فرزند مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے ۔ یہ تھی وہ پکار جس کو سننے کے لیے رب کائنات نے اہل مدینہ کے کان کھول دیے اور انہیں ماننے والے دلوں سے نواز دیا ۔ انصار ماننے والے اور مدد کرنے والے کو بھی کہتے ہیں ۔ کس قدر بڑا اعزاز ہے جومدینہ کی تقدیر میں لکھا تھا ۔ آج سر زمین مدینہ اور اس پر رہنے والے دونوں ہی ایک دوسرے پر نازاں تھے اور دونوں مل کر آنے والے عظیم مہمان ہادی ؐ اعظم پر فدا ۔ فدا کاری کے اس جوش جنوں میں ہر ایک اپنے ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا۔
وہی روز و شب وہی گردشیں وہی مرحلے جو مکہ میں در پیش تھے اس استقبال نے ان کے ملال کو وقتی طور پر دور کر دیا یا کسی نہ کسی حد تک کم کر دیا ۔ آپ ؐ کی نبوت جزو قتی نبوت نہ تھی ۔ آپ ؐ کے ذمہ تو وہ کام تھا ، جس کام نے آپ ؐ کی زندگی میں ہی پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا اور پھر آپ کے وصال سے ابد تک انسانوں کے درمیان جاری و ساری رہنا تھا ۔ ایسی تحریکوں کے مرحلہ ہائے شوق کبھی طے نہیں ہوتے ۔ جدوجہد اور جانفشانی کا ایک لمبا راستہ جس کے کسی پڑائو پر کوئی آرام گاہ نہیں ہے ، بلکہ کوئی پڑائو ہی نہیں ۔ اپنے ہی سائے میں چلتا ہؤا یہ قافلہ اسلامی ، جو ہزاروں سال قبل حضرت آدم کی قیادت میں جنت سے نکلا تھا ۔ صد ہزار بار زیادہ جوش کے ساتھ آج نبی آخر الزماں ؐ کی قیادت میں مدینہ کی وادیوں میں خیمہ زن تھا ۔ بطحا اور یثرب کے ناموں سے یاد کیا جانے والا شہر اب نبی کا شہر بن چکا تھا۔ نام کیا بدلا اس کی تقدیر ہی بدل گئی۔
خدا کے بندے نے مدینہ میں جو سب سے پہلا کام کیا ، وہ خدا کے گھر کی تعمیر تھی ۔ قبا میں مسجد کا قیام اور پھر مملکت اسلامیہ کے ہیڈ کوارٹر مسجد نبوی کی تعمیر عین شہر مدینہ کے قلب میں ۔
عقل کی منزل ہے و ہ عشق کاحاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ
مرض کج روی میں مبتلا مریض کی شفایابی کے لیے جو دوا تر یاق کی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ توحید کا یہی جامِ آخریں،رسالت محمدی ہی تھی ۔ جس کی برکات کو سر زمین مکہ نے قبول نہ کیا تو یہ سعادت سرزمین مدینہ کے نصیب میں لکھ دی گئی ۔ ہدایت انہی کو ملتی ہے جو اس کی طلب صادق رکھتے ہیں اوراتنی ہی ملتی ہے جتنی کی مانگنے والے کو طلب ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے نظام میں بے طلب ملنے والی ہزاروں نعمتیں ہیں ، مگر ہدایت وہ واحد نعمت ہے جو صرف صدق دل سے مانگنے والے ہی کو دی جاتی ہے ۔ مدینہ ہدایت مانگنے والا طالب صادق تھا ۔ وہ اسے دے دی گئی انبیاء کرام کی آنکھیں نہ روتی ہیں ، نہ سوتی ہیں ، وگرنہ مکہ سے بچھڑنے کاغم کوئی چھوٹا موٹا غم تو نہ تھا کہ اس پر بھی حضورؐ پرنور کا ایک آنسو تک نہ ٹپکا ۔ مکہ کی محبوب وادی سے بچھڑنے کے غم نے تو شاید حضور ؐ رحمت دو جہاں کو اشک بار نہ کیا ہو مگر اہلیان مکہ کی حرماں نصیبوں پر آپ کھل کر روئے ۔ انسان جب ہدایت الٰہی سے منہ موڑتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ سے منہ موڑتا ہے ۔ اپنے آپ سے دشمنی کرتا ہے ۔ اہل مکہ کی اپنے آپ سے اس دشمنی پر حضور ؐ دل گرفتہ تھے ۔ انسانی ذہن کے اس بنجر پن نے آپ ؐ کو بہت تڑپایا ۔ انسانی ذہن کے بنجر پن پر آج تک بعثت محمدی سے زیادہ تیز بارش اور کوئی نہ برسی تھی ، مگر مکہ کا بنجر پن برگ و بارنہ لا سکا ۔ قمر یاں شاخِ صنوبر سے گریزاں ہی رہیں ۔ باغ کی ویران روشوں پر کونپلوں کی بہار نہ آ سکی اور مکہ کے ویرانے مدینہ کی شادابیوں سے دست و گریباں ہوگئے ۔ مکہ کا عفریت اور مدینہ کے یہودیوں کی بے وفائیاں ،اپنے اغراض و مقاصد میں ایک ہی تھیں ۔ آقائے دو جہاں کی مدینہ آمد کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی کی تاج پوشی کی رسم نا مکمل رہ گئی ۔ یہ ایک بہت بڑا زخم تھا، جو مدینہ کے یہودیوں کے سینے پر لگا ، حالانکہ جس روز اہل مدینہ حضورؐ پرنور کا انتظار کر کے اپنے گھروں کو واپس جا چکے تھے ، تو وہ ایک یہودی ہی کی صدائے درد ناک تھی ، جو اہل مدینہ کو اپنے گھروں سے ایک بار پھر باہر لے آئی ۔ یہودی ببانگ دہل اعلان کر رہا تھا ۔ اے اہل مدینہ ، اے آنے والوں کے لیے

اپنے دل کے تخت بچھانے والے اہل مدینہ،تمہارے مہما ن آ رہے ہیں ۔ آئو اپنی محبتوں کے ہار ان کے گلے میں ڈالنے کے لیے آئو ۔ گھر کی راحتوں سے اپنے آپ کوالگ کر لو ۔ وہ مبارک گھڑ ی آن پہنچی ، جس کا آپ سب کو انتظار تھا ۔ پھر کیا ہؤا۔ ان ہی یہودیوں نے مدینہ کے اندر ایک دوسرا مکہ آباد کر ڈالا ۔ اب مکے دو تھے جن سے حضور ؐ کو نبرد آزما ہونا تھا۔
جو عمارت مدینہ میں جا کر کھڑی کی گئی اس کا مسالہ مکہ میں ہی تیار ہؤا تھا ۔مکہ کا دور تبلیغ کا دور تھا اور مدینہ کا دور اقتدار اور تبلیغ دونوں ہی کا دور تھا ۔ مدینہ میں مسلمان اقدام کرنے کی پوزیشن نے مشرکین مکہ کو آتش زیر پا کر دیا ۔ مدینہ میں وہ متحارب قوتیں انصار اور یہودی تھے۔ یہودی ، انصار کو دھمکی آمیز اندازمیں کہا کرتے تھے کہ نیا نبی معبوث ہونے ہی والا ہے اور وہ بقول ان کے ان میں سے ہی ہوگا اور پھر وہ انصار سے نمٹ لیں گے ۔ آنے والے نبی کا دامن انصار نے لپک کر پکڑ لیا اور یہودی منہ دیکھتے رہ گئے ۔ نبی پاک ؐ کی آمد نے اوس اور خزرج کے باہمی اختلاف کو مٹا کر ان کے اندر بھائی چارے کی فضا پیدا کردی ۔ یہ بھی یہودیوں پرگراں گزرنے والی بات تھی ۔ انصار کے لیے اب یہودی اخلاق باختہ فسطائیوں کا قتل آسان ہوگیا ۔ اس سے یہودیوں پر رسولؐ خدا کی قیادت میں انصار کا ایک رعب سا قائم ہو گیا ۔ جس کی وجہ سے یہودیوں نے کھلی مخالفت کا راستہ ترک کر کے منافقت کی راہ اپنا لی اور در پر دہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی ہر تحریک کے آلۂ کار بن گئے ۔
مکہ میں جس دعوت اسلامی کے بارے مشرکین کا خیال تھا کہ اس نے گھر گھر میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے ۔ اسی دعوت نے مدینہ کے مخالف گروہوں کو یکجا کر دیا ۔ شام کو جانے والی تجارتی شاہراہ مدینہ سے ہو کر گزرتی تھی ۔ مدینہ کے اندر اتحاد کی فضا اور تجارتی شاہراہ کے خطرہ میں ہونے کے اندیشے نے مشرکین مکہ کو عسکریت کی طرف دھکیل دیا ۔ پیشتر اس کے کہ تحریک اسلامی مدینہ کے اندر زور پکڑے اور اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو جائے ۔ اس کو عسکری طاقت سے ختم کر دینے پر مشرکین مکہ نے گٹھ جوڑ کر لیا ۔ اس ضمن میں انہیں مدینہ کے یہودیوں کی معاونت مکمل طور پر حاصل تھی ۔ مکہ کے مشرکین اورمدینہ کا یہودی خبط باطن اعضائے جسم کے باہمی رابطہ کی مانند ایک تھے ۔
ایک بہت خوبصورت حدیث مبارک ہے کہ ’’ مسلمان جسم کی مانند ہیں ۔ اس جسم کے اگر ایک حصے پر تکلیف ہو گی تو اسے دوسرے بھی محسوس کریں گے ۔ آگاہ رہو کہ جسم کا ایک ایسا حصہ ہے جو اگر ٹھیک رہے گا تو باقی جسم بھی ٹھیک رہے گا اور وہ ہے دل ‘‘ (مفہوم)۔ آپ اپنے کانوں کو دیکھتے تو نہیں ۔ آپ کی ناک آپ کو نظر تو نہیں آتی ۔ آپ کی پیشانی آپ کا سر اور جسم کے بہت سارے دوسرے حصے آپ کی قوت بصر سے باہر ہیں ۔ ان میں سے کسی کو کوئی تقاضا ہو ، کس طرح آ پ کا ہاتھ لپک کر ان تک پہنچ جاتا ہے ۔ خود جس آنکھ سے آپ سارا جہاں دیکھتے ہیں وہ آپ اپنی دید سے عاجز ہے ۔ آپ کو کبھی اپنے اعضائے جسم تک پہنچنے کے لیے اپنے جسم کوٹٹولنا نہیں پڑا ۔ سونے کے عالم میں بھی آپ کے جسم کے کسی بھی حصے پر ہونے والی خارش آپ کے ہاتھ کو آواز دیتی ہے ۔ جسم کے اس حصے تک پہنچنے کے راستے آپ کے ہاتھ کو معلوم ہیں ۔ دائیں نتھنے میں کوئی تقاضا ہو تو آپ کی انگلی کبھی بائیں نتھنے میں نہیں جا گھستی ۔ روح کے ساتھ اس درجے کی واقفیت کا نام اپنے آپ کا سمجھنا ہے ۔ جسم کے جس حصہ میں بھی درد ہو اس حصہ جسم کو آنکھ سے رونے کی درخواستیں تو نہیں کرنا پڑتیں ۔
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
انبیاء کرام کی ساری جدوجہد ، انسان کو خود پر آشکار کرنے کی جدوجہد ہے ۔ جب انسان اپنے آپ پر آشکار ہو جاتا ہے تو وہ پھر اپنی روح کے تقاضوں کی طرف اسی طرح لپک کر جاتا ہے جیسے ابھی ہم نے جسم کی مثال سے اصل رازِ حیات تک پہنچنے کی کوشش کی ہے ۔ فریب آرزو میں جکڑے ہوئے اہل مکہ فروغ آرزو کے مرحلے میں داخل ہی نہ ہو سکے۔اُن کی آرزوئوں نے ہی انہیں مار ڈالا ۔ جنہیں تحریک اسلامی کا سنگ میل بننا تھا ، وہ سنگ راہ ہو گئے ۔ ان کی ضرورتیں ، ان کے مفادات انہیں لے کر ایک دوسری راہ پر چل نکلے ۔ فریب دینے والا سب سے پہلا فریب اپنے آپ ہی کودیتا ہے ۔ نفرت کے دہکاتے ہوئے الائو میں سب سے پہلے اسی کی ذات جلتی ہے ۔ اہل مکہ نفرت کی آگ میں جل رہے تھے

اس آتش انتقام کی لپیٹیں اب مدینے تک بھی آ پہنچی تھیں ۔ جو ان سے بچ نکلے تھے انہیں تہس نہس کر دینا ان کا مقصد زندگی تھا ۔ مدینے میں مسلمانوں کے لیے تحریک اسلامی کوآگے بڑھانے کے لیے ماحول ساز گار تھا اور اسی ساز گار ماحول کی مناسبت سے مسلمانوں کو مشرکین کے خلا ف جنگ کی پہلی اجازت دی گئی ۔
’’ اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلا ف جنگ کی جا رہی ہے ، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے نا حق نکالے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے : ’’ہمارا رب اللہ ہے ‘‘۔( القرآن ۔ الحج :30)
قتال فی سبیل اللہ کے بارے قرآن پاک کی یہ سب سے پہلی آیت ہے ، جس میں مسلمانوں کو مشرکین اورکفار کے خلاف جنگ کی اجازت دے دی گئی ، بعد میں سورہ بقرہ میں اس جنگ کا حکم بھی نازل کر دیا گیا اور اللہ نے صاف کہہ دیا کہ مسلمانوں اور مشرکین کی اس جنگ میں وہ مسلمانوں کی پشت پر ہے اور اُن کا پکا ساتھی ہے ۔یہ مشرکین اور کفار کے لیے صاف پیغام تھا کہ اگرچہ مسلمان تعداد میں قلیل ہیں فتح ان ہی کی ہو گی ۔ اس لیے کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور اللہ ان کے ساتھ اس لیے ہے کہ وہ حق پر ہیں ۔ اس سے مسلمانوں کی ڈھارس بند ھ گئی اور کفار کے لیے یہ ایک طرح کی تنبیہہ بھی تھی ۔ مسلمان مکہ سے اپنے گھر بار لٹا کر نکلے تھے ۔ متاع دنیا کے نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہ تھی ، بعض مہاجرین کو تو ، مکہ اس حال میں چھوڑنا پڑا کہ ان کے بیوی بچوں کو ان کے ساتھ جانے سے روک دیا گیا ۔ یہ مسلمانوں پر بے بسی کا ایک نا قابل بیان دور تھا ۔ جن حالات میں یہ آیات نازل ہوئیں ان آیات کریمہ کے اندر مسلمانوں کے لیے جو بشارتیں تھیں ان بشارتوں نے مسلمانوں کے استقلال کو اور بھی بڑھا دیا اور کفار کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے جوش نے ان کے دلوں میں ایک تمنائے بے تاب کی شکل لے لی ۔
عقبہ کی بات پر قریش کو اب تک یقین نہ آیا تھا کہ محمدؐ کو اپنے حال پر چھوڑ دو ۔ اگر انہوں نے عربوں پر غلبہ حاصل کرلیا تو وہ تمہارا ہی غلبہ ہوگا ۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو بھی تمہاری جان چھوٹ جائے گی ۔ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت اور مشرکین کے غیظ و غضب سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا ، کہ خونی معرکہ آرائی کے دن اب قریب آگئے ہیں ۔ حالات و واقعات بہت سارے سرایا سے ہوتے ہوئے مسلمانوں کو جنگ بدر کے دھانے پر لے آئے ۔ سازو سامان کے ساتھ مشرکین کے تجارتی قافلہ کی راہ روکنے کے لیے نکلے تھے ۔ اُن کا آمنا سامنا بدر کے میدان میں قریش کے جنگ باز لشکر سے ہو گیا جو کہ ایک ہزار جنگ جوئوں پر مشتمل تھا ۔ ابو سفیان نے جب اپنے قافلہ کو مسلمانوں کی دست برد سے بچانے کا سوچا تو اس کا ایک ہی حل اس کے ذہن میں آیا کہ مکہ میں اعلان عام سے ایک زبردست لشکر ترتیب دیا جائے جو سرعت کے ساتھ قافلہ اس مقام پر پہنچنے سے قبل ان راستوں پر موجود ہو ۔ عتبہ نے اس موقع پر بھی قریش کو جنگ سے گریز کا مشورہ دیامگر ابو جہل کی اجل اسے رسوا کر نے کا فیصلہ کر چکی تھی جب اسے جنگ سے گریز کرتے ہوئے واپس مکہ لوٹ جانے کے لیے ، عتبہ کے دیے ہوئے مشورے کا علم ہؤا تو ، اس وقت وہ اپنی زرہ سے کھیل رہا تھا ۔ اس کے تکبر نے اسے پیش آنے والی رسوائیوں کے اور بھی قریب کر دیا۔
دونوں لشکر آمنے سامنے صف آرا ہو گئے ۔ اس جنگ کا پہلا مقتول لشکر قریش کا اخلاق باختہ اسود مخزومی تھا ۔ جو حضر ت حمزہ ؓ کے ہاتھوں جہنم واصل ہؤا۔ اس کا قتل جنگ بدر کا نقطۂ آغاز بھی تھا ۔ ابو لہب جنگ بدر میں شریک نہ تھا ۔ بد بخت حضورؐ کو گالیاں دینے کا کام تو خود ہی کرتا تھا ،مگر جنگ میں شرکت سے بچنے کے لیے اس نے اپنے غلام کا انتخاب کر لیا ۔ دعوت مبارزت اور پھر کھلی جنگ ، دونوں لشکر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے ۔ رب العزت کی بارگاہ میں اٹھے ہوئے ۔ رحمت دو جہاں کے دوہاتھ بے سرو ساماں مجاہدوں کے کام آگئے ۔ فرشتے نیزے بھالے سنبھالے میدان میںموجود تھے ۔ ایسے لگ رہا تھا ، جیسے آج خدا خود لڑ رہا ہو ۔ مدینہ میں ایک دن حضور سے عہد وفا باندھتے ہوئے انصار نے کہا تھا کہ ہم وہ موسیٰ کے حواری نہیں ہیں ۔ جو ضرورت پڑنے پر آپ ؐ سے کہہ دیں گے ۔ تم جانو اور تمہارا خدا جانے ہم تو لڑنے سے رہے ۔ حضورؐ ہم آپ ؐ کے آگے لڑیں گے پیچھے لڑیں گے ۔ دائیں لڑیں گے بائیں لڑیں گے ۔ حتیٰ کہ اگر آپؐ ارشاد فرمائیں گے تو سمندر میں کود جائیں گے ۔ بدر

والے دن واقعی انصار رحمت دو عالم کی خواہش پر موت کے قلزم خونیںمیں کود پڑے تھے۔ انصار کے دو کم عمر صحابہ کے ہاتھوں ہی ابو جہل ذلت کی موت مارا گیا تھا ۔ میدان بدر میں ستر سرکش مارے گئے ، جن میں مکہ کے بڑ ے بڑے سردار بھی شامل تھے۔
لذت ِ تخلیق سے آتشیں زنان مکہ اپنے آپ کو لذت انتقام کے حوالے کرتے ہوئے واپس مکہ لوٹ گئیں اور ان کے پالے پوسے میدان بدر میں نصیبوں کے ہاتھوں مار کھا گئے اور باقی جو بچے وہ قیدی بنا لیے گئے، کچھ کے لیے بزدلی نے اپنی راہیں کشادہ کردیں اور وہ مکہ کی جانب بھاگ نکلے ۔ اپنے وطن کی طرف مراجعت کے شوق نے ان کے قدموں میں بجلیاں بھر دی تھیں ۔ مسلمان تعداد میں تھوڑے تھے ، مگر سیسہ پلائی دیوار تھے۔ مسلمانوں میں سے کوئی بھی زندگی سے ایسا پیار نہ کرتا تھا کہ اسے موت سے ڈر لگنے لگے ۔ دنیا کے متوالوں اور آخرت کے پر ستاروں کی اس جنگ نے مشرکین مکہ کو حیرتوں میں گم کر دیا ۔ عتبہ مارا جا چکا تھا مگر اس کے کہے ہوئے الفاظ کسی کو نہ بھولے تھے کہ محمد ؐ کو اپنے حال پر چھوڑ دو۔ اس کو حاصل ہونے والا غلبہ اے اہل قریش تمہارا ہی غلبہ ہوگا ۔ یہ تو رسول اللہ ؐکی غلبہ دین کی طرف پہلی پیش قدمی تھی ۔ جس کی گواہی دینے کے لیے عتبہ زندہ نہ تھا۔
جنگ بدر کے بعد اور جنگ اُحدسے پہلے ایک چھوٹے سے غزوہ کا ذکر آتا ہے جو غزوہ بنی غطفان کے نام سے مشہور ہے۔ ابھی ہجرت کو تیسرا سال ہی تھا کہ ایک دوسری بڑی جنگ مدینہ کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی ۔ بدر کی ہزیمت نے مشرکین مکہ کو برافروختہ کر دیا تھا ۔جب تک بدر کی شکست کا بدلہ نہ لے لیا جائے ۔ کئی شوہروں اور بہت ساری بیویوں نے اپنے آپ کو ایک دوسرے پر حرام کرلیا ہؤا تھا ۔ کوئی گھر ایسا نہ تھا ، جسکا کوئی نہ کوئی فرد بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں زندگی سے محروم نہ ہوا ہو یا قیدی نہ بنا ہو۔ زخم خوردہ مشرکین میں سے سب سے زیادہ انتقام کی آگ ہندہ زوجہ ابو سفیان نے سلگا رکھی تھی ۔ اس کے بہت سارے رشتہ دار بدر کے ویران کنویں کی زینت بن چکے تھے جن میں سے اکثر کو حضرت حمزہؓ کی تیغ جگر دار نے دو نیم کردیا تھا ۔ نبیؐ آخر الزماں رحمت دو جہاں کی پوری زندگی صدموں کی زندگی تھی۔ان صدموں کے نتیجے میں ملنے والی راحتوں پر ہی آپ کی نظر رہی ۔ اللہ کی خوشنودی کے تصور نے ہر دوسری چیز کو آپ کی نظروں میں کم الم کردیا تھا۔ ہجرت سے پہلے بھی اورہجرت کے بعد بھی مشرکین مکہ نے آپ ؐ کے قتل کی منصوبہ بندی کی مگر حق کو غالب ہونا تھا ۔ غالب ہی ہو کر رہا ۔ غزوات کی بے سرو سامانیاں اور روز مرہ کے معاش تک میں تنگیاں ۔ امر واقعہ کے طور پر موجودتھیں ، مگر تحریک اسلامی کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہ تھیں ۔نبی ؐ کا سب سے بڑا زادِہ راہ تو اس کا وہ یقین کی آخری حدوں کو چھوتا ہوا اعتماد ہوتا ہے ، جو ہر وقت ہر حال میں اپنے اللہ سے ہی آس لگائے رہتا ہے ۔
اُحد کی لڑائی کے لیے کفار نے لمبی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ سامان حرب و ضرب کی فرا وانی کے ساتھ ساتھ جو زنانِ مکہ کو ذہنی تربیت کے مراحل سے بھی گزارہ گیا کہ انہیں احد کی جنگ کیوں جیتنی چاہیے ؟ سولہ سنگار کیے خوبصورت عورتیں ، جنگ جیتنے کی عصبیت کو بیدار رکھنے کے لیے ان کے ہمراہ تھیں ۔ ہندہ زوجہ ابو سفیان کو تو آتش انتقام نے آج دہکتا تنور بنا رکھاتھا۔ بن حرب کی بیوی آج بنت حرب نظر آرہی تھی ۔ تین ہزار کا لشکر مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کے لیے اُحدکے دامن میں خیمہ زن ہوچکا تھا ۔ مال و اسباب اور چنگ و رباب سے مسلح اس لشکر کا ہر لشکری آج اس بات پر کم ہی سوچتا تھا کہ وہ شکست بھی کھا سکتے ہیں ، مگرصرف سات سو قدسی الاصل انسانوں نے اُن کے اس غرور کو خاک میں ملا دیا ۔جنگ شروع ہوئے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ مشرکین مکہ اپنے ہی غرور و ناز کو اپنے ہی پائوں تلے روندتے مکہ کی طرف بھاگ رہے تھے ۔ ہندہ کی صدائے درد ناک نے ان بھاگتے بہادروں نے جیت لیا ۔ خالد بن ولید ایک لمبا چکر کاٹ کر دوبارہ اپنے لشکر کے ساتھ میدان میں موجود تھا ۔ مسلمانوں نے اپنے رسول کی ہدایات کو نظر انداز کر دیا اور جیتی ہوئی جنگ شکست میں بدل گئی ۔ محبوب خدا کے فدائیوں کی ایک حسن نیت پر مبنی غلطی نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا ۔ جس چنگ و رباب کو مسلمان مٹانے کے لیے میدان میں آیا تھا ، انہی طائوس و رباب کے ہاتھوں شکست کھا گیا ۔ حنا بند ہاتھوں نے میدان جنگ کو خون سے رنگ دیا۔

ہم جنگوں میں بھی عورت کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ جب میدان جنگ میں جاتے ہوئے آپ کی ماں ، بیوی اور بہن خالہ تک ہمراہ ہوتی ہے تو پھر گھروں میں باقی رہ کیا جاتا ہے ۔ جس کی لپک مردوں کو جانیں فدا کرنے سے روک دے جس چیز میں انسان کا دل سب سے زیادہ لگتا ہے ۔ وہ افراد خانہ اور ان کی عزتوں کی حفاظت کا احساس ہی ہے ۔ جب وہ خطرے کی جگہ اُن کے ساتھ ہی موجود ہوں تو پھر دوسری اور کون سی عصبیت ہے ، جو میدان جنگ میں اُن کے پائوں جما دے گی ؟ عورت کی عزت اس کے جسم کے ساتھ وابستہ ہے ۔ جب عورت ہی دوسروں کے قبضے میں چلی گئی ، تو اپنی عزت کو ساتھ ہی لے کر گئی۔
’’ اگر تم آگے بڑھ کر لڑو گے تو ہم تمہاری ہیں ۔ ہماری آغوش تمہارے لیے کھلی ہے ۔ اگر تم نے ہم سے منہ موڑ لیا ہمیں بھلا دیا تو پھر ہم بھی تمہیں بھلا دیں گی اور ہمارے پاس تمہارے لیے کوئی رات ایسی نہ ہو گی جسے تمہاری رفاقتیں نصیب ہو سکیں ۔ ہمیں دوسروں کے حوالے کر کے بھاگنے والو ہم تمہاری عزتیں ہیں ۔ واپس آئوہم تمہیں گلے سے لگائیں گی ۔ یہ جسم تمہاری ہی ملکیت ہیں ۔ انہیں اپنی ہی ملکیت بنا رہنے دو ‘‘۔
یہ ہے اس صدائے درد ناک کا خلاصہ جو چنگ و رباب کی تھاپ کے ساتھ بھاگتے بہادروں کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہو گئی ۔ مسلمان بھاگ گئے کفار کا مال غنیمت سمیٹنے میں مصروف تھے ۔ ان پچاس تیر اندازوں نے بھی فتح مبین دیکھ کردرہ خالی کر دیا تھا ۔ خالد بن ولید کی سپاہانہ بصیرت کا م کر گئی لشکر مشرکین واپس پلٹ آیا ۔ بے خبر مسلمان تلواروں کی باڑ پر دھر لیے گئے ۔ مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے تھے ۔ خود رحمت دو جہاں کی ذات مبارک لہو میں نہا گئی ۔ حضرت حمزہ ؓ شہید کر دیے گئے ۔ ہندہ نے گزری زندگی میں بے تابی کے ساتھ جس دن کاانتظار کیا تھا وہ یہی آج کادن تھا ۔ میدان جنگ مکمل طور پر لشکر کفار کی گرفت میں تھا اور لشکر کفار کی ساری نفرت صنف نازک ہندہ کے وجود میں ڈیرے ڈال چکی تھی ۔ ہندہ کی شقاوت نے حضور پر نور کو ایک ایسا دل دکھانے والادن دے دیا جس کے کرب کو رحمت دو جہاں زندگی بھر نہ بھلا پائے ۔ طائف کے بعد حضرت حمزہ ؓ کا بے رحمانہ قتل آپ کی زندگی کا دوسرا بڑا صدمہ تھا جس کا آپؐ اکثر ذکر کیا کرتے ۔ احد والے دن رسولؐ خدا کی اپنی ذات اقدس کو نا قابل بیان آلام سے گزرنا پڑا تھا ۔ مگر حضرت حمزہ ؓ کی بے رحمانہ شہادت کا غم ایک انوکھی قسم کا غم تھا جو پوری زندگی حضور کے ساتھ لگا رہا ۔ اس وقت بھی جب ہندہ کوہِ صفا پربیعت کے لیے ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی ہندہ کا اسلام قبول کرلیا گیا ۔ ابو سفیان کی بیوی حضرت ہندہ ہو گئی ۔ مگر اس سر زنش کے ساتھ کہ ’’ ہندہ تم میرے سامنے نہ آیا کرو ۔ تمہیں دیکھ کرمجھے میرا چچا یاد آجاتا ہے ‘‘۔(مفہوم)
حضرت حمزہؓ کی بیٹی چھوٹی سی فاطمہ کی دو آنکھیں ہجوم میں اپنے باپ کو تلاش کر رہی تھیں ۔فاطمہ کی نظر حضرت ابو بکر صدیق پر پڑی تو ان سے لپٹ گئیں ۔ میرے بابا کہاں ہیں ؟ فاطمہ عمر کی اس حد تک چھوٹی تھی کہ اسے صرف اپنے بابا سے ہی غرض تھی ۔ اس کی پوری دنیا اس کا بابا ہی تھا ۔یہی سوال ننھی فاطمہ نے آقائے دوجہاں سے کردیا ۔آپؐ نے اپنا دست نبوت فاطمہ کے سر پر رکھا اور کپکپاتے ہونٹوں سے بمشکل کہا ۔’’ میں ہوں آپ کا بابا۔فاطمہ کو اپنے بابا سے بہت بہتر بابا مل گیا ۔ مگر حضورؐ کے لیے اپنے چچا کا کوئی دوسرا بدل نہ تھا ۔ فاطمہ ننھی بچی سے ایک دم وہ انصار یہ خاتون بن گئی جس کا باپ ، بیٹا اور شوہر جنگ احد میں کام آگئے تھے مگر اس کا کچھ نہ گیا تھا حضورؐ پر نور اس کے سامنے موجود تھے ۔ دست نبوت کے لمس نے فاطمہ کو بڑا کردیا ۔ خیالات اورعمر دونوں میں بڑا۔
تمام نبوتوں میں سب سے زیادہ مشکل کار نبوت حضور نے انجام دیا ہے ۔ آپ کی نبوت کے راستوں میں حضرت دائود اور حضرت سلیمان ؓ کی نبوتوں کی طرح نہ کوئی قالین بچھائے گئے اور نہ ہی کوئی تخت سجائے گئے ۔ آپ ؐ کی نبوت تو انبار خس و خاشاک میں شعلہ آتش ناک بن کر گزرنے کا کام تھا ۔ وہ آپ ؐ نے اللہ کی نصرت سے دکھا یا۔ جنگیں جیتنے کے لیے بنیادی کردار ایمان کاہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسباب اور حکمت عملی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔محض منا جات اوردعائوںسے دشمن کی توپوں کے دہانوں سے نکلنے والے گولوں کی شعلہ آشامیوں سے تو محفوظ نہیں رہا جا سکتا ۔ اللہ نے جب چاہا ایسا بھی ہؤا مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا احد والے دن مسلمانوں کی فتح کو جس چیز نے شکست میں بدل دیا وہ

تدبیر کی وہی غلطی تھی جو ایک درہ پر موجود صحابہ کرام سے سر ز دہوئی ۔ غزوہ احد 3ہجری میں ہؤا۔5ہجری میں غزوہ مریسیع ۔ عبد اللہ بن ابی کی سازشیں اور پھر غزوہ خندق۔ خیبر کا معرکہ اور 8ہجری میں جنگ موتہ سے حالات فتح مکہ پر آکر منتج ہوئے ہیں ۔ فتح مکہ کے بعد حنین کے معرکہ میں کامیابی نے پورے عرب پر اسلام کے غلبے کی راہ ہموار کردی۔تبوک کے معرکہ میں قیصر روم کے خلاف مسلمانوں کی کامیابی نے ان خطوں میں اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے اور ارد گرد کے سارے قبائل یا تو جزیہ دینے پر رضا مند ہو گئے یاانہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا ۔ تحریک اسلامی حنین اورتبوک سے ہوتی ہوئی قبائل کے ہر گھر میں داخل ہوچکی تھی ۔ دعوت و تبلیغ کا کام اپنی تکمیل تک پہنچ چکا تھا ۔ رسالتِ محمدی کی بنیاد پر نیا معاشرہ وجود میں آچکا تھا ۔ الوہیت الٰہی کا ڈنکا ہر طرف بج رہا تھا ۔ عرب کو بت پرستی کی لعنت سے نجات مل چکی تھی ۔ صحابہ کرام کے دلوں میں جس اندیشے نے جنم لے لیا تھا قرآن نے اس کی تصدیق کردی۔
’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا‘‘۔
اللہ کے رسول مقبول نے آخری فوجی مہم رومن امپائر کو خوف زدہ کرنے کے لیے حضرت اسامہ بن زید کی قیادت میں روانہ کی ۔رسول ِؐ خدا کی روانہ کردہ یہ آخری فوجی مہم حضرت ابو بکر صدیق کے دورِ خلافت کی پہلی فوجی مہم تھی۔
الوصال، الوصال
جب آپؐ آتی جاتی سانسوں کے ساتھ موجود تھے تو دو چار دس لاکھ انسانوں میں موجود تھے ۔ آج قریب قریب ڈیڑھ ارب یا اس سے بھی زیادہ انسانوں کی زبانیں آپ ؐ کے ذکر خیر سے تررہتی ہیں ۔ روئے زمین پر سب سے زیادہ لیا جانے والا نام مبارک آپؐ ہی کا نام گرامی ہے ۔ جو خدا کونہیں مانتا ۔ وہ بھی آپ ؐ کو مانتا ہے ۔ مانتا نہیں تو جانتا ضرور ہے ۔ جس قدر احترام حیات انسانی میں آپؐ کے حصے میں آیا ہے کسی دوسرے کو ایسا احترام نصیب نہیں ہؤا۔ اللہ ہر روز آپ ؐ کے نام کو بلند کرتا چلا جا رہا ہے ۔ اللہ کے رسولؐ کی داستان ایک بے کنار اور ہم کنار انسان کی داستان ہے۔ حسن اور عشق میں کوئی حجاب نہ ہو اس کا ذکر لازوال ہے ۔ یہ گوہر شاہوار کا قصہ طولانی ہے جو ابد سے بھی آگے تک حوض کوثر کے کناروں پر بھی بیان ہوتا رہے گا ۔ جس طرح زبانیں اللہ کا ذکر کرتے نہیں تھکتیں ۔ حضور ؐ کا نام لینے سے بھی کبھی نہ اکتائیں گی ۔ وہ خدا کے رسول تھے ہم سب اس رسول کے رسول ہیں ۔جس کام کو آپ ؐ نقطہ تکمیل تک لے کر گئے ۔ اس نقطہ کمال کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ کمال کا سفر طے ہوچکا ۔ انسانیت کے حلق میں دانش و بصیرت انسانی کے لیے سفر کی کوئی منزل نہیں ہے ۔
انسانوں کے سروں پر رکھے ہوئے ان کے بڑوں کے دست ہائے شفقت اٹھ اٹھ کر انہیں یتیم بناتے رہے اور بناتے رہیں گے ۔ مگر انسانیت کبھی یتیم نہ ہو سکے گی ۔ انسانیت کے سر پر رکھا ہؤا آقائے دو جہاں کا دست شفقت کبھی اس کے سر سے الگ نہ ہو سکے گا در یتیم، محبوب خدا ، محسن انسانیت نے ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ کہا اور اللہ کا بندہ بن کر ہی زندگی بسر کی ۔ دو جہاں کے والی ہونے کا تعلق تو عقیدوں سے ہے مگر پورے عرب پر حکمرانی تو سامنے کی چیز تھی ۔ عرب و عجم کے حکمران کی زندگی کی آخری رات گھر کے اندر رکھا ہؤا چراغ تیل نہ ہونے کی وجہ سے بجھا پڑا تھا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ جب چراغ جلانے کے لیے تیل ہمسایہ سے مانگ کر لائی ہوں گی تو انہوں نے کیا کیا نہ سوچا ہوگا ؟ وہ کون سی چوٹ ہے جو مسلمانوں کی اس ماں کے دل پر نہ لگی ہوگی؟ عرب و عجم کے سارے ہی گھر جس سراج منیر کی روشنی سے منور تھے ۔ آج کی رات اس کا اپنا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہؤااور رات بھی زندگی کی آخری رات ، تاج ورو، تاجدارو، ذرا کان لگا کر سنو امت کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ کی بات ۔ ’’ہمارے گھروں میں کئی کئی دن تک آگ نہ جلتی تھی ۔ حضور نے

آپ نے انسانوں کو امن کے وہ زمانے فراہم کر دیے کہ قادسیہ سے ایک عورت تن تنہا چلے مکہ کا حج کرے اور راستوں کے خوف کے بغیر اپنے ملک واپس لوٹ جائے ۔

پوری زندگی کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اوردنیا سے جاتے وقت جو اثاثہ چھوڑا وہ ایک تلوار اور دو چار درہم ‘‘ ( مفہوم )۔ دنیا سے جاتے ہوئے یہ تھی اس انسان کی کل جائیداد ۔ نہ لونڈی نہ غلام ، تین تین سو کنال اور مربعوں پر بنی اپنی رہائش گاہیں تمہاری ہوس کی وسعتوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ چارٹر جہازوں پر عمرہ کرنے والے نادان زر پرستو ہوش میں آئو موت تمہارے دروازوں پر دستک ہر روز دیتی ہے ۔ اس کی دستک پر کان نہ بھی دھرو گے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ وہ بند دروازوں سے تمہیں ایک دن اچک کر لے جائے گی ۔ یقین جانو تمہارے عزو ناز کے بچھائے ہوئے تخت کبھی تمہاری یاد میں روئیں گے نہیں ۔ان پر کوئی اور آن بیٹھے گا تمہاری ہی طرح کا ایک اور نادان ۔
انسان سے انسان کی یہ بے اعتنائی سر گزشت آدم کا ایک المناک باب ہے ۔ جس جینے کے ہاتھوں انسان روز مرتا ہے۔ جینے کا وہ ڈھنگ رحمت دو جہاں کا سکھایا ہؤا ڈھنگ نہیں ہے ۔ سیاسی اور معاشی اجارہ داروں نے اپنے سیاسی اور معاشی غلبہ کی خاطر مفلوک الحال طبقہ انسانی کو جنم دیا اور مذہبی اجارہ داروں نے پیری مریدی کے اس نظام کو رائج کردیا جس نے انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کومفلوج بنا کر رکھ دیا ۔ اس طرح سے انسانوں پر انسان کے اقتدار کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ عقیدہ کی حد تک تو اللہ کے مقتدر ِ اعلیٰ ہونے کی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا رہا ۔ مگر اقتدار عملاً انسانوں کی طرف منتقل ہو گیا ۔ ریاستی اقتدار نے رہائشی اقتدار کی شکل اختیار کرلی۔ ریاست ان دنوں طبقوں کی پشت پر موجود رہی ۔ اس طرح سے انسان ، انسان کے ہاتھوں ہی مارکھا گیا۔
جس صبح حضور پر نور اس دنیا سے رفیق الاعلیٰ کے پاس چلے گئے ۔ اس وقت آپ کا سر مبارک اپنی محبوب بیوی حضرت عائشہؓ صدیقہ کے زانو پر رکھا تھا ۔ وہ عائشہ جس کا باپ ابو بکر صدیقؓ نبی کریم کے بعد سب سے زیادہ محترم تھا اور عقل خیر کامالک بھی۔ ہر ایک پریشان اور سراسیما تھا ۔ بڑے بڑوں کو آج ان کے حوصلوںاور بصیرتوں نے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق راز دارِ نبوت کے اس بیان نے کہ:
’’ جو کوئی محمد کی عبادت کرتا تھا ۔ سو وہ سن لے کہ محمد انتقال فرما گئے ہیں اور جوکوئی اللہ کو پوجتا تھا وہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ قائم و دائم اور حی و قیوم ہے ‘‘ مسلمانوں کے اندر ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کر دیا اور پھر اس ارشاد باری تعالیٰ نے کہ:
’’ محمد بھی تو ایک رسولؐ ہیں ۔ ان سے قبل بہت سے رسول اور پیغمبر گزر چکے ہیں ۔ وہ اگر وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا الٹے پائوں پھر جائو گے ۔ اگربالفرض کوئی شخص الٹا پھر بھی جائے تو وہ اللہ کو کیا نقصان پہنچا سکتا ہے‘‘۔
مسلمانوںکو ایک بار پھر اپنے پائوں پرکھڑا کر دیا ۔ محمد رسول اللہ صرف اللہ کے بندے تھے اور یہی عبدیت آپ کی شان بھی ۔ اسی عبدیت نے آپ کو وہ مقام عطا فرمایاجوکسی اور انسان کے حصے میں نہیں آیا ۔ آپ جنت کے مالک تو نہ تھے مگر جس کو بھی جنت کی بشارت دے دی اللہ نے اس پر جنت واجب کردی ۔ آپ نے انسانوں کو امن کے وہ زمانے فراہم کر دیے کہ قادسیہ سے ایک عورت تن تنہا چلے مکہ کا حج کرے اور راستوں کے خوف کے بغیر اپنے ملک واپس لوٹ جائے ۔ اللہ نے جو وعدے بھی اپنے حبیب سے کیے تھے اور محبوب خدا نے وہی وعدے مسلمانوں سے کیے تھے ۔ اللہ نے وہ سب وعدے پورے کر دیے ۔
ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے
پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضورؐ نے
٭٭٭

 

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x