ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک ستارہ تھی میں – بتول اکتوبر۲۰۲۲

’’ تم نے کبھی جنت دیکھی ہے ؟‘‘
’’خدیجہ کے سوال پر وہ مونگ پھلی کھانے رک گئی تھی‘‘۔
’’نہیں تو … کیا تم نے دیکھی ہے ؟‘‘
’’دیکھی تو نہیں مگر سنا ضرور ہے اپنی دادی سے ‘‘۔
’’کیا کہتی ہیں تمہاری دادی؟‘‘ خدیجہ کی باتوں میں اس کی دلچسپی بڑھ گئی تھی۔
آج مس منزہ کے ہاں عید ملن پارٹی تھی ۔ انہوں نے پوری کلاس کو اپنے گھر پر بلا رکھا تھا ۔ اُسے بڑی منت سماجت کے بعد آنے کی اجازت ملی تھی ۔ ایک تو مس منزہ اس کی پسندیدہ ٹیچر تھیں اور پھر اس کی سب سے اچھی سہیلی خدیجہ بھی تو آ رہی تھی ، وہ کیسے نہ جاتی ۔ سو آج کا سارا دن انہوں نے خوب مزے میں گزارا تھا ۔ مس منزہ نے کھانے پینے کی کافی ساری چیزیں تیار کروا رکھی تھیں اور لڑکیاں بھی اپنے اپنے گھر سے کچھ نہ کچھ لائی تھیں ۔
شام ہونے کو تھی اب سب مس منزہ کے لان میں ادھر اُدھر بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں کہ نجانے کیوں باتوں باتوں میں خدیجہ کو جنت کا خیال آگیا تھا اور اسے تو ویسے بھی نئی اور ان دیکھی جگہوں کے بارے میں جاننے کا بہت شوق تھا۔
’’ میری دادی کہتی ہیں جنت اس کائنات کی حسین ترین جگہ ہے‘‘۔ خدیجہ کھوئے کھوئے لہجے میں جنت کا نقشہ یوں کھینچ رہی تھی جیسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو ۔
’’ جہاں ٹھنڈے میٹھے پانی اور دودھ کی نہریں بہتی ہیں ‘‘۔
خدیجہ بتا رہی تھی اور وہ جیسے ان ٹھنڈے میٹھے پانیوں کا مزہ اپنی زبان اور جسم پر محسوس کر رہی تھی۔
’’ اس جنت میں رہنے والے سب لوگ بہت خوبصورت اور جوان ہوں گے اور آرام دہ تختوں پر بیٹھے ہوں گے ان کے سامنے طرح طرح کے پھل اور پرندوں کا گوشت پیش کیا جائے گا وہاں کوئی کسی سے نہ بُری بات کہے گا نہ سنے گا ۔دور دور تک پھیلی ٹھنڈی چھائوں ہو گی ‘‘۔
’’ اچھا یہ تو بتائو ہم اس حسین جگہ پر کیسے جا سکتے ہیں ؟‘‘
وہ مونگ پھلی کھانا کب کی بھول چکی تھی ۔ خدیجہ کی باتیں سن کر اس کا شوق اور تجسس اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا ۔ خوبصورت جگہیں دیکھنے اور وہاں جا کر رہنے کی وہ ہمیشہ سے شوقین تھی ، پہاڑ دریا چشمے جنگل سب اس کی کمزوری تھے۔
’’ میری دادی کہتی ہیں جو بھی ایک جملہ بولے گا وہ ایک نہ ایک دن ضرور اس جنت میں جائے گا ‘‘۔
’’ کیا ہے وہ جملہ جلدی بتائو ‘‘وہ خدیجہ کی بات پر بے تابی سے بولی تھی۔
’’ میں ابھی وہ جملہ کہہ دیتی ہوں جنت میں جانے کے لیے تو میں کچھ بھی کر سکتی ہوں ‘‘۔ اس کے لہجے سے اُس کا شوق واضح طور پر جھلک رہا تھا ۔
’’ کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ محمد ؐ اس کے آخری رسول ہیں ‘‘۔
’’ بس اتنی سی بات کہنے پر اگر جنت میں جا سکتے ہیں تو پھر میں ہر روز دن میں کئی بار یہ جملہ دہرا یا کروں گی ۔ میں گواہی دیتی ہوں میں گواہی دیتی ہوں …‘‘
وہ بالکل چھوٹے بچوں کی طرح خوش ہو رہی تھی ، اُسے جنت کا ویزہ جو مل گیا تھا ، مس منزہ کی پارٹی ، خدیجہ ، سب سہیلیاں اس کے ذہن سے بالکل محو ہو چکی تھیں ۔ حالانکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے تک وہ سب بہت اُداس تھیں کیونکہ پانچویں جماعت کے امتحان ہونے والے تھے ، پھر کلاس کے ساتھ ساتھ اُن کا سکول بھی بدل جانا تھا ، مس منزہ سے سہیلیوں سے سب سے جدا ہو جانا تھا مگر اب اُسے کچھ یاد تھا تو صرف جنت وہ عجیب سر خوشی کے عالم میںتھی ، یہ ایک جملہ بہت مزہ دے رہا تھا اسے … جنت میں لے جانے والا جملہ! گھر آکر بھی اس نے اسے بار بار دہرایا تھا اور ہر دفعہ ہنسی تھی ۔ اپنے بستر پر لیٹ کر بھی وہ خدیجہ کی باتیں ہی یاد کر رہی تھی۔
’’ اب سو جائو ورنہ صبح سکول کے لیے نہیں اٹھو گی ‘‘۔ مما نے اُس کے ہنسنے پر اسے ٹوکا تھا اور اس نے انہیں دکھانے کے لیے آنکھیں بند بھی کرلی تھیں ۔
مگر پھر وہی جملہ میں گواہی دیتی ہوں …ہوں بہت مزے کا ہے وہ ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔
٭…٭…٭
سکول دیکھ کر اسے سخت مایوسی ہوئی تھی اس کی عمارت جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی لگتا تھا اس کی مرمت سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ سکول کا کوئی دروازہ نہیں تھا ایک آدھی ادھوری سی چار دیواری تھی اور بس ایک لمبے سفر کے بعد یہ سب دیکھ کر اس کی تھکاوٹ اور بڑھ گئی تھی جسم سے زیادہ اس کا ذہن تھکا ہؤا تھا ، نئی منزلوں سے جہاں اسے بہت ساری امیدیں تھیں وہاں بہت سارے خوف اور وسوسے بھی اسے پریشان کر رہے تھے ۔ اندر داخل ہوتے ہی اسے تین چارگھڑے نظر آئے تھے ۔ جو گزرنے والے راستے میں باقاعدہ لوٹیں لگا رہے تھے یہاں وہاں کوئی اوندھا پڑا ہؤا تھا کوئی سیدھا ۔ ساتھ ہی پانی کا حمام بھی رکھا ہؤا تھا جس سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا اس کا ڈھکن بھی غائب تھا اور اندر سے وہ اس قدر گندا تھا کہ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ سکول کے بچے یہیں سے پانی پیتے ہوں گے مگر اُسے یقین کرنا پڑا ، کیونکہ بچے واقعی یہیں سے پانی پیتے تھے ۔ دو تین سیڑھیاں چڑھ کر آگے ایک برآمدہ تھا اور اسی برآمدے میں سکول کا دفتر۔
جب وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچی تو اس نے دیکھا ایک بھاری تن و توش کی خاتون کرسی پر بیٹھے بیٹھے بے خبر سو رہی تھیں ۔ اپنے پھٹی ایڑیوں والے گندے پائوںانہوں نے میز پر دوسری طرف بیٹھی ٹیچر کے عین سامنے رکھے ہوئے تھے ۔ یہ غالباً اُن کے قیلولے کا وقت تھا ۔
’’ مجھے ہیڈ مسٹریس صاحبہ سے ملنا ہے ‘‘۔اس نے سامنے بیٹھی ٹیچر کو مخاطب کیا تھا ۔
’’یہی ہیں مل لیں‘‘۔ وہ بتا کر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔
’’ آپ انہیں جگا دیں گی ؟‘‘کافی دیر انتظار کے بعد اسے کہنا پڑا کیونکہ خود سے تو ان کے جاگنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
’’ میری توبہ !‘‘ ٹیچر نے اس کی بات پر کانوں کو ہاتھ لگایا۔
’’ میں تو ایسا خطرہ مول نہیں لے سکتی آپ خود ہی ہمت کریں ‘‘۔ پھر اسے ہمت کرنا ہی پڑی کیونکہ اتنی دور سے وہ ان کے خراٹے سننے کے لیے تو نہیںآئی تھی ۔
’’ میم!‘‘ اس نے آگے بڑھ کر ان کا کندھا ہلایا تھا۔
انہوں نے ایک دم سے بوکھلا کر آنکھیں کھولیں اور خالی خالی نظروں سے اسے گھورنے لگیں ۔
’’ میرا نام پَوَن ہے اور میں شہر سے آئی ہوں ‘‘۔ اس نے اپنا تعارف کرایا ۔
’’ اچھا …کیا؟‘‘ اُن کی بوکھلاہٹ مزید بڑھ گئی تھی ۔ انہیں شک ہؤا وہ کہیں سکول کے معائنے کے لیے تو نہیں آئی ، یہ نا مراد خیال آتے ہی انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی تھی اب مسئلہ یہ ہؤا کہ وہ تو کرسی کو چھوڑنا چاہ رہی تھیں مگر کرسی انہیں نہیں چھوڑ رہی تھی ۔ ان کا بھاری وجود کرسی کے قابو میں تھا ۔ کافی زور آزمائی کے بعد اٹھنے کی کوشش ترک کردی ۔
’’ آپ تشریف رکھیں کیا نام بتایا آپ نے ؟‘‘
’’ میرا نام پون ہے اور سکول ٹیچر کے طور پر اس جگہ میرا تقرر ہؤا ہے ‘‘۔
’’ اچھا … ‘‘ میڈم نے باقاعدہ سکھ کا سانس لیا تھا۔
’’ نام کچھ عجیب سا ہے پہلے کبھی نہیں سنا …‘‘
’’ چلیں اب تو سن لیا ناں مبارک ہو‘‘۔ پَوَن خوش دلی سے بولی تھی۔
’’تم ہمیں جاہل سمجھتی ہو؟‘‘ وہ اچانک لال پیلی ہو گئیں ۔
’’ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ‘‘۔ وہ فوراً محتاط ہو گئی ۔ اس مرحلے پر وہ کسی سے کوئی جھگڑا نہیں چاہتی تھی۔
’’ یہ میرا اپائٹمنٹ لیٹر ہے ‘‘۔ اس نے پرس میں سے لیٹر نکال کر ان کے سامنے رکھا۔
’’ یہیں تقرر ہؤا ہے ؟‘‘ انہوں نے دوبارہ تصدیق چاہی۔
’’ جی یہیں ہؤا ہے ‘‘۔ اس نے انہیں اطمینان دلایا ۔
’’ اچھا ؟ ضرورت تو نہیں تھی ‘‘۔ ان کی بڑ بڑاہٹ صاف سنائی دی تھی۔
اب وہ لیٹر کھول کر دیکھ رہی تھیں اور اس کی نظریں انہی پر جمی ہوئی تھیں ۔ صد شکر کہ لیٹر انگریزی میں تھا اور ہیڈ مسٹریس صاحبہ کی اس زبان سے کم واقفیت اور عدم دلچسپی اس کے کام آئی تھی ۔ انہوں نے لیٹر سرسری سا دیکھ کر ایک طرف رکھ دیا تھا۔
’’ ٹھیک ہے اب تو چھٹی ہونے والی ہے کل سے آجانا ‘‘۔
’’جی ٹھیک ہے ‘‘۔ اس نے فرمانبرداری سے کہا ۔’’ مگر ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے … اگر آپ کچھ کر سکیں ‘‘۔
’’ کیا مسئلہ ؟‘‘ چیزیں سمیٹتے ان کے ہاتھ رک گئے تھے وہ جانے کی تیاری کر رہی تھیں ۔
’’ یہاں کوئی ہاسٹل یا کرائے پر کمرہ مل جائے گا جہاں میں رہ سکوں ؟ میں پورا کرایہ دوں گی ‘‘۔ اس نے انہیں یقین دلایا۔
’’ بی بی یہ گائوں ہے یہاں ہاسٹل واسٹل کہاں سے آیا اور کمرہ کرائے پر دینے کا بھی کوئی رواج نہیں ‘‘۔ وہ خاصی ہے مروتی سے بولی تھیں ۔
’’ تو پھر میں کہاںرہوں گی میں تو یہاں کسی کو جانتی بھی نہیں ‘‘۔ وہ پریشانی سے بولی تھی۔
’’ یہ تو یہاں آنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا ناں ‘‘۔
وہ اس کی بے بسی کا جیسے مزہ لے رہی تھیں اور اس کا دل ڈوب رہا تھا ۔ رات سر پر تھی وہ کہاں رہے گی ۔ کسی ٹیچر سے اتنی واقفیت نہیں تھی کہ کسی سے کہتی کہ وہ اسے اپنے گھر رکھ لے ۔ تو پھر کیا سکول میں رہ جائے مگر کیسے ؟ آبادی سے دور اس سکول میں وہ اکیلی رات کیسے گزار سکتی تھی ۔ نہ اس کے پاس بستر تھا نہ کھانا ۔
’’ تم نے کیا کہا تھا پورا کرایہ دو گی ؟‘‘ میڈم کو جیسے ابھی دھیان آیا تھا ۔
’’ جی جی میں نے یہی کہا تھا ‘‘۔
’’تو پھر ٹھیک ہے میرا گھر حاضر ہے ‘‘۔اگر تم رہنا چاہو تو۔
میڈم کی بات سن کر اس کی جان میں جان آئی تھی اور یوں وہ اپنا مختصر سا سامان لیے ان کے ساتھ آگئی تھی ، ان کے گھر کا وہی نقشہ تھا جو عام طور پر نوکری پیشہ خواتین کے گھر کا ہوتا ہے اور اگر بد قسمتی سے وہ پھوہڑ اور بد سلیقہ بھی ہوں ۔ اس نے دیکھا اُن کے گھر کی کوئی چیز ٹھکانے پر نہیں تھی ۔ وہ آتے ہی دوپٹہ اتار گھر کے کام کاج میں لگ گئی تھیں اور ساتھ ہی اسے بھی مصروف کر لیا تھا یہ پکڑائو ، وہ اٹھائو ، اسے صاف کر دینا ذرا … ارے ذرا اس بچے کو تو نہلا دینا … یونہی کرتے کرتے شام ہو گئی تھی ۔ بارے انہوں نے کسی طرح کھانا بنایا تھا جو ان کی شخصیت کے عین مطابق تھا یعنی کہ نہایت بد ذائقہ۔
تھکاوٹ سے اس کی کمر ٹوٹ رہی تھی ۔ رات ہوئی تو اس نے سکھ کا سانس لیا کہ اب شاید آرام کا موقع ملے ۔ انہوں نے چھوٹے سے کمرے میں جو پہلے ہی سامان سے بھرا ہؤا تھا اسے بستر دیا تھا اور آج ان کے بچے بھی وہیں سو رہے تھے ۔ کمرے میں کل دو چار پائیاں تھیں ۔ یہ تینوں بچے ایک چھوٹی چار پائی پر کیسے سوئیں گے ۔ اس نے حیرت سے سوچا تھا ۔ مگر جلد ہی اس کی حیرت دور ہو گئی تھی ۔ میڈم کا سب سے چھوٹا بچہ جسے اُلٹیاں بھی لگی ہوئی تھیں وہ پون کی چار پائی پر سونے والا تھا ۔ گائوں میں پہلا دن اور میڈم کے گھر پہلی رات … وہ انکار کرتی بھی تو کس بل بوتے پر اور جو اس گستاخی پر یہاں سے نکال دی جاتی تو اس اندھیری رات میں کہاں جاتی !
وہ چپکی ہو کر بستر پر لیٹ گئی تھی ۔ میڈم اپنی ذمہ داریاں اس کے تھکے کندھوں پر ڈال کر کب کی جا چکی تھیں ۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا اور حبس بھی ۔ بجلی بہت دیر کی گئی ہوئی تھی ۔ڈر کے مارے دروازہ بھی نہیں کھول سکتی تھی کہ بقول میڈم کے کتے بلیاں اندر آجاتے ہیں ۔ چار پائی کی لکڑی اور بان اسے بری طرح چبھ رہا تھا کیونکہ باقی ساری جگہ پر تو بچہ سو رہا تھا اور وقتاً فوقتاً ٹانگیں اس کے اوپر رکھ لیتا تھا ۔ میڈم کے شوہر کے کھانسنے کی آواز الگ پریشان کر رہی تھی ۔ وہ جب کھانستے کھانستے کمرے سے اٹھ کر صحن میں آجاتے تو قریب آتی نیند دور بھاگ جاتی ۔ آدھی رات اسی کیفیت میں گزر چکی تھی اور حالات بتا رہے تھے کہ باقی بھی اسی حالت میں گزرے گی ۔ گزرتی رات سے زیادہ اسے اب یہ فکر ستا رہی تھی کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا … وہ ان حالات میں کیسے گزارا کرے گی !
ذہن میں خود بخود ایک موازنہ ساہو رہا تھا وہ جو پیچھے رہ گیا تھا اور جو سامنے در پیش تھا اس میں وہ قدم قدم چل کر یہاں تک پہنچی تھی مگر اس کے پائوں میں بڑی بھاری زنجیریں اس کا سفر دشوار او ردشوار تر کیے جا رہی تھیں ۔ وہ صحیح تھی یا غلط وہ فائدے میں رہی تھی یا نقصان میں ہر وقت یہی جمع تفریق اس کے اندر ہوتی رہتی تھی ۔ اس نے آرام اور آسائش کی زندگی چھوڑ کر یہاں آکر کوئی غلطی تو نہیں کردی تھی ؟ وہ بار بار خود سے یہی سوال پوچھ رہی تھی ۔ وہ جانتی تھی جس سفر پر وہ نکلی ہے وہ آزمائشوں سے پر ہے مگر اسے ڈر ایک ہی بات کا تھا کہ ان آزمائشوں سے گھبرا کر وہ کہیں ہمت نہ ہار بیٹھے ۔ اسے تو ابھی بہت دور جانا تھا منزل کو پانا تھا ، کامیاب ہونا تھا ۔
بہت دیر تک وہ طرح طرح کی باتیں سوچتی رہی تھی ۔ بجلی آچکی تھی میڈم کے شوہر کی کھانسی بھی تھم چکی تھی ۔ بچے کی ٹانگیں ابھی بھی اس پر ہی دھری تھیں مگر اب اسے نیند آگئی تھی ۔ صبح ہونے میں ابھی کچھ ہی دیر باقی تھی۔ رات ختم ہونے کو تھی روشنیاں قریب تھیں اتنی قریب کہ وہ چاہے تو سب کی سب اندر اتار لے خود ان کا حصہ بن جائے اسے تھوڑی دیر ہی سونے کاموقع ملا تھا مگر پھر بھی شکر ہے کہ اس کے سر پر ایک چھت بھی تھی اور سو نے کو بستر بھی تھا ۔ وہ سب کچھ چھوڑ دینے کے باوجود محر وم نہیں تھی۔
٭…٭…٭
صبح کا آغاز پچھلی شام کے انجام جیسا ہی تھا اس کا سر بوجھل تھا اور جسم ٹوٹ رہا تھا مگر میڈم اسے ایسے آوازوں پر آوازیں د یے جا رہی تھیں جیسے وہ ہمیشہ سے یہیں رہتی آ رہی تھی اور روز صبح دوڑ دوڑ کر ان کے کام کرتی تھی۔
’’ ارے بھئی اب اٹھ بھی جائو کب تک سوئو گی ‘‘۔ انہوں نے دھاڑ سے کمرے کا دروازہ کھولا تھا ۔ ’’ ایسے سوتی رہو گی تو پھر ہو چکی نوکری…دروازے پر دودھ والا کب سے کھڑا ہے یہ نہیں کہ جا کر دودھ ہی لے لو‘‘۔
وہ بہت مشکل سے اٹھی تھی اور میڈم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جا کر دودھ بھی لے آئی تھی ۔ بس پھر تو اس کی شامت ہی آگئی تھی میڈم دن بھر کاکام اس سے ابھی کروا کر فارغ ہو کر سکول جانا چاہتی تھیں ۔ اسے صحن میں جھاڑو بھی لگانا پڑا تھا اور برتن بھی دھونے پڑے تھے ۔ ابھی شاید وہ اس سے چھتوں کے جالے بھی صاف کرواتیں مگر آٹھ بج چکے تھے ، انہیں اپنا پروگرام کل پر چھوڑ کر اسے چھٹی دینی پڑی تھی ۔ وہ کل سے کہیں زیادہ تھکن سے چور وجود کے ساتھ سکول پہنچی تھی ۔ حالت یہ تھی کہ وہ قدم رکھتی کہیں تھی اور پڑتا کہیں تھا دماغ سو یا ہؤا تھا اس لیے اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہر چیز کو دیکھنا پڑ رہا تھا ۔ موجود کیفیت سے زیادہ جو چیز اسے ڈرا رہی تھی وہ یہ تھی کہ اسے سکول سے واپس میڈم کے گھرجانا تھا جہاں اس کا مستقبل خوب واضح اور روشن تھا۔
حمیرا اس کی ساتھی ٹیچر نے اسے اس کی کلاس دکھائی تھی ہاں بچے بہت کم ہیں یہ بات اس نے آتے ہی سمجھ لی تھی اور پھر حمیرا سے بھی پوچھ لیا تھا کہ یہ گائوں تو کافی بڑا ہے مگر سکول میں بچے اتنے کم کیوں ہیں ؟اور حمیرا نے یہ کہہ کر کہ یہاں کے لوگوں کو پڑھائی کا شوق ہی نہیں بات ہی ختم کردی تھی ۔ جس کلاس روم میں وہ کھڑی تھیں وہ کافی بڑا تھا اوراس میں دو کلاسیں بیٹھی ہوئی تھیں، ایک دوسرے سے پیٹھ موڑے جیسے آپس میں ناراض ہوں ۔ ایک کلاس کی طرف وہ کھڑی تھیں جبکہ دوسری کلاس میڈم لے رہی تھیں ۔ یہ تو معلوم نہ ہو سکا وہ انہیں کیا پڑھا رہی تھیں مگر اتنا ضرور دیکھا اس نے کہ پوری کلاس کے بچوں کو ایک ایک کر کے وہ بلا رہی تھیں اور سب ان کے سامنے آکر بڑی برفرمانبرداری سے اپنے ہاتھ آگے رکھ رہے تھے اور سب کے ہاتھوں پر ٹوٹی ہوئی کرسیوں کی تختیاں مار رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی اور ہاتھ تیزی سے حرکت میں تھے گھر سے نکلتے ہوئے میاں کے ساتھ ان کی کافی گرما گرمی ہوئی تھی اور اس کا خمیازہ دوسروں کے بچے بھگت رہے تھے ۔
اس کے لیے یہ منظر نا قابل برداشت تھا اس لیے وہ باہر آگئی تھی سکول میں حمیرا کے علاوہ دو اور ٹیچرز بھی تھیں جو کلاس رومز میں ہونے کی بجائے باہر بیٹھی خوش گپیاں لڑا رہی تھیں۔ جیسا راجہ ویسی پرجا اس نے بے اختیار سوچا تھا ۔ مجموعی طور پر سکول بد ترین حالت کا شکار تھا ، نا کافی عمارت کے ساتھ فرنیچر بھی ٹوٹا ہؤا تھا یہاں تک کہ کچھ بچے بنچوں پر اور کچھ بوریوں پر بیٹھتے تھے فرش بھی جگہ جگہ سے خراب تھا ، باقاعدہ گڑھے پڑے ہوئے تھے ۔ البتہ حیرت انگیز طور پر ٹیچرز کی کرسیا ں بالکل سلامت تھی حالانکہ ٹوٹنا تو انہیں چاہیے تھا ہر وقت استعمال میں جو رہتی تھیں۔
پھر سارا دن کسی نہ کسی مصروفیت میں گزر گیا تھا اور چھٹی کا وقت ہو گیا ۔ آج کی رات کل کی رات سے مختلف نہیں ہو گی اس میں اسے کوئی شک نہ تھا ۔ واپسی کے خیال سے ہی اس کی حالت بری ہو رہی تھی وہ دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی مگر وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ اپنے لیے کیا مانگے ۔ سکول کے پہلے دو تین ہفتوں میں ہی اس پر یہ راز کھل چکا تھا کہ یہاں بچوں کی تعداد اس قدر کم کیوں ہے ۔
وجہ وہی پرانا مرض جو پورے ملک کا مرض مشترک تھا یعنی کہ ہر شاخ پہ اُلو بیٹا ہے ۔ اس سکول میں بھی نا اہلی اور کام چوری کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ تمام ٹیچرز مقامی تھیں ، کافی عمر والی اور بے زارجنہیں صرف تنخواہ سے مطلب تھا ۔ اُن کی پوری کوشش تھی کہ سکول میں بچے کم سے کم آئیں کیونکہ بھلا سرکاری سکول بھی کوئی پڑھنے کی جگہ تھی ! اپنی اس پالیسی میں وہ کافی حد تک کامیاب تھیں ، چند ایک بچے ہی آگے بڑھ پاتے تھے ۔ کچھ مناسب توجہ نہ ملنے پر اور کچھ تشدد سے گھبرا کربھاگ جاتے تھے۔ اس نے کتنے ہی لوگوں کو دیکھا کہ بچوں کو سکول داخل کرانے آتے اور پھر میڈم کے ہاتھوں ذلیل ہو کر چلے جاتے ۔
اس دن بھی وہ دفتر میں بیٹھی کچھ کام کر رہی تھی جب میڈم باہر برآمدے میں بیٹھی ایک عورت کے ساتھ بحث کر رہی تھیں بلکہ اسے اچھا خاصا بے عزت کر رہی تھیں حالانکہ اس عورت کے ساتھ ایک معزز صورت خاتون بھی تھیں مگر انہیں کسی کی پروا نہیں تھی۔
’’ہاں جی کیا عمر ہے بچے کی ؟‘‘ وہ اس وقت کسی تھانیدار کا روپ دھارے ہوئے تھیں۔
’’ جی پانچ سال ‘‘ عورت منمنائی تھی۔
’’ ہم چھے کا کرتے ہیں اب اتنے فارغ تو نہیں کہ تمہارے بچوں کے ناک صاف کرتے ر ہیں ‘‘۔
’’ مہر بانی کر کے داخل کرلیں خواہ مخواہ ادھر اُدھر پھرتا رہتا ہے ‘‘۔ عورت دوبارہ منمنائی تھی۔
’’ ناں تو یہ بچے پالنے کا سنٹر ہے کہ تم اسے یہاں پھینک کر خود مزے کرو … پیدا کرو تم اور پالیں ہم … اچھا یہ تو بتائو اسے اب پ اور سو تک گنتی آتی ہے ؟‘‘ انہوں نے نئی پخ نکالی۔
’’ نہیں جی یہ سب تو نہیں آتا ۔ اگر ہم یہ سب سکھا سکتے تو یہاں کیوں آتے ؟‘‘
’’ اچھا زیادہ باتیں نہ بنائو ‘‘ میڈم کو عورت کی آخری بات بالکل اچھی نہیں لگی تھی۔
’’ میڈم آپ اس بچے کو داخلہ دے دیں ‘‘ معزز صورت خاتون بحث کو لمبا ہوتا دیکھ کر آخر کار بولی تھیں۔
’’ یہ دن بھر محنت مزدوری کرنے والی عورت ہے گھر پر نہیں ہوتی ۔ اس کا شوہر مر چکا ہے ۔ بچے کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ۔ سکول میں ہوگا تو کچھ پڑھ بھی لے گا اور اس کی ماں بھی مطمئن ہو گی ‘‘۔
’’ بی بی آپ کہتی ہیں تو میں اسے داخل کر لیتی ہوں ‘‘۔ میڈم کا لہجہ ان خاتون سے بات کرتے ہوئے کچھ بدل چکا تھا۔ورنہ ہم ٹیسٹ لے کر داخل کرتے ہیں۔
پون کا کام ختم ہو چکا تھا اور وہ باہر آگئی تھی ۔ میڈم اب اکیلی بیٹھی تھیں ۔
’’ آپ ان بچوں کو سکول میں کیوں داخل نہیں کرتیں ‘‘۔ تین چار ہفتے گزارنے کے بعد وہ خود کو کافی پر اعتماد محسوس کر رہی تھی اس لیے اس نے اس نازک موضوع پر بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
’’ بھئی کس طرح داخل کریں … سکول کی حالت دیکھی ہے تم نے ؟ بچوں کو کہاں بٹھائیں ۔یہ بینچ نہ کرسی … اور ہمیں تنخواہ کیا ملتی ہے پتہ ہے تمہیں ؟ اتنی تنخواہ میں ہم اتنے ہی بچے پڑھا سکتے ہیں ‘‘۔
’’ تو پھر آپ ایسا کریں پہلی کلاس مجھے دے دیں‘‘ اس نے کسی بحث میںپڑے بغیر ایک اچھا حل پیش کیا تھا ۔
’’ جتنے بھی بچے ہوں گے میں پڑھا لوں گی ‘‘۔
’’ ارے ایک سال تو تم پڑھا لو گی اگلے سال تو ہمارے ہی متھے مارو گی ناں !‘‘
پون مان گئی کہ میڈم نہایت زیرک اور دور اندیش خاتون ہے ، نہ صرف حال بلکہ مستقبل پر بھی گہری نظرتھی ان کی ۔
’’ اور ویسے تم ہو یہاں کتنا عرصہ ؟ دو تین مہینے میں ہی بھاگ نہ گئیں تو کہنا ‘‘۔ انہوں نے بڑے دعوے سے کہا تھا۔
’’چلیں یہ سب جب ہوگا تو دیکھا جائے گا ۔ بس آپ مجھے نئے داخلے کرنے کی اجازت دے دیں ‘‘۔
’’ چلو ٹھیک ہے ‘‘ وہ بال نخواستہ بولی تھیں ۔
’’ یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کتنے دن کی چاندنی ہے ‘‘۔
پون کے لیے اتنا ہی کافی تھا اب وہ کہیں سے تو شروع کر سکتی تھی۔
’’ میڈم ایک بات اور بھی کہنا تھی ‘‘ اس نے دیکھ لیا تھا وہ آج باتیں ماننے کی موڈ میں ہیں تو کیوں نہ کچھ اور بھی منوا لیا جائے ۔’’ آپ کسی مستری کو بلوا کر دے سکتی ہیں ؟ مجھے سکول میں مرمت کا کچھ کام کروانا ہے ۔
’’مستری تو میں بلوا دوں گی ‘‘ وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے بولیں لیکن اگر تم کوئی لمبے چوڑے منصوبے بنا رہی ہو اور سمجھتی ہو کہ میں اوپر درخواستیں بھیج بھیج کر ان کے لیے رقم کا بندو بست کروں گی تو اس بات کو ذہن سے نکال دو ۔ نہ میں درخواست لکھنے والی نہ وہ پیسے دینے والے لہٰذا جو کچھ کرنا ہے اپنی ذمہ داری پر کرنا، انہوں نے تنبیہہ کی ۔
’’ جی مجھے معلوم ہے آپ فکر نہ کریں ‘‘ اس نے مختصر جواب دیا ۔
’’ویسے یہ تو بتائو تم رقم کا انتظام کس طرح کرو گی ؟‘‘ انہیں نیا دھیان آیا ۔ ’’ اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ ہم اپنی تنخواہوں میں سے تمہیں کچھ دیں گے تو یہ بات بالکل بھول جائو اور اگر بچوں سے مانگنے کا ارادہ ہے تو میں تمہیں پہلے بتا دوں جس دن بھی ان سے پیسے مانگے ناں یہ سب بستے اٹھا کر بھاگ جائیں گے اور پھر کبھی واپس نہیں آئیں گے ‘‘۔
’’ میں کسی کو تکلیف نہیں دوں گی آپ تسلی رکھیں ‘‘ وہ ان کی بات سن کر بولی تھی۔
’’ تو کیا تم اپنی تنخواہ میں سے خرچ کرو گی ؟‘‘ وہ حیرت سے بولی تھیں۔
’’ جی یہی ارادہ ہے ‘‘۔
ان کے سوال بڑھتے جا رہے تھے جبکہ وہ چاہتی تھی کہ آج ہی مستری کو بلوا کر خرچ کا اندازہ کروا لے ۔
’’ عجیب بات ہے ‘‘! میڈم کی حیرانی بڑھتی جا رہی تھی ۔ انہو ں نے اس سے پہلے کب سنا تھا کہ کوئی سرکار سے تنخواہ لے کر سر کار پر ہی خرچ کر ڈالے۔
٭…٭…٭
آج سکول سے چھٹی تھی ۔ وہ ابھی تک گرمی اور حبس کے باوجود کمرے میں ہی لیٹی ہوئی تھی ۔ میڈم اسے کئی بار آوازیں دے چکی تھیں ۔ معلوم نہیں ناشتہ کرنے کے لیے یا بنانے کے لیے مگر اس کا اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ باہر جا کر بھی کیا کرتی ، میڈم اسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے گھر بھر میں دوڑاتیں ۔ چھٹی کے دن ان کے شوہر بھی گھر پر ہی ہوتے ، اسے اور بھی عجیب لگتا ۔ سمجھ نہیں آتا تھا اتنا طویل دن وہ کہاں اور کس طرح گزارے ۔ لیٹے لیٹے تھک کر آخر کار وہ اٹھ بیٹھی تھی باہر نکل کر اس نے منہ ہاتھ دھویا تھا ، پھر میڈم کے بچے کو باہر جانے کا کہہ کر وہ گلی میں آگئی تھی شکر ہے میڈم کی نظر اس پر نہیں پڑی تھی ۔ اب وہ یونہی بے مقصد گلیوں میں گھوم رہی تھی جو کہ گائوں میں بالکل بھی مناسب بات نہیں تھی ۔ یہاں وہ اجنبی بھی تھی اسے راستوں کی زیادہ پہچان بھی نہیں تھی مگر یہ وقت کسی نہ کسی طرح تو کاٹنا تھا کہاں جائے کس کے گھر جائے … اس کی زیادہ تر کولیگز دوسرے گائوں سے آتی تھیں پھر ان سے اتنی بے تکلفی بھی نہیں تھی ۔ نہ ان کے گھر کا پتہ اسے معلوم تھا کہ آج کا دن وہاں گزار لیتی۔
وہ یونہی سوچوں میں گم چلتے چلتے ایک دروازے کے سامنے رک گئی تھی ۔ دروازہ ادھ کھلا تھا بچوں کے بہت سارے جوتے پڑے تھے اور اندر سے بچوں کی آوازیں بھی آ رہی تھیں یونہی بے سوچے اس نے دروازے پر دستک دے ڈالی تھی۔
اندر سے ایک بچہ باہر آیا ۔’’ مس آپ اندر آئیں ناں ‘‘ وہ اُسے بلا رہا تھا ۔ اُسے یاد آیا یہ بچہ اسی کی کلاس میں پڑھتا تھا ۔ وہ اس کے پیچھے اندر آگئی ۔
’’ یہ ہماری مس ہیں ‘‘ وہ اس کا تعارف بی بی زینب سے کروا رہا تھا۔ وہی معزز صورت خاتون جو اس دن سکول آئی ہوئی تھیں ۔ وہ اس سے پہلی بار مل رہی تھیں مگریوں جیسے ہمیشہ سے جانتی ہوں ۔ انہوں نے اسے بھینچ کر گلے لگایا تھا ، اس کے ماتھے پر پیار کیا تھا۔
وہ انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔ درمیانہ قد قدرے فربہی مائل جسم سرخ و سفید رنگت اور آنکھوں سے چھلکتی بھر پور محبت۔ یوں لگتا تھا وہ اسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں ۔ بعد میں پتہ چلا وہ ہر کسی سے اسی محبت اور گرم جوشی سے ملتی تھیں۔
’’ آپ نے ناشتہ کیا ہے ؟‘‘ اُسے بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ انہوں نے پوچھ لیا تھا ۔ ابھی وہ جواب سوچ ہی رہی تھی کہ ’’ وہ میں ابھی لاتی ہوں ‘‘ کہہ کر اٹھ گئی تھیں ۔ پھر کچھ دیر بعد گرما گرم پراٹھا ایک تلا ہؤا انڈا شہد بالائی اورچائے کاکپ اس کے سامنے تھا ۔ وہ ایک عرصے بعد ایسے ناشتے کی شکل دیکھ رہی تھی ۔ میڈم کے گھر تو کالی سی چائے کے ساتھ گھٹیا قسم کے رس یاپاپے ہی ملتے تھے ، وہ بی بی کے گھر اجنبی بھی تھی اور بن بلائی بھی مگر پھر بھی اس نے نہایت رغبت کے ساتھ ناشتہ کیا تھا ۔ اس دوران بی بی اُس سے باتیں بھی کر رہی تھیں ،وہ اس گھر میں اکیلی رہتی تھیں شوہر کی وفات ہو چکی تھی بیٹی بیاہ چکی تھیں وہ ان کے ساتھ ایسی مگن ہوئی تھی کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہؤا تھا یہاں تک کہ مسجد سے مغرب کی اذان سنائی دینے لگی تب اسے یاد آیا اسے واپس میڈم کے گھر جانا تھا ، وہ اجازت لے کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور پھراچانک ہی جیسے اس کے دل میں ایک خیال آیا تھا ، اور اس نے کہہ بھی دیا تھا۔
’’ کیا میں آپ کے ساتھ آپ کے گھر رہ سکتی ہوں ؟‘‘
’’ ہاں کیوں نہیں … یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔ اچھا ہے ایک سے دو ہو جائیں گے‘‘۔
وہ کہہ رہی تھی اور اس کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
’’ میں آپ کو پورا کرایہ دوں گی گھر کے سارے کام بھی کر دیا کروں گی ‘‘ مگر انہوں نے جیسے سنا ہی نہیں ۔
’’ آپ اتنی دور سے ہمارے بچوں کو علم سکھانے آئی ہیں اور ہم آپ سے کرایہ لیں گے ؟‘‘
اور جب وہ اپنا سامان اٹھانے جا رہی تھی تو سوچ رہی تھی کہ اسے زیادہ خوشی کس بات کی تھی میڈم کے گھر سے نکلنے کی یا بی بی کے گھر میں رہنے کی ۔ اسے لگا وہ دوسری بات پر زیادہ خوش تھی ۔ کئی دنوں کے بعد وہ خود کو پر سکون محسوس کر رہی تھی۔
جب اس نے میڈم کو اپنے جانے کی بات بتائی تھی ان کا موڈ فوراً بگڑ گیا تھا ، ظاہر ہے آیا اور کرایہ دونوں ہاتھ سے نکلے تھے ۔ انہوں نے اسے ڈرانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
’’ ارے ان کے گھر میں کوئی سہولت نہیں ہے ہرچیز بہت مشکل ہے وہاں ۔ پھر صبح شام پڑھنے کے لیے آنے والے بچوں کا شور نہ دن کا سکون نہ رات کا آرام تم آسائشوں اور آسانیوں کی عادی ہو گی مگر بی بی کے گھر پہ سب نہیں ملے گا ‘‘۔
مگر وہ ان ڈراووں میں آنے والی نہیں تھی ، میں تو پہلے ہی وادی پر خار کی مسافر ہوں ۔ آسانیوں کے نہ ہونے سے مجھے بھلا کیا فرق پڑے گا ، ان کے گھر سے نکلتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔
(جاری ہے )
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x