ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ہائی وے ۸۰ – بتول اکتوبر۲۰۲۲

میرے پیارے
سلامِ محبت!
اس ہفتے کا یہ دوسرا خط کہ تمہیں خوشخبری بھی تو سنانی ہے۔ ابوالقاسم تمہیں اپنا پہلا پوتا بہت بہت مبارک ہو ۔
تمہارا پوتا بالکل تمہاری تصویر ہے۔ ملتے تو تم باپ بیٹا بھی ہو مگر اس کے ماتھے پر دائیں جانب ویسا ہی من موہنا تل ہے، جس نے یونیورسٹی میں مجھے تمہاری جانب ملتفت کیا تھا۔ اللہ کی شان، ڈی این اے کی بھی کیا کیا جادو گری ہے۔ اللہ نے میری گودمیں ہوبہو تماری تصویر مجسم کر دی ہے۔ بہو خیر سے گھر آ گئ ہے اور اس کے چہرے پہ پھیلے ممتا کے نور نے اسے مزید خوب صورت بنا دیا ہے۔ میں تو اسے نظر بھر کر دیکھتی بھی نہیں، سدا کی وہمی جو ہوئی۔ اب اس بات پر بھلا ہنسنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہوتی ہے بھئ اپنی اپنی طبیعت اور تمہیں تو اچھی طرح سے علم ہے کہ مجھے نظر گذر سے کتنا ڈر لگتا ہے۔ قاسم نے دفتر سے ایک ہفتے کی چھٹی لے لی ہے اور بالکل تمہاری طرح بیٹے کو گود میں لے کر بیٹھا رہتا ہے۔ مجھے تو وہ پرانا، سہانا وقت یاد آ گیا۔
لو باتوں میں تمہیں پوتے کا نام تو بتایا ہی نہیں۔ تمہارے پوتے کا نام حسنین ہے۔
اچھا نام ہے نا !! کچھ یاد آیا؟
چلو جانے دو، کیا راکھ کریدنا۔ ویسے یادوں کے آسرے ہی تو یہ تھوہر جیسے دن گزارے ہیں۔ تم دعا کرنا کہ اللہ قاسم کو حسنین کی خوشیاں دکھائے۔
میری طبیعت ویسی ہے جیسی پچھلے خط میں تحریر کی تھی، کوئی افاقہ نہیں ہے۔ گٹھیا زور پکڑ رہا ہے اور راتوں میں درد ناقابل برداشت بھی۔ تم جانو ہر درد، رات کی تاریکی و تنہائی میں جان لیوا ہی ہوتا ہے اور میرے ساتھ تو سب دردوں سے سوا درد ہجر بھی ہے۔تم سے تو کچھ بھی چھپا نہیں ہے کہ تم میرے ہمدم اور محرم راز بھی۔ اب میں چوتھے انجان ملک میں ہوں اور جو سچ پوچھو تو اب تھکنے لگی ہوں۔ لکھی کا تو پتہ نہیں پر خواہش اب خاک میں پیوستگی ہی کی ہے۔ اب اس بات پر ناراض مت ہو جانا!! اچھا چلو میں کچھ نہیں کہتی۔ میں بھی واقعی سٹھیا گئی ہوں ، تمہیں پوتے کی مبارکی کا خط لکھ رہی ہوں اور کہاں یہ فضول کا دکھڑا چھیڑ بیٹھی۔ لگتا ہے مجلسی آداب سے مبرا ہوتی جا رہی ہوں،
کیا کروں؟ کہیں آنا جانا بھی تو نہیں ہوتا ناں۔
اچھا میری جان ! اب انگلیاں درد کر رہی ہیں، باقی کا خط کل لکھوں گی۔
آہ !! ظالم فروری رخصت ہو رہا ہے۔ آج صبح میں لیونگ روم میں بیٹھی، کھڑکی کے پار تیز سے تیز تر ہوتی برف باری کو دیکھتے ہوئے حساب لگا رہی تھی کہ تمہاری شہد رنگ آنکھوں سے جام محبت پئے ہوئے اکتیس طویل برس بیت چکے ہیں۔ تمہاری آواز کو کان ترستے ہیں اور تمہارے لمس کو روم روم پیاسا۔ کبھی سرسراتی ہوا تمہاری آمد کی نوید لگتی ہے تو کبھی روشن چاند تمہاری دمکتی جبیں۔ مگر میرے محرما یہ فسوں کاریاں محض بند آنکھوں تک ہی مہرباں ہیں، جیسے ہی آنکھیں کھلتی ہیں، حقیقت کی تلخی آنکھوں میں ٹھیکرے کی طرح چبھتی ہے۔ میرے محبوب تمہاری اس نشانی کی حفاظت کی خاطر اور پناہ کی تلاش میں قریہ قریہ بھٹکتے ہوئے، میں صحرا نشین اس برف زار میں آ گئی ہوں ۔
آج کی عجیب روداد سنو ۔
ہمیشہ قاسم مجھ سے تمہارا احوال لیتا تھا اور میں اسے، تمہاری وہ کہانی جو ادھر ادھر سے سنی سنائی تھی سنا دیا کرتی تھی۔ حقیقت سے میں ہمیشہ آنکھیں چرایا کرتی کہ اسے ماننے کو دل راضی نہیں تھا ۔ کیسے مان لیتی؟
مان لیتی تو امید کا دیا کیسے روشن رکھتی؟ جیتی کیسے؟ میری سانسیں اور تمام کوششیں تمہاری واپسی ہی سے تو مشروط رہیں ہیں۔ آج تمہارا بیٹا قاسم ، حسنین کو تمہاری اصلی کہانی سنا رہا تھا۔
ہم کتنے خوش تھے اکٹھے۔ ابھی تو ٹھیک سے ایک دوسرے کو کھوجا اور جانا بھی نہیں تھا کہ طبل جنگ بج گیا۔ جنگ کتنی فضول چیز ہوتی ہے، اور وہ تو جنگ تھی بھی نہیں، محض حرص اور جاہ و جلال کی کرشمہ سازی تھی ۔
تم عراقی فوج میں کپتان تھے سو تمہارا جانا ٹھہر چکا تھا۔ اس وقت قاسم نے گھٹنوں گھٹنوں چلنا شروع کیا تھا۔ میں کیسے بھول سکتی ہوں اس دھار دار جدائی والی صبح سیاہ کو، دو اگست 1990 کی قیامت خیز تاریخ ، جب تم وطن سے وفا نبھانے کے لیے سرحدوں پر چلے گئے تھے۔ صدام نے کویت پر حملہ کر دیا تھا۔ ارزاں تیل کے لیے قیمتی ترین خون بہا دیا، ماؤں کے لعل اور سہاگنوں کے سہاگ اس بے وقعت تیل پر وارے گئے، خاکستر کر دیے گئے۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے مدت سے رال ٹپکاتی، بڑی طاقتیں اپنے جدید ترین اور بےپناہ آتشیں اسلحے سے لیس، اپنے حواریوں سمیت عراق پر چڑھ دوڑیں۔
کویت سے انہیں بھلا کیا ہی ہمدردی ہونی تھی؟
ہاں البتہ ان قیمتی ذخائر پر قابض ہونے کے لیے امریکہ اپنے پینتیس حواریوں سمیت اکیلے عراق، کو مزا چکھانے کے لیے سترہ جنوری انیس سو اکیانوے کو میدان میں اترا اور صدام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کھیلا کہ ان لٹیروں کا مقصد دونوں ملکوں کی دولت و ذخائر ہتھیانا ہی تو تھا۔ لہٰذا کویت کو تقریر سے اور عراق کو تیر سے زیر کیا۔ کُل بیالیس دن جنگ چلی اور بادم سموم کی طرح جانے کتنے نخلستان ویران کر گئی۔
لا محدود تباہی کے بعد جنگ بندی ہوئی اور چھبیس، ستائیس فروری کی رات کو عراقی فوجیوں کی کویت سے واپسی شروع ہوئی۔ اس سے پہلے ہی کویت میں پھنسے ہوئے عراقی اور دوسرے ملکوں کے شہری اور خاص طور پر فلسطینی وہاں سے پناہ کے لیے عراق کا رخ کر رہے تھے۔
ہائی وے اسّی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔
میں جنگ بندی کی خبر سے بہت خوش تھی کہ میرا محبوب دوبارہ میری بانہوں میں ہوگا۔ اس کا ساتھ گویا باغ عدن کی سیر تھی۔ میں مہندی گھول چکی تھی اور ماں کے ساتھ مل کر پکوان پکانے میں مصروف تھی۔ شکست و جیت کی بحث سے مبرا، ہم تمام عورتیں خوش تھیں اور اپنے جان سے پیاروں کے استقبال کے لیے چشم براہ۔ وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا، میری خوشی اس لیے بھی دوگنی تھی اسی دن قاسم نے پہلا قدم اٹھایا تھا۔ مجھے تمہاری واپسی اور خوشیوں کا تصور ہی نہال کر رہا تھا۔
ہائی وے اسی، فوجیوں اور عام شہریوں کی گاڑیوں، فوجی ٹرک، جیپ اور ٹینکوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس رات اس شاہراہ پر امریکہ اور اس کے حواریوں نے فضائی حملہ کر دیا۔ بے تحاشہ کلسٹر بم برسائے۔ کسی کے لیے بھی سنبھلنے اور بچنے کا موقع ہی نہیں تھا۔ رات بھر بمباری جاری رہی۔ جب بمباری رکی تو امریکی اور اس کے حواریوں کی پیدل فوج نے میدان سنبھال لیا۔ پتہ بھی ہلتا تو اس کے جواب میں فائر کی بوچھاڑ اس کا مقدر ہوتی۔ ان ظالموں نے اس چھ لین کی جیتی جاگتی ہائی وے کو شاہراہِ موت یعنی طریق الموت میں تبدیل کر دیا۔ وہاں زندگی سسکتی رہی اور موت کا وحشیانہ رقص جاری رہا۔ مرنے والوں کی درست گنتی کبھی منظر عام پر آئی ہی نہیں ۔ اس شاہراہ پہ ہزاروں دل سو گئے اور لاکھوں آنکھیں بجھ گئی۔ ان کے پیچھے جو سوگوار بچے وہ اپنوں کی جدائی میں مردے سے برتر جیے۔ میں نے بھی دل کے بہلاوے کو تمہیں جنگی قیدی مان لیا مگر تمہارا نام کسی بھی فہرست میں نہ تھا۔ بس صرف ایک میرا قرطاس دل ہی تھا جہاں تم رقم تھے اور ہو۔ پھر زندگی صعوبتوں کے نظر ہوئی کہ عراق پر معاشی پابندیوں نے اس کے شہریوں کی زندگیاں درگور کر دیں۔ میں بے بس و بے اماں قاسم کے ساتھ پناہ کی تلاش میں در بدر بھاگتی رہی۔
میری جان ! میں نے طویل اکتیس سال، آبلہ پائی کا سفر تمہارے بغیر کاٹا ہے۔ بالکل حبس بے جا کے طور پر، جہاں گھڑیاں، گھڑیاں نہیں بلکہ صدیاں بن کر گزری ہیں اور میں نے انہیں اپنی جاں ناتواں پر جھیلا۔ تنہا اس بے درد دنیا میں تمہاری امانت کی آبیاری و حفاظت کی ۔
عرصے بعد اس المناک رات میں ڈھائی گئی بربریت اور ہولناکی کلی طور پر دنیا کے سامنے آئی۔ اب تو خیر سب ہی کچھ طشت از بام ہے اور دنیا دکھاوے کو غلطی کے اعتراف کا ڈرامہ بھی رچا لیا گیا ہے۔ مگر میرے مونس و ہمدم یہ اعتراف ہم جیسوں کے کس کام کا ؟ اس رات جن پیاروں کے غنچہ تن کلسٹر بم سے چیتھڑے بن کر اڑے اور جو ٹینکوں اور ٹرکوں میں بیٹھے بیٹھے سوختہ ہو گئے، وہ اب کہاں؟
اس جنگ میں جو لوگ لقمہ اجل ہوئے، کیا ان کا کوئی بدل ہے؟
اس رستے ناسور کا کوئی مداوا ہے؟
اب تو شاید اس جنگ کا ایندھن بننے والوں کی راہیں تکنے والی ان گنت آنکھیں بھی موندی جا چکی ہوگی اور اب تک تو ان کے منتظر محبتوں سے لبریز دل بھی دھڑک دھڑک کر خاموش ہو چکے ہوں گے کہ وہ خطہ زمین اپنے حصے کی قیامت بھگت چکا۔
میرے حبیب !! اب تو میرے دل پر تمہارا ٹھکانہ القا ہو چکا ہے اور یقین کرو میرے محرم کہ جدائی کے دن بھی تھوڑے ہی باقی رہ گئے ہیں۔
اللہ نگہبان
فقط تمہاری اور صرف تمہاری
اُمِ قاسم
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x