ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عید الاضحی – بتول جون ۲۰۲۲

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو خوشی کے دن عطا فرمائے ہیں عیدالفطر اور عید الاضحٰی۔ عیدالفطر رمضان کے مہینے کے بعد یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔اور عید الاضحٰی دس ذی الحجہ کو۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔
’’اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے بہترین دن دس ذی الحجہ ہے‘‘ (الجامی 1046)۔
کیونکہ اس دن میں بہت سی عبادات اکٹھی کی جاتی ہیں جو سال کے کسی اور دن میں نہیں کی جاتیں۔جیسے کہ:
جمرات کو کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، سر منڈوانا، طواف، سعی اور عید کی نماز۔
جو مسلمان پورا مہینہ اللہ ’’تعالیٰ کی عبادات اور فرمانبرداری میں مشغول رہ کر اس کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹتے ہیں ان میں سے بیشتر چاند رات کو ہی ان سب پہ پانی پھیر دیتے ہیں۔چاند رات کو خریداری اور سڑکوں پہ ہلے گلے میں وہ نماز اور اخلاق سب بھلا دیتے ہیں اس کی وجہ یا تو لاعلمی ہے یا کوتاہی۔اس لیے آج ہم عیدالفطر کو بمطابق سنت منانے کے طریقے جانتے ہیں۔
1: غسل
’’علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے غسل کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا۔ اگر تم چاہو تو روز نہا سکتے ہو۔لیکن جمعہ، عرفہ کے دن اور عید الفطر پہ ضرور غسل کرو۔’’ الشافعی مسند 385
2: نیا لباس پہننااور سجنا سنورنا
البہیقی نافع سے مستند اسناد کیساتھ روایت کرتے ہیں کہ:
’’ عمر رضی اللہ عنہ عید کے دن نیا لباس زیب تن فرماتے تھے‘‘۔
شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں۔’’عید کے دن سجنا سنورنا سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے‘‘(الصلہ و ابواب فی صلوۃ العید صفحہ 10)۔
3: خوشبو لگانا
ابن رجب الحنبلی کہتے ہیں۔’’میں نے امام مالک سے سنا ہے کہ علماء عید کے دن سجنے سنورنے اور خوشبو لگانے کو مستحب قرار دیتے ہیں‘‘(ابن رجب 6-68)۔
لیکن خواتین کو صرف گھر پہ ہی سجنا سنورنا اور خوشبو لگانا چاہیے۔ (الموسوع الفقیہہ)
بعض لوگ خواتین کو نماز کے لیے مسجد یا عید گاہ جانے کی اجازت نہیں دیتے ان کے لیے یہ حدیث کافی ہونی چاہیے۔
’’ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم نوجوان لڑکیوں اور حائضہ کو عیدین کی نماز کے لیے نکالیں ۔وہ مسلمانوں کی دعائوں اور امور خیر میں شریک ہوں البتہ حائضہ نماز گاہ سے دور رہے‘‘(صحیح بخاری 324۔974)۔
یعنی اتنی تاکید فرمائی کہ حائضہ کو بھی آنے کا حکم دیا گیا۔اسی موقعہ پہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواتین سے زکوٰۃ بھی لی۔
اور جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ (عید کے دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا، اس سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور انہیں نصیحت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا عورتیں اس میں خیرات ڈال رہی تھیں۔ میں نے اس پر عطاء سے پوچھا کہ کیا اس زمانہ میں بھی آپ امام پر یہ حق سمجھتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہونے

کے بعد وہ عورتوں کے پاس آ کر انہیں نصیحت کرے۔ انہوں نے فرمایا کہ بیشک یہ ان پر حق ہے اور سبب کیا جو وہ ایسا نہ کریں۔’’1144-961
سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے انہوں نے عدی بن ثابت سے انہوں نے سعید بن جبیر سےانہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کے دن دو رکعتیں پڑھیں نہ ان سے پہلے کوئی نفل پڑھا نہ ان کے بعد۔ پھر (خطبہ پڑھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس آئے اور بلال آپ کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا ’’خیرات کرو۔ وہ خیرات دینے لگیں کوئی اپنی بالی پیش کرنے لگی کوئی اپنا ہار دینے لگی‘‘(1147 – 964)
4: تکبیر
تکبیرات اس وقت تک کہنی چاہیے ہیں جب تک کہ امام خطبہ کے لیے نہ آ جائے۔
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔
5: متبادل راستے سے عید گاہ آنا اور جانا
’’جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید گاہ جانے اور آنے کے لیے دو مختلف راستے استعمال فرماتے تھے‘‘(ابن ماجہ 1298 ۔ بخاری 943۔986)۔
6: گھر سے میٹھا کھا کر جانا
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے کچھ میٹھا کھاتے تھے۔( سنن الترمذی 530۔ابن ماجہ 1294)
کھجورکھانا،مستحب ہے۔
7: لوگوں کو ملنے جانا
علماء کا کہنا ہے کہ متبادل راستہ اختیار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ زیادہ لوگوں سے ملاقات ہو سکے۔(فتح الباری 2-473)
8: مبارکباد دینا
جبیر ابن نفیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عید والے دن ایک دوسرے کو ملتے تو کہتے؎
تقبل اللہ منا و منکم۔
’’اللہ تم سے اور ہم سے قبول فرما لے‘‘(الحافظ الفتح الباری 2-517)۔
9: کھانا پینا اور تفریح
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تفریح فرماتے مگر اس میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور یہ خیال رکھتے کہ کچھ ایسا نہ کریں جس سے اللہ کی نافرمانی ہو۔جبکہ آج چاند رات شروع ہوتے ہی ہر جگہ ناچ گانے اور حرام کاموں کی شروعات ہو جاتی ہے۔
نسیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔
’’ ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کو یاد کرنے کے دن ہیں‘‘(مسلم 1141)
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: ’’یوم عرفہ، یوم نحراور ایام تشریق ہماری یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں‘‘۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عقبہ بن عامر ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
اس باب میں علی، سعد، ابو ہریرہ، جابر، نبیشہ، بشر بن سحیم، عبداللہ بن حذافہ، انس، حمزہ بن عمرو اسلمی، کعب بن مالک، عائشہ، عمرو بن عاص اور عبداللہ بن عمروسے بھی احادیث آئی ہیں۔
اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ ایام تشریق میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیتے ہیں۔ البتہ صحابہ کرام وغیرہم کی ایک جماعت نے حج تمتع کرنے والے کو اس کی رخصت دی ہے جب وہ ہدی نہ پائے اور اس نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن میں روزے نہ رکھے ہوں کہ وہ ایام تشریق میں روزہ رکھے۔ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

’’انس بن مالک فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو مدینہ میں دو دن مقرر تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے تھے۔آپ صلعم نے فرمایا۔’’ ان دو دنوں کو اللہ تعالیٰ نے دو بہتر دنوں سے بدل دیا ہے عید الفطر اور عید الاضحی‘‘( صحیح بخاری 956۔بلاغ المرام 494)۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’ عید والے دن دو حبشی نیزہ بازی کر رہے تھےنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے پوچھا : کیا تم کرتب دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں۔تب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کیا‘‘اور فرمایا۔
’’ جاری رکھو بنو ارفدہ۔’’
جب میں تھک گئی تو آپ صلعم نے پوچھا۔
’’ کیا تم تھک گئی ہو؟‘‘
میں نے جواب دیا: ’’جی ہاں‘‘۔آپ نے فرمایا: اچھا پھر جائو(صحیح البخاری 907۔المسلم 892)۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تفریح کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن نامحرموں کیساتھ اختلاط نہ ہو۔کسی اچھی جگہ سیر کے لیے یا تفریح کے لیے جایا جا سکتا ہے۔
النووی فرماتے ہیں کہ ’’عید کے دن ایسے کھیل کھیلنے میں کوئی حرج نہیں جس میں کوئی گناہ نہ ہو‘‘۔
حافظ ابن الحجر فرماتے ہیں۔’’ عید کے دن اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم ہے ایسے کام کریں جن سے انہیں خوشی اور سکون ملے۔اور وہ عبادات کی سختی کےبعد کچھ آرام پا سکیں‘‘( فتح الباری 2-514)۔
شیخ عثیمین فرماتے ہیں۔’’ عید والے دن تحائف اور کھانے کی اشیاء کے تبادلے میں کوئی حرج نہیں‘‘(مجموعہ فتاوی الشیخ عثیمین 16-2761)۔
10:قربانى كا ارادہ ركھنے والے كے ليے كيا كچھ ممنوع ہے
جب ذوالحجہ كا چاند نظر آ جائے تو جو شخص قربانى كرنے كا ارادہ ركھتا ہو اس كے ليے اپنے جسم كے بال اور ناخن كاٹنے يا پھر جلد كاٹنا حرام ہے، ليكن اس كے ليے نيا لباس زيب تن كرنا اور مہندى اور خوشبو لگانا يا پھر بيوى سے مجامعت حرام نہيں۔
يہ حكم صرف اس شخص كے ليے ہے جو شخص قربانى كرنا چاہتا ہے اس كے اہل خانہ كے باقى افراد كے ليے نہيں، اور جسے قربانى كرنے كا وكيل بنايا گيا ہے اس كے ليے بھى يہ حكم نہيں ہے چنانچہ اس كى بيوى اور بچوں اور وكيل پر يہ اشياء حرام نہيں۔
اس حكم ميں عورت اور مرد دونوں برابر ہيں، اس ليے اگر عورت اپنى جانب سے قربانى كرنے كا ارادہ ركھتى ہو چاہے وہ شادى شدہ ہے يا نہيں تو عمومى نصوص كى بنا پر اس كے ليے اپنے بال اور ناخن كاٹنے منع ہيں۔
اور اسے احرام كا نام نہيں ديا جا سكتا؛ كيونكہ احرام تو صرف حج يا عمرہ كے ليے ہوتا ہے، اور پھر محرم شخص احرام كى چادريں زيب تن كرتا ہے اور اس كے ليے خوشبو كا استعمال اور بيوى سے جماع كرنا اور شكار كرنا جائز نہيں، ليكن قربانى كا ارادہ ركھنے والے شخص كے ليے ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد يہ سب كچھ جائز ہے، صرف اس كے ليے بال اور ناخن كٹوانے اور اپنى جلد كاٹنى ممنوع ہے۔
ام سلمہ رضى اللہ تعالىٰ عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
’’ جب تم ذوالحجہ كا چاند ديكھ لو تو تم ميں سے قربانى كرنے كا ارادہ ركھنے والا شخص اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے ‘‘(صحيح مسلم حديث نمبر ( 1977 )۔
اور ايك روايت ميں ہے كہ:
’’ تو وہ اپنے بال اور جلد ميں سے كچھ بھى نہ كاٹے‘‘ بشرہ انسان كى ظاہرى جلد كو كہتے ہيں۔
مستقل فتوىٰ كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
’’ قربانى كا ارادہ ركھنے والے شخص كے ليے ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد مشروع ہے كہ وہ قربانى كرنے تك اپنے بال اور ناخن اور اپنى جلد نہ كاٹے؛ ‘‘اس كى دليل بخارى كے علاوہ باقى آئمہ حديث كى درج ذيل روايت ہے:

’’ام سلمہ رضى اللہ تعالىٰ عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
’’جب تم ذوالحجہ كا چاند ديكھ لو اور قربانى كرنا چاہو تو اپنے بال اور ناخن نہ كاٹو ‘‘
اور ابو دائود اور نسائى كے الفاظ يہ ہيں:
’’ جو شخص بھى قربانى كرنا چاہے تو ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد قربانى كرنے تك اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے ‘‘۔
چاہے اس نے اپنے ہاتھ سے قربانى كرنى ہو يا كسى كو قربانى كرنے كا وكيل بنايا ہو، ليكن جس كى طرف سے قربانى كى جا رہى ہے اس كے حق ميں ايسا كرنا مشروع نہيں، مثلا بيوى بچے كيونكہ اس كے متعلق كوئى دليل نہيں، اور اسے احرام كا نام نہيں ديا جا سكتا، بلكہ محرم شخص تو وہ ہے جو حج يا عمرہ يا پھر دونوں كا احرام باندھے ’’ انتہى.
فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء 11 / 397
مستقل فتوىٰ كميٹى كے علماء کےمطابق
حديث ہے كہ:
’’ جو شخص قربانى كرنا چاہے يہ اس كى جانب سے قربانى كى جائے تو وہ ذوالحجہ كا چاند نظر آنے سے لے کر قربانى كرنے تك اپنے بال اور ناخن اور اپنى جلد نہ كاٹے ‘‘
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
’’ جب تم ذوالحجہ كا چاند ديكھ لو اور تم ميں سے كوئى شخص قربانى كرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ كٹائے ‘‘
اور ابو دائود كے الفاظ يہ ہيں ـ اور مسلم اور نسائى كے بھى يہى ہيں:
’’ جس شخص كے پاس قربانى كا جانور ہو اور وہ اس كى قربانى كرنا چاہتا ہو تو ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد قربانى كرنے تك وہ اپنے بال اور ناخن اور اپنى جلد نہ كٹوائے ‘‘
چنانچہ يہ حديث قربانى كرنے والے شخص كے ليے ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد سے لے کر قربانى كرنے تك بال اور ناخن كاٹنے كى ممانعت پر دلالت كرتى ہے۔
پہلى روايت ميں امر اور ترك كا حكم ہے اور اس ميں اصل وجوب كا مقتضى ہےاس اصل سے كسى اور معنى ميں لينا ہمارے علم ميں تو نہيں، اور دوسرى روايت ميں كاٹنے كى ممانعت ہے، اوراس كا تقاضا تحريم ہے يعنى كاٹنے كى حرمت۔
تو اس سے يہ واضح ہؤا كہ يہ حديث صرف اس شخص كے ليے خاص ہے جو قربانى كرنا چاہتا ہے اور جس كى جانب سے قربانى كى جارہى ہے چاہے وہ چھوٹا ہو يا بڑا اس كے ليے اپنے ناخن اور بال كاٹنے كى كوئى ممانعت نہيں، اصل ميں اس كے ليے جائز ہے۔اور اس اصل كے خلاف ہمارے علم ميں تو كوئى دليل نہيں ہے ‘‘( انتہى،فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء 11 / 426)
استطاعت نہ ہونے كى بنا پر جو شخص قربانى نہيں كرنا چاہتا اس كے ليے ناخن اور بال كاٹنا حرام نہيں، اور جو شخص قربانى كرنا چاہتا ہو اور وہ اپنے بال اور ناخن كاٹ لے تو اس پر كوئى فديہ لازم نہيں آتا۔ ليكن اس كے ليے توبہ و استغفار كرنا واجب ہے۔
ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
’’جو شخص بھى قربانى كرنا چاہتا ہو تو اس پر فرض ہے كہ ذوالحجہ كا چاند نظر آنے كے بعد قربانى كرنے تك وہ اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے، نہ تو ٹنڈ كرائے اور نہ ہى بال چھوٹے كروائے، اور جو شخص قربانى نہيں كرنا چاہتا اس كے ليے يہ لازم نہيں‘‘(المحلى ابن حزم 6 / 3)۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
’’جب يہ ثابت ہو گيا تو پھر ناخن اور بال نہيں كاٹے جائیں گے، اور اگر كوئى ايسا كرے تو اسے توبہ و استغفار كرنا ہوگى، بالاجماع اس پر كوئى فديہ نہيں، چاہے وہ يہ فعل عمداً كرے يا بھول كر‘‘(المغنى ابن قدامہ 9 / 346)۔
امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
’’اس نہى ميں حكمت يہ ہے كہ: كامل اجزاء آگ سے آزادى كے ليے باقى رہيں، اور ايك قول يہ ہے كہ: محرم كے ساتھ تشبيہ كى بنا پر’’يہ

دونوں وجہيں امام نووى نے بيان كى ہيں، اور اصحاب شافعى سے بيان كيا جاتا ہے كہ دوسرى وجہ غلط ہے؛ كيونكہ نہ تو وہ عورتوں سے عليحدہ ہوتا ہے، اور نہ ہی خوشبو اور لباس كا استعمال اس كے ليے ممنوع ہے اس كے علاوہ باقى اشياء جو حالت احرام ميں ممنوع ہيں وہ بھى ممنوع نہيں(نيل الاوطار 5 / 133)۔
11:نماز عید
نماز عید ہر مسلمان مردوعورت پہ واجب ہے جسے کوئی شرعی عذر نہ ہو مثلا بیماری وغیرہ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا حکم دیا ہے۔یہ نمازعید گاہ یا کھلے میدان میں پڑھی جاتی ہے۔اس سے پہلے یا بعد میں کوئی سنت نہیں البتہ تحیتہ المسجد پڑھے جا سکتے ہیں۔
’’ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید کی نماز دو رکعت پڑھی نہ اس سے پہلے کوئی نماز،پڑھی نہ اس کے بعد‘‘( صحیح البخاری 964 مسلم 884)۔
’’عید کی نماز کے لیے نہ ہی اذان کہی جائے گی نہ ہی اقامت کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عید بغیر اذان و اقامت کے پڑھی ہے‘‘( ابی داؤد 1147)۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں‘۔’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب عیدین کی نماز کے لیے نکلتے تو سب سے پہلے نمازپڑھتے اور پھر لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے۔لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے آپ انہیں وعظ کرتے اور حکم دیتے‘‘( صحیح البخاری 956 مسلم 889)۔
یعنی پہلے نمازپڑھی جاتی ہے پھر خطبہ ہوتا ہے۔جس میں امام احکام الٰہی بیان کرتا ہے اور نصیحت کرتا ہے۔
نمازعید میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرآت سے پہلے پانچ تکبیریں ہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔’’ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: عید کے دن پہلی رکعت میں سات بار تکبیر کہنا ہے اور دوسری رکعت میں پانچ بار۔اور قرأت دونوں رکعات میں تکبیرات کے بعد ہے‘‘( سنن ابی داؤد 1150 بلاغ المرام 4957)۔
12: قربانی
قربانی ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔نماز،عید سے پہلے جانور ذبح کر دیا جائے تو قربانی نہیں ہوتی۔قربانی کے لیے سب سے پہلے نیت ہونی چاہیے۔پھر چھری تیز ہو(امام احمد ۔مسلم 1987)۔
جانور کو بائیں پہلو پہ لٹا کر اس کی گردن پہ پائوں رکھا جائے اور بائیں ہاتھ سے گردن پکڑ کر دائیں ہاتھ سے اللہ اکبر کہتے ہوئے چھری چلائی جائے(مسلم 1955،بخاری 5565)۔
جانور کے سامنے نہ تو چھری تیز کی جائے نہ ہی ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہماری عبادات و دعائیں قبول فرمائے اور ہمیں تمام احکام الٰہی اور سنتوں پہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x