ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

تم سے کیا کہیں ،جاناں! – بتول اکتوبر۲۰۲۲

شکل ایک جیسی تھی نہ عقل ، قد کاٹھ ایک جیسا تھا نہ رنگ روپ ، مگر محبت ، سلوک، اتفاق سب لفظ ان دونوں کے تعلقات کے لیے بنے تھے ۔ دونوں سگی بہنیں نہیں تھیں مگر ان سے بڑھ کر تھیں ، خالہ زاد بہنیں جن کی دوستی میں چڑھائو ہی چڑھائو تھا ، اتار کا لفظ درمیان میں کبھی نہیں آیا تھا ۔ دونوں کی عمروں میں بس چار چھ ماہ کا فرق تھا ۔ ایک جاڑے کے اختتام پر ہوئی دوسری جاڑے کے آغاز پر ۔ بہت پیار تھا دونوں میں ایک ہی گلی میں دونوں کے گھر تھے ۔ ایک اس لمبی پتلی گلی کے شروع میں دوسری کا اختتام میں ۔ مگر یہ کہیں نہیں لکھا کہ شکل عقل فرق ہو ان میں دوستی نہیں ہو سکتی ۔ گو دونوں کی عادات میں بہت فرق تھا ایک پورب تھی دوسری پچھم ، ایک نکتہ چیں اور زبان کی دھار کو تیز ہی کیے رکھتی تو دوسری نرم مزاج صلح جو ، ایک کا ماتھے پر شکنوں کا جال رہتا دوسری کے ہونٹوں پر نرم نرم سی مسکراہٹ چپکی رہتی ۔
ان سگی خالہ زاد بہنوں کے نام ثوبیہ اور روہینہ تھے ۔ ثوبیہ رنگت میں اچھی تھی صاف شفاف دمکتا رنگ چمکتی آنکھیں مسکراتے ہونٹ مگر عقل بس گزارے جوگی، ہر کوئی آسانی سے بدھو بنا لیتا ۔ دوسری روہینہ تھی رنگت دبی دبی ، پیشانی چھوٹی ، عقل بلکہ چالاکی میں پورے نمبر ، سو بٹا سو ۔ پھر بھی دونوں کی پکی پکی دوستی تھی ۔ ریت کے گھروندے بھی دونوں نے اکٹھے بنائے ، تعلیم کا سلسلہ بھی اکٹھے ہی شروع کیا ۔ تعلیم کا میدان بھی دونوں کا ایک سا رہا ۔ ایک کے عقل میں زیادہ اور دوسری کے عقل میں کم ہونے کے باوجود نمبر بھی قریب قریب ایک جیسے ہی آتے رہے کہ زیادہ عقل والی روہینہ محنت کم کرتی تھی اور عقل میں پیچھے رہ جانے والی ثوبیہ محنت زیادہ کرتی نتیجتاً نمبر دونوں کے ایک آدھ نمبر کے فرق سے ایک جیسے ہوتے ۔ دونوں نے مضامین ایک جیسے لیے دونوں کے لباس ڈیزائننگ ، جوتے جیولری ایک جیسے ہی ہوتے ۔ دونوں نے تعلیم کے اختتام پر ایک ساتھ کوکنگ کلاسز کا ڈپلومہ لیا ۔ دونوں کے رشتے ایک ہی شہر سے آئے اور دونوں کی شادی ایک ہی دن ایک ہی میرج ہال میں ہوئی۔
قدرت کی مہر بانیاں دیکھیے دونوں کے میاں الگ الگ ذات اور مزاج کے تھے۔ ایک کاروبار کرتا تھا دو اور دو کو چار بناتا تھا اور دوسرا ہر ماہ کے بعد سرکار سے تنخواہ لیتا ۔ سہولتیں لیتا اور قسمت کے لکھے پر راضی رہتا ۔
ثوبیہ کا سسرال بس برائے نام ہی تھا ایک جٹھانی جو میاں کے ساتھ کسی دوسرے شہر میں رہتیں ایک نند جو کسی سکول میں ٹیچر تھیں ۔ ہاں سسرال کے نام پر بڑے سارے گھر میں سسر رہتے تھے ۔ سسر بھی اللہ لوک روک نہ ٹوک ، جی بیٹا جی بیٹا کر کے پوپلے منہ سے ہزاروں دعائیں دیتے۔ بے ضرر سے البتہ روہینہ کو شاید رب نے اس کی چالاک فطرت کی بنا ، پر بھری پری سسرال دے رکھی تھی ۔ چار نندیں ، چاروں کی چاروں اسی شہر میں بیاہی ہوئی دودیور ایک جیٹھ اور چوتھا اس کا میاں ۔
دونوں کی دوستی شادی کے بعد زیادہ مضبوط ہو تی گئی ۔ دونوں کے میاں اس سلسلہ میں بھلے مانس ہی تھے کہ بیویوں پر زیادہ قدغن نہ لگائی۔ دونوں صبح بخیر کے میسج سے دن کا آغاز کرتیں ۔ ناشتہ سے فراغت کے بعد بس پندرہ منٹ کی گفتگو پٹرول کا کام دیتی ۔ سارے دن کے کاموں اور مصروفیات کا شیڈول طے کیا جاتا اور رات گئے شب بخیر کے فون پر بھی سارے دن کے کام ڈسکس کیے جاتے کیا کھانا ہے کیسے پکانا ہے کہاں جانا ہے کب جانا ہے یہ سب روہینہ طے کرتی ۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کے جی رہی تھیں۔
خیر سے دونوں کے پائوں کے نیچے جنت آگئی ۔ ثوبیہ کے بیٹا پیدا ہؤا ، سات پونڈ کا گل گو تھنا چیائوں میائوں سا اور روہینہ کے چھ پونڈ کی بیٹی پیدا ہوئی دبلی پتلی تیکھے نین نقش والی۔ روہینہ کے خیال کے مطابق دبلے بچے زیادہ چست چالاک ہوتے ہیں روہینہ نے بیٹی کا نام ثوبیہ کے مشورہ سے سونیا رکھا اور ثوبیہ نے بیٹے کا نام روہینہ کے مشورہ سے سبحان رکھا گیا دونوں تربیت کے معاملہ میں دور جدید کی مائیں ثابت ہوئیں ۔ بچوں کو صاف ستھرا رکھنا ہے ہر گھنٹے کے بعد پمپر چیک کرنا ہے ۔ دو مرتبہ سری لیک ، تین گھنٹے کے بعد فیڈر ۔ پھر اگلے دو سال کے بعد ایک مرتبہ پھر دونوں تخلیق کے مرحلہ سے گزر رہی تھیں اس مرتبہ قدرت نے دونوں کو بیٹے دیے ۔ ثوبیہ دو بیٹوں کی ماں بن کے عاجز اور شکر گزار تھی ، روہینہ پہلے بیٹے کی ماں بن کے ہوائوں میں اڑ رہی تھی ۔ دونوں نے عہد کیا کہ اپنے بچوں کو ایک ہی سکول میں پڑھائیں گی ایک جیسے کھلونے ایک جیسا طور طریقہ ، جن مضامین میں روہینہ اچھی تھی وہ مضامین دونوں کے بچے ان کے پاس پڑھتے اور جن مضا مین میں ثوبیہ آگے تھی وہ ثوبیہ ہی پڑھاتی ۔ مدر ڈے پر اکٹھی ایک جیسی ڈریسنگ کر کے جاتیں سکول میں ہر کوئی چونک کے پوچھتا ’’ ارے آپ سسٹرز ہیں یا فرینڈز ؟‘‘ دونوں مسکراتیں ۔
تیسری مرتبہ ثوبیہ کے جڑواں بیٹیاں ہوئیں اور روہینہ کے بیٹا ہؤا۔ اس فرق کے بعد ان کی زندگی میں بچوں کی پیدائش کے خانے میں کومہ نہیں فل سٹاپ تھا ۔ اپنے اپنے حساب سے دونوں بہت اچھے انداز میں بچوں کی تربیت کر رہی تھیں ۔ تعلیمی دور کے آغاز ہی میں چھوٹی چھوٹی دعائیں ، نماز ، مختصر سورتیں بھی بچوں کو یاد کروا دی گئیں ۔ بچوں کی پڑھائی میں جب امتحانات جیسا سخت مرحلہ آتا تو دونوں مائیں باہمی تعاون سے اس چوٹی کو سر کر لیتیں ۔ عام طور پر جو سالن دال دلیہ بنتا وہ ایک دوسرے کو بھی بھجوایا جاتا ۔ ثوبیہ کے سسر اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ۔ گھر میں اس پر اب بزرگوں کی خدمت یا اضافی قسم کی ذمہ داری بھی نہ تھی ۔ روہینہ کا بیٹا اور بیٹی سونیا ، ذرا کم کم ہی ثوبیہ کے ہاں آتے ۔
پہلی مرتبہ ثوبیہ نے ایک عجیب سی بات نوٹ کی ، ثوبیہ کے بچے سبحان اور فضہ ، روہینہ خالہ کی طرف جاتے تو کئی کئی گھنٹے کھیلنے کے بعد لوٹتے ، لیکن روہینہ کے بچے ثوبان اور سونیا جب بھی ثوبیہ کی طرف آتے ، چند منٹوں کے بعد ہی روہینہ بائولی بن کے لینے آ جاتی ۔ دو دفعہ ، چار دفعہ جب ہر دفعہ ہی ایسے ہونے لگا تو ثوبیہ نے لب کشائی کر ہی لی۔
’’بھلا روہی تم بچوں کو فوراً کیوں لینے آجاتی ہو ، دو منٹ چین سے کھیلنے تو دیا کرو ، پیچھے ہی لینے آجاتی ہو ‘‘۔
روہینہ نے تحیر سے آنکھیں سیکڑیں ’’ بھولی بادشاہ ،حالات پتہ ہیں تمہیں باہر کیا ہو رہا ہے ؟ کیا آنکھوں پر پٹی بندھی ہے ،تمہاری بڑی بیٹی نہیں ہے اس لیے تم اتنی معصومیت سے باتیں کر رہی ہو،باہر انسانوں کے بھیس میں درندے ہیں درندے ۔ منہ پھاڑ کے سالم نگلنے کو تیار ۔ تمہیں کیا پتہ مجھے لڑکی کی ماں ہونا کتنی ذمہ داری لگتا ہے اس معاشرے میں ‘‘۔ بات مکمل بھی نہ ہو پائی تھی کہ ٹپ ٹپ آنسوئوں کی برسات نے ان کا منہ گیلا کر دیا ۔ ثوبیہ نے جواب دینے کے لیے منہ کھولا پھر بند کرلیا ۔ کسی حد تک وہ اس بات میں سچی تھی باہر کے حالات کا اسے بھی علم تھا اور وہ اس کی نزاکت کو بھی سمجھتی تھی۔
دونوں مائوں کے برعکس بچے پڑھائی میں بہت اچھے تھے ۔ ہوم ورک ہو یا غیر نصابی سر گرمیاں ایک دوسرے سے تعاون کرنے والے بس سبحان کو غیر نصابی سر گرمیوں میں صرف کھیلوں سے دلچسپی تھی اس کے برعکس سونیا آئے روز کسی نہ کسی فنکشن میں ہلکا پھلکا رول ادا کر رہی ہوتی ۔ اس کی سانولی رنگت میں بلا کی کشش تھی اوپر سے نازک جسم ، تیکھے نین نقوش ، کبھی وہ اقبال کی نظم کا جگنو بنی ہوتی کبھی لیلیٰ مجنوں میں لیلیٰ کا بچپن۔ بولنے کا ڈھنگ بھی خوب آتا تھا ۔ چھوٹے چھوٹے فقروں میں آواز کے اتار چڑھائو سے ایسا رنگ بھرتی کہ ہر کوئی اسے پیار کرتا ۔ خوب تالیاں بجتیں ، خصوصی انعام دیے جاتے ۔ اساتذہ اس پر خاص نظر کرم فرماتے اور ان سر گرمیوں میں پڑھائی کا جتنا ہرج ہو چکا ہوتا اس کی تلافی کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کمر کس لیتے ۔ جس کے نتیجہ میں اس کا رزلٹ ہمیشہ ہی آئوٹ سٹینڈنگ ہوتا تھا ۔ صاف ستھری اپنے آپ کا دھیان رکھنے والی سونیا بلا شبہ سکول کے لیے سرمایہ تھی۔ اس کی فطری صلاحیتوں کی بہت جلد چاروں اور دھوم مچ گئی … ارد گرد کے سکولز کی خاص تقریبات میں بھی اسے مدعو کیا جانے لگا ویسے تو تقریبات کے انعقاد کے لیے اس کا اپنا سکول ہی خود کفیل تھا … اب مکرڈڈے ہے آج ساون رت منائی جائے گی اب بسنت ، اب فن فیئر ، ویلکم ، فیرویل وغیرہ وغیرہ۔
٭…٭…٭
انہی چھوٹے چھوٹے مرا حل سے گزر کر وہ بڑی کلاسز میں آگئے کلاس دہم کو فیر ویل دی جا رہی تھی جب سٹیج پر سمیتا پاٹل کے روپ میں ایک جوان کچی کلی نمو دار ہوئی ۔کچھ گانوں پر رقص کی مہارت دکھائی کچھ نامور شخصیتوں کی پیروڈی کی اور تو اور ساڑھی کا پلو مروڑ تے ملکہ ترنم نور جہاں کی ایسی بھرپور نقل اتاری کہ ختم ہونے پر شائقین تالیاں تک بجانا بھول گئے ۔ بیتے سروں کی کہانی کب ختم ہوئی ، کسی کو یاد نہ رہا اور جب وہ آداب ، کورنشن بجا لاتے ہوئے سٹیج سے اتری تو پرنسپل، مہمان خصوی اورشرکا نے تقریب کو اس فن کی داد دینے کا یاد آیا ۔ اس کے بعد جو تالیوں کا طوفان مچا ، جو منہ گول گول کر کے سیٹیاں بجائی گئیں لگتا تھا ہال کی چھت ہی زمین بوس ہو جائے گی۔
دیکھنے والوں میں سبحان بھی موجود تھا ۔ اس کا چہرہ سپاٹ اور پیشانی پر تفکر کی لکیروں کا پورا جال بچھا ہؤا تھا ۔ جوان جہاں پرنسپل نے بہت دیر اسے اپنے ساتھ چمٹائے رکھا ۔ اس کے خدا داد فن کی تعریف کی ، اپنی جیب سے بطور خاص نیلا نوٹ اس کے سر پر وار کے اس کے حوالے کیا۔ مہمان خصوصی نے اس کا فون نمبر لیا ۔ بہت دیر اس کودل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا ہوتا رہا ۔ فنکشن کی وجہ سے چھوٹی کلاسز کو چھٹی تھی۔ پرنسپل صاحب اسے خود گھر چھوڑنے گئے ۔ سبحان کی نظروں نے ان تمام ٹرافیوں اور شیلڈز کو ایک نظر دیکھا جو پرنسپل صاحب کا ملازم گاڑی میں رکھ رہا تھا ۔ سبحان اور سونیا لوگوں کے لیے ایک ہی کنونینس کا بندو بست تھا اس وقت سبحان جان بوجھ کے پیچھے رہا ۔ وہ سونیا بلکہ کسی کی بھی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا … اس کی جیب میں کرائے کی مد میں رقم موجود تھی لیکن وہ بے سوچے سمجھے پیدل ہی چل پڑا ۔ لمبی مسافت کے بعد جب گھر پہنچا تو ماں دروازے ہی میں ملی ۔ سونیا گھر پہنچ چکی تھی چونکہ آتے ہی وہ واش روم میں چلی گئی تھی اس لیے روہینہ سبحان کے آنے یا نہ آنے کے بارے میں لا علم تھی۔
یہ وقت ثوبیہ نے جلے پائوں کی بلی کی طرح گھر میں چکراتے گزرا ۔ جونہی سبحان گھر میں داخل ہوا اس نے سوالات کا تابڑ تو حملہ کیا ۔’’ کہاں تھے تم ؟ سونیا تو بہت دیر کی آئی ہوئی ہے ؟ کیا اس کے ساتھ نہیں آئے ؟ آج تو تمہاری شاید فیرویل بھی تھی ۔ بولتے کیوں نہیں ہو؟
سبحان اجنبیت سے ماں کے منہ کی طرف دیکھنے لگا ۔ اس کے حواسوں پر سونیا کا رقص ، سونیا کی کامیڈی ، سونیا کے ڈائیلاگ اور سب کا والہانہ تعریفی انداز سوار تھا ۔
’’ آنکھیں پھاڑ ے کیوں دیکھ رہے ہو ؟‘‘ ثوبیہ نے اسے جھنجھوڑا۔’’کچھ نہیں ۔طبیعت خراب ہے میری ، سونیا کا مجھے پتہ نہیں چلا کب آئی ‘‘۔
اس نے ہر معاملہ سے پہلو بچا لیا اور لیٹنے کے لیے اندر کمرے میں چلا گیا ۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔کمال ضبط سے چہرہ بھی سرخ تھا مگر ثوبیہ اسے خرابی طبیعت سمجھ کے کرید میں نہیں پڑی ۔ اب سبحان، خالہ کی طرف نہیں جاتا تھا ۔ اس کی گفتگو کے موضوعات بھی یکسر بدل گئے تھے ۔ ثوبیہ کو کسی طرح کا کوئی معاملہ بھی علم میں نہ تھا ۔ چھوٹے بچوں پر توجہ دینا ہوم ورک کروانا ، شادی شدہ نند اور جٹھانی کے پچھلے دنوں کئی چکر لگے۔ بس انہی مصروفیات میں اگلا سال شروع ہو گیا ۔ بڑے بچوں کے تو چھوٹے چھوٹے ٹیسٹوں پر بھی مائوں کی جان نکلتی ہے یہ تو پھر میٹرک کے سالانہ امتحانات تھے ۔ سکول والوں نے الوداعی تقریب کے انعقادکے بعد انہیں سکول سے فارغ کرنے کا اعلان کر دیا تھا ۔ آج کل دن رات بس الوداعی پارٹی میں شرکت کے سہانے خیال تھے اوردہم کلاس ۔ بطورمیزبان نہم کلاس نے پچھے سال سے بہتر پارٹی کا پلان بنایا تھا ۔ مگر افسوس یہ بہتر پارٹی سونیا کے تعاون بنا ممکن نہ تھی ۔ اسے خصوصی درخواست پیش کی گئی ۔ اپنی کلاس کی طرف سے شکریہ کے کلمات بھی اسی نے ادا کرنا تھے ۔ سو پارٹی نہم کلاس کی طرف سے تھی لیکن اس میں جان دہم کلاس کی سونیا نے ڈالی ۔ پرنسپل کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ پچھلی پارٹی پر نہم کلاس کی سونیا نے دلفریب رقص کیا تھا آج سٹاف اور سٹوڈنٹس دونوں کے پُرزور اصرار پر سونیا سے وہی فرمائش کی جاتی ہے ۔
سونیا کے رقص کے دوران کیا سٹاف اور کیا سٹوڈنٹس سب ہی تصویریں لینے اور وڈیو بنانے میں مصروف تھے ۔ ایک قیمتی پل تھا جو گزر گیا تو شاید کسی کے ہاتھ میں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں آنا تھا … سوائے سبحان کے ! وہ لب بھینچے ، سرخ انگارہ چہرہ کے ساتھ پہلی رو میں موجود تھا ۔ اس کے بس میں ہوتا تو مار دو اور مر جائو پر عمل پیرا ہوکر دکھاتا۔
حسب سابق وہی ادائیں وہی ناز و انداز ۔ سلسلہ جو شروع ہؤا تو ماں کی موم بتی نے موم کی گڑیا بن کے جسم کے ہر حصے کا خراج پیش کیا ۔ رقص کے شائقین نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں ۔ ایسا لچکیلا جسم جیسے کچی ٹہنی ۔ منی کی بد نامی سے شیلا کی جوانی تک پر رقص پیش ہؤا۔ اس کے بعد سکول کس نے آنا تھا ۔ بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ، سب نے نظروں کی پیاس بجھائی ۔سب کے دل میں ہوس جاگی ، سب نے پیمانے بھر کے فیض حاصل کیا ۔ چھپ چھپ کے دیکھنے والے ایک دو ملازموں نے فقرے کسے۔ اگر اس پارٹی کی ٹکٹ بھی رکھی ہوتی ہزار پانچ سو ، تو خدا کی قسم ایک نظر دیکھنے سے قیمت پوری ہو جاتی۔
پچھلے سال کے برعکس اس مرتبہ سبحان خاموشی سے گھر میں داخل نہیں ہؤا ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی خود کش بمبار کی طرح پھٹا۔
کھانا کھاتی ثوبیہ اور بچوں کے ہاتھوں سے نوالے گر گئے ۔’’ اللہ خیر تم کیوں غصے کے بھوت بنے آئے ہوکیا کسی بھڑ نے ڈنک مار دیا راستہ میں ؟‘‘ ثوبیہ نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا مگر اس کے چہرہ پر سوائے تنفر کے کچھ نہ تھا ۔
’’ بتائو تو ہؤا کیا ہے ؟‘‘ ثوبیہ سنجیدہ ہوئی۔
وہ ضبط کرتے ہوئے ہونٹ کاٹتا رہا پھر بغیر کچھ کہے موبائل ماں کے آگے کر دیا موم کی گڑیا ناچ رہی تھی ۔ اس کی کمال شاندار تصویریں اس میں موجود تھیں موبائل ہاتھ میں پکڑے پکڑے ہی مزید میسجز موصول ہونے کی ٹن ٹن کرتی آواز اس کے رقص کو ہر زاویے سے تصویروں کی شکل میں پیش کرتی گئی ۔
’’ یہ تو سو…نیا… ہے‘‘ حیرانی سے ثوبیہ نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’جی ، بالکل بجا کہا آپ نے ، آپ کی لاڈلی بہن کی صاحبزادی … ‘‘ وہ پائوں گھسیٹتا گھر سے ہی نکل گیا ۔ بہت دیر تک وہ موبائل پر ساری تقریب کی تصاویر دیکھتی رہی ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا روہینہ ان سب سے لا علم ہے ۔ یا علم میں ہے تو خاموش ہے ، رات تلک یہی سوال ذہن میں کھد بد کرتا رہا بالآخر وہ موبائل ہاتھ میں لیے روہینہ کے ہاں چلی گئی۔
’’ سونیا نظر نہیں آ رہی کہیں گئی ہے ؟ ثوبیہ نے پوچھا ۔ جانا کہاں ہے امتحان کا ہوّا سر پر سوار ہے سارا دن کمرے میں بند پڑھتی رہتی ہے کبھی کبھار کچھ سہیلیاں بھی آجاتی ہیں کمبائن سٹڈی کے لیے ‘‘۔ روہینہ نے جواب دیا۔
’’ آج تو پارٹی بھی تھی سکول میں ۔ سبحان بتا رہا تھا سونیا نے بھی خوب حصہ لیا تھا ‘‘۔ ثوبیہ نے آواز کو دھیما کیا۔
’’ہاں تو پرنسپل صاحب خود ساتھ آئے تھے ڈھیروں ٹرافیاں ، کپ ، شیلڈز لے کے ۔ شکریہ ادا کر رہے تھے کہ بہت بریلینٹ بیٹی ہے آپ کی ‘‘۔ روہینہ کے چہرے پر ممتا کی مسکراہٹ تھی۔
’’ آج کل کیا ناچ گانے کو بریلینٹ ہونا کہتے ہیں ؟ ‘‘ ثوبیہ نے اپنے آپ کو تلخی سے بچایا۔
’’ ناچ گانا ؟‘‘ روہینہ نے بھنویں سکیڑکے پوچھا ۔’’ ارے وہ تو اس نے کچھ ایکٹر سز کی کامیڈی کی تھی کچھ گلو کارائوں کو کاپی کیا تھا ، بتا رہی تھی کہ بہت دیر تک کلیپنگ ہوتی رہی تھی‘‘۔ روہینہ نے بہن سے کہا۔ ’’ یہ دیکھو ‘‘۔ ثوبیہ نے تھیلے سے بلی نکالی اور واٹس ایپ پر اس کے رقص کی تصویریں دکھائیں۔
روہینہ کچھ دیر بے یقینی کی کیفیت میں تصویروں کو دیکھتی رہی پھر کہنے لگی۔
’’ بات یہ ہے ثوبی ، کچھ عرصہ پہلے میں نے اسے کہا تھا کہ ہماری خواہش ہے تمہارا اور سبحان کا رشتہ طے کر دیں ، شاید اسے یہ بات پسند نہیں آئی ۔ اس نے بہت سخت رد عمل ظاہر کیا اور انکار بھی کیا ‘‘۔ پھر ایک ٹھنڈا سانس بھر کے بولی ۔’’ مجھے لگتا ہے یہ تصاویر بھی ایسے ہی اس نے سبحان کو بھیج دی ہیں کہ وہ خود ہی اس رشتہ سے انکاری ہو جائے ‘‘۔
جواباً ثوبیہ کی مسکراہٹ میں طنز استہزا سے زیادہ بے یقینی تھی ۔ روہینہ نے بات جاری رکھی۔
’’ تم اپنے طور پر تحقیق کرو، میں بھی سونیا سے پوچھتی ہوں ، مجھے لگتا ہے بات کچھ کی کچھ ہو گئی ہے ‘‘۔اس کے لہجے میں تشویش شامل تھی۔
محض بارہ گھنٹے۔ صرف بارہ گھنٹوں کے بعد تحقیق کی ضرورت پڑی نہ تصدیق کی ، پارٹی کی کوریج کے لیے بلائے گئے پریس فوٹو گرافر نے اپنے پیشے کا حق ادا کر دیا ۔ اگلے دن کے مقامی اخبار میں پرنسپل سٹاف سمیت سب پس منظر میں تھے بس سونیا چھائی ہوئی تھی ۔ دو تین دلکش تصاویر جس میں کسی طور پر بھی وہ کسی ماڈل یا ایکٹرس سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
اخبار ہاتھ میں لیے ثوبیہ کو پھر فکر لاحق ہو گئی ۔ اخبار تو ہر گھر میں آتا ہے ظاہر ہے روہینہ کے ہاں بھی پہنچا ہوگا سب نے پڑھا ہوگا کیا مجھے اس موضوع پر روہینہ سے مزید بات کرنی چاہیے یا نہیں ؟ دو چار منٹ کے غور و فکر کے بعد جونہی اس نے جانے کا پروگرام بنایا سبحان ٹپک پڑا ۔
’’ کہاں جا رہی ہیں آپ ؟‘‘
’’ تمہاری خالہ کے ہاں ‘‘۔ دانستہ اس نے اخبار پیچھے کرلیا ۔ ’’رہنے دیں ، مت جائیں کچھ حاصل نہیں ہوگا ‘‘۔ وہ یہ کہہ کے ماں کو روک کے باہر نکل گیا ۔
ایک دن دو دن پورا مہینہ گزر گیا ثوبیہ ان کی طرف گئی نہ روہینہ لوگوں میں سے کوئی آیا ۔ دل پر جبر کر کے ثوبیہ نے فون کیا تو نمبر بند ملا یا فون اٹینڈ نہ ہؤا۔ اس کے دل کو پنکھے لگے ہوئے تھے ۔ کوچنگ کلاسز کے نام پر فرسٹ ایئر کی پڑھائی شروع ہو چکی تھی مگر اس میں سونیا نے ایڈمشن نہیں لیا تھا ۔ رزلٹ میں آسمان ہی گر پڑا ۔ سونیا صرف تین سبجیکٹ میں پاس تھی دو میں بمشکل نکلی اور دو میں تو خیرسپلی۔ سبحان کا خلاف توقع اچھا رزلٹ تھا کچھ بینرز پر اس کا نام بھی بھرے شہر کی چوک میں لہرایا ۔ ثوبیہ کے دل کو یہی دھڑکا لگا رہتا کہ کچھ ان ہونی سی ہونے والی ہے ۔میکے میں قریبی رشتہ دار کی فوتگی پر دونوں کی ملاقات ہوئی ۔ یہ پہلا موقع تھا وگرنہ دونوں اکٹھے ہی پروگرام بناتی تھیں ۔ دری پر بیٹھے دونوں کی رسمی سی سلام دعا ہوئی ، بچوں کا حال احوال پوچھا ۔
’’ میں نے کئی مرتبہ فون کیا ہے لیکن اٹینڈ نہیں ہؤا‘‘۔ ثوبی نے شکوہ کیا۔
’’ اللہ جانے فون میں خراب ہو گی یا سگنل کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے‘‘۔ روہینہ پھیکی سی ہنسی ہنس دی۔
دونوں کی گفتگو میں فل سٹاف لگ گیا تھا۔ موضوعات ختم ہو گئے دونوں نے ایک دوسرے سے نظریں چرائیں ۔ واپسی بھی دونوں کی الگ الگ ہی ہوئی ہاں ثوبیہ کی بہن نے بتایا تھا کہ سونیا آج کل کسی اشتہار میں آ رہی ہے ۔
ثوبیہ کے دل میں دھکا سا لگا ۔’’ اوہ… پھر ؟ کیا روہینہ کو پتا ہے؟‘‘
’’ظاہر ہے پہلے سب کچھ وہ ماں سے چھپ چھپا کے کرتی تھی ، اب نہ وہ ڈرتی ہے نہ دبتی ہے علی الاعلان ہر اونگا بونگا کام کرنے لگی ہے ، پڑھائی میں اتنی بری طرح سے فیل بھی تو تبھی ہوئی ہے ‘‘وہ بولی۔
’’ اللہ معاف کرے ‘‘‘ ثوبیہ دل پر بوجھ لے کے میکے سے رخصت ہوئی ۔
کچھ ہی عرصہ میں محلے میں نت نئی گاڑیاں آنے لگیں تانتا ہی بندھ گیا ۔ اک گاڑی آ رہی ہے دو جا رہی ہیں ۔ رات گئے گھر سے ایک دو مرتبہ شور شرابے کی آوازیں بھی آئیں پھر پتہ چلا کہ وہ لوگ اس محلے سے رخصت ہو رہے ہیں ۔ وہ تو ٹرک سامنے دیکھ کے محلے والوں کو پتہ چلا کہ شور شرابا سونیا کے گھر والوں کی دھمکی کے نتیجہ میں ہؤا تھا ۔ روہینہ نے کہا تھا اگر تم اس طرح ڈراموں یا اشتہارات کے لیے گئیں تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا ۔ جواب میں چند منٹ کے بعد اپنا سامان اٹھائے وہ رخصت ہو گئی ۔ سننے میں آیا تھا کہ کوئی فلمساز عرصہ سے اپنی آنے والی فلم میں ہیروئن بنانے کے سبز باغ دکھا رہا تھا وہ اس کے دئیے فلیٹ میں منتقل ہو گئی ہے۔
شرفا کا محلہ تھا کس منہ سے وہاں رہتے ۔ اخبارات میں اب دو چار سطروں میں سونیا کا ذکر ضرور ہوتا ۔ ندا گل کے نام سے اس نے سٹیج ڈراموں میں انٹری دی تھی ۔ دو تین سٹیج ڈراموں میں شاندار رقص کے بعد اب وہ چھوٹی سکرین پر رونق افروز تھی۔
اخبار کے صفحے پھاڑے جا سکتے ہیں ، موبائل پر ڈیٹا ڈیلیٹ کیا جا سکتاہے لیکن شہر کے چاروں کونوں میں بل بورڈز کا اشتہار… کون آنکھیں بند کر کے گزرتا !
’’ ارے یہ تو … سونیا ہے !فلاں کی بیٹی ، فلاں کی پوتی ‘‘۔
فیملی فنکشنز میں بھی روہینہ بہت کم جاتی ۔ جانا مجبوری میں پڑبھی جاتا تو گم سم سی بیٹھی ٹکڑ ٹکڑ شکل دیکھے جاتی۔ قسمت سونیا پر مہر بان تھی کہ اس کے ڈرامے اس کی شناخت بن گئے اب وہ کچھ برانڈز کے لیے ماڈلنگ کر رہی تھی ۔ اخبارات میں انسٹا گرام پر اس کے نام کی بہاریں تھیں ۔ اسے لائک کرنے والوں کی تعداد دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔ دوسری اداکارائوں کے لیے وہ خطرے کی گھنٹی تھی آئی اور چھا گئی ۔ محنت اس نے اپنے گھر کے بند کمرے میں ہی کی جو کرنا تھی ۔ اب تو اس کا فن اس کا شوق تھا اس کی پہچان تھا اس کا جنون تھا ۔ کسی صحافی نے سوال کیا ۔ کیا آپ بولی وڈ میں کام کرنا چاہیں گی ؟
’’ بولی وڈ ؟ میں ہولی وڈ تک پہنچ کے دکھائوں گی یہ میرا شوق اورمشن ہے ‘‘۔ اس نے ہاتھ لہرا کے جواب دیا۔ اس کے سکینڈل ہر اس ادا کار کے ساتھ بنے اور خوب دھڑلے سے شائع ہوئے جس کے ساتھ بھی اس نے کام کیا انٹرویوز کے لیے اس نے فی الحال سب کو انکار کیا ہؤا تھا اور تو اور پچھلے دو ہفتوں سے وہ اپنے ہیرو کے ساتھ سنگا پور رہ کے آئی ایک پائوں ماڈلنگ اور دوسرا ائیر پورٹ پر ہوتا ۔ایک عرب شیخ کی جان اس پر اٹک گئی تھی ۔ اس کا ویزہ ،ٹکٹ، رہائش سب اس عرب شیخ کی طرف سے بندو بست کیا گیا ۔ دوبئی میں بہت سے انڈین ادا کار اور ادا کارائیں موجود تھیں کچھ سے تو اس عرب شیخ کے خصوصی مراسم بھی تھے ۔ وہ اس عرب شیخ کو سیڑھی بنا کے بہت اوپر جانا چاہتی تھی۔ بہت اوپر ۔
اس بار دوبئی سے پچیس دن کے بعد وہ آئی تو کامیابیوںکا لمبا چوڑا پیکیج اس کے ہاتھ میں تھا ۔ نیا آئی فون ، نیا ہیئر سٹائل، نئی فلموں میں اچھے پرکشش کردار ،ڈائمنڈ کا بریسلٹ۔ ہاں ایک چیز اور بھی کہ والدین کو وہ شہر وہ محلہ چھوڑنا پڑا ۔ وہ واپس والدین کے پاس آگئی تھی ۔ ڈیفنس میں کنال کی فرنشڈ کوٹھی باوردی ڈرائیور ، نئی گاڑی ، خانساماں ، یہ سب دبئی اور انڈین فلموں سے ملنے والے مفادات میں سے تھا۔ پاکستان کے بھی چند سرمایہ دار عرب شیخوں سے کسی طور پر کم نہ تھے ۔ آج کا سوشل میڈیا تو تورا بورا کے پہاڑوں میں چھپی سوئی بھی دکھا سکتا ہے ، اس کے دن رات کہاں گزر رہے تھے کوئی ڈھکا چھپا تو نہیں تھا ۔ اس کی کس کس سے کیسی ریلیشن شپ تھی ، یہ کون نہیں جانتا تھا ۔ دکھ کی بات ثوبیہ کے لیے یہ تھی کہ سیسہ پلائی تعلقات کی دیوار میں دراڑ کسی وجہ سے آئی ، اس چھٹانک بھر کی سونیا کی وجہ سے جس کے سانولے رنگ اور دبلے وجود کی وجہ سے کوئی گھر میں بھی توجہ نہ دیتا تھا ۔
’’ ارے شہر چھوڑ گئے کسی کو بتایا نہ پوچھا…‘‘ وہ بار بار سینے پر ہاتھ مسلتیں۔
’’ امی آپ کا ہے کوٹینشن لیتی ہیں ، خالہ نے اگر آپ سے پوچھنا ہوتا یا بتانا ہوتا تو وہ یہاں سے جاتی ہی کیوں؟‘‘ سبحان انہیں تسلی دیتا۔
آئے روز سونیا کوئی ٹرافی پکڑے یا کسی نہ کسی تقریب میں رقص کرتی نظر آتی ۔ اس کے نام کے ساتھ رقاصہ ، ادا کارہ ، ماڈل کے الفاظ اس کی قدرو قیمت بتاتے ۔ وہ لوگوں سے ہاتھ ملاتی ، ان کے ساتھ سیلیفیاں بناتی ۔ لڑکے لڑکیاں اس سے آٹو گراف لے کر فخریہ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ، پرائوڈ فیل کرتے۔
ایک مرتبہ محلے کی کسی شادی کی تقریب میں روہینہ پچھلے تعلقات کا قرض چکانے آئیں ۔ اب تو ان کے رنگ ڈھنگ بھی دیکھنے کے قابل تھے ۔ گولڈ کی بھاری چوڑیاں ۔ مہنگا برانڈ ڈ سوٹ ، نیا موبائل ، بیگمات کے سٹائل میں وہ پوری شادی میں ایک طرف ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی رہیں۔ ثوبیہ بھی پہنچ گئی ۔ ماضی کے تعلقات کو یاد کر کے آنکھوں کا گوشہ نمکین سا ہو گیا ۔
’’ کیسی ہو روہینہ؟‘‘ اس نے بھیگی آواز سے پوچھا۔
’’ ٹھیک ہوں تم سنائو ، بچے کیسے ہیں ؟ بھائی کیسے ہیں سبحان کیا کر رہا ہے ؟‘‘ خلاف توقع اس نے کئی سوال اکٹھے کر دیے ۔
’’ سب ٹھیک ہیں سبحان کی ٹریننگ مکمل ہو چکی ہے اب پائلٹ بن گیا ہے ناں چند ماہ قبل ہی سروس شروع کی ہے ‘‘۔ اس نے ممتا کی مٹھاس میں ڈوبے لہجے سے بتایا۔
’’ پائلٹ بن گیا ہے ۔ چلو یہ تو اچھا ہؤا۔ باقی بچے کیا کر رہے ہیں؟‘‘ روہینہ نے دلچسپی لی۔
ثوبیہ نے جواب میں ایک دم ہی سوال کر دیا ، برسوں سے قابو کیا ہؤا سوال ، بوتل کے جن کی طرح منہ سے باہر نکل آیا۔
’’ روہینہ تم تو بچیوں کے معاملے میں اتنی حساس تھیں ، پھر یہ سب کیا ہے؟ آئے روز کوئی نہ کوئی تماشا لگا ہوتا ہے پریس اور سوشل میڈیا پر ‘‘۔
روہینہ کو شاید اتنی جلدی اس سوال کی توقع نہیں تھی ، سنتے ہی اس کے لب بھینچ گئے ۔ ماتھے پر بل شکوہ کناں نظر آئے ، آنکھوں میں بیگانگی ہی بیگانگی ۔ کچھ دیر کے توقف کے بعد کچھ دیر اور کچھ بیزاری سے گویاہوئیں ۔
’’ اپنی سی ہر کوشش کر دیکھی ۔ اب اپنے وجود کے ٹکڑے کو کوئی کاٹ کے تو نہیں پھینک سکتا۔ بس اسے یہ کہا تھا کہ کسی جگہ یہ ہمارا نام نہ لے ہمارے خاندان کا ذکر نہ کرے ، تم نے دیکھا نہیں اس نے اپنا نام ہی نہیں بدلا تعلیمی ادارے تک کا نام بدل دیا ہے ‘‘۔
ثوبیہ بس ان کو سنتی رہیں ۔ ان کی بات کے دس جواب دل میں کھلبلی مچا رہے تھے مگر وہ چپ رہیں ۔ہاں خواتین کا معاملہ سمجھ سے بالا تھا۔کچھ پرے بیٹھی ناک بھوں چڑھا رہی تھیں کچھ آ کے قدموں میں بچھی جا رہی تھیں ، پورا پروٹو کول دے رہی تھیں ۔
دلہن کے سٹیج پر آنے سے پہلے ہی روہینہ رخصت ہو گئی تھیں ۔ ثوبیہ سے مل کے بھی نہ گئیں ، وہ یہی سمجھتی رہیں کہ شاید ابھی ہال ہی میں ہیں مگر یہ تو بعد میں پتہ چلا وہ تو کب کی گئیں ۔ اگلے کئی دن وہ روہینہ کی باتیں یاد کرتی رہیں ۔ سبحان کے دو تین رشتے آئے ہوئے تھے۔ ان کے دل میں تھا کہ سردیوں سے پہلے ہی اس کی بات کہیں نہ کہیں طے ہو جائے ۔ ایسے ہی بغیر ارادے کے روہینہ کا نمبر ملایا ۔ نمبر بند جا رہا تھا ۔ پھر ملایا ، نمبر بند تھا۔ کئی دن وہ اسی کوشش میں لگی رہیں ، سبحان ہنسا۔
’’ امی خالہ نے یا تو نمبر بدل لیا ہے یا پھر آپ کو بلاک کردیا ہے ۔ آپ کو پتہ نہیں چلا ‘‘۔
’’ بلاک کردیا ؟ وہ کیوں ؟‘‘ وہ تحیر سے بولیں۔
’’ غیر ضروری نمبر اور غیر ضروری رابطے ہمیشہ رکھنے اور جوڑنے کے لیے تو نہیں ہوتے ۔ انہوں نے بھی بلاک کردیا ہوگا ۔ ادھر مجھے پکڑائیں اپنا موبائل میں ابھی دیکھ کے بتاتا ہوں بلاک ہوئی ہیں یا انہوں نے نمبر بدل لیا ہے ‘‘۔ سبحان نے موبائل ہاتھ میں پکڑ کے دیکھا۔
’’ نہیں بھئی بلاک نہیں کیا بلکہ نمبر شاید بدل لیا ہے ‘‘ اس نے کہا ۔
’’ جب سے آئٹم نمبر میں حصہ لیا ہے ، نمبر بدلنا تو بنتا ہے ناں‘‘ چھوٹی فضہ نے شوشا چھوڑا۔
’’ آئٹم نمبر … وہ کیا ہوتا ہے ؟‘‘ ثوبیہ نے حیرانی سے پوچھا ۔
’’ چھوڑیں امی ۔ کیا فضول موضوع لے کے بیٹھ گئیں کوئی اور بات کریں آپ ۔‘‘ سبحان نے بیزاری سے کہا۔
’’ہاں سچ یاد آیا وہ جوانوار صاحب ہیں ناں ، فلور مل والے، انہوں نے اپنی بیٹی کے رشتہ کے لیے خود سے کہا ہے تمہارے ابا سے ‘‘۔ ماتھے پر ہاتھ مار کے یادداشت کو کوستے ہوئے ثوبیہ بولیں ۔
’’ اور یہ کہ میرے بھی دل کو لگا ہے یہ رشتہ لڑکی نہ صرف خوش شکل ہے بلکہ اچھے اخلاق ہنر اور عادات کی مالک ہے ۔ اچھے شریف بھلے مانس لوگ ہیں ۔ میرا خیال ہے ایک چکر لگا ہی لیتے ہیں ان کی طرف ، وہ تو پچھلے ہفتہ میں آئے تھے ‘‘۔
’’ اور وہ جو انکل ظہیر کی بیٹی کا رشتہ تھا ڈاکٹر ہے جو جنرل ہسپتال میں اس کا کیا ہؤا؟‘‘
’’ بس بات بنی نہیں ۔ جہاں اللہ نے لکھا ہوگا وہیں معاملہ طے پائے گا خواہ دو دن لگیں یا دو سال ‘‘۔ ثوبیہ نے تسلی دی۔
اگلے دن ثوبیہ بیٹی اور میاں کے ہمراہ انوار صاحب کے ہاں روانہ ہوئیں ۔ بہت اچھے علاقہ میں کشادہ گھر، صاف ستھرا ماحول، اچھے مہذب سے لوگ ۔ لڑکی بھی بی ایس آنرز کے بعد ایم فل کے ارادے کر رہی تھی ، شرمیلی اور بھولی بھالی۔ بالکل ہی چھوئی موئی انوار صاحب کی والدہ حیات تھیں ۔ تہجد گزار عبادت گزار ذکر و اذکار سے شغف رکھنے والی۔انوارصاحب کی بیگم گھریلو عورت تھیں ، سارا وقت نوکروں کے سروں پر سوار رہنا اور ان سے کام لینا آسان بات تو نہ تھی۔ بہت اچھے موڈ میں ثوبیہ لوگ واپس آئے ۔ بہت دیر تک ثوبیہ انوار صاحب کی فیملی کی تعریف میں رطب اللسان رہیں ۔ باہمی مشاورت سے منگنی کا دن اگلے ماہ کی پہلی جمعرات کو طے پایا۔
ثوبیہ کی تو جان پر بنی ہوئی تھی لمحہ لمحہ اسے روہینہ یاد آ رہی تھی ۔ اسی طرح کے معاملات میں وہ بہت تعاون کرتی تھی بہت سے بڑے بڑے مسائل چٹکی بجاتے حل کر دیتی تھی ۔ کپڑوں کی چوائس ہو یا جیولری کی بس جس چیز پر انگلی رکھتی بہترین قرار پاتی ۔ اب سب کچھ اسے اکیلے کرنا پڑرہا تھا ۔ سبحان اور اس کے باپ نے یہ بات ذہن نشین کروا دی تھی کہ جس نے شادی کی تقریب سے جاتے ہوئے تمہیں بتانا گوارا نہ کیا ، جس نے موبائل فون کا نمبر تبدیل کیا اور نئے نمبر کی اطلاع تک نہ دی ، اسے اپنے دکھ سکھ میں شامل کرنے کی فرمائش بھی نہ کرنا ۔ ثوبیہ نے بھی یہ بات پلے باندھ لی تھی ۔ انوار صاحب کے مطابق چونکہ چھوٹے سے پیمانے پر فنکشن کرنے کا ارادہ تھا لہٰذا منگنی کے لیے سوٹ ، جیولری ، جوتااور ساتھ میں دوسرے تحفے تحائف، کس کس نے سلامی میں کیا کچھ دینا ہے ، مٹھائی میں کیا ہونا چاہیے یہ سارا درد سر ثوبیہ کا تھا ۔ فنکشن والے دن پہنے جانے والے سوٹ کا ہی بس فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا ۔ فضہ نے ایک پیج نکالا۔
’’ امی اس میں سے دیکھیں آپ کو ضرور کوئی کولیکشن پسند آئے گی‘‘۔ اس نے موبائل آگے کیا۔
ثوبیہ کا ہاتھ لگنے سے وہ سوٹ یا پیج تو نظر نہ آیا ہاں ننگ دھڑنگ دو چار چیتھڑے لٹکائے کانوں میں بڑے بڑے آویزے لٹکائے ایک ماڈل کسی پونی والے لڑکے سے چپکی کھڑی تھی ۔
’’ استغفر اللہ ۔ یہ کیا واہیات تصویر آگئی بیچ میں ‘‘ انہوں نے بھنا کے بیٹی سے کہا ۔
فضہ ہنسی ’’ امی واہیاتی نہیں آپ کی بھانجی ہے میڈیم سونیا عرف ندا گل ‘‘۔فضہ نے کہا ، ساتھ ہی ماں کے کانوں میں گھسی ۔’’ امی سچ سچ بتائیں کیا خالہ خالو کو یہ تصویریںنظر نہیں آتیں، خالہ تو بڑی وعظ کرنے والی خاتون تھیں اٹھتے بیٹھتے آپ کو لیکچر دیا کرتی تھیں ۔اب کیا آنکھوں پر پٹی بندھ گئی ؟‘‘
’’ نہیں بیٹے پٹی نہیں بندھی۔ اصل میں حرام مال کا ایک لقمہ بھی خدا سے دور کرتا ہے ، اس کے در پر کی جانے والی عبادت کو مردود کروا دیتا ہے ۔ اچھی بھلی عورت تھی اللہ جانے بیٹی کی کمائی نے کیا کیا ، خوشبو اور بدبو میں فرق ہی بھول گئی ۔ جب انسان سے حیا رخصت ہو جاتی ہے تو پھر اچھے برے کی تمیزہی ختم نہیں ہوتی بلکہ برائی اس کے لیے پر کشش بن جاتی ہے ، اپنے عیب بھی پھول بوٹوں کی طرح نظر آنے لگتے ہیں اور وہ کمائی جو بیٹی کی عزت اور حیا کو بیچ کر حاصل ہو، اللہ معاف کرے ‘‘۔ انہوں نے جھر جھری سی لی ۔
کہنے کو تو ساری مدد روہینہ کی بجائے اب یو ٹیوب نے ہی کی ۔ فضہ نے فیس بک اور یو ٹیوب کی مدد سے خریداری کے کام میں بہت مدد دی ۔ ثوبیہ کو سوشل میڈیا کے استعمال کا زیادہ علم تھا نہ رغبت اب ضرورت کے تحت ہی بار بار یوٹیوب کھلتی تو سونیا کا کوئی نہ کوئی حیا سوز منظر جلا کے راکھ کر دیتا ۔ کہتی تو کچھ بھی نہیں تھیں مگر بات دکھ کی ہی تھی۔
فنکشن رات کے کھانے کا رکھا گیا تھا ۔ ثوبیہ نے نند اور جیٹھ کی فیملی کو بھی مدعو کیا ہؤا تھا ۔ سب سامان اپنی نگرانی میں پیک کروایا ۔ سوٹ ایک سے بڑھ کے ایک تھا ، مٹھائی کے ٹو کرے گیراج میں رکھوا دئیے تھے۔کپڑے ہینڈ کیری میں گفٹ پیک کیے ہوئے لائونج کے کونے میں لے جانے کے لیے تیار تھے پھول ، موتیے کے ہار بوکے سب منگوا لیے گئے تھے ۔ مہمان جانے کی تیاریاں مکمل کرنے والے تھے جب موبائل فون کی بیپ ہوئی ۔
’’ مسز انوار کالنگ‘‘ جگمگ کرتا لفظ بلنک ہؤا۔
’’ جی السلام علیکم بھابھی ، بس ہم تیار ہیں ‘‘۔
’’ جی ، جی نند اور ان کے میاں ابھی پہنچے ہیں ‘‘۔
’’ نہیں جیٹھ کی طبیعت خراب ہے ان کی طرف سے معذرت آگئی تھی ‘‘۔
’’ کون ؟‘‘ انہوں نے ماتھے پر سوالیہ نشان لا کے پوچھا۔’’ کس کو ضرور لانا ہے؟ روہینہ کو ؟‘‘ ان کی آواز سست ہوئی ۔مسز انوار کی آواز آئی ۔ ’’جی روہینہ آپ نے تو ایک مرتبہ بھی ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کی بہن ہیں ۔ مجھے چند گھنٹے قبل ہی انوار صاحب نے بتایا کہ وہ بچی جو آج کل ہر ڈرامے میں آ رہی ہے بھلا سا نام ہے ، ہاں ندا گل ، وہ آپ کی بھانجی ہے بچے تو بچے یہاں سارے ہی بہت ایکسائٹیڈ ہیں ، پلیز آپ ان کو ہماری طرف سے ضرور دعوت دیں ‘‘۔
’’ لیکن … میرا ان سے رابطہ ذرا کم کم ہی ہے ‘‘۔ تھوک نگلتے ہوئے وہ بمشکل اتنا ہی بول پائیں۔
’’ تو کوئی بات نہیں رابطہ ہے تو سہی ، پلیز آپ ان کا نمبر دیں میں خود ان سے ریکویسٹ کروں گی وہ ضرور اپنی بیٹی کو لے کے آئیں ۔ بہت غضب کی آرٹسٹ ہے ۔ میری تو ساس اس کی بہت بڑی فین ہیں ۔ کوئی بات نہیں بھلے کچھ وقت لگ جائے ۔ لیکن ان کو ضرور لائیے ، تقریب میں جان پڑ جائے گی ‘‘۔
مسز انوار خوشی کی لہر کی طرح رواں تھیں اور ثوبیہ کے ہاتھ سے سیل فون گر گیا تھا ۔’’ بچے بہت ایکسائٹیڈ ہیں … تقریب میں جان پڑ جائے گی ۔‘‘
ان کی سماعت میں یہ جملے ناچ رہے تھے اور خوشی کے موقع پر نجانے کیوں ان کی آنکھیں بھیک رہی تھیں ۔ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x