ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ماحولیاتی آلودگی – بتول جون ۲۰۲۲

آج کی دنیا کا سنگین مسئلہ

ماحولیاتی تحفظ کے لیے شجر کاری کی اہمیت
ماحولیاتی کے تحفظ کے لیے پیڑ پودوں کابنیادی اور اہم کردار ہے ان میں زہریلی گیسوںکو تحلیل کر کے آکسیجن فراہم کرتے ہیں سبزہ زار علاقے ہر جاندار کے لیے صحت بخش ہوتے ہیں اورفرحت افزا بھی ، ہرے بھرے علاقے میں جو روحانی سکون اور ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے وہ کسی جگہ نہیں ہو سکتا، اس لیے اسلام نے شجر کاری اور زمینوں کی آباد کاری کی بڑی ترغیب دی ہے ۔فضائی آلودگی کو کم کرنے میں ہرے بھرے درختوںاورپیڑ پودوں کابنیادی کردار ہے ، اسی لیے متعدد روایات میں پیڑ پودے لگانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ حضرت خلاد بن السائب ؓ، حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ، حضرت ابوالدرداؓاور حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ؐ کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا۔
’’اگر قیامت آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو تو اگر قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے گاڑ سکتا ہے تو اسے گا ڑدینا چاہیے‘‘۔
’’ جس نے پودا لگایا اور وہ ثمر دار ہو ا تو ہر پھل کے بدلے میں اسے اجر ملے گا ‘‘۔
حضرت عمرو بن یحییٰ اپنے والد سے نقل کرتے ہیںکہ حضورؐ نے ایک شاخ اپنے دست مبارک میں لی اور اس کو لگا دیا۔ اسی طرح حضرت سلمان فارسیؓ کے عقد مکاتبت کے قصے میں حضورؐکا کھجوروں کے پیڑ لگانے کا واقعہ بہت معروف ہے ۔عمارۃ بن خزیمۃ بیان فرماتے ہیں کہ عمربن الخطاب نے میرے والد سے دریافت کیا کہ آپ نے زمین آباد کیوں نہیں کی ؟ انہوں نے اپنے بڑھاپے کاعذر پیش کیا کہ اب چل چلائوکا وقت ہے ، حضرت عمرؓ نے تاکید کے ساتھ فرمایاکہ ہر حال میں زمین آباد کرنی ہے وہ بیان کرتے ہیںکہ میںنے خود حضرت عمرؓکو اس زمین میں اپنے ہاتھ سے پودے لگاتے ہوئے دیکھا۔
بلا ضرورت پیڑ پودوں کوکاٹنے کی ممانعت
احادیث میں بے ضرورت پیڑ پودوں کے کاٹنے کی ممانعت آئی ہے ، حضرت عبد اللہ بن حبشیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : من قطع سدرۃ صوب اللہ رأسہ فی النار(۶۱)
ترجمہ: جو شخص کسی پیڑ کو کاٹے گا اللہ پاک اس کا سر جہنم میں ڈالیں گے ۔ اس حدیث کی تشریح میں امام دائود نے کہا کہ اس سے مراد

سایہ دار درخت جس سے مسافر سایہ حاصل کرتے ہوں۔
’’ فضا اورہوا‘‘ کی اہمیت قرآن کریم کی روشنی میں
ہوا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت ہے جس کے بغیر زندگی کا تصورنا ممکن ہے چنانچہ رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے :
ترجمہ:’’ ہوا کو برا بھلا مت کہو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عذاب لے کر آتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے اس کی بھلائی جس کے لیے وہ بھیجی گئی ہے اس کے طلب گار بنو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے شر اورجس کے لیے و ہ بھیجی گئی ہے اس سے پناہ مانگو‘‘۔
کرۂ ارض پر جگہ جگہ سرد وگرم ، تیز اورہلکی ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس دن اورموسم کا مزاج بدلتے رہتے ہیں اسی ہوا کے دوش پر بادلوں کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے حسب ضرورت کسی خطے اورعلاقے کے باشندوں کوبارش سے نوازتے ہیں،جبکہ کسی علاقے سے بادل یوں گزر جاتا ہے جیسے اہل شہر اور اہل علاقہ سے کوئی شناسائی ہی نہیں اورلوگوں کی نگاہیں امید و بیم میں کھلی رہ جاتی ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت کے نمونے ہیں ، ہوا ، زمین اور پانی کی طرح اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے زندگی بلکہ نباتاتی نشوونما کے لیے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے ہوا کے بغیر کارخانہ حیات کانظام خراب ہوجائے گا اللہ تعالیٰ کی دیگرنعمتوں کے مقابلہ میں ہوا سب سے زیادہ اہم ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی ضرورت کے اعتبار سے اس کو عام رکھا ہے ، ہوا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک عجیب و غریب نمونہ ہے ہوا ہی پانی سے بھرے بادلوںکو اللہ تعالیٰ کے ارادہ اورمشیت کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے کلام مقدس میں کچھ یوں بیان کیا ہے ۔
ترجمہ:’’ اور وہی اللہ ہے جو ہوائوں کو بشارت کے طور پر اپنی رحمت سے پہلے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب یہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا کر لاتی ہیں تو ہم اس کو مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر ہم اس سے پانی اتارتے ہیں پھر ہم اس تمام پھلوںکو نکالتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو بھی(قبروں سے ) نکالیں گے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو‘‘۔
ہوائوں اور بادلوں کا یہ نظام اتنا مربوط اور مستحکم ہے کہ انسانی عقل قدرت کی اس صناعی پر محو حیرت ہے، اس نظام میں تل کے برابر بھی تبدیلی کا آجانا انسانی حاجات کی تباہی کا ذریعہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ:’’ اور ہوائوں کے الٹ پھیر میں اور اس بادل میں جو معلق ہے آسمان اور زمین کے درمیان البتہ نشانیاں ہیںایسی قوم کے لیے جو عقل رکھتی ہے ‘‘۔
ہوا کے بغیر کسی پرندے کویہ طاقت نہیں کہ وہ اپنی طاقت اور کوشش کے باوجود ہوا میں اڑ سکے اسی کو اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے ان الفاظ میں قرآن مجید فرقان حمید میں بیان کیا ہے ۔
ترجمہ: ’’ کیا انہوں نے دیکھا نہیں پرندوں کی طرف جو اپنے اوپر جو پر پھیلائے ہوئے ہیںاور کبھی سیکڑتے ہیں انہیں کوئی سوائے رحمن کے تھام نہیں رہا بے شک وہ ہر چیز کو خوب دیکھ رہا ہے ‘‘۔
جدید سائنس میں کہا جاتا ہے کہ سانس کے ذریعہ آکسیجن جسم میں داخل ہوتی ہے اور جسم کے ہر حصے میں پہنچ کر غذا تحلیل کر نے اور توانائی بنانے کا کام انجام دیتی ہے ، اس عمل کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ تیار ہوتی ہے جو جاندار کے لیے ایک زہریلی گیس ہے ، خون اسے جسم کے ہر حصے سے لا کر پھیپھڑوں میں چھوڑ دیتا ہے ۔
ابن خلدونؒ ہوا کی اہمیت کے بارے میں رقمطراز ہیں : آفات و بلیات اور امراض سے حفاظت اور سلامتی کے لیے ہوا کا خوشگوار ہونا ضروری ہے اس لیے کہ اگر وہ ٹھہری ہوئی اورنا گوار ہو ، یا خراب پانی اور بدبو دار جگہ سے قریب ہو تو اس میں بھی بدبو پھیل جاتی ہے اور اس کی وجہ سے کسی بھی جاندار کا بیمار ہونا یقینی ہے ، یہ بات مشاہدہ میں ہے جن شہروں میں اچھی ہوا کی رعایت نہیں کی گئی وہاں کثرت سے بیماریاں پائی جاتی ہیں ۔
ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لیے قرآن پاک و سیرت مطہرہ سے رہنمائی
زندگی میں مومن کو جو کار نامے انجام دینے ہیں ان میں اہم ذمہ

داری خلیفۃ فی الارض کی ذمہ داری ہے اس کے لیے صحت مند ماحول ، معاشرہ اور خود بھی صحت مند اور توانا ہونا ضروری ہے کیوں کہ زندہ قومیں صحت مند اور توانا افراد سے ہی بنتی ہیں۔
مہلکات سے بچنے کا حکم
اللہ تعالیٰ نے یہ خوبصورت کائنات بنی آدم کے حوالے کردی اب اپنے ہاتھوں سے اس کو خراب نہ کرے فساد نہ پھیلائے ، اس کو برباد نہ کرے۔
ترجمہ:’’ اپنے ہاتھ ہلاکت میں نہ ڈالو ،اوراچھے کام کرو اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔
وبا، وائرس
آلودگی سے تحفظ کی ایک نظیر آلودہ شخص یا آلودہ مقام سے ممکنہ حد تک اجتناب کی ہدایت بھی کی ہے۔
’’ جذامی شخص سے اس طرح بھاگو جیسے کہ تم شیر سے بھاگتے ہو‘‘۔
’’ کسی مقام پر طاعون کی خبر سنو تو وہاں نہ جائو اور تمہاری جگہ پر آجائے تو بھاگ کر مت نکلو‘‘۔
یہ احکامات بہت اہم قانون ہیں کہ اگر کسی مقام پر وبا ہے تو وہاں ایک اہم اصول کو لازم کرلیا جائے کہ وہاں سے وبا لے کر دوسری جگہ نہ جائے۔ حال ہی میں پوری دنیا جس مرض کی وجہ سے مفلوج ہوئی اور پوری دنیا کو ستر فی صد بند کر دیا وہ کرونا تھا اس کے پھیلائو میں اہم کردار نا واقفیت اور لا پروائی نے کیا، اس موقع پہ اللہ کے رسولؐ کی ان احادیث کو سامنے رکھ کر قانونی شکل دی جا سکتی ہے ۔
ضرر رساں چیزوں سے گریز کا حکم
متعدد نصوص میں انسانوں کو تکلیف پہنچانے والے اعمال سے منع کیا گیا۔
’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
چیخ و پکار فحش گوئی کی ممانعت
معاشرہ کے اندر ایسے ماحول سے بھی منع کیا گیا جس سے ذہن و دماغ آلودہ ہو جائے اسلام صرف فرد کی تطہیر نہیں چاہتا بلکہ معاشرہ میں تطہیر چاہتا ہے ۔ فحش کلامی اور بد گوئی شریف معاشرہ میں برداشت نہیں کی جاتی ، لوگوں کی نظروں میںبد کلام اور فحش گوکی عزت دو کوڑی کی بھی نہیں رہتی اس سے میل جول کو کوئی گوارا نہیں کرتا اور وہ قوم اپنی برادری اور اپنے معاشرہ میں قابل نفرت گردانا جاتا ہے ۔ جناب عبد اللہ ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رسول ؐ اللہ نے فرمایا :
’’ مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ طعن و تشنیع کرنے والا نہیںہوتا اورنہ ہی فحش گوئی اور بد زبانی اس کا شعار ہوتا ہے ‘‘۔
رفع حاجت کی تہذیب
عام انسانی راستوں اٹھنے ، بیٹھنے کی سایہ دار جگہوں ، کنوئوں، چشموں کے آس پاس اور مفاد عامہ کے مقامات پر رفع حاجت( گندگی ڈالنے ) کی ممانعت ہے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا :
’’ لعنت کا باعث بننے والی بات سے اجتناب کرو، صحابہ کرام نے عرض کیا وہ کون سی باتیں ہیں ؟آپ ؐ نے فرمایا : راستوں اور سایہ دار مقامات میں رفع حاجت کرنا‘‘۔
حرام کی ممانعت
انسانی غذائوں میں صرف حلال چیزوں کو کھانے کی اجازت ہے کیوں کہ حرام اشیاء انسانی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہیں ۔ زندہ جانور کے عضو کو کاٹ کر کھانے کی ممانعت ہے کیونکہ ایک طرف تو اس سے جاندار کو اذیت ہو گی دوسری طرف انسانی صحت کے لیے سخت ممنوع ہے ۔ غیر مسلم ممالک میں جہاں مذہب کا انسانی زندگی میں دخل نہیں ہے وہاں ایسی ہولناک مثالیں ملتی ہیں۔
راہ گزر صاف رکھنے کی ہدایت
راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ قرار دیا ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا ،
’’راستہ سے گندگی کو دور کرنا صدقہ ہے ‘‘۔
حضرت حذیفہ بن اسید روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:

’’ جو مسلمانوں کو ان راستوں میںتکلیف پہنچائے ان پر لعنت واجب ہو گئی ‘‘۔
تھوکنے کی ممانعت
جگہ جگہ پان وغیرہ یہ تھوکنا بھی منع ہے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص تھوکتاہے تو اس سے روکنے کا حکم ہے اولاً یہ چیز نظافت کے خلاف بھی ہے ایک موقع پر اللہ کے رسول ؐ نے مسجد کی دیواروں پر تھوک کے اثرات دیکھے تو چہرہ انور پر نا گواری محسوس کی گئی پھر آپؐ نے خود اپنے دست مبارک سے اسے صاف کیا ، حضرت انس بن مالک حضور اکرم ؐ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں۔
’’ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کاکفارہ اس کو دفن کرنا ہے‘‘۔
احسان اور ماحولیات
علامہ عزبن عبد السلام لکھتے ہیں کہ احسان منحصر ہے مصلحت کو حاصل کرنے اور مفسد کو دور کرنے میں اور یہی تقویٰ اور پرہیزگاری کی انتہا اور مقصود ہے ، اس کا سب سے اعلیٰ درجہ عبادات میں احسان ہے، دوسرا درجہ مخلوقات کے ساتھ احسان ہے اور اس کی شکل مصلحت کو حاصل کرنا اور مفسد کو دور کرنا ہے اور یہ احسان انسان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ملائکہ کے حق میں بھی ضروری ہے کیونکہ وہ بھی انسان کی طرح تکلیف دہ چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں ، بلکہ ہر طرح کے جاندار کے ساتھ اس کا لحاظ رکھنا ہوگا یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے :
’’ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان ( بہتر طریقہ اختیار کرنے ) کو فرض کیا ہے‘‘۔
علامہ ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں : اس حدیث میں احسان کے ضروری ہونے کی صراحیت ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے ، چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ترجمہ:’’ بلا شبہ اللہ تعالیٰ عد ل اور احسان کا حکم دیتا ہے ‘‘ اور ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: ’’اور احسان کرو ! بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوںکو پسند فرماتا ہے ‘‘۔
احسان کا یہ حکم کبھی واجب ہوگا اور کبھی مستحب مذکورہ بالا دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ ہر عمل میں احسان ضروری ہے لیکن ہر چیز کا احسان اس کے اعتبار سے ہے یعنی فعل اگر واجب ہے تو احسان بھی واجب ہو گا اور اگر فعل مستحب ہے تو احسان بھی مستحب ہوگا ۔
حدیث شریف میں جلتی ہوئی آگ چھوڑ کر سونے سے منع کیا گیا ہے ، اس پر قیاس کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ہر ایسا عمل درست نہیں ہے جس کی وجہ سے فضائی آلودگی میں اضافہ اور زندگی گزارنا مشکل ہو جائے بعض فقہی عبارتوں میں بھی اس سلسلے میں رہنمائی ملتی ہے جیسا کہ ہوا کے بارے میں علامہ ابن نجیم مصریؒ نے لکھا ہے کہ اگر کسی کے درخت کی شاخوں نے دوسرے کے گھر کی ہوا کو روک رکھا ہے اور گھر کے مالک نے ان شاخوں کو کاٹ دیا تو دیکھا جائے گا کہ اگر شاخیں ایسی ہوں کہ انہیں رسی سے باندھ کر ہوا کی جگہ کو فارغ کیا جا سکتا ہے تو کاٹنے والا ضامن ہوگا اور اگر ایسا نہ ہو تو ضامن نہیں ہوگا جبکہ ایسی جگہ سے کاٹاہؤا کہ اگر معاملہ عدالت میں پہنچ جاتا تو قاضی اس جگہ سے کاٹنے کا حکم دیتا،(۹۳)
علامہ عبد الرحمن بن نصر شرازیؒ نے تنور وغیرہ کے سلسلے میں محتسب کے فرائض کے بیان میں لکھا ہے کہ مناسب ہے کہ روٹی پکانے کی دو جان کی چھتیں اونچی ہوں ان کے دروازے کھلے ہوئے ہوں اور چھتوں میں دھواں نکلنے کے لیے بڑی اور کشادہ چمنی ہو تاکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو ضرر نہ پہنچے (۹۴)
آج کے دور میں ماحولیاتی آلودگی کی مختلف صورتیں
دھواں چھوڑ نے والی اشیا
کھانا بنانے کے لیے ایندھن کے طور پر لکڑی ، کوئلہ گوبر ، گیس اور بجلی کا استعمال کیا جاتا ہے ، بجلی اور گیس کے علاوہ تمام چیزیں دھواں چھوڑنے والی ہیں جن سے فضا آلودہ ہوتی ہے کیونکہ گیس اور بجلی دیہی

علاقوںمیں نہیں ہوتی حتیٰ کہ صوبہ بلوچستان میں گیس پیدا ہوتی ہے مگر وہاں کی آبادیاں اس کے حصول سے محروم ہیں اور اگر گیس ان کو دستیاب بھی ہے یا بجلی تو وہ بہت مہنگی ہوتی ہے جو ان کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے لیکن جو ان وسائل کو استعمال کر سکتا ہے تو وہ آلودگی پھیلانے والی اشیاء کا استعمال نہ کرے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچا ہو۔
گاڑیوں کا استعمال
گاڑی اس وقت ہر فرد کی ضرورت بن گئی ہے یا آج کے جدیدترقی پذیر ملک میں بنا دی گئی ہے شان و شوکت کی علامت بھی تصور کی جاتی ہے گاڑی ڈیزل سے بھی چلتی ہے اور پیٹرول گیس سے بھی ۔ بلکہ شمسی توانائی کو بھی قابل استعمال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے گاڑیوں سے لوگوں کا معاش وابستہ ہے شہروں میں موٹر سائیکل ایک سستی سواری ہے جس سے انسان اپنے روز گار پر آسانی سے چلا جاتا ہے ڈیزل گاڑی اور گاڑیوں کے مقابلے میں سستی ہوتی ہے مگر کیونکہ وہ ماحول کو آلودہ زیادہ کرتی ہے تو ان شہروں میں ان پر پابندی لگائی جا سکتی ہے جہاں لوگوں کی زیادہ آبادی ہو ورنہ کم آبادی اور کھلے علاقوں میں اس پر پابندی نہ لگائی جائے لیکن بڑی گاڑیوں کو چاہیے کہ دھواں چھوڑتی نہ جائیں بلکہ سائیلینسر لگے ہوںتاکہ ان کا دھواں فضا آلودہ نہ کرے۔
جنریٹر اور سولر لائٹ کا استعمال
روشنی کے لیے لوگ جنریٹر کو استعمال کرتے ڈیزل اورمٹی کے تیل سے جو جنریٹر چلتے ہیں وہ بہت دھواں دیتے ہیں جبکہ گیس اور پیٹرول سے چلنے والے جنریٹر کم دھواں دیتے ہیں روشنی انسانی کے لیے ضروری ہے اس لیے جنریٹر کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی لیکن کم دھویں والے جنریٹر استعمال کرنے چاہئیں تاکہ فضا آلودہ نہ ہو۔
اسی طرح سولر لائٹ ( شمسی توانائی) کا استعمال کافی بڑھ رہا ہے حکومت بھی اس کے لیے سہولتیں فراہم کررہی ہے اس میں ایک بار خطیر رقم استعمال ہو جاتی ہے لیکن آئندہ وہ برقی بلوں سے بچ جاتا ہے ۔ صاحب استطاعت افراد اداروں کے لے آلودگی سے محفوظ اس توانائی کا استعمال مستحسن قرار پائے گا بالخصوص آلودگی سے متاثرہ علاقوں میں اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اس میں مالی بچت بھی ہے اور آلودگی سے تحفظ بھی۔
فیکٹریوں کی کثرت
صنعت ترقی کے اس دور میں چھوٹے بڑے کارخانوں کی بہتات ہے اور یہ یقینا موجودہ دور کی ایک ضرورت ہے لوگوں کا روز گار اس سے وابستہ ہوتا ہے لیکن کارخانوں میں جو ایندھن استعمال کیا جاتا ہے وہ بہت دھواں پیدا کرنے والا ہوتا ہے اور جوصنعتی فضلات باہر پھینکے یا بہائے جاتے ہیں وہ فضائی آلودگی پیدا کرتے ہیں اس کے لیے حکومت نے ایسے قوانین بنائے ہیںمثلاً کارخانے آبادیوں کے باہر ہوں ان کی چمنیوں کو ایک خاص سطح تک اونچا رکھا جائے ، کم سے کم آلودگی پیدا کرنے والے ایندھنوں کا استعمال کیا جائے اس طرح کے فضلات کو تحلیل کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔
کچرا ڈالنا ، فضلات وغیرہ پھینکنا
آبادیوں میں کچرا نہ ڈالا جائے بلکہ گھروں کا کوڑا کرکٹ کے لیے مخصوص جگہ بنائی جائے عموماً لوگ اسکول و کالج یا گرائونڈ میں کچرا بڑی بے دردی سے ڈال دیتے ہیں جس سے تمام جگہ آلودہ ہوتی ہے ان کو بروقت نہ اٹھایا جائے تو شدید قسم کا تعفن پیدا ہوتا ہے ۔ عید قرباں کے زمانے میں لوگ مذبحہ جانوروں کے سر ، اوجھڑی وغیرہ پھینک دیتے ہیں راستوں ، گٹر وغیرہ پر ڈال دیتے ہیں جس سے تعفن کے علاوہ سیوریج کا

نظام بھی خراب ہو جاتاہے اس سے فضا آلودہ ہو جاتی ہے اور بکثرت بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں اسلام کے اصول نظافت و طہارت کا تقاضا ہے کہ اس طرح کے کام کرنے والوں کی خود یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ آباد علاقوں میں اس قسم کی غلاظتیں نہ پھیلائیں ۔حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہد نبوت میں بھی گندگی اور کچرا وغیرہ ڈالنے کی مخصوص جگہیں تھیں۔
تکلیف دہ چیزوں کا راستے سے ہٹانا
راستے سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا صدقہ ہے کسی نے کھونٹا گاڑا کہ لوگ جب کنویں کے پاس آئیں گے تو اس پر اپنے جانور باندھ لیں اور کسی نے راستے میں کھونٹا ہونے پر اس کو اکھاڑ پھینکا تو دونوں کو اجر ملے گا ، غیر مسلمان راستوں کو پہچان لیتے تھے جن پر کوئی کانٹا ، نوکیلا پتھر نہ ہو تاکہ ضرور یہاں سے کوئی مسلمان گزرا ہوگا کیوں کہ یہ ہمارے نبیؐ کی سنت ہے کہ کانٹا ، پتھر ، لکڑی راستہ سے صاف کر دیا کرتے تھے ۔
پلاسٹک شاپر ز
سامان کی پیکنگ بھی ایک اہم ضرورت ہے لیکن اس کے لیے آج کل جس قسم کی پلاسٹک کی تھیلیاں دستیاب ہیں وہ زمین میں تحلیل نہیں ہوتیں اور اگر ان کو جلایا جائے تو بہت کثیف دھواں پیدا ہوتا ہے مگر سستا اور خوشنما اور با سہولت ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال بکثرت ہوتا ہے ماہرین نے ان کو انتہائی فضائی آلودگی کے لیے خطر ناک قرار دیا ہے مگر اس پر تاحال کوئی پابندی عائد نہیں ہوئی ہے اس سے خطر ناک ایکسیڈنٹ بھی ہوئے ہیں مگر یہ روز مرہ میں چند مقامات کے علاوہ ابھی بھی استعمال میں ہے جب کہ اس کے مقابلے میں کپڑے کے بیگ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
بلا تکلف عوامی مقامات پر گندگی پھیلانا
عوامی مقامات پر خصوصاً بسوں کے اڈوں اور ریلوے اسٹیشن پر لوگ رفع حاجت کرتے ہیں بہت سے لوگ گندا پانی اور فضلات بھی راستوں میں ڈال دیتے ہیں دیہی علاقوں میں کھلے نالے اور نالیاں بھی تعفن اور فضا کو آلودہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ کھلے میں پیشاب و پاخانہ کرنے کا رواج بھی بہت قدیم ہے عہد نبوت میں اکثر لوگ کھیتوں وغیرہ میں ہی استنجاکی حاجت کے لیے جاتے تھے مگر نبی کریم ؐ نے ہدایت کی تھی کہ عوامی مقامات اور راستے وغیرہ میں غلاظت نہ کی جائے ، پردہ کی جگہوں کاانتخاب کیا جائے اور حتی الامکان پانی کا استعمال کیا جائے ، آج کے دور میں بیت الخلاء بنانے کا عمومی رحجان ہے اور تقریباً تمام ہی عوامی مقامات پر استنجا وغیرہ کا پورا نظام موجودہے، راستے کھلی جگہوں پر پیشاب وغیرہ کرنا فضائی آلودگی کا سبب ہے اور اسلامی ہدایات کی صریح خلاف ورزی ہے ۔
انسداد ِ آلودگی کے لیے ممکنہ تدابیر
جہاں مسائل جنم لیتے ہیں وہاں مختلف صاحبان فکر و دانش ان مسائل کا قابل عمل حل بھی پیش کرتے ہیں۔اگر حکومت اور سوسائٹی کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ فکر حضرات انہیں نافذ العمل بنانے کے لیے کوشش کریں تو قوی امید کی جا سکتی ہے کہ آلودگی کوئی مسئلہ نہیں رہے گا ۔
(۱) ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ بہت اہم ہے لیکن عوام کے اندر اس کا شعور نہیں ہے اس کی بیداری کے لیے اخبارات ، ٹیلی ویژن ، ریڈیو ، انٹر نیٹ ، فیس بک اور ٹیوٹر پر آگاہی پیدا کی جائے ۔
(۲) طلبہ و طالبات میں اس کا شعور اجاگر کیا جائے اسکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں ماحولیات سے متعلق مضامین پڑھائے جائیں اور ماحول کو ایک لازمی مضمون قرار دیا جائے ۔
(۳) شہروں میں آلودگی کے مسائل کو کم کرنے کے لیے گاڑیوں کے اڈے دوربنائے جائیں اور اسی طرح مختلف منڈیاں مثلاً پھلوں کی یاسبزی کی منڈیوں کو شہری آبادی سے دور منتقل کیا جائے ۔
(۴) شہروں کی بذریعہ درست طور پر منصوبہ بندی کی جائے اور ماحولیاتی مسائل کو ہر اسکیم کا حصہ بنایا جائے ۔
(۵) قدرتی ماحول کی حفاظت کی جائے ۔
(۶) عوام کو شجر کاری کے فوائد سے آگاہ کیا جائے اور انہیں جگہ

جگہ درخت لگانے کے لیے آمادہ کیا جائے کیونکہ درختوں سے ماحول کی صفائی میں مدد ملتی ہے نیز درختوں کے کاٹنے پر پابندی عائد کی جائے ۔
(۷) شہری علاقوں میں پانی صاف کرنے کے زیادہ سے زیادہ پلانٹ لگائے جائیں اور پانی کے موجودہ ذرائع کی دیکھ بھال کی جائے ۔
(۸)فضائی آلودگی کی سطحیں اب صحیح معنوں میں ان حدوں کو چھوڑ رہی ہیں جو انتہائی خطر ناک ہیں کمپریسڈ نیچرل گیس کی بطور ایندھن حوصلہ افزائی کرنے کے علاوہ جیسی بھاری دھاتوں سے آلودہ ایندھنوں پر پابندی عائد کر دینی چاہیے ۔ بڑے شہروں کی سڑکوں پر گاڑیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانے کے لیے ایک موثر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی اشد ضرورت ہے۔
(۹) ہسپتالوں میں جمع شدہ فضلہ جات کو ٹھکانے لگانے کے لیے ان اداروں میںنے فضلہ جلانے کی بھٹیاں نصب کی جائیں جو ہسپتال یہ بھٹیاں نصب کروانے میں ناکام رہتے ہیں ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
(۱۰) تمام کارخانوں کی انتظامیہ کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ اپنے ملازمین اور کارکنوں کی حفظان صحت کا مکمل انتظام کرے اور ایسے طریقے اختیار کیے جائیں کہ ملازمین زہریلی گیسوں اور کیمیائی اجزاء کے نقصانات اور زخموں سے محفوظ رہ سکیں ۔ تمام کارخانوں او رفیکٹریوں کو شہر کی حدود کے اندر قائم ہونے کی اجازت نہ دی جائے اور اس مقصد کے لیے شہروں سے دور خاص مقامات کا تعین کیا جائے۔
(۱۱) مختلف گاڑیوں سے نکلنے والی آوازوںکے سد باب کے لیے عام قوانین بنائے جائیں جن میں گاڑیوں کے شورکی حد مقرر کی جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے ۔
(۱۲)دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کوروکنے کے لیے دیہات میں مختلف قسم کے پروجیکٹ شروع کیے جائیں ۔ عوام اور غیر حکومتی اداروں کے ذریعے روز گار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ کم سے کم لوگ شہر کی طرف روز گار کی تلاش میں آئیں۔
(۱۳)معاشرہ میں صحت مندانہ ماحول پیدا کرنے کے لیے کھیلوں کی طرف بھی خصوصی توجہ کی جائے اوربڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر نئے شہر آباد کیے جائیں ۔
(۱۴) دنیا سے غربت و جہالت کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ یہ آلودگی کے پھیلائو کا اہم سبب ہیں اور اقوام متحدہ کو بھی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
(۱۵) انفرادی و اجتماعی طور پر اسلام کے نظریے طہارت و نفاست پر عمل کیا جائے ۔ تاکہ ماحولیاتی آلودگی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔٭
…٭…٭

 

حسین بانو ۱؎
تلخیص و ترتیب:ص۔۱

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x