ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پانی بچائیں-بتول جنوری ۲۰۲۱

یہ جون 2009 کی بات ہے۔ سنگا پور کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ہم تقریباً ایک ہفتہ ٹھہرنے کی نیت سے پہنچے ۔ سامان رکھتے ہی دل چاہا کہ تازہ دم ہونے کے لیے شاور لیا جائے ۔ باتھ روم میں گھسی تو معلوم ہو&ٔا کہ وہاں بس ایک ہی شاور تھا جو کہ باتھ ٹب پر نصب تھا ،ایک عدد نلکا بھی وہیں موجود تھا۔ مجھے تو جلدی سے نہا کر فارغ ہونا تھا تاکہ باقی لوگ بھی نہا دھو سکیں۔ میاں جی سے مسئلے کا حل مانگا۔ وہ آئے اور خوب اچھے سے باتھ روم کا معائنہ کرنے کے بعد فرمانے لگے کہ ٹب میں ہی شاور استعمال کرنا پڑے گا کیونکہ اگر ٹب سے باہر پانی گرا تو وہ ڈرین نہیں ہوگا۔ مجھے تھوڑی جھنجھلاہٹ ہونے لگی کہ یہ کیا ہے ۔ اتنے میں روم سروس والا لڑکا آیا ۔ ہم نے اس سے ماجرہ معلوم کیا کہ ٹب کے باہر شاور یا نلکا کیوں نہیں ہے۔ اس کا جواب سن کر میں سوچ میں پڑ گئی اور پھر مجھے سنگا پور کی ترقی کا راز معلوم ہوگیا ۔
اس نے بتایا کہ اس کے ملک میں پانی ضا ئع کرنا سخت ناپسند کیا جاتا ہے کیونکہ دنیا بھر میں پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے(کا ش میرے ملک میں بھی اس نعمت کو بچانے کی ایسی فکر ہو)۔ اس مقصد کے لیے پورے سنگا پور ر میں سوائے ٹوائلٹ کے ،باقی ہر طرح کا پانی استعمال کے بعد جمع کر کے پلانٹ پر بھیجا جاتا ہے جہاں اسے کیمیائی مادوں کے ذریعےصاف کرنے کے بعد دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ شاور روم کا پانی اس ٹب سے گزرنے کے بعد ایک زمین دوز ٹینک میں جمع ہوتا ہے اور پھر آگے بھیجا جاتا ہے۔ اس پانی کو صفائی ستھرا ئی ، پودوں کی آبیاری اور اسی طرح کے مختلف کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
میرے دل میں یہ بات کھب سی گئی تھی ۔ کیونکہ میرے ملک میں تو ہم سب پانی اور ایسی بہت سی نعمتیں ضائع بھی کرتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ حالانکہ ہم سب سے نعمتوں کے بارے میں ضرور سوال ہو گا(التکاثر:8)۔ اسی وقت میں نے خودسے وعدہ کیا کہ اب پانی کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہے کہ اپنی اس کوشش میں ،میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہوں ۔ اس مضمون کو لکھنا اور آپ تک پہنچانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
یہاں ایک بات واضح کرتی جاؤں کہ اب دنیا بھر کے کئی ایک ممالک میں استعمال شدہ پانی کو ایک خاص طریقے سے صاف کر کے کام میں لایا جاتا ہے۔ سنگا پور کی طرح جاپان بھی اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ اور شاید یہی ان ملکوں کی ترقی کا راز بھی ہے کہ بہت چھوٹے ہونے کے باوجود بڑے بڑے ملکوں کے مقابلے پر ہیں بلکہ کئی ایک سے آگے بھی ہیں۔اکثر ممالک میں یہ کام حکومتی سطح پر ہوتا ہے لہٰذا بڑے پیمانے پر استعمال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی مسلمان ممالک بھی اب اس لسٹ میں شامل ہیں جن کا ذکر آگے کیا گیا ہے۔ دراصل نعمتوں کا درست استعمال ان نعمتوں کی شکر گزاری کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ اور جہاں شکرگزاری ہوگی وہاں اللہ تعالیٰ بھی مزید نوازتے ہیں(سورہ ابراہیم: 7) ۔
پانی کی اہمیت سے کون واقف نہیں ۔ ہر جاندار کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے۔ قرآن مجید میں ہے ، ’’ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو پیدا کیا‘‘(سورہ الانبیا: 30) ۔ آج دنیا بھر میں پانی کی کمی ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ اور اگر پانی کا اس بےدردی سے استعمال جاری رہا تو ہم اس نعمت کے لیے ترستے رہ جائیں گے۔ جیساکہ ورلڈ بینک (1995) کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ سن 2025 تک دنیا کے بہت سے ممالک میں پانی کی شدید قلت ہو جائے گی ۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہم سب کو ذاتی طور پر کوششیں کرنی ہوں گی اور حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔ پانی کو ہم بڑھا تو نہیں سکتے لیکن اسے بچانے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں اور یہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ اس نعمتِ خداوندی کو احتیاط سے استعمال کیا جائے ۔ پانی کو بچانے کے دو اہم اصول ہیں۔پہلا یہ کہ پانی کو کم سے کم استعمال کیا جائے یعنی فضول خرچی سے بچا جائے اور دوسرا یہ کہ استعمال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال کیا جائے۔ یہاں انہی دو اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ چھوٹی چھوٹی کوششوں کا ذکر ہے۔ اور چند ایک ٹپس آپ سب کے گوش گزار کروں گی جن پر عمل کر کے ہم پانی بچاسکتے ہیں ۔
الف) انفرادی سطح پر کیے جانے والے اقدامات:
ایک گھریلو خاتون ہونے کے ناطے میں آغاز گھر سے اور خاتونِ خانہ کے کاموں سے کروں گی اور وہ ٹپس آپ کے گوش گزار کروں گی جو میں نے اتنے عرصے میں اپنے اور اپنی مخلص ساتھیوں کے تجربوں سے سیکھی ہیں۔ آپ چاہیں تو ان سے استفادہ کریں یا اپنے حالات کے مطابق کچھ نئی ٹپس ایجاد کر لیں ۔خواتین کو اللہ تعالیٰ نے بڑا تخلیقی دماغ دیا ہے (کہیں پڑھا تھا ، اب یاد نہیں لیکن عملی طور پر اس کا مشاہدہ کیا ہے)۔لہٰذا اللہ کی اس نعمت کو بھرپور استعمال کرتے ہوئے اسے ضائع ہونے سے بچانے کی کوشش میں لگ جائیں اور ہاں دوسروں سےضرور شئیر کریں خاص طور پر اپنے بچوں اور گھر کے باقی افراد سے، تاکہ وہ بھی اس کارِ خیر میں شامل ہو سکیں ۔ یہ ٹپس اتنی آسان ہیں کہ آپ آج بلکہ ابھی ہی سے شروع کر سکتی ہیں ۔ اور باقی لوگ گھروں کے علاوہ جہاں بھی ہوں ان ٹپس کو اپنے ماحول کے مطابق کچھ ردوبدل کر کے اپنا سکتے ہیں۔ تو نیک کام میں دیر کیسی۔
1) پانی ضائع ہونے سے بچائیں۔
٭ پانی کو ہرممکن ضائع ہونے سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ آپ ؐ کا فرمان ہے ،’’ پانی ضائع نہ کرو چاہے تم دریا کے کنارے وضو کر رہے ہو‘‘ (ترمذی:427) یعنی اگر گھر میں پانی کا فی مقدار میں موجود ہو تب بھی احتیاط برتنی ہے۔ جب کہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اکثر گھروں میں وضو اور نہانے کے لیے بہت زیادہ پانی بہایا جاتا ہے۔ مجھے اس وقت بہت شرمندگی ہوتی تھی جب انگلینڈ میں رہائش کے دوران میری غیر مسلم سہیلیاں کسی کو وضو کرتے دیکھ کر مجھ سے یہ سوال کرتی تھیں کہ مسلمان اپنی عبادت سے پہلے اتنا پانی کیوں ضائع کرتے ہیں ۔ اکثر مسلمان علما کو بھی ٹی وی پر اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غیر مسلموں کے نزدیک پانی ضائع کرنا ظلم ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی، کیونکہ بہت سے ملکوں میں پینے کے پانی کی قلت ہے۔ ٹی وی پر علما کی طرح میں بھی پیغمبر اسلام ؐ کی سنت اور حدیث سے جواب دیتی کہ آپؐ تو وضو کے لیے ایک مد(تقریباًآدھا لیٹر یا اس سے تھوڑا زیادہ) پانی استعمال کرتے اور نہانے کے لیے ایک صاع یا پانچ مد (تقریباً3 سے 5 لیٹر ) پانی استعمال کرتے تھے (بخاری:198)۔ مجھے اکثر اس بات کا جواب یہ سننا پڑتا کہ ،’’مسلمان اپنے پیغمبر کے بارے میں بہت حساس ہیں مگر ان کے فرمان پر عمل کیوں نہیں کرتے‘‘ ۔اور میرے پاس مزید شرمندہ ہونے کے کوئی جواب نہ بن پاتا۔ یا پھر مسلم علما کی طرح میں جواب دیتی کہ اسلام مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں بلکہ قرآن اور پیغمبرِ اسلام کی سنت اور حدیث سے سیکھیں یا جانیں (ڈاکٹر ذاکر نائک نے اپنے کئی ایک لیکچرز میں یہ بات کی ہے)۔
ویسے آپس کی بات ہے ہم میں سے کتنے لوگ اس سنت پر عمل کرتے ہوئے آدھے لیٹر یا اس سے کچھ زیادہ پانی سے وضو کرتے ہیں ۔ وضو کرتے ہوئے ایک مرتبہ جب نلکا کھل جاتا ہے پھر وہ وضو مکمل ہونے پر ہی بند ہوتا ہے اور اس دوران اعضا کو رگڑ رگڑ کر دھونے کے درمیان پانی بہتا رہتا ہے۔ ہمیں اس عادت کو بدلنا ہو گا کیونکہ اس صورت میں بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔۔ اس سلسلے میں ہم یا تو اپنے بزرگوں کا انداز اپنالیں جیسا کہ میں نے اپنے والد اور نانا جان کو ہمیشہ وضو کے لیے ایک چھوٹا لوٹا استعمال کرتے دیکھا۔ وہ پودوں کی کیاری کے پاس چوکی پربیٹھ کر وضو کرتے اور خوب اطمینان سےتمام اعضا کو رگڑ رگڑ کر دھوتے ۔ ان کا استعمال شدہ سارا پانی پودوں کی کیاری میں جاتا اور دوبارہ استعمال ہو جاتا۔
اگر ہم دورانِ وضو نلکے کو بند کرنے کی عادت ڈال لیں تو پانی کی کافی بچت ہوگی ۔ کچھ دن پہلے میری نظر سے ایک مصری اسکالر روبی زید کا مضمون گزرا ان کی ریسرچ بھی کچھ اسی قسم کی تھی۔ انہوں نے وضو کے دوران پانی کے استعمال، وقت اور مختلف اقسام کے نلکوں پر ریسرچ کی تھی ۔ ان کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ وضو ایک ایسا عمل ہے جو اکثر مسلمان گھروں اور عبادت گاہوں میں دن بھر میں کئی دفعہ کیا جاتا ہے اور ان کا مشاہدہ بھی یہی تھا کہ وضو کے دوران اکثر لوگ نلکا بند نہیں کرتے جس سے کافی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں انفرادی اور حکومتی سطح پر کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے تحقیق شدہ معلومات ہونی ضروری ہیں۔ اپنی اس ریسرچ کے دوران انہیں معلوم ہؤا کہ ہر دفعہ وضو کرنے پرنلکا کھلا رکھنے کی صورت میں تقریباً 30 سے 47فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے اور یہ کہ سب سے زیادہ پانی چہرہ دھوتے ہوئے ضائع ہوتا ہے ( صفحہ 2329)۔ اس پانی کو بچانے کا انہوں نے یہ حل بتایا کہ وضو کے دوران پانی لینے کےفوراً بعد نلکا بند کر دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مختلف اقسام کے نلکوں کو استعمال کرنے کا مشورہ دیا جو آسانی سے بند ہو جائیں ۔
ان کی اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی اپنے نئے تعمیر ہونے والے گھروں اور عمارتوں میں ایسے نلکے لگواسکتے ہیں لیکن اپنے موجودہ گھروں کے نلکے تبدیل کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ ہم نلکے تبدیل کرنے کے بجائے انہیں بند کرنے کی پکی عادت ڈالیں یا پھر اپنے بزرگو ں کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے لوٹے یا کسی مگ وغیرہ کا استعمال شروع کر دیں۔ بہرحال وضو اور باقی ہر قسم کے کاموں میں پانی استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرنے سے جہاں پانی کی کمی کے مسئلے پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے وہیں سنت پر عمل اور رسول اللہ ؐ کی اطاعت کا شرف بھی نصیب ہوگا اور انشااللہ دنیا اور آخرت کی بہتری نصیب ہوگی۔
٭آجکل کرونا وائرس سے بچاؤ اور علاج کے طور پر ہاتھوں کو دھونے کی بہت تاکید کی جا رہی ہے ۔ ویسے بھی ہاتھوں کو دھونا اور صفائی کا اہتمام کرنا ہم سب کے لیے اہم ہے لیکن یہاں بھی یہ خیال کرنا ہے کہ پانی استعمال تو کریں مگر ضائع نہ کریں۔
2) پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کی عادت ڈالیں۔
٭ گھروں میں سب سے زیادہ پانی کچن اور صفائی ستھرائی کے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔ کچن میں سبزیاں اور پھل دھوتے وقت کسی صاف برتن میں دھوئیں اور اس استعمال شدہ پانی کو کسی بڑی بالٹی میں جمع کر لیں بعد میں اسے اپنے گھر میں لگے پودوں میں ڈال دیں یا اس سے کچن کاسنک یا فرش وغیرہ دھولیں۔
٭ برتن دھونے کا کام ہر وقت ہی رہتا ہے۔ کوشش کریں کہ زیادہ صاف برتن مثلاً پانی پینے کے گلاس، جگ، چائے کے کپ وغیرہ سے شروع کریں اور ان کا استعمال شدہ پانی زیادہ چکناہت والے برتنوں کو دھو نے کے لیے استعمال کریں۔ برتن دھونے کے دوران نلکا بند کر دیں تاکہ پانی ضائع نہ ہو۔ برتنوں کا آخر ی صاف پانی کسی پرانے ٹب یا بالٹی میں جمع کریں اور اسے اپنے پودوں یا کچن کی صفائی، سنک وغیرہ کی دھلائی میں استعمال کریں۔ اگر ماسی برتن دھوتی ہے تو اسے اس کی تاکید کریں کہ پانی کم استعمال کرے۔ ویسے میں ذاتی طور پر اس میں ناکام رہی ہوں اور ماسی کے ایک مرتبہ نلکا کھول کر نہ بند کرنے کی عادت کو نہ بدل سکی۔ اسے پیار سے سمجھایا، پیسوں کی لالچ دی مگر سب بے سود۔ ماسیوں کا ایک ہی جواب ہوتا کہ ہم اپنے گھروں میں تو ترس ترس کے پانی استعمال کرتی ہیں کیونکہ پانی کم آتا ہے اب یہاں بھی ترسیں۔ اکثر یہ جواب ہنسی مذاق میں دیا جاتا لیکن اس پر عمل خوب سنجیدگی سے ہوتا۔ آخری حل کے طور پر میں نے خود ہی برتن دھونے شروع کر دیےحالانکہ اس وقت میں فل ٹائم جاب بھی کرتی تھی اور جوائنٹ فیملی میں چھوٹے بچے کے ساتھ کافی مشکل بھی ہوتی۔ مگر اس کے فائدے بہت ہوئے خاص طور پر جب انگلینڈ میں رہنا پڑا تو اتنے سالوں میں مجھے کبھی مسئلہ نہ ہؤا۔اور اب تو برتن اور کپڑے دھونا میرا پسندیدہ کام بن گیا ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھی آج کل کافی لوگ خود ہی اپنے گھروں کا کام کر رہے ہیں۔ اور اکثر لوگوں کو خود کام کرنے کے بے شمار فوائد بھی معلوم ہو رہے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ آپ ماسی اور دوسروں کی مدد نہیں لے سکتے بلکہ آپ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ اس مہم میں شامل کریں اور زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
٭کپڑے دھونے میں بھی پانی بہت استعمال ہوتا ہے۔ اگر مشین آٹومیٹک ہے تو میرا مشورہ ہے کہ صرف بڑے کپڑے مثلاً تولیے، پردے، بستر کی چادریں وغیرہ ہی اس میں دھوئیں اور بچوں کے کپڑے یا کم گندے کپڑے ہاتھ سے دھوئیں۔ ناراض نہ ہوں مجھ سے کہ اتنا کام بڑھا دیا ہے۔ بس یہ سوچیں کہ اس کام سے آپ کو دنیا وی اور اخروی بہت سے فائدے ہیں جہاں آپ پانی کی فضول خرچی کو روکتے ہوئے اللہ کو خوش کرنے کی کوشش میں ہیں وہیں آپ کی ورزش کے ساتھ ساتھ اداسی اور ڈپریشن جیسی بیماریوں سے بچاؤ بھی ہو رہا ہےاور آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت بھی بہتر ہوگی ،آزما ئش شرط ہے۔ اس کام میں آپ اپنے بچوں کی مدد بھی لے سکتی ہیں۔ میرا بیٹا اور بھانجا (جب چھوٹے تھے) تو بڑی خوشی سے یہ کام کرتے تھے اور بہت انجوائے کرتے تھے۔ یہ وقت ماں اور بچوں کا فن ٹائم بن جائے گا۔
کپڑے کھنگالتے ہوئے سرف کے پانی کو الگ ٹب میں رکھ لیں اور بعد میں اس سےباتھ روم یا کار پورچ وغیرہ دھولیں اس کام میں آپ ماسی یا کسی اور کی مدد بھی لے سکتی ہیں ۔ کپڑوں کا آخر ی صاف پانی آپ کے لان میں گھاس یا گملوں میں پودوں کے کام آجائے گا یا کچن وغیرہ دھونے دھلانے اور گھر کی صفائی ستھرائی کے کام آسکتا ہے۔ اس پانی کو آپ کسی کھلی جگہ جارجٹ یا باریک لان کے ڈوپٹے وغیرہ سے ڈھک کر رکھ سکتی ہیں اور دو دن تک استعمال کر سکتی ہیں ۔ اس میں بدبو پیدا نہ ہوگی۔ اس پانی کو گاڑی وغیرہ دھونے کے کام میں بھی لایا جاسکتا ہے۔ مجھے اس وقت بے حد تکلیف ہوتی ہے جب لوگ نلکے کے صاف پانی سے کار پورچ یا اپنی گاڑی دھوتے ہیں اور بے دریغ پانی بہاتے ہیں ۔ پھر یہی پانی باہر گلی میں کھڑا رہتا ہے اور گزرنے والوں کے لیے باعثِ تکلیف ہوتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسا دیکھنے کا تجربہ ہؤا ہے جب میں کسی کے ہاں کچھ دن رہنے گئی۔ اور جب بھی خاتونِ خانہ کو سمجھانے کی کوشش کی تو یہی جواب ملا کہ ، ’’ میں بہت صفائی پسند ہو ں اسی لیے روزانہ کار پورچ دھونا ضروری ہے۔ اور پائپ سے پانی بہانے سے آسانی ہوتی ہے اورکام جلدی مکمل ہو جاتا ہے‘‘ ۔ اِن ’’صفائی پسند خاتون‘‘ کے لیے میں ہدایت کی دعا ہی کر سکتی ہوں کہ جن کے گھر کے باہر پانی روزانہ کیچڑ کی شکل میں جمع ہوتا ہے اور پڑوسیوں کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ آپ دوسروں کو سمجھا ہی سکتے ہیں ان سے لڑائی یا زبردستی تو نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے اب جب اس علاقے میں جانا ہو تو اپنی دعا قبول ہوتی نظر آئے۔
٭روز مرہ کے کاموں کو مزید نفع بخش بنائیں۔ اپنے کاموں کو مزید خوبصورت اور فائدہ مند بنانے کے لیے آپ مختلف تسبیحات اوراللہ تعالیٰ کے ذکر کا اضافہ کر لیں۔ بلکہ اپنی تسبیحات کو مختلف اوقات کے کاموں کے ساتھ باندھ لیں اس طرح آپ بھولیں گی بھی نہیں اور دماغ کسی قسم کی فضول سوچ سے بھی بچے گا۔ مثلاً صبح کے برتن دھوتے ہوئے یا صفائی ستھرائی کرتے ہوئے خاموشی سے کسی ایسی تسبیح کا انتخاب کر لیں جس کو 100 مرتبہ دہرانے کا ذکر ہمیں حدیث میں ملتا ہے جیسا کہ سبحان اللہ و بحمدِہ کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ’’ جو شخص صبح کو اور شام کو سبحان اللہِ و بحمدِہ 100 بار کہے قیامت کے دن اس سے بہتر کوئی عمل لے کر نہ آ ئے گا مگر جو اتنا ہی یا اس سے زیادہ کہے‘‘( صحیح مسلم: 6843)۔اس تسبیح کو صبح و شام کے کسی کام کے ساتھ مخصوص کر لیں ۔ صبح اور شام کے اذکار بھی اپنے کاموں کے ساتھ شامل کر لیں۔ اس کے علاوہ جب تھکن ہونے لگے تو وہ مشہور تسبیح جو نبی ؐ نے اپنی چہیتی بیٹی کو تھکن دور کرنے کے لیے بتائی تھی یعنی 33بار سبحان اللہ، 33 بار الحمدللہ اور 34 بار اللہ اکبر دہرائیں ۔
اسی طرح آیت کریمہ یا درود شریف کی کثرت کر سکتی ہیں ۔اگر گھر میں خاموشی ہے یا آپ اکیلی ہیں تو تلاوت لگالیں یا کوئی لیکچر وغیرہ بھی سن سکتی ہیںمگر اسے توجہ سے سننا ضروری ہے ۔اور ہاں ہم سب کو ہی باتیں کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے تو اپنے کاموں کے دوران اللہ تعالیٰ سے باتیں کریں ۔ ویسے بھی ہمیں ضرورت ہوتی ہے کہ کسی سے دل کی باتیں ہو اور وہ بھی بے فکری کے ساتھ۔ بس آپ اس وقت اپنے دل کی تمام باتیں اپنے خالق سے کرنے کی عادت ڈالیں پھر آپ دیکھیں گی کہ آپ کو کاموں میں کتنا مزہ آئے گا۔ اپنی ساری پریشانیاں اور فکریں اسے سونپتی جائیں اور ہلکی پھلکی ہوتی جائیں ۔ ابتدا میں آپ کو بار بار خود کو یاد دہانی کرانی ہوگی مگر رفتہ رفتہ اس کی عادت ہو جائے گی۔ ذکرِ الٰہی سے انشااللہ آپ کے وقت میں برکت ہو گی کام کاج سے تھکن نہ ہوگی اور پریشان کن باتوں اور سوچوں سے بھی چھٹکارا ملے گا ۔ بلکہ فکروں سے آزاد ہونے کا یہ مجرب طریقہ ہے۔ اور پھر ذکرِ الٰہی سے آپ کا دل بھی مطمئن رہے گا(سورہ الرعد:28)۔
ب) ملکی سطح پر کیے جانے والے اقدامات:
٭ حکومت ملک میں ایسے پروگرامز متعارف کرواسکتی ہے جن کے ذریعے گھریلو استعمال شدہ پانی کو صاف کر کے بڑے پیمانے پر استعمال کے قابل بنایا جاسکتاہے۔خاص طور پر ایسے ممالک کے ماڈلز کو اپنایا جاسکتا ہے جو اس مد میں کام کر رہے ہیں۔ سنگا پور اور جاپان کی بات پہلے کی جا چکی ہے لیکن کچھ مسلم ممالک کے ماڈلز کو بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ پانی کی سب سے بڑی مقدار زراعت ، اس سے کم صنعتوں اورسب سے کم گھریلو استعمال کے کام آتی ہے لہٰذا اگر استعمال شدہ پانی کو زراعت کے کام میں لایا جا سکے تو بہت اچھا ہو گا۔ کسانوں کو حکومتی معاہدے کے تحت پینے والے پانی کے بجائے استعمال شدہ پانی کم دام میں دیا جائے تو کم خرچ بالا نشیں کے تحت فائدہ ہوگا۔ اس سے فصلوں میں بھی بہتری آئے گی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ زراعت کے لیے اس پانی کو ڈبلیو ایچ او کی گائڈلائنز کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ وہ صحت کے لیے محفوظ ہو۔
سعودی عرب سمیت کئی ایک مسلم ممالک میں بھی استعمال شدہ پانی کو صاف کر کے زراعت اور دوسرے کاموں میں لایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں نصر فاروقی صاحب کے کام سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ نصر فاروقی ، انٹرنیشنل واٹر ریسورس اسوسی ایشن کے 14 بڑے لیڈرز میں سے ایک ہیں اور کینیڈا میں انٹر نیشنل ڈیویلپمنٹ ریسرچ سینٹر کے سینئر پروگرام اسپیشلسٹ ہیں انہوں نے مسلمان ممالک میں واٹر مینجمنٹ پر کام کیا ہے۔ وہ اور ان کے کچھ ساتھی یونا ئیٹڈ نیشنز یونیورسٹی کی پبلش شدہ ایک کتاب ’واٹر مینجمنٹ ان اسلام ‘کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ اس کتاب میں اپنے مضمون میں وہ بتاتے ہیں کہ، سعودی عرب نے 1978میں ایک فتویٰ جاری کیا جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ ’’استعمال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے‘‘(صفحہ 20)۔ جس کے بعد کئی مسلمان ممالک نے اس فتویٰ پر عمل کرنا شروع کردیا ۔ خود سعودی عرب میں استعمال شدہ پانی کی بڑی مقدار کھجور کے باغات کو سیراب کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ حرمین شریفین میں وضو کا پانی بعد میں ٹوائلٹ فلش کرنے کے کام آتا ہے۔ کویت اور اردن میں بھی استعمال شدہ پانی کی بھاری مقدار زراعت اور ٹوائلٹ فلش کرنے کی مد میں کام آتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی پانی کا اس قسم کا استعمال فائدہ مند رہے گا۔
٭ پانی بچانے کی مہم میں حصہ لیا جاسکتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے عوام الناس میں شعور بیدار کرنے کے لیے پانی بچانے کی اہمیت کو اجاگر کرنااور اس کی تعلیم دینا بہت ضروری ہے ۔ مختلف ادارے مل جل کریہ کام کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں مذہبی اسکالرز کی خدمات بھی لی جاسکتی ہیں۔ جیسا کہ نصر فاروقی اپنے مضمون میں بتاتے ہیں (صفحہ 19) کہ ڈبلیو ایچ او نے افغانستان میں مساجد کے ذریعے ہیلتھ ایجوکیشن پروگرام متعارف کروایا ۔ جس میں پہلے مساجد کے امام کو پانی کے درست استعمال اور صاف پانی کی اہمیت وغیرہ کی ٹریننگ دی گئی۔ جنہوں نے بعد میں اس موضوع پر اپنے جمعہ کے خطبہ کے ذریعے عوام تک اس تعلیم کو پہنچایا۔ اسی طرح اردن میں بھی امام حضرات کے تعاون سے عوام میں پانی کی کمی اور اس کے بچاؤ کے لیے کاوشیں کی گئیں جو کافی حد تک کامیاب رہیں۔ لیکن ان کے بارے میں درست اندازہ لگانے کے لیے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے حوالے سے اسی کتاب (واٹر مینجمنٹ ان اسلام) میں موجود سیّد مجتبیٰ شاہ اور ان کے ساتھیوں کا ایک مضمون ہے جس میں انہوں نے اپنے پائلٹ پروجیکٹ کے بارے میں تحریر کیا ہے(صفحہ 57) کہ فیصل آ باد کے نزدیک ایک چھوٹا سا قصبہ دجکوٹ ہے جہاں پانی کی کمی کا مسئلہ ایک مستقل صورت اختیار کر گیا تھا۔ لہٰذا مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اسے حل کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہؤا کہ نہر کے کنارے لوگوں نے ناجائز پمپ لگائے ہوئے ہیں جوکافی زیادہ مقدار میں پانی کھینچ لیتے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں پانی کم آتا ہے ۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مقامی لوگوں نے اپنے ساتھ امام مسجد اور مدرسے کے اسٹوڈنٹس کو ملایا اور جمعہ کے خطبہ اور باقی مواقع پر رہائشی لوگوں کو اس بات کی تعلیم دی کہ دوسرے کے حصے کا پانی لے لینا گناہ ہے اور اخلاقی طور پر بھی برا ہے۔ اس تعلیم کا اثر بڑا زبردست رہا اور علاقے بھر میں پانی کی کمی کی شکایات تقریباً 32 فیصد کم ہوگئیں۔ ہماری حکومت اس قسم کے تجربات سے فائدہ اٹھا تے ہوئے اپنی کاوشیں کر سکتی ہے اور پانی کے بےجا اور غلط استعمال کی روک تھام کر سکتی ہے۔
سیّد مجتبیٰ شاہ صاحب اپنے اس مضمون میں مشورہ دیتے ہیں کہ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہے کیونکہ صرف حکومتی قوانین اور پالیسی اس سلسلے میں ناکافی ہے اور اکثر ناکام بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا حکومت اپنے ساتھ مختلف این جی اوز اور مذہبی لیڈرز کو شامل کر سکتی ہےاور ان کےذریعے تعلیم کو عوام الناس میں پھیلایا جاسکتا ہے اس کے علاوہ حکومت پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے دور رس پالیسیاں بنا سکتی ہے (صفحہ 60)۔
٭ماحولیاتی آلودگی بھی پانی کی کمی کا سبب بن رہی ہے۔ خاص طور پر فیکٹریوں اور کارخانوں کا ناقص نظام زیرِ زمین پانی کو بری طرح متاثر کر رہا ہے اس سلسلے میں بھی حکومتی اقدامات میں شمولیت اختیار کی جاسکتی ہے اور فیکٹریوں کے نظام کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔
٭ ملک بھر میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور پھر بہتر طور پر استعمال کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ہم سب ہی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بارش کا صاف ستھرا پانی ہر سال نہ صرف یہ کہ ضائع ہو جاتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے تقریباً ہر سال سیلاب کی صورت میں جہاں لوگوں کو جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور فصلیں بھی تباہ ہوجاتی ہیں وہیں اس صاف ستھرے پانی سے لوگ محروم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس پانی کو محفوظ کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ اس سلسلے میں ڈیمز کی تعمیر ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں ہماری مدد فرمائے۔
آخر میں یہی کہوں گی کہ ہم سب کو اپنی سطح پر کو شش کرنی ہے ۔ ذرا سوچئے کہ اگر ہماری تھوڑی سی کوشش سے روزانہ ہر گھر میں کم از کم ایک یا دو بالٹی پانی کی بچت ہو تو ہم ایک ماہ میں کتنا زیادہ پانی بچا سکتے ہیں۔ جب کہ مثل مشہور ہے کہ قطرےقطرے سے دریا بن جاتا ہے۔ تو آئیے آج سے ہم سب اس کوشش میں لگ جائیں اور دوسروں کو بھی نیکی کے ایسے کاموں کے لیے ابھاریں تاکہ پانی جیسی نعمت سے ہم اور ہماری آئندہ نسلیں مستفید ہو سکیں۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل مضامین سے مدد لی گئی ہے اور ان میں دی گئی معلومات کا اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے ۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x