ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بے بس – قانتہ رابعہ

’’چوہدری سرور اعظم کے اکلوتے بیٹے کی شادی ہے…. سات کوس تک تو پتہ چلنا چاہیے کہ چوہدریوں اور نمبرداروں کے ہاں شادی کیسے وج گج کے ہوتی ہے۔صرف دس دن شادی میں باقی ہیں، نہ کوئی واجا گاجاہے نہ ڈھول ڈھمکا ،نہ لنگر کھلا‘‘۔
چوہدری سرور نے کلف سے اکڑے سوتی سوٹ پر واسکٹ پہنتے ہوئے خفگی کا اظہار کیا ۔
’’آج ہی سے ساری کڑیوں چڑیوں کو بلاؤ۔ کوئی ناچ گانا ہلا گلا ہو….دیگیں کھڑکنے کی آواز سنائی دے….سات گلیوں تک لائٹنگ شائٹنگ کرو، یہ کیا دو زنانیاں سر جھاڑ منہ پہاڑ بیٹھی ہیں‘‘۔
اب کے چوہدری صاحب نے اپنی نصف بہترچوہدرانی حشمت بی بی کی خبر لی۔
ان احکامات کے جاری ہونے کی دیر تھی آدھے گھنٹے کے اندر اندر دو کلومیٹر کے فاصلے تک سرخ نیلی پیلی بتیوں کا بھی بندو بست ہوگیا ، ڈھولکی لے کر چوہدری سرور اور حشمت بیگم کی بھانجیاں بھتیجیاں بھی سرخی پاؤڈر تھوپ کر حویلی میں پہنچ گئیں اور گھر سے باہر جیما قصائی مرغیاں ذبح کرنے اور شیدا نائی دیگ کے اندر چمچا کھڑ کانے میں مصروف ہوگیا۔
اس دن جنوری کی تین تاریخ تھی اور شادی تیرہ جنوری کو طے پائی تھی۔ درمیان کے سارے دن ہر چھوٹے بڑے کے لیے ناقابل فراموش تھے۔چوبیس گھنٹے اینٹوں سے بنائے چولھوں پر دیگیں ہوتیں، نان چنے، چائے، چاول ،میٹھے چاول ،کبھی کٹے کے گوشت کا شوربہ اور کبھی مرغوں میں خوب دہی ڈال کر بھون بھون کر قورمہ بنتا دکھائی دیتا۔مصالحہ جات کی خوشبوئیں دو کوس تک جاتیں۔ لڑکے بالے نیانے سیانے سب گاؤں کے چوہدری اور نمبردار کی خوشی میں شریک تھے۔
ویسے بھی چوہدری سرور اگلے سال ہونے والے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر نامزد ہونے کے لیے سو فیصد تیار تھا اور بیٹے کی شادی سے اچھا کوئی اور موقع نہیں تھا اپنی دھاک بٹھانے کا۔
شادی میں تین دن رہ گئے توآتش بازی اور ہوائی فائرنگ بھی شروع کردی گئی جس کی آوازیں رات کے دو دو بجے تک سنائی دیتیں۔ شادی سے ایک دن قبل مجید حلوائی کو جلیبیاں ،لڈو،شکر پارے قسم کی مٹھائیاں منوں کے حساب سے بنانے کے لیے حویلی کے پچھواڑے میں بلا لیا تھا۔میٹھے کے شوقین آنے بہانے مجید حلوائی کے اردگرد منڈلاتے دکھائی دیتے ۔
مہندی والی رات سارے کا سارا گاؤں کھانے پر مدعو تھا ۔سیاسی غیر سیاسی سبھی اہم شخصیات بھی بڑے اہتمام سے مدعو کی گئی تھیں۔بڑے لوگوں کے لیے کھانے میں تازہ تازہ فرائی مچھلی ،مرغ روسٹ ،سیخ کباب اور مٹن کڑاہی کا انتظام کیا گیا تھا جبکہ گاؤں کے لوگوں کے لیے کٹے کا سالن، مرغ پلاؤ،زردہ اور سلاد وافر مقدار میں موجود تھا۔
مساجد سے اعلانات ہو رہے تھے ۔
’’چوہدری ہوناں دے گھر روٹی کھل گئی جے….سارے لوگ پہنچ جائیں ‘‘۔
کھانے کے بعد آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا اور رنگ برنگی روشنیوں سے بیس بائیس منٹ کے لیے سارا آسمان جگمگا اٹھا ۔آتش بازی کے بعد دولہا کے یار بیلیوں نے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔تڑ تڑ تڑ کی آواز سے قریب بیٹھے شخص کو بھی کچھ سننا محال ہوگیا۔
اتفاق کی بات ہے کہ عبداللہ کمہار کاپوتا بھی آتش بازی دیکھنے والوں میں شامل تھا لیکن اس بے خبر کو یہ پتہ نہیں تھا کہ فائرنگ کے دوران ایک گولی پر ملک الموت نے اس کا نام لکھا ہے ۔بچہ جس بری طرح سے تڑپ تڑپ کر عارضی دنیا سے گیااس نے چند سیکنڈ کے لیے تو سب کو چپ کروادیا۔
قریبی شہر سے کمشنر ،اسسٹنٹ کمشنر ،ڈپٹی کمشنر بھی مدعو تھے اور اتفاق سے سارے ہی اس علاقے میں نئے تھے۔کچھ کی ملازمت نئی نکور تھی اور کچھ کی اس علاقے میں پوسٹنگ ۔
بہر حال فائرنگ تو بند کردی گئی لیکن بچے کی ننھیال نے گاؤں کے چوہدری کا لحاظ رکھا نہ ان کے اکلوتے بچے کی خوشی کا اور بچے کی میت ریلوے پھاٹک کے بیچوں بیچ رکھ کر خوب احتجاج کیا۔
پانچ سے چھ گھنٹے ٹرینوں کو تو پچھلے سٹیشن پر روکا گیااور انتظامیہ اور متاثرین میں مذاکرات ہوئے جو کئی لوگوں کی جدوجہد کے بعد کامیاب ہوئے۔بچے کے والدین کو دیت کی رقم دے دلا کر فارغ کیا گیا۔ شادی کے سلسلےاب حویلی کے اندر جاری رہے ۔چوہدری سرور کا فرمان تھا کہ شادی تو دھوم دھڑکے سے ایک مرتبہ ہی ہوتی ہے ،باقی بندوں کے آنے جانے کا سلسلہ تو قیامت تک جاری رہے گا۔
اگلے دن مقامی حکومت کی طرف سےشادی بیاہ پر فائرنگ اور آتش بازی پر پابندی ،اور حکم کی تعمیل نہ کرنے والوں کے لیے سزا اور جرمانےکا اعلان کردیا گیا۔اخبارات میں اشتہار کے ساتھ ساتھ مقامی ریڈیو ٹی وی چینلزسے بھی خبر چلوا دی گئی۔ اہم شاہراہوں پر پوسٹرچپکا دیے گئے۔
اس کے بعد شہر میں آئے روز کوئی نہ کوئی شادی بیاہ کی تقریب منعقد ہوتی رہی ،کبھی چیمبر آف کامرس کے صدر زکریا داؤد کی بیٹی کا بیاہ مقامی ایم این اے کے بیٹے سے تو کبھی پوسٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل کے بھائی کاولیمہ، کبھی کسی جج کے گھر سے ڈھولکی کی آواز سنائی دیتی تو کبھی انکم ٹیکس کے محکمہ والے بینڈ باجوں کے ساتھ جاتے دکھائی دیتے۔مجموعی طور پر انتظامیہ کے حکم کی تعمیل ہی ہوئی اور آتش بازی یا ہوائی فائرنگ کی نوبت کم ہی آئی۔
جب سب شادی بیاہ کی تقریبات ان دونوں کے بغیر کرنے کے عادی ہوچکے تھے تو فروری کی یخ راتوں میں سے ایک رات پھر دو سال قبل والی آتش بازی ،ہوائی فائرنگ کی تڑتڑتڑ،بینڈ باجے اور تیز موسیقی کی کان پھاڑنے والی آوازیں سنائی دیں۔
لوگ باگ سوچکے تھے یا سونے کی تیاریوں میں تھے جب ڈپٹی کمشنر کو ڈی آئی جی پولیس کا نام موبائل فون کی سکرین پر چمکتا نظر آیا۔دونوں کی رہائش گاہوں میں پانچ سات منٹ کا فاصلہ تھا۔
ڈی آئی جی صاحب کی خفگی والی آواز آئی۔
’’یہ آدھی رات میں کس حرامی نے نیندیں حرام کر دی ہیں ؟ بھیجو اپنے بندے….میں بھی پولیس کی دو گاڑیاں بھیجتا ہوں ،میری بوڑھی والدہ آج ہی کیمو کروا کے آئی ہیں وہ بہت ڈسٹرب ہورہی ہیں …. پانچ منٹ تک سب بند ہونا چاہیے‘‘۔
’’یس سر ! ایسے ہی ہوگا‘‘۔
انہوں نے تعمیل کی اور بندے بھیجے ۔پولیس کی بھاری نفری بھی جائے تقریب پر روانہ ہونے کا پتہ چلا ۔سردیوں کی راتوں میں تو کتا بھونکے تو آواز چار محلوں تک سنائی دیتی ہے یہ تو پھر ہوٹر والی گاڑیاں تھیں۔
دو منٹ ،پانچ ،دس منٹ یہاں تک کہ بیس پچیس منٹ گزر گئے اور بینڈ باجے پھلجھڑیوں،فائرنگ کی تڑ تڑاہٹ کی آواز بجائے کم ہونے کے زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی گئی۔
کمشنر صاحب کے بھیجے بندے آچکے تھے جب پھر ڈی آئی جی صاحب کا فون آیا۔
’’اوئےیہ کون ….ہیں ،بند نہیں ہوئی ان کی بک بک؟ ‘‘
’’سر مجبوری ہے …. آپ بھی تھوڑی دیر برداشت کرلیں میں بھی کرتا ہوں ۔میں نے اپنے ماتحت بھیجے تھے وہ واپس آگئے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہ کسی سویلین کی شادی نہیں ہے‘‘۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x