ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خطبہ حجۃ الوداع – بتول جون ۲۰۲۲

اور پھر وہ وقت آیا کہ ملک میں امن و امان تھا ۔ لوگ جو ق در جوق اسلام قبول کر رہے تھے ۔ ارشاد ربانی ہؤا ’’ جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے اور نبیﷺ تم دیکھ لو کہ فوجدر فوج لوگ اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرواور اس سے مغفرت کی دعا مانگو ، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے ‘‘۔
حضور اکرم ؐ کے حصے کا کام تکمیل کو پہنچ رہا تھا ۔ زکوٰۃ ، جزیہ سود کی حرمت کے احکامات ناخوذ ہو چکے تھے 10ھ ذیقعد کے آخری ہفتے میں آپ ؐ مدینہ سے روانہ ہوئے م۔ مکہ پہنچ کر مناسک حج کی ادائیگی کے لیے عرفات کی طرف روانہ ہوئے یہ 9ذالحج کا دن تھا ایک اذان دو تکبیروں کے ساتھ نماز ظہر و عصر ادا کی ۔ اس موقع پر آپ ؐ قصویٰ (اونٹنی) پر سوار ہوئے اور ارشاد فرمایا۔
’’ لوگو ! میری بات سن لو ! کیونکہ میں نہیں جانتا ، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی نہ مل سکوں ، تمہارا خون اورتمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی ، رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے ۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پائوں تلے روند دی گئی ۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیے گئے اور ہمارے خون میں سے خون ہے ( یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ ان ہی ایام میں قبیلہ بنو ہذیل نے اسے قتل کردیا ) اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے ‘‘۔اس موقع پر آپؐ نے عورتوں کے حقوق اور ان کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مردوں کو ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی ۔ غلاموں کے بارے میں حکم دیا جو کھائو انہیں بھی کھلائو ، جو پہنو انہیں بھی پہنائو ۔ تفوق کامعیار مقرر کرتے ہوئے فرمایا ۔ کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ہاں جو اللہ سے زیادہ ڈرے وہی کامیاب ہے ۔
خطبہ حجۃ الوداع میں انسانی حقوق کا تصور حضرت محمدؐ نے کسی دبائو، مصلحت، ضرورت یا معاہدے کی تکمیل کے بغیر پیش کیا ۔ اس میں شرف ِ آدمیت اور احترام انسانیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قیامت تک آنے والوں کے لیے جینے کے وہ اصول وضع کیے جو آزادی ، خود مختاری کے ساتھ سر اٹھا کر زندگی گزارنے کے لیے رہنما اصول ہیں حضور اکرمؐ نے محض احکامات نہیں سنائے بلکہ سب سے پہلے اپنی ذات پر اس کا اطلاق کر کے ایسی مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا کے لیے سنہری اصول بن گئے ہیں اس خطبہ میں سماجی ، معاشرتی ، معاشی ، سیاسی گویا انسانی ضروریات کی ہر حقیقت کو شامل کیا ہے ۔ اس بارے میں یہ رائے مناسب معلوم ہوتی ہے کہ :
’’ یہ خطبہ زبان رسالت مآبؐ کی اعجاز آفرینی کا نادر نمونہ ہے جس میں دین کا خلاصہ ، تمدن و معاشرت کے اصولوں ، نظام حیات کی اساسیت ، اجتماعی زندگی کی بنیادوں اور اصول و معنوی اقدار کا روشن بیان موجود ہے‘‘۔
یہ انتہائی مفصل اور جامع خطبہ ہے اس میں ہر پہلوئے زندگی معاشرے اور انسانیت کی ہر ضرورت کے بارے میں ہدایت اور رہنمائی موجود ہے بلا شبہ یہ خطبہ رہتی دنیا کے لیے رہنمائی و کامیابی کا ضامن ہے ۔
حوالہ جات:
الرحقیق المختوم ،صفی الرحمن مبارک پوری
خطبہ حجۃ الوداع ، ڈاکٹر نثار احمد
٭…٭…٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x