ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

گڈو، آپا اور دُودھ مدھانی – بتول دسمبر۲۰۲۲

گڈو کی آنکھ نور کے تڑکے ہی کھل جاتی ،سماں ہی کچھ ایسا ہوتا۔ کانوں میں مدھر، دلکش اور مسحور کن ساز اور آوازکی سنگت رس گھولنے لگتی اور پانچ سالہ گڈو کو کوئی غیبی قوت خوابوں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں کھینچ لاتی ۔ نرم گرم بستر میں دُبکی گڈو آنکھیں پٹ پٹا کر سامنے کے منظر پر ٹکا دیتی ، دیے کی مدھم لو میں آپا کا سراپا بہت پر کشش لگتا ، وہ بڑی ساری پیڑھی پر بیٹھی دھیمی آواز میںدر ود پاکؐ کا ورد کر رہی ہوتیں۔دُودھ بلونے والی مدھانی کی کلیاں اُن کے دونوں ہاتھوں میں ہوتیں وہ زور سے ایک کو اپنی طرف کھینچتی تو دوسری کلی مدھانی کے ساتھ لپٹ کر پیچھے چلی جاتی، بڑی ساری مٹی کی چاٹی کے اندر چلتی ہوئی رنگیل مدھانی کی گررڈ گررڈ کا ساز اور آپا کی پر سوزآواز میں جاری درود شریف کا ورد گڈو کے ذہن و قلب میں عجب طمانیت بھردیتا ، وہ گردو پیش سے بے نیاز اس نظارے میں محور ہتی ، آپا ، چھ کلمے ، چاروں قل اور پورا پنج سورہ پڑھ جاتیں، یہ ساز اور آواز جاری رہتے گڈو ان میں کھوئی رہتی ، وقت بیتا رہتا ، اچانک بے ساختہ گڈو کے ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑتے آپا چونک کر سر اٹھاتیں ، حیرانی سے جاگتی گڈو کو دیکھتیں تووہ جھٹ سے لحاف میں منہ دے کر سونے کا ڈھونگ رچا لیتی ۔آپا دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو جاتیں گڈو چپکے سے لحاف سے سر باہر نکالتی اور دوبارہ اُس نظارہ سے لطف اندوز ہونے لگتی ، مسکراہٹ اُس کے لبوں پر کھیلتی رہتی ، بے چین قہقہوں کو وہ بڑی مشکل سے لگا دیتی ۔دیے کی مدھم روشنی میں آپا کی دائیں طرف والی دیوار پر بنتی بگڑتی آپا کی شکل گڈو کی نگاہوں کا مرکز ہوتی اور دلچسپی کابھی ، آپا کا سایہ کبھی چھوٹا ہو جاتا اورکبھی بڑا ، ہل ہل کر تسبیحات پڑھنا اور مدھانی چلانا ، دیوار پر مختلف شکلیں بنا دیتا اور اُس وقت تو گڈو کو اپنے قہقہے روکنے کے لیے منہ پر زور سے دونوں ہاتھ رکھنے پڑ تے جب آپا نیچے جھک کر مدھانی کا ڈھکنا اٹھا کر چاٹی کے اندر جھانکتیں تو گڈو کی نظریں آپا سے زیادہ اُس سایہ کا طواف کر رہی ہوتیں جس میں آپا کی ناک بہت لمبی ہو جاتی اور گڈو کو جادوگرنی کی کہانی یاد آجاتی ۔
’’ لمبی ناک والی جادو گرنی‘‘وہ خود بخود اپنے اس خیال پر مسکرا اٹھتی ۔آپا اپنا ہاتھ چاٹی کے اندر ڈالتیں مکھن بننے کا اندازہ لگا تیں اور پھر سیدھی ہو جاتیں سایہ بھی اپنی اصلی حالت میں آجاتا ، یہ کھیل ، مکھن بننے اور نکالنے تک جاری رہتا ، تب تک آپا قرآن کا حفظ کیا ہؤا حصہ خوش الحانی سے پڑھ چکی ہوتیں ، کلمہ طیبہ کا ورد بھی مکمل ہو جاتا ،مکھن سنبھال کر سلور کی دیگچی میں ڈالتیں اور پچھلی کوٹھڑی کی چھت سے لٹکے چھکے میں ٹکا دیتیں تاکہ محفوظ رہے اور بلی کے بھاگوں چھکا نہ ٹوٹ جائے ۔برتن سمیٹتی ، جگہ صاف کرتیں اور دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتیں گڈو کی دلچسپی کا سامان ختم ہو جاتا تو وہ انگڑائی لے کر اٹھتی اور فجر کی نماز کی تیاری شروع کر دیتی ۔
سارا گھرجاگ اٹھتا اماں سب کو ناشتہ کرانے کا اہتمام کرتیں ۔ آپا نے دودھ ، دہی ، لسی ، مکھن تیار رکھا ہوتا ، بالائی والی کاڑھنی ( دیگچی) میں دہی ڈال کر رات کی بچی ہوئی روٹیوں کی چوری ملاتیں اوپر شکر ڈالتیں اور سب بچوں کو کھانے کی دعوت دیتیں رات کی روٹیوں پر مکھن کے پیڑے رکھ کر بھی دیے جاتے ، اَدھ رڑکے دودھ و دہی کی لسی کے گلاس ساتھ ہوتے اور بعد میں دودھ پتی پلائی جاتی اس سے فارغ ہوتے ہی گڈو اور بڑی بہن کو سپارہ پڑھنے کے لیے بوا جی کے گھر روانہ کر دیا جاتا ۔ دونوںبہنیں دوپٹوں کی گھُٹ کر بکلیں مارتیں سپاروں کو اندر چھپاتیں اور اپنا رستہ پکڑ لیتیں ،واپس آنے پر حویلی کا صحن شیشہ کی طرح چمک رہا ہوتا اور یہ سب آپا کے ہاتھ کا کمال ہوتا ، آپا تو فجر کے فوراً بعد بھینسوں کا دودھ دھو چکی ہوتیں ایک بھینس تو آپا ہی کی ہو کر رہ گئی تھی کسی اور کو ہاتھ ہی نہیں لگانے دیتی تھی آپا بھی بڑے چائو سے اُس کو نہلاتیں اور پھر بڑی ساری پیتل کی بالٹی میں اُس کا دودھ نکالتیں پھر بڑے سارے دیگچے میں ڈال کر بھٹی میں اُپلے ترتیب سے رکھ کر سُلگا کر رکھ دیتیں گاہے گاہے دیکھتی رہتیں ، دودھ ، دہی ، مکھن ، گھی کو سنبھالنا آپا کا محبوب مشغلہ تھا شام کا سارا دودھ کوئلوں پر رکھ کر گُڑ ڈال دیتیں وہ دھیمی آنچ پر کڑھتا رہتا رات کے کھانے کے بعد سونے سے پہلے پیالے بھر بھر کر سب چھوٹے بڑوں کو دیا جاتا گھر کی خالص غذائیں کھا کھا کر اور دودھ ، دہی ، مکھن اور گھی کو سنبھالتے ، کھاتے ، کھلاتے سب پر خوب رنگ روپ چڑھا تھا سب اپنی عمروں سے چار چار سال بڑے اور بالکل پٹھانوں کی طرح سرخ و سفید ہو گئے تھے ۔
شام کو آپا جب دودھ نکالنے کے لیے بیٹھتیں تو گڈو سمیت سب چھوٹے بہن بھائیوں کو آواز دیتیں کہ اپنے اپنے گلاس میں تھوڑی تھوڑی لسی ڈال کر میرے پاس آجائو سب قطار میںآ کھڑے ہوتے آپا ایک ایک گلاس پکڑتیں اور اُس میں بھینس کے دودھ کی تیز دھاریں مار کر واپس پکڑا دیتیں اس کو تریڈ کہا جاتا تھا سب بہت مزے سے پیتے ۔
اماں بتاتی تھیں کہ اس آمیزہ کی تاثیر بہت ٹھنڈی ہوتی ہے گرمیوں میں پھوڑے پھنسیاں نہیں نکلتے ، آنکھیں دُکھنے نہیں آتیں اور گرمی کا اثر نہیں ہوتا ، لیکن اس کے باوجود یہ سب کچھ ظہور میں آجاتا ۔وجہ یہ بنتی کہ گرمیوں کی لمبی اور تپتی دوپہریں جہاں بڑوں کی سستانے میں گزرتیں اُن چند لمحوں کو غنیمت جان کر گڈو اور باقی بچے پپلوںاور نیم کے درختوں پر چڑھے کچا پکا پھل کھاتے جس کا نتیجہ پھوڑے پھنسیوں اور آنکھیں دُکھنے کی صورت میں نکلتا تمام بھید کھل جاتے پھر آپا ہوتیں اور بچے ، گڈو کو اچھی طرح یاد ہے کہ آپا روئی کو تازہ دودھ میں بھگو کر پھاہے بناتیں اور بچوں کی آنکھوں پررکھ دیتیں ، صبح اٹھنے پر آنکھیں پھر بھی بند اور بُری طرح جڑی ہوئی ملتیں ، گد سے بھری ہوتیں آپا ایک ایک بچے کو محبت سے اٹھاتیں ہاتھ پکڑ کر نلکے تک لے جاتیں کھُرے کی منڈیر پر بٹھاتیں نلکا چلا کر لوٹا بھرتیں اور اپنے نرم ہاتھوں سے آنکھوں کو صاف کرنے لگ جاتیں بچے منہ پھاڑ کرراگ الاپتے ، اُن کی توجہ بٹانے کے لیے آپا اپنی پیاری آواز میں گیت گنگنانے لگ جاتیں سب رونا دھونا چھوڑ کر گیت کی طرف متوجہ ہو جاتے گیت بھی تو بچوں کی خواہش کے مطابق ہی ہوتا تھا۔
چیچی میچی کوکو کھائے
چیجی ہماری گڈوکھائے
جس بچے کی آنکھیں دھونے کی باری آتی گیت میں اُس کا نام شامل ہو جاتا ، چیجی کا تصور ہی اتنا خوش کن ہوتا کہ اس تصور میں ڈوبے ڈوبے آنکھیں کھل جاتیں ، اور پھر فوراً اس چیجی کی فرمائش شروع ہو جاتی جس کا گیت آپا سناتیں ، اسی دن سے آپا دودھ دہی کی مقدار بڑھا دیتیں ، صبح صبح گاڑھی دودھ جیسی میٹھی لسی پلائی جاتی تو کبھی دودھ سوڈا اور کبھی مکھن میں تلے پراٹھے آپا خالص دودھ سے کھیر بنا کر مٹی کی کنالیوں میں ڈال کراوپر شکر چھڑک دیتیں اور گڈو پارٹی سے کہتیں کہ جا کر بچوں کو بلا کر لائو ، بچوں کو نیا اور دلچسپ مشغلہ ہاتھ آجاتا فوراً حویلی کے بڑے پھاٹک سے باہر نکل کر آواز لگاتے ۔
’’ کُڑیو ، مُنڈیو ، کھیر پکی اے ، کھا لو ‘‘۔
بچوں کا مجمع بن جاتا پانچ چھ بچوں کے سامنے ایک کنالی رکھ دیتیں اور ہاتھ سے مل کر کھانے کا حکم دیتیں ،کنالیاں منٹوں میں خالی ہو جاتیں آپا کا چہرہ خوشی سے گلنار ہو جاتا ۔ آپا کا دوسرادل پسند کام صفائی ستھرائی اور طریقہ سلیقہ تھا، درو دیوار ، کپڑے لتے ، بچوں کا ہاتھ منہ اور پیروں تک کی صفائی کا آپا خاص خیال رکھتیں سب بچوں کو خوب رگڑ رگڑائی کر کے نہلانا ،دودھ دہی سروں میں ڈالنا ، صابن لگا کر خوب ملنا ، جھانویں سے پیروں کو اوپرنیچے سے رگڑ نا اور پھر ننگے پائوں پھرنے سے منع کرنا آپا کے پسندیدہ کام تھے ۔ سردیوں میں مٹی میں کھیل کر ہمارے پیروں کا بُرا حال ہو جاتا ، آپا بڑے سارے تسلے میں گرم پانی ڈالتیں اور ہمارے پیروں کو اس میں ڈبو کر بٹھا دیتیں ، راتوں کو چہروں پر مکھن اور دیسی گھی مل دیتی تھیں اور دن میں گرم پانی سے دھوتی تھیں اور پیروں کو گرم پانی میں نرم کر کے جھانواں ہاتھ میں پکڑ کر اپنی مخصوص بڑی پیڑھی پر بیٹھ جاتیں آپا مزاجاً مزاح پسند تھیں ہمارے ایک پیر کو اپنے ہاتھ میں تھام ، دوسرے میں جھانواں اور زبان پر مزاحیہ کلمات جاری ہو جاتے تاکہ بچوں کو تکلیف کا احساس کم سے کم ہو ۔
’’ چلوآئو ، ہُن تھواڈے کھُرنڈے وَڈاں‘‘ (آئو! اب میں تمہارے پائوں صاف کروں ) یہ کہتے ہوئے خود ہنس ہنس کر دوہری ہو جاتیں ، بچے بھی روہانسی ہنسی ہنسنے لگتے اُن کو اپنے پیروں پر کلہاڑے چلنے کا احساس ہی نہ ہوتا اس سارے عمل سے فارغ ہو کر سب کے پیروں پر ویزلین لگا ، جرابیں جوتے پہنا نصیحتوں کا ٹوکرا ہمارے سروں پررکھ کر رخصت کر دیتیں ،ہم اپنے ہاتھ پھیروں کو پہچان نہ پاتے ہماری رنگت نکھر کر آپا کی دودھ مدھانی جیسی ہو جاتی ۔ ہماری اُجلی صورت دیکھ کر ہماری بڑی آپا کا بیٹا جو ہمارا ہی ہم عمر تھا بے ساختہ حسرت سے بول اٹھتا ۔
’’ ماسی! مینوں وی اُوس صابن دے نال نوا، جیدے نال گڈیاں نوں نوایا اے ‘‘( ماسی ! مجھے بھی اُس صابن سے نہلائو جس کے ساتھ گڈیوں ( ہم لوگ) کو نہلایا یا ہے ) حویلی کا صحن قہقہوں سے گونج اٹھتا ، ہمارے اس بھانجے کا رنگ ہم سے سانوالا تھا۔
آپا پورے گائوں کی ہر دلعزیز بیٹی تھی بات ہی کچھ ایسی تھی آپا میں قدرت نے خوبیاں ہی اتنی جمع کردی تھیں وہ ایک ایک کا خیال رکھتیں ، خلوص، محبت ، ایثار ، قربانی تو ان میں کوٹ کوٹ کربھری تھیں بچے بوڑھے سب ان کے لیے دعا گو رہتے وہ سب کی آپا تھیں وہ پورے گائوں والوںکے دلوں پہ راج کرتی تھیں ہر ایک کی خبر گیری کرنا ہر جنس میں سے ضرورت مندوں کا حصہ نکالنا ،پکی ہوئی چیزیں دوسروں کے گھروں میں دے کر آنا ، آتے جاتے گھریلو مسائل سے آگاہی حاصل کرنا سب کے دُکھ بانٹنا ، یہ سب آپا کے مشاغل میں شامل تھا ۔ عورتیں اور بچے اگر لسی لینے کے لیے آتے تو اس میں مکھن کا پیڑہ ضروررکھ دیتیں ، ابا نے حویلی کے پچھواڑے چھوٹا سا مکان بنا کر ضرورت مند خاندان کو دیا ہؤا ہوتا تھا وہاں ایک قصائی اور اُس کے بیوی بچے رہتے تھے اُن کے دوبیٹے سات سال اور پانچ سال کے تھے دونوں مفلوج تھے ذہنی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی ، آپا کا اُن کے ساتھ بھی عجب ہی معاملہ تھا وہ گھسٹتے ہوئے آکر حویلی کے چھوٹے بیرونی گیٹ کی چوکھٹ سے لگ کر بیٹھ جاتے اور عجیب و غریب آوازیں نکالتے رہتے اپناایک ہاتھ کان پر رکھ کر دوسرا قوالی کے اندازمیں اوپر اٹھا کر آ، آ، کی لمبی آوازیں نکالتے ، آنکھوں کو گول گول گھما کر سفید کر لیتے اور آسمان کی طرف دیکھنے لگ جاتے پھر دروازہ میں سے اندر جھانکنے لگتے ، آپا تو جیسے منتظر ہی ہوتیں کان میں آواز پڑتے ہی دوڑی آتیں بچوں کی نظر جیسے ہی آپا پر پڑتی اُن کی چیخ و پکار زور پکڑ لیتی وہ مسکرا کر آپا کو دیکھتے کلکاریاں بھرتے کوشش کر کے آگے کھسکنے کی کرتے ان کے ٹیڑھے میڑھے کمزور بازو آپا کی طرف اٹھ جاتے آپا کی بھی دوڑیں لگ جاتیں ان کے لیے سنبھال کر رکھی کھانے کی چیزیں کٹوریوں میں بھر کر ان کے آگے رکھتیں ، وہ رال ٹپکاتے کھانے میں مصروف ہو جاتے اور آپا ، وہ محبت سے اُن کو کھڑی دیکھتی رہتیں چیزیں ڈالتی رہتیں جب وہ خود ہاتھ کھینچ لیتے تو کٹوریاں اٹھا تیں ، منہ ہاتھ صاف کرتیں ، وہ دونوں عجب تشکر آمیز نگاہوں سے آپا کو دیکھتے آسمان کی طرف منہ اٹھاتے اور اپنے مخصوص انداز میں آ، آ کرتے اپنے گھر کی طرف پلٹ جاتے ، آپا کے چہرہ سے خوشی پھوٹی پڑ رہی ہوتی ، آپا ، غریب مسکین اور محتاجوں کے لیے بہت بڑا خدائی انعام تھیں گڈو یہ سب دیکھتی اور دنگ رہ جاتی ، آپا جتنی خوب صورت تھیں اُس سے زیادہ خوب سیرت تھیں ان کا دل بھی دودھ کی طرح سفید اور پاکیزہ تھا ان کا روزانہ کا معمول تھا نماز، ذکر اذکار سے تووہ نور کے تڑکے ہی فارغ ہو جاتیں پھر سارا دن مخلوق خدا کی خدمت میں لگی رہتیں کبھی ماتھے پر بل نہ ڈالا ، گڈو سوچتی ، آپا کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں گھر میں چولھا نہیں جلا ، فلاں گھر میں آٹا ختم ہو گیا ، فلاں بیمار ہے وہ دیکھتی کہ آپا کبھی آٹے کی گٹھڑی اٹھائے جا رہی ہیں تو کبھی کٹورا سالن کا بھر کر لے جا رہی ہیں اور ضرورت مندوں کا دل رکھنے کے لیے ان کے گھر کا پکا ہوا سالن چھوٹی سی کٹوری میں لے کر آ رہی ہیں اور ان سے یہ کہہ رہی ہیں کہ یہ تو مجھے بہت پسند ہے گڈو حیرانی سے پوچھتی ۔
’’آپا ! ہمارے گھر میں تو سالن پکا ہؤا ہے آپ ان سے کیوں لے کر آئیں ہیں ؟‘‘
’’ گڈو تم ابھی نہیں سمجھو گی ، اس طرح محبت بڑھتی ہے اُن کو بھی اپنا آپ اہم لگتا ہے ‘‘۔
اور گڈو کچھ نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتی ۔ گائوں کے ضعیف بابے ، حویلی کے باہر درختوں کے جھنڈ کی چھائوں میں بچھی کھاٹوں پر لیٹے کھانستے رہتے ، آپا اُن کو گڑ والی چائے بناکردیتیں تو کبھی حقہ تازہ کر کے اور کبھی چنگیر میں سالن روٹی رکھ کرپیش کرتیں ، گڈو یہ سب دیکھتی اورسوچتی کہ آپا نہ تھکتی ہیں نہ اَکتی ہیں نہ ان کو اونگھ آتی ہے نہ نیند یہ کس مٹی کی بنی ہوئی ہیں ہر وقت دوسروں کی خدمت میں لگی رہتی ہیں ، گھر کے تمام چھوٹے بڑوں کا خیال، ڈھور ڈنگروں سے محبت ،معذور بچوں اور بابوں کی دلجوئی ، غرض خالق کی محبت کو پانے کے لیے مخلوق خدا کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتیں ، بڑے بوڑھے ہمیشہ دعا دیتے ۔
’ ’ بیٹی !اللہ تیرا نصیب اچھا کرے ،دودھوں نہائیں پوتوں پھلیں‘‘۔(اللہ تینوں دودھ پُت دوے) آپا خوش ہو کر ساری دعائیں جھولی میں بھر لیتیں ،آپا ہر ایک کی خدائی خدمت گار تھیں ، دل کی بہت سخی تھیں دو چار دن بعد میٹھی چیز منگوا کر یا پکا کر بچوں کا میلہ لگا لیتیں ، آپا چھوٹے بچوں پر بہت شفقت کاہاتھ رکھتیں آپا کی سخاوت اور در یا دلی کو بچہ بچہ جانتا تھا حویلی کے صحن میں لگے پودوں کونلکا چلا کر پانی لگایا جاتا اوروہ بھی بالٹیاں بھر کر ، ابھی موٹر اور پائپ نہیں آئے تھے اور یہ سارا کام آٹھ دس سال کے بچے کرتے تھے وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے کی کوشش کرتے اور تپتی دوپہر میں ہی آن کھڑے ہوتے وہ جانتے تھے کہ آپا ہمیں اس کا معاوضہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ دیں گی ۔بچے جاتے ہوئے مالا مال ہوکر جاتے آپا کے گردبچوں کا جمگھٹا لگا رہتا اورآپا وہ تو ہر ایک کی مٹھی گرم رکھتیں۔
گڈو کو رہ رہ کر آپا کی خوبیاں یاد آ رہی تھیں وہ خود ہی مسکرائے جا رہی تھی آپا ضرورت سے زیادہ صفائی پسند تھیں وہ نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی صفائی کی بھی اُتنی ہی قائل تھیں پاک دل پاک طینت آپا کو ظاہری صفائی سے بھی عشق تھا گرمیوں میں وہ گڈو اور باقی چھوٹے بہن بھائیوں کو نہائے بغیر بستروں میں نہیں گھسنے دیتی تھیں اُجلے بستروں میں وہ انہیں شہزادے شہزادیوں کی طرح سونے کی ترغیب دیتیں، ترتیب وتنظیم بھی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی مجال ہے کسی کی کوئی چیز بے ترتیب پڑی ہو حتیٰ کہ جانوروں کا باڑہ بھی لشکارے مار رہا ہوتا تھا جانوروں تک کو انہوں نے صفائی ستھرائی کاعادی بنا دیا تھا ، حویلی میں ابھی پکا فرش نہیں لگا تھا اس کے باوجود آپا کے ہاتھوں کی صفائی سے پوری حویلی آئینہ کی طرح صاف شفاف اوردودھ کی طرح سفید نظر آتی تھی۔
آپا نے بہت نرم اور ہمدرد دل پایا تھا خاندان میں کسی بہن یا بھائی بھابی کے گھر ضرورت پڑی آپا حاضر ہیں۔
آپا بہت وسیع القلب تھیں اخلاقی برائیوں سے حتی الامکان دُور رہتیں آپا کی زبان سے کبھی کسی نے غیبت نہ سنی اور نہ ہی زبان سے کسی کو تکلیف پہنچائی ان کی زبان سے تو ہر وقت گڈو نے پھول ہی جھڑتے دیکھے ۔ زبان پر ہر وقت کلمہ کا ورد رہتا اوردرود پاک کاتوخاص اہتمام کرتیں ہر کام کرتے ہوئے قرآن ،کلمہ اور درود پاک زبان پر رہتا ، نبی پاک ؐ کا نام ہمیشہ بہت پیار سے لیتیں محمد پاک رسول اللہ کہتی یاپیارے رسول اللہ کہتیں ، ساتھ ہی درود پاک پڑھنا شروع کر دیتیں ، غصہ اگر آتا تو صاف ستھرا نہ رہنے یا بے ضابطگیوں پر آتا ورنہ ہروقت مسکراتی رہتیں دوسروں کے کام بھی اپنے ذمہ لیتیں ، ہرکوئی جھولیاں بھر بھر ان کو دعائیں دیتا وہ دوسروں کے دکھ درد کے تمام بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتیں اور جواب میں اپنا دامن دعائوں سے بھر لیتیں ، اور پھر گڈو کی آپا کی شادی ہوگئی ان کا گھر آباد ہؤا وہ حویلی سُونی کر گئیں آپا کی سمیٹی ہوئی دعائیں خوب رنگ لائیں گائوں کا بچہ بچہ ان کے لیے سراپا دعا بن گیا ہر ایک کی زبان پر یہی تھا ۔
’’ یا اللہ ! اب ہماری بیٹی کو کسی اور آزمائش میں نہ ڈالنا ‘‘۔گڈو حیران ہو جاتی ۔’’ یہ کیسی دعا ہے ؟ کون سی آزمائش تھی پہلے ‘‘ یہ تو اس کو بہت بڑی ہونے پر پتہ چلا کہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے آپا کی شادی ہوئی تھی چڑھتی جوانی میں آپا کا حُسن قابل دید تھا شادی کے چند دن بعد گڈو کی آپا خالی ہاتھ لے کر لوٹ آئی تھیں بڑے بتاتے تھے کہ کسی رشتہ دار نے ہی دشمنی کی تھی اور فرشتہ صفت آپا کو میکہ کی دہلیز پر لوٹا دیا تھا گڈو پچاس کی دہائی میں پیداہوئی تھی ہوش سنبھالنے پر اُس نے آپا کو سب کی خدمت میں جُتے ہوئے ہی دیکھا تھا آپا کے ساتھ بیتنے والے ستم کی کچھ خبر نہ تھی اُس نے تو پورے گائوں کو آپا کے لیے سراپا دعا ہی پایا تھا اور آپا کو اُن سب کے لیے سراپا خدمت اور پھر آپا اور سب کی دعائیں رب نے سن لیں آپا کو ان کے صبر اور خدمت کا صلہ بھی دل کھول کر اللہ نے دیا آپا کو بہت اچھا سسرال ملا ساس سسر اور چھ دیور دیورانیاں آپا پر جان چھڑکتے تھے شوہر دیارِ غیر میں تھے آپا کے کاغذات بننے میں دو سال کا عرصہ لگ گیا اس عرصہ میں آپا نے سسرال کے ایک ایک فرد کی خدمت کر کے اُن کا دل موہ لیا بڑے شہر میں رہتے ہوئے بھی آپا کو وہاں دودھ ،دہی ،مکھن ملائی کی کوئی کمی نہ ہوئی کیونکہ سسرال والوں نے بھی بھینس رکھی ہوئی تھی آپا وہاں بھی دودھ مدھانی کاشغل کرتی رہیں آپا کی پانچوں انگلیاں وہاں بھی گھی میں رہیں ، کبھی میکہ تو کبھی سسرال ، یہ عرصہ ایسے ہی گزرا اسی دوران بڑے بھائی کو اللہ نے دوسرا بیٹا عطا کیا پورا گائوں آپا کے لیے سراپا دعا بن گیا ۔
’’ یا اللہ ! ہماری بیٹی کو بھی اپنی نعمت سے نوازنا ‘‘ ہر ایک کی زبان پر ہی ورد تھا اور اللہ نے سب کی سن لی آپا کو بے لوث محبتوں اورخدمت کا صلہ صحت مند بیٹے کی صورت میں ملا کاغذات بھی بن گئے اور گڈو کی آپا سب کو اداس کر کے پیا دیس سدھار گئیں ۔ اپنی تمام خوبیوں اوردعائوں سمیت آپا دیار غیر میں جا بسیں ۔ دوسال کاعرصہ سسرال میں گزارا تو وہ بھی سب کے لیے یاد گار بن گیا ، ساس تو ان کے بغیر سالن بھی نہ لیتیں آپا میکہ آتیں تو وہ ساتھ آتیں ۔ امی جی ، امی جی کہتے آپا کی زبان سوکھتی ، دیورانیوں کے چھِلے آپا نے کروائے۔
’’ اللہ تینوں دودھ پُت دیوے‘‘ گائوں والوں کی یہ دعائیں اللہ نے خوب پوری کیں پلوٹھی کا بیٹا ہؤا اس کو گود لے کر آپا دور پردیس میں جا بسیں ،آپا کواللہ نے بہت قدر اور محبت کرنے والا شوہر عطا فرمایا ،گڈو کی آپا نے دیار غیر میں جاکر بھی اپنے معمولات میں کوئی فرق نہ آنے دیا آپا لمبا سا کوٹ پہن کرسر پر سکارف باندھنے لگ گئیں ، گائوں اور رشتہ دار تمام خواتین کوڈھونڈا اور اُن سب کی خدائی خدمت گاربن گئیں اُن کو جب بھی ضرورت پڑتی جا کر زچہ بچہ کو سنبھال لیتیں اُن کا باورچی خانہ مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے کر پورے ایک ہفتہ کے کھانے تیار کر کے رکھ دیتیں ، بڑے بچوں کو نہلاتی دھلاتیں اور اگلے ہفتہ کا وعدہ کر کے واپس لوٹ جاتیں ، اس سارے عمل میں آپا کو شوہر کا سوفیصد تعاون حاصل ہوتا تھا آپا اور ان کا شوہر یک جان دوقالب تھے ’’ھن لباس لکم وانتم لباس لھن‘‘ کی مکمل تصویر ، مجال ہے جو دونوں نے ایک دوسرے کی بات کسی اور کو بتائی ہو، اگر کوئی آپا کو چھیڑنے کی خاطر ان کے شوہر کی کوئی بات مزاحاً کر دیتا تو آپا ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہو کر ان کادفاع کرتیں اور دوسروں کویقین دلا کرچھوڑ تیں کہ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے وہ بالکل ایسے نہیں ہیں اللہ نے ان کونیک لائق اولاد دی بیٹے نے دو غیرمسلموں کومسلمان کیا، ایک کے ساتھ اپنی بڑی بہن اوردوسرے کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کرکے ان کو اپنے خاندان کا فرد بنا لیا بلکہ اُمت مسلمہ میں شامل کر دیا ۔ بڑی بیٹی نے دوغیر مسلم بچوں کوگود لے کر مسلمان بنایا۔
آپا کی دریا دلی اور سخاوت باہرجا کر تودوچند ہوگئی مختلف ممالک میں انفاق فی سبیل اللہ کی رقم بھیجنا ، کپڑے لتوں کے بھرے سوٹ کیس خالی کر دینا ، پاکستان آتے ہوئے سامان سے لدی پھندی آنا اورجانے سے پہلے ضرورت مندوں کی مٹھی میں چپکے سے پیسے پکڑا دینا اور سارا سامان ضرورت مندوں میں تقسیم کر کے دعائوں سے لدی پھندی واپس چلے جانے میں آپا کوعجب لذت اور تسکین ملتی تھی گڈو دیکھتی تھی کہ آپا پراس کی نیکی کا دن بدن کیسے روپ چڑھتا جا رہا ہے آپا کے صبر کا پھل ان کی تسکین اورروحانی خوبصورتی کی شکل میں صاف نظر آتا تھا انہوںنے اپنے گزشتہ غموں کاکبھی شکوہ کرنا تودر کنار ،ذکر تک بھی نہ کیا تھاگڈو اکثرسوچتی آخر آپا کس مٹی کی بنی ہوئی ہیں ہر ایک کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرتی ہیں لیکن صلہ کسی سے بھی نہیں مانگتی کوئی اچھا کرے یا برا ،آپا ہر ایک کے ساتھ ہنس کرمسکراکرہی ملتی ہیں آپا کے ساتھ بھی تو زیادتیاں ہوتی ہوں گی مگر آفریں ہے ان پر کبھی زبان پر نہ حرفِ حکایت آیا اورنہ حرفِ شکایت ،رب سے تواُن کے راز ونیاز مستقل جاری رہے ۔ آپا بھی انسان تھیں بیٹے بیٹیوں کی شادیاں ،رشتہ داریاں ،بیماریاں ، آزمائشیں ہر طرح کے حالات آتے رہے مگر آپا نے کبھی اُف نہ کی اور نہ ہی ان کے حسن اخلاق وکردار میں کوئی کمی آئی بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ شکر گزار بن جاتیں کبھی ان کوواویلا کرتے نہ دیکھا گڈو اوردوسری چھوٹی بہنوں کوبھی وعظ و نصیحت ہی کرتیں ، اپنے دکھوں اورغموں کی تو کسی کو ہوا بھی نہ لگنے دی اپنی گھریلو زندگی پربہت خوش اور مطمئن رہیں اور صبر و رضاعت کی کیفیت میں ہی تھوڑا عرصہ بیمار رہ کر دیارِ غیر میں ہی رختِ سفرباندھ لیا وہاں چاروں طرف نیکیوں کے بیج بوتی رہیں آپا کی اپنے شوہر سے محبت ضرب المثل تھی اُن کی وفات کے بعد ان کے شوہر ہر وقت ان کویاد کرتے رہتے اور زبان پریہی الفاظ ہوتے کہ :
’’ تم مجھے چھوڑ کرچلی گئی ہو میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘‘ اور یہی ہؤا، آپا کی وفات کے تین ماہ بعد وہ بھی ان کے پہلو میں جا ابدی نیند سوئے ، آپا کا دودھ مدھانی کرنا ،خوش الحانی سے تلاوت کرنا ، سوز وگداز سے درود پاک پڑھنا ،نماز روزہ کا اہتمام،حقوق اللہ سے بھی بڑھ کر حقوق العباد کی ادائیگی کی فکر، گڈو کے ذہن پر نقش ہوتا گیا ، ان کا مزاح ، طریقہ سلیقہ ، صفائی ستھرائی ترتیب و تنظیم بھی گڈوکے عمل میں اترتا گیا، دودھ ، پُت کامطلب بھی اس کو پڑھ لکھ کرسمجھ میں آیا ، آپا نے اپنے مال واولاد کو اپنے لیے صدقہ جاریہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ وہ اپنے پیچھے بھی دودھ پت چھوڑکرچلی گئیں اب ان کی اولاد آپا کے لیے صدقہ جاریہ بنی کار خیر میں حصہ ڈالتے رہتے ہیں ، گڈوکوآپا کی بے شمارخوبیاں یاد آتی رہتی ہیں ، وہ سوچتی ہے کہ آپا کادل کتنا اُجلا تھا وہ کسی سے نفرت ، حسد بغض ، بد گمانی ، کینہ اورسوئے ظن سے بالکل پاک صاف تھا ہرکسی کے لیے خوش گمانی رکھتی تھیں ، گڈو ہروقت رب سے دعا کرتی رہتی ہے کہ وہ انہیں اپنی جنتوں میں اکٹھا کرے کیونکہ آپا تو بچھڑے ہی چلی گئیں گڈوکو اُن کی نصیحتیں پوری طرح یاد ہیں وہ گڈوکی شادی کے بعدایک دفعہ اُن کے سسرال آئی تھیں حالات کودیکھ کر کافی پریشان تھیں پھر جب گڈو کے شوہر نے ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنا مکان بنایا تو اتفاق سے آپا پاکستان آئی ہوئی تھیں خاندان میں سے سب سے پہلے وہی آئی تھیں تحفہ تحائف سے لدی پھندی تھیں گڈو کا گھر ایسی جگہ تھا جہاں ابھی گردو پیش آبادی نہ تھی گھر کے چاروں طرف گیلری تھی کافی پریشان ہوکر بولیں :
’’ اکیلی اس ویرانے میں کیسے رہو گی ؟ اورمزید نصیحت کی کہ جوچینی کے برتنوں کا سیٹ ہے نا ،وہ چھوٹی بیٹی کے لیے رکھ لینا ‘‘۔
گڈوکو سب کچھ یاد ہے آپا کے قول وعمل کے گہرے اور انمٹ نقوش آج بھی ذہن و قلب اور عمل میں زندہ ہیں اور گڈودعاکرتی ہے اور تصور میں دیکھتی ہے کہ اللہ رب العزت نے آپا کواپنے پاس سے دودھ کی نہریں عطا کی ہوں گی آپا وہاں بھی دودھ مدھانی اور مکھن کا کام کرتی ہوں گی اور آپا کا حسن اور بھی دوچند ہو گیا ہوگا بالکل دودھ اورمکھن ملائی کی طرح صاف ،اُجلا اورنرم ونازک ، ان شاء اللہ ، آج گڈو بھی کار زارِ حیات میں آپا بننے کی کوشش میں مصروف عمل ہے ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x