ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خاموشی جرم ہے – بتول اکتوبر۲۰۲۲

پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے جو حالات نظر آرہے ہیں ان کے اثرات مدتوں تک رہیں گے۔
ہر شعبہ زندگی کے دانشور اس آفت کی اپنی اپنی توجیہہ بیان کر رہے ہیں اور ہر کسی کا نقطہ نظر درست ہو سکتا ہے۔ کوئی دین سے دوری کے حوالے سے دیکھتا ہے اور اسے عذاب کہتا ہے، کسی کو آزمائش لگتی ہے اور کوئی حکومت کی نا اہلی کو ثابت کرتا ہے۔ اور کسی کی نظر میں عوام کا اپنا قصور ہے یا یہ گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔
سب کے تجزیے درست ہو سکتے ہیں اور ہر تجزیہ کو غلط بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔
اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ سیلاب کی وجہ اگر مذہب کی خلاف ورزی ہوتی تو کیا صرف کچی بستیوں والے غریب مسلمان ہی گنہگار ہیں؟ دولت مندوں کے گناہ تو کہیں زیادہ خوفناک ہوتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ سیلاب، قدرت کے مادی اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی پہ آیا ہے۔ کرہ ارضی کی موسمی تبدیلیوں اور ان کی وجوہات کو نظر انداز کرنا۔ جنگلات کو کاٹنا، ڈیم نہ بنانا، بارشوں کے زیادہ ہونے کے امکانات کے پیش نظر بر وقت سدباب نہ کرنا بھی قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جس رب نے شریعت نازل کی ہے یا دین اسلام میں داخل ہونے والوں کو قوانین کا پابند کیا ہے، اسی رب نے کرہ ارضی کے قدرتی سانچے میں تبدیلی پہ اس کو ردعمل کا پابند کردیا ہے۔ زمین والے طبعی قوانین اور قدرت کی خلاف ورزی کریں گے تو اس کے نتیجے میں کچھ منفی تبدیلیاں رونما ضرور ہوں گی، قدرتی قانون کے خلاف عمل کا رد عمل ضرور ہوگا۔ اگر رب کائنات نے مسخر کرنے کی دعوت دی ہے تو اس کے نتائج پہ غور وفکر اور ممکنہ ردعمل پہ تدبر کرنے کے لئے عقل بھی عطا فرمائی ہے۔
انسان اگر اپنے مادی جسم کے معاملے پر ہی غور کرے تو بہت اچھی طرح بات سمجھ آسکتی ہے۔ حالات، عمر اور ضرورت کے مطابق کھانے پینے میں احتیاط یا اعتدال نہ رکھنے سے انسانی جسم میں کیا منفی ردعمل ہوتا ہے۔ اور اس ردعمل کو قابو میں لانے کےلیے انسان لازماً کچھ اقدامات کرتا ہے اور عقلمند وہی ہوتا ہے جو اس تجربے کی بنا پر آئندہ تکلیف سے بچنے کے لئے محتاط رہتا ہے۔ جسم کو طبعی قوانین کے مطابق رکھنا بھی قوانین الٰہی کی پابندی ہے۔ اگر چہ اس کی خلاف ورزی کرنے سے دنیا میں کوئی شرعی سزا مقرر نہیں۔ کافر و مسلم، متقی اور گنہگار کا جسم اس کی طبعی احتیاجات کی خلاف ورزی پہ منفی اور صحت کے اصولوں پہ عمل کا مثبت ردعمل ضرور دکھائے گا۔
اسی طرح گزرتے وقت کے ساتھ انسانوں کے ہاتھوں بحر و بر میں ترقی و تبدیلی کے نام پہ جو خود غرضی کا فساد برپا ہوتا ہے ان کا ردعمل بھی ہوگا۔ بظاہر نیک نیتی سے بھی مثبت تبدیلی لانے یا اپنے تئیں ترقی اور سہولت کے لیے اقدامات کیے جائیں تو بھی اس کے کہیں نہ کہیں کبھی تو منفی اثرات side effects بھی لازماً ہوں گے کیونکہ انسان کے پاس مکمل علم نہیں ہے وہ تجربے پہ تجربہ کرتا چلا جاتا ہے۔
دانشمندی یہ ہے کہ ان ممکنہ برے اثرات سے نمٹنے کا بھی پہلے ہی سوچا جائے۔
ایک معمولی سی مثال پلاسٹک کے تھیلے کی ہے۔ کتنی سرعت سے کپڑے اور کاغذ کے تھیلے فراموش کر دیے گئے اور پلاسٹک کے تھیلوں کی بھرمار ہوئی اور اب کرہ ارضی پہ اس کے مستقل نقصانات نے انسان کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔
جس پہلے فرد نے گلی میں تھوڑا سا کوڑا کرکٹ پھینکنے کی ابتدا کی وہ کوڑے کے پہاڑ کی بنیاد رکھنے والا اور کرہ ارضی کی آب و ہوا کو آلودہ کرنے میں حصہ دار ہے۔ اسی طرح سمندروں کو آلودہ کرنے کا معاملہ ہے۔ اور موسمی تغیرات کا انہی عوامل سے گہرا تعلق ہے۔ زمین کے ہر باسی کی معمولی سی غلط روی سے اس میزان میں خلل پڑتا ہے جو رب کائنات نے قائم کر رکھی ہے۔ جب کہ اس رب نے خبردار کر رکھا ہے کہ اس میزان میں خلل نہ ڈالو۔
کمال تو یہ ہے کہ انسان کائنات کو مسخر ضرور کرے مگر اس میں جھول نہ آنے دے۔ کیونکہ جھول، بد نظمی اور بے اعتدالی جس جگہ بھی ہو اسے عیب دار بنا دیتی ہے جیسے انسان کے جسم کا ایک عضو بیمار ہو تو سارا جسم متاثر ہوتا ہے، عمارت کی ایک دیوار ٹیڑھی ہو تو پوری عمارت کا حسن غارت ہو جاتا ہے۔
اسی طرح سب انسانوں کے مشترکہ گھر زمین کے کسی ایک علاقے میں کچھ بھی جھول آتا ہے تو پوری زمین پہ جلد یا بدیر اس کے برے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔
زمین جس سرعت سے انسان کے ہاتھوں جنگلات، جنگلی حیات، زرعی علاقوں، درختوں اور صاف آب و ہوا سے محروم ہو رہی ہے اس کا ردعمل موسموں کے غیر متوقع تغیر اور آفات کی شکل میں آرہا ہے۔ جب علم نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ موسموں، زلزلوں اور آفات کا وقت سے پہلے اندازہ لگایا جا سکتا ہے تو یقیناً ان کے برے اثرات سے بچنے کے لیے پیش بندی بھی کی جا سکتی ہے اور یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے۔
حکومت اپنے حصے کا کام کیوں نہیں کرتی؟یہ سوال حکومت سے کون کرے؟
جواب تو بہت آسان ہے مگر اس سے پہلے یہ واقعہ پڑھتے ہیں۔ جو سوشل میڈیا پہ کتاب ’’ذخیرہ الجنان‘‘ کے حوالے سے گردش میں تھا۔
’’ 1971ء میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحبؒ کو قومی اسمبلی کے لیے کھڑا کیا گیا تھا تو ہم ووٹ مانگنےکے لیے دیہاتوں میں گھومے، علی پور کی طرف ایک گاؤں تھا، صبح سات بجے کے قریب ہم اس گاؤں میں پہنچے، لوگوں نے ہمیں چوہدری صاحب کا نام بتلایا کہ وہ موثر آدمی ہیں، ان سے ملو۔ ہم چوہدری صاحب کو ملے، وہ بڑے خوش ہوئے، اور کہا میں تمہارے پاس کبھی کبھی جمعہ پڑھنے کےلیے جاتا ہوں، آج تو میرے لئے عید کا دن ہے کہ تم میرے گاؤں تشریف لائے ہو، اس نے ہمیں ناشتہ کرایا، بڑی خدمت کی۔ انڈے، پراٹھے، مکھن سے ہماری تواضع کی، ہم دس بارہ آدمی تھے۔
ہم نے کہا چوہدری صاحب لوگوں کو اکٹھا کرو ہم نے کچھ بیان کرنا ہے، چوہدری بڑا موثر آدمی تھا، اس نے اعلان کیا کہ کوئی آدمی اپنے کام پر نہ جائے سب میرے ڈیرے پر آجاؤ، بڑا وسیع ڈیرہ تھا، لوگ اس میں اکٹھے ہو گئے، مولانا نے مجھے اشارہ کیا کہ پروگرام شروع کرو، میں نے اٹھ کر ایک حافظ صاحب کو کہا کہ تم تلاوت کرو، اس نے تلاوت کی، ایک ساتھی نے نظم پڑھی، میں نے لوگوں کو کہا کہ ہم تمہارے پاس اس لیے آئے ہیں کہ ہم نے مولانا عبد الواحد صاحب کو اسمبلی کے لئے کھڑا کیا ہے، آپ کے اس حلقے میں ووٹ ہیں، تم نے ووٹ ہمیں دینے ہیں۔
چوہدری کھرا آدمی تھا، کھڑا ہو گیا، کہنے لگا علماء کرام! اگر ناشتے میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو دوپہر کے کھانے میں پوری کر دیں گے، اور ووٹ تمہیں ہم نے ایک بھی نہیں دینا۔ مسکراتے ہوئے اس نے یہ بات کہی کہ ہم آپ کو مغالطے میں نہیں رکھتے۔ بات یہ ہے کہ ہم نے چوریاں بھی کرنی ہوتی ہیں، ڈاکے بھی ڈالنے ہیں، ایک دوسرے کے درخت بھی کاٹنے ہیں، جانور بھی چھیننے ہیں، لڑکیاں بھی اٹھانی ہیں، کیا تم ان کاموں میں ہمارا ساتھ دو گے؟ تھانے ہمارے ساتھ جاؤ گے؟ ہم نے کہا کہ یہ کام تو ہم نہیں کر سکتے۔ کہنے لگا پھر ہم سے ووٹ بھی تم کو نہیں ملیں گے، کیونکہ ہمیں تو ایسے نمائندے چاہئیں کہ ہم انہیں جہاں لے جائیں ہمارے ساتھ جائیں، ہماری سچی جھوٹی امداد کریں‘‘۔
اس نصف صدی پہلے کے واقعہ کی روشنی میں ہم پاکستان کے موجودہ حالات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ملک کے ہر حلقے حتیٰ کہ مقامی انتخابات اور معاشی و کاروباری تنظیموں کے لیے چناؤ کے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ملک کے ہر صوبے اور اہم شعبہ کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ جاگیر داروں، وڈیروں اور ذات برادریوں کو پوجا کرنے والی عوام حکومت کی کارکردگی پہ سوال کیوں کرے گی؟
سب کچھ جاننے کے باوجود ’’قدرتی آفات پہ تو حکومت کا کوئی زور نہیں‘‘ جیسے بیانات دینے والوں کا گریبان پکڑنے کی جراٴت عوام میں کیسے آئے؟ ان کو تو اسی عوام نے کندھوں پہ بٹھا کر تخت نشین کیا ہے۔
بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، اس کو زحمت خود بندوں نے بنایا۔ اس نعمت کو محفوظ کرنے کا انتظام نہ کر کے اور صحیح طریقہ سے استعمال میں نہ لا کر۔
جو پانی میں ڈوب کر، ملبے کے نیچے دب کر، بھوک بے بسی اور مظلومیت میں جان ہار گئے وہ شہیدوں میں شمار ہیں۔ اور ان کے لیے جنت ان شاءاللہ واجب ہوگئی…. جو ان سب مصائب میں جان مال اور وقت وقف کر رہے ہیں وہ بھی ان شاءاللہ اجر کے مستحق ہیں۔ مگر جو ان مصائب کا سدباب کرنے کا اختیار رکھنے کے باوجود تباہی کے ذمے دار ہیں وہ اپنے رب کی نظر میں کیا ہیں اور ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا؟
کاش ان کو جہنم کا کوئی خوف ہوتا!!
اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ جہنم میں جانے کے سارے بندوبست کر لیں۔ ایک ہی معاملہ کسی کے لیے اخروی باعثِ نجات ہے اور کسی کے لئے باعثِ عذاب۔
دنیا میں کئی مقامات پر سارا سال بارشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے وہاں چھوٹے بڑے ڈیم بنتے رہتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو عذاب نہیں بنا لیتے۔ سلیقہ اور سگھڑاپا صرف گھریلو خواتین کی خوبی نہیں ہوتی حکومت کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو پاکستان میں پانی کی کمی دور کرنے، سستی بجلی بنانے کا کئی بار موقع فراہم کیا مگر ہر دور کی نالائق پھوہڑ حکومت نے اس کو ضائع کیا۔
عوام، حکومت کی بے حسی کے باوجود مشکل حالات سے نمٹنے کی کیسی صلاحیت رکھتی ہے اس پہ بھی نظر دوڑا لیتے ہیں۔
وہ پانی جو ان کی زندگیوں کو آرام و آسائش بہم پہنچانے کا ذریعہ بن سکتا تھا وہ آفت بن گیا۔ تو عوام ہی ان آفت زدہ بھائیوں کے لیےفرشتہ صفت ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح قوم دامے، درے ، سخنے آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے مسابقت کے میدان میں اتر آتی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ انفرادی و اجتماعی طور پہ یہ جذبہء صادق ایمان تازہ کر دیتا ہے۔
لیکن یہ جذباتی عمل اور جوشِ ایمانی وقتی کیوں ہوتا ہے اور آفت کا وقت ٹلتے ہی آفت زدہ عوام الناس سب کے احسان بھول کر حکومت کے چناؤ کے وقت پھر اسی ڈگر پہ کیوں آجاتے ہیں؟
وہی مہنگائی کا طوفان، بجلی گیس کی فراہمی میں تعطل، علاج معالجے کا فقدان، عدالتوں میں غریب کی رسوائی، حکومت کی بے حسی اور عوام کی اس بے حسی پہ خاموشی۔سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو مار ڈالنے والے چند تھے مگر پوری قوم ہلاک ہوئی۔ باقیوں کا جرم تھا اس ظلم پہ خاموشی۔دراصل عوام کی خاموشی ہی سب سے بڑا جرم ہے۔ بے غیرتی کی سب سے بڑی علامت ظلم و زیادتی پہ چپ رہنا ہے اور اگر یہ جرم اپنے ہی حقوق غصب ہونے پہ ہو تو تباہی ہے۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
غاصبوں کے خلاف چند مقالے یا چند تقریریں یا آوازیں کبھی کام نہیں آتیں۔ مثبت ذہنی انقلاب کا ایک سیلاب آنا چاہیے جو جہالت، فرعونیت اور حرام کے وسائل کو بہا لے جائے۔
مثبت ذہنی انقلاب کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟
انقلاب کے نام سے ماردھاڑ اور خون خرابہ ڈرانے لگتا ہے۔ چھین جھپٹ اور ماردھاڑ سے ڈاکہ تو ڈالا جا سکتا ہے قوم کی صلاحیتوں سے فایدہ نہیں آٹھایا جا سکتا۔ حقیقی انقلاب افکار کا انقلاب ہے۔
گزشتہ تقریباً ایک صدی سے علمائے حق اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور مایوسی کی ایسی کوئی بات بھی نہیں۔ ہر مشکل وقت میں قوم جس فراخ دلی سے مال و اسباب صدقہ کرتی ہے وہ بھی ایک نعمت ہے۔ بے شک صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے۔ اور ہمیں یقین ہے انہی صدقات کی بدولت پاکستان کا وجود قائم ہے۔ اور انہی صدقات کی بدولت ہمیں ظالم اور بے حس حکومتی بلاؤں سے بھی نجات ملے گی۔ مگر کرنے کا کام یہ ہے کہ مشکل گھڑی میں نیکی کا جو انقلاب آتا ہے وہ درست سمت میں جاری و ساری رہے اور ملک میں بد معاشیہ کی سربراہی سے کلی انکار کرنے والی عوام سامنے آئے۔
ملک میں سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھے بغیر کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں بنایا جا سکتا۔ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی کرسی ہتھیا لینے کی کوشش یا چھن جانے کا انتقامی رویہ اپنے عروج پہ ہے۔ ان سے کوئی توقع رکھے بغیر عوام کو چاہیے کہ اپنا بھلا خود ہی سوچے۔
سیلاب میں جہاں نیک نیتی سے میدان عمل میں اترنے والی تنظیمیں کام کر رہی ہیں وہیں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو شیطانی سوچ پہ عمل کر رہے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل فراخ دلی سے ہو رہی ہے تو دوسری طرف روزمرہ کی چیزیں مہنگائی کی وجہ سے ناقابل حصول ہو رہی ہیں۔
خیر و شر کی اس کشمکش میں خیر کے پلڑے میں وزن ڈالنا ہوگا۔خیر بانٹنے والے صالح اور نیک نیت لوگ اور فلاحی تنظیمیں کوئی ایسا لائحہ عمل طے کریں کہ بکھری ہوئی صلاحیت فکری انقلاب کے لیے یکجا ہو جائے۔
متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو سیلاب کے بعد محبت، ہمدردی کی ضرورت ہوگی۔ تعمیرنو، روزگار اور جسمانی و نفسیاتی صحت کے مسائل سے واسطہ مدتوں رہے گا۔ ان سب سے نمٹنے کے ساتھ ان کی روحانی تربیت کی بہت ضرورت ہوگی۔
ان لوگوں کو گھر بیٹھے امداد مل جانے اور مفت خوری کا عادی بننے سے روکنا ہوگا۔ عزت نفس اور اپنے زور بازو پہ حلال کمائی حاصل کرنے کا اعتماد دینا ہوگا۔
بے حسی اور غلامانہ ذہنیت کو ختم کر کے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے، اپنی حق تلفی کے خلاف احتجاج کرنے کی ہمت دینی ہوگی۔ چپ رہنے کا جرم ختم کروانا ہوگا۔ یہ بہت ضروری کام ہے۔
نوجوانوں کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھانے اور وڈیرہ شاہی کے چنگل سے نکالنے کی تدبیر کرنا ہوگی۔
امدادی کارروائیوں میں یہ نکتہ یاد رکھا جائے کہ یہ کارروائی وقتی نہ ہو مسلسل مضبوط اور مستقل رابطے رکھے جائیں تاکہ افکار میں انقلاب لانے کے لیے یہ نسل اپنی اولادوں کو تیار کر سکے۔
ہمارا ہدف آئندہ آنے والی نسل کی آبیاری اور اصلاح کے لیے آج کے نوجوانوں کی فکری تربیت کرنا ہے۔
قدرت کا قانون ہے کہ ’’بے شک تنگی کے بعد آسانی ہے‘‘۔
وہ رب تنگی میں مبتلا کرتا ہے، کشادگی پیدا کرنے کے لیے وہ امتحان لیتا ہے۔ کامیاب ہونے والوں کو مزید بہتر حالات تک پہنچانے کے لیے۔ اگر ذہنی و فکری انقلاب کامیاب دیکھنا ہے تو اس کےلیے لازم ہے کہ علاقائی اور قومی سطح پہ ذہنی و فکری غلامی سے آزادی کی فضا ہموار کی جائے تاکہ وڈیرہ شاہی اور فرعونیت کا قلع قمع ہو سکے۔
ہر نئی تعمیر کولازم ہے تخریبِ تمام
ہے اسی میں مشکلاتِ زندگانی کی کشود
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x