ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سکینہ جی کا ڈائیٹ پلان – بتول اکتوبر۲۰۲۲

دو بھائیوں کی اکلوتی بہن سکینہ جی ، ہر وقت موبائل میں مگن رہنے والی بلکہ موبائل فون تو اس کے ہاتھ کا کھلونا تھا ۔ یہ اس کا ایسا دل پسند کھلونا تھا جس کے بغیر اس کے دس منٹ بھی گزرنا مشکل تھے۔ پھرتیلی ماں کی بیٹی ہونے کی وجہ سے اسے کوئی گھر کا کام بھی نہ کرنا پڑتا۔ اسے گھر کے کام کاج سے کوئی شغف بھی نہیں تھا اور نہ ہی کبھی ماں نے کام کرنے کو کہا۔ اگر کبھی بھول چوک سے کہہ بھی دیا تو ہمیشہ کہہ کر پچھتائی کیونکہ تین چار گھنٹے بعد ماں کو وہ کام خود ہی کرنا پڑا۔ فارغ البالی اور خوب شکم سیری نے مل کر سکینہ جی کے بدن کو محض 19 سال کی عمر میں 90 کلو تک پہنچا دیا تھا۔ سکینہ جی تو اپنے پہاڑ جیسے وجود کے ساتھ بھی بے فکری اور مزے کی زندگی جی رہی تھی۔ یہ تو برا ہو ارد گرد بسنے والی نوع انسانی کا جنہیں سکینہ کی جائیداد میں مزید گوشت کا اضافہ برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اپنی زبان سے سکینہ کے سکون کو ڈسنا نہ بھولتے اور بات بے بات اسے موٹا ہونے کا احساس دلاتے۔
ان لوگوں کی بلاناغہ کی جانے والی محنت رنگ لائی اور سکینہ جی نے پہلی مرتبہ اپنے آپ کو آئینے میں اس زاویہ نگاہ سے دیکھا کہ وہ موٹی بھی ہے یا لوگ اسے زبردستی موٹا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ارے یہ کیا، پورا آئینہ اس کے وجود کی تصویر سے بھر گیا۔ دن رات دیکھے گئے ڈراموں کی پتلی پتنگ ہیروئنیں اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگیں۔
یہی وہ لمحہ تھا جب اس نے اپنا وزن کم کرنے کا عزم صمیم کرلیا۔ سیدھی موبائل کی طرف گئی اور وزن کم کرنے کی دوائی ڈھونڈ نکالی۔ فورا ًعملی کاروائی کی، پانچ مصالحوں میتھی دانہ، سونف، اجوائن، کلونجی، سفید زیرہ، با ہم وزن لے کر مکس پاؤڈر بنایا۔ ہر کھانے کے بعد آدھا چمچ کھانا تھا۔ اس بچاری کا کھانا صرف تین روٹیاں، ایک باؤل سالن اور آدھا جگ شربت تھا کیونکہ شربت کے بغیر اس کا نوالہ حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ کھانے کے بعد بدمزہ سفوف منہ میں ڈالا ہی تھا کہ ابکائیاں آنا شروع ہو گئیں۔ ابکائی روکنے کے لیے ذہن میں پہلا خیال کوک کا آیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی کوک کا بڑا گلاس بھر کر پیا تب کہیں جا کر دل بے قرار کو قرار آیا۔ مشہور نسخوں میں دوسرا نسخہ لیموں پانی کا تھا۔ ویڈیو میں بتائی گئی ترکیب کے مطابق لیموں پانی بنایا تو پہلا گھونٹ ہی حلق میں اٹک کر دوبارہ باہر آگیا۔ اف ….. کھٹا بے سوادہ پانی۔
ذہین سکینہ کے ذہن میں یہاں بھی ایک مزے دار ترکیب کوند پڑی۔ ایک گلاس پانی میں چار کھانے کے چمچہ بھر بھر کر روح افزاء کے ڈالے تب کہیں جا کر یہ زمانہ مشہور، لاڈلہ پانی پینے کے قابل ہو&ٔا۔ روح افزاء والے لیموں پانی کا کھٹا میٹھا ذائقہ ڈکار میں بھی محسوس ہو رہا تھا۔ ذائقہ درست کرنے کے لیے ضروری تھا کہ کوئی مزےدار سی چیز کھائی جائے۔ اس نے فریج کھول کر ایسے دیکھا جیسے بھوکی بلی اجنبی گھر میں کھانے کی تلاش میں تاکتی ہے۔ سامنے ہرا، لال رنگ کا تازہ تازہ گلابی رس گلے والا ڈبہ موجود تھا۔ ڈبے کو جھپٹ لیا، چھ کھائے یا سات لیکن بساط سے کم ہی کھائے۔ ڈائٹنگ کا لحاظ تھا ورنہ بھلا ایک کلو بھی کوئی چیز ہے۔ سبز چائے کا قہوہ بھی خوب شہد ڈال کر نمکو کی پلیٹ کے ساتھ پیا گیا۔ سہہ پہر کے ہلکے پھلکے اسنیکس میں فیملی پیک بسکٹ کا ڈبہ اور دو گلاس ملک شیک کے پیئے۔
جلد ہی رات کے کھانے کا وقت ہوگیا جو کہ ہدایت کے مطابق رات آٹھ بجے سے پہلے پہلے کھانا تھا۔ ایک بڑی پلیٹ چاولوں کی بھری ساتھ تین شامی کباب اور سلاد کی پلیٹ لی۔ کھانا ہضم کرنے کے لیے بوتل پینے میں کیا حرج ہے یہی عقلمندانہ سوچ سوچتے ہوئے ایک گلاس سیون اپ کا پی لیا۔ وہ رات کے کھانے کے بعد واک کرنا چاہتی تھی لیکن وہ تو سارا دن وزن گھٹانے کے ڈائٹ پلان کی ذہنی مشقت میں تھک چکی تھی اور تو اور اسی چکر میں تو سارا دن ڈرامے بھی نہ دیکھ سکی۔ اب وہ سکون سے بیٹھ کر سونے سے پہلے یہ ڈرامے دیکھنا چاہتی تھی۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حسن بھائی گھر والوں کے لیے برگر لے کر آگیا ۔ دو بھائیوں کی اکلوتی اور چھوٹی بہن سکینہ جی، جو چیز بھی گھر میں آتی لفافہ سب سے پہلے اس کے سامنے ہی رکھا جاتا پھر یہ باوا مرشد جی اس لفافے سے پورا انصاف بھی کرتی۔ چنانچہ برگر بھی کھا لیا گیا یہ سوچ کر کہ یہ تو ہلکا پھلکا کھاجا ہے اسے کھانے میں کیا حرج ہے۔
اسی طرح کے ڈائٹ پلان میں پورا ہفتہ گزر گیا۔ ان سات دنوں میں روزانہ 70 نہیں تو بیس بار ضرور آئینہ کے سامنے جاکر دیکھا جاتا کہ کتنی چربی کم ہوئی ہے۔ اس کا خیال نہیں بلکہ یقین تھا کہ جو سات دن اس نے اتنی محنت کی ہے ضرور دس پندرہ کلو وزن کم ہؤا ہوگا۔ شاداں و فرحاں، آنکھوں میں ڈھیروں سپنے سجائے، سکینہ جی نے جب وزن کرنے والی مشین پر قدم رنجہ فرمایا تو اس کی قدم بوسی کرتے ہوئے لرزتی مشین پر 92 کا ہندسہ جگمگانے لگا یعنی ڈائیٹنگ میں دو کلو اور وزن بڑھ گیا۔ سکینہ جی شرمندگی پلس غم سے باسی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ شرمندگی اس بات پر اس نے اپنی ایک ہفتے کی محنت پر بھروسا کرتے ہوئے گھر والوں کو بھی وزن دکھانے کے لیے بلا لیا تھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ وزن کافی کم ہوا ہوگا لیکن یہاں تو نہ محنت رنگ لائی اور نہ ہی مشین نے وفا دکھائی ۔گھر والوں کی تمسخرانہ مسکراہٹ بھی دیکھنی پڑی۔ دوسرے نمبر والے بھائی نے دو چار جملے بھی کسے لیکن ابو جی نے اسے ڈانٹ دیا اور سکینہ کے موٹاپے کو اس کی خوبصورتی قرار دے کر مزید ڈائٹنگ سے منع کر دیا۔
اگلے دو دن اس کے فرط غم میں گزرے۔ بڑا بھائی زبیر بھی پولیس سے کمانڈوز ٹریننگ مکمل کر کے گھر میں 15 دن کی چھٹی پر آیا تھا۔ سکینہ جی کی کہانی گھر والوں کی زبانی، اس کے گوش گزار ہوئی۔ چند ساعت سوچنے کے بعد زبیر بولا۔
’’سکینہ! میری صرف چند ہدایات پر عمل کرو تمہارا وزن دنوں میں کم ہوگا‘‘۔
’’وہ کیسے ؟‘‘ سکینہ نے آنکھیں پھاڑ کر بے یقینی کی کیفیت میں زبیر کو دیکھا۔’’شاباش! اب سو جاؤ صبح فجر سے ہی ہمارا وزن کم کرنے کا سیشن شروع ہوگا‘‘۔
کمانڈو ٹریننگ سے نیانیا فارغ التحصیل کمانڈو زبیر، سکینہ جی کا ٹرینر بننے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ یوں سمجھیے کہ ٹریننگ سینٹر میں اپنے اوپر کی گئی زیادتیوں کا بدلہ سکینہ جی سے لینے کا ارادہ رکھتا تھا۔ سکینہ ویسے بھی اس بھائی سے ڈرتی تھی انکار نہ کر سکی۔
فجر کی اذان سے 20 منٹ پہلے ہی زبیر سکینہ کے سرہانے کھڑا ہوگیا۔ دن چڑھے بستر چھوڑنے والی کو اس کے حکم پر اٹھنا پڑا۔ زبیر نے اذان سے پہلے پہلے گھر کی گراؤنڈ کے دس چکر لگوائے۔ فجر کی نماز کے بعد اسے جھاڑو پکڑا دیا۔ اس نے ہانپتی کانپتی جھاڑو پوچا مکمل کیا۔ کام کے دوران کئی بار دہائیاں دیں کہ اتنا ظلم نہ کرے لیکن بھائی پر کوئی اثر نہ تھا۔ وہ تو پتھر کا بت بن چکا تھا۔ ناشتے کا وقت ہو چکا تھا۔ کام کرنے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی بھوک محسوس ہو رہی تھی۔
’’بھائی میں کچھ کھا لوں؟‘‘ سکینہ نے ملتجانہ انداز میں بھائی سے پوچھا۔
’’اچھا! جو بھی کھانا ہے میں تمہیں خود دوں گا‘‘ زبیر نے اتنا کہا اور ایک پیالی دہی کی لا کر سکینہ کو پکڑا دی جس میں میٹھا بھی برائے نام تھا ۔ یہ پھیکا دہی کتنی مشکل سے اس کے حلق سے نیچے اتر رہا تھا یہ صرف سکینہ ہی جانتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ بھائی اسے دہی سے تو محروم کر سکتا ہے لیکن اس کے متبادل اسے کچھ اور نہیں دے گا۔ سکینہ اب نیم بھوکے پیٹ ہی صبر شکر کر کے سونا چاہتی تھی مگر اگلا حکم برتن دھونے کا تھا۔ حالانکہ امی نے کہا بھی تھا کہ برتن وہ خود دھو لے گی مگر نہیں جی وہ زبیر ہی کیا جو کسی کی بات مان جائے۔ سکینہ کو کام کرنے کی عادت نہ تھی گھنٹہ لگا کر برتن دھوئے۔ بھوک اور تھکاوٹ سے اس کا سر چکرا رہا تھا۔ ناشتہ کے نام پر اسے دو ابلے انڈے، آدھی روٹی اور تھوڑا سا سالن پکڑا دیا گیا۔ اتنے سے کھانے میں میرا کیا بنے گا ؟سکینہ منہ بسورتے ہوئے سوچنے لگی لیکن بھائی کے ڈر سے احتجاج بھی نہ کرسکی۔ ناشتے کے فوراً بعد واشنگ مشین چلا کر کپڑے دھونے کا حکم ہؤا۔ مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق یہ کام بھی کرنا پڑا۔ ماں جی تو آج مہارانی بن کر بیٹھی ہے اور سارا کام مجھ سے کروایا جا رہا ہے۔ سکینہ نے ماں کو شکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے تاسف سے سوچا۔ ظہر کی نماز کے بعد زبیر نے اسے پلیٹ میں دو کھیرے اور ایک سیب ڈال کر پکڑا دیا۔
’’یہ لو تمہارا دوپہر کا کھانا‘‘۔
’’اب میں سکینہ نہ ہوئی کوئی بکری ہوگئی جو یہ کھاؤں گی‘‘ پلیٹ پکڑتے ہوئے سکینہ کی زبان سے بے اختیار یہ جملہ پھسل گیا۔
’’وزن کم کرنا ہے تو کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا۔ جو میں کہوں چپ چاپ وہی کرو‘‘۔ زبیر کے سپاٹ رویے نے سکینہ کی آنکھیں نم کر دیں۔ وہ اپنی وزن کم کرنے والی سوچ پر ہی پچھتانے لگی لیکن اب پچھتانے کا کیا فائدہ اب تو زبیر بھائی نے بھی اسے زبردستی اپنے ویٹ لاس اسکول میں داخل کر لیا تھا۔
دو گھنٹے آرام کے لئے مل گئے۔ تپتے صحرا میں بارش کی یہ دو بوندیں بھی نعمت غیر متوقع تھیں۔ وہ جلدی سے سونے کے لیے اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ بھائی ڈرائنگ روم کی طرف چل دیا جہاں کوئی اس سے ملنے کے لیے بیٹھا تھا۔ موقع اچھا تھا سکینہ نے کچھ من پسند کھانے کے لئے فریج کھولا تو وہاں نہ کوئی مٹھائی اور نہ ہی کوئی اور مزے کی چیز پڑی تھی۔ بسکٹ سے گزارہ کرنے کا سوچ کر کچن کے کیبینٹ کو کھولا تو وہاں بھی کچھ نظر نہ آیا۔ اسے سمجھ میں آ گیا کہ سازشی طور پر ہر چیز کو اس سے دور رکھا جا رہا ہے۔ کاش! کالج میں چھٹیاں نہ ہوتیں وہ پڑھائی کا بہانہ بنا کر بیٹھ جاتی۔ وہ تھکاوٹ سے چور چور جسم کے ساتھ فون پکڑے ابھی لیٹی ہی تھی کہ نیند نے جکڑ لیا۔ٹھیک دو گھنٹے کے بعد زبیر نے اسے ایسے جگایا جیسے کمانڈو کا پہلا فریضہ ہی یہی ہے ۔ اس کی ٹھیک سے نیند بھی پوری نہ ہوئی تھی کہ زبیر نے سبزی کا تھال اس کے سامنے رکھ دیا اور کاٹنے کو کہا ساتھ ہی عصر کی نماز کے بعد سبزی پکانے کا بھی آرڈر موصول ہوگیا۔
’’تو کیا آج امی کوئی کام بھی نہیں کریں گی ؟‘‘ سکینہ نے درد بھرے دل کے ساتھ پوچھا۔
’’کریں گی کیوں نہیں کریں گی۔ اب امی صرف تمہارے کام کی نگرانی کیا کریں گی۔ تمہیں جس کام کی سمجھ نہیں آتی وہ امی سے پوچھو‘‘۔
جیسے تیسے کر کے اس نے سالن بنانے کا مرحلہ طے کیا، روٹیاں امی نے بنا دیں۔ مغرب کی اذان سے پندرہ منٹ پہلے رات کے کھانے کے طور پر اسے ایک روٹی سبزی کے سالن کے ساتھ پکڑا دی گئی۔ نماز مغرب کے بعد ایک گلاس دودھ کا دیا وہ بھی چینی کے بغیر۔ ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، اس کا دل یہی فقرہ بار بار بولے جا رہا تھا۔ چٹکی بھر کھانا ہضم کرنے کے لیے اب پھر گھر کی گراؤنڈ کے گرد 10 چکر لگوائے گئے۔ عشاء کی نماز کے بعد سونے کا حکم صادر ہو گیا۔ اس بے وجہ مشقت سے تو سونا ہی بہتر ہے۔ وہ سونے کے لیے چل دی۔ تھکن میں کوئی ڈرامہ بھی نہ دیکھا گیا۔
اگلے دن فجر سے پہلے ہی پھر وہی گزشتہ دن والی روٹین دہرائی گئی۔ اسی طرح پندرہ روز گزر گئے لیکن سکینہ کے لیے سب کچھ دن بہ دن آسان ہوتا گیا۔ سستی اور کاہلی ہوا ہو گئی۔ گھر کے جن کاموں سے پہلے وہ جی چراتی تھی اب کرنے میں مزہ آنے لگا۔ اسے اپنا جسم بھی ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگا۔ وہ میٹھے کی شوقین تھی اسے کبھی کبھار میٹھا بھی کھانے کے لیے دیا جاتا لیکن کم مقدار میں۔ زبیر بھائی کی چھٹی کا آخری دن تھا ایک بار پھر اس کا وزن چیک ہونے والا تھا۔ سارے گھر والے جمع ہو گئے۔ سکینہ نے بسم اللہ پڑھ کر سکیل پر پاؤں رکھے۔ زبیر بھائی تالیاں بجاتے ہوئے بولے۔
’’واہ! ماشااللہ، صرف پندرہ دن میں پورے ساڑھے چھےکلو وزن کم ہوا۔ میں کل جا رہا ہوں 15 دن بعد واپس آؤں گا آپ نے اسی روٹین کے ساتھ اگلے پندرہ دنوں میں کم از کم تین کلو وزن ضرور کم کرنا ہے ایک ٹارگٹ سمجھ کر‘‘۔
یہ بھائی کی سختی نہیں بلکہ پیارتھا اور توجہ جس کی مدد سے اسے بیماریوں کا گھر چربی سے نجات مل رہی تھی اور گھر کے کام سیکھ کر سگھڑاپے کی طرف بھی مائل تھی۔ گھر کے کام میں ماں کی مدد گار بن کر ماں کے دل کی دعائیں اور ٹھنڈک بھی میسر ہو رہی تھی۔٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x