ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عملِ قوم لوط اور آج کے مسلمان ایک بین الاقوامی فتنے کے مشاہدےکی چشم کشا روداد – بتول دسمبر۲۰۲۲

امریکا میں مسلم ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے2015میں اپنے اولین رابطے کے مشاہدات پر مبنی یہ مضمون 2016میں لکھا گیا۔ بعد ازاں میری اس موضوع پر ریسرچ جاری رہی ہے جس کے لیے میں پاکستان کی خواجہ سرا کمیونٹی سے بھی مسلسل رابطے میں رہی ہوں گو ان کا تعلق ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے نہیں ہوتا۔ – اپنے یہ تمام مشاہدات کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ ایڈیٹر بتول صائمہ اسماکی فرمائش پر بتول کے خاص نمبر کے لیے بھیج رہی ہوں۔ تمام نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ تزئین حسن

ہم جنسی کا فروغ ایک عالمی ایجنڈا
اب ہم دوبارہ ایمن کی طرف آتے ہیں۔ ایک بہت اہم اور دلچسپ بات یہ تھی کہ خود کوئیر ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ایمن کا کہنا تھا کہ گے کلچر کا فروغ ایک عالمی سیاسی ایجنڈا ہے اور اسے بہت طاقتور لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس نے خصوصاً اسرائیل کا نام لیا کہ فلسطینیوں پر کیے جانے والے مظالم کو چھپانے کے لیے اسرائیل گے رائٹس کی حمایت کرتا ہے۔ اسرائیل کی اس سیاسی اسٹرٹیجی کے لیے اس نے ’’پنک واشنگ‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔
مغرب میں ہم جنسی کے خلاف کوئی بھی بات کرنے کو انسانی حقوق کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم جنسوں کے حقوق کی جدو جہد میں اسے بہت اہم سمجھا جاتا ہے کہ کسی ہم جنس کو اپنی اس شناخت کو چھپانا نہ پڑے، نہ ہی وہ کسی قسم کی شرمندگی یا احساس پشیمانی کا شکار ہو یا کوئی اسے اس بنیاد پر جسمانی یا زبانی تشدد کا نشانہ نہ بنائے۔
بچوں کو شروع سے اسکولوں میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک فطری عمل ہے اور ان کا مذاق اڑانا اور انہیں چھیڑنا ایک بہت بڑا اخلاقی جرم ہے۔ یہاں اسکولوں میں ایک پنک ڈے بھی منایا جاتا ہے بظاہر یہ اینٹی بلیئنگ ڈے anti۔bullying کہلاتا ہے لیکن اصل میں یہ ہم جنس طلبہ کے حوالے سے آگاہی دینے کےلیے ہوتا ہے۔ عام تاثر کے برعکس مغرب میں بھی عوام کی اکثریت اس عمل اور اس طریقہ زندگی کے خلاف ہے اور اسکولوں میں کھلی سیکس ایجوکیشن کے بھی خلاف ہے۔
میں واضح کر دوں وہ یہ کہ حقوق کی یہ جدو جہد اس لیے نہیں کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں انہیں کرنے دیا جائے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ عمل قوم لوط ہر معاشرے میں موجود رہا ہے۔ اصل جدو جہد اس چیز کی ہے کہ اس کے علی الاعلان کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور بچوں سے بڑوں تک ہر ایک کو اس کی آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ جسمانی پارٹنر کے انتخاب میں آزاد ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر ان جوڑوں کو شادی شدہ زندگی کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے اور بچے گود لے کر انہیں پالنے کا بھی۔
ہارورڈ جوائن کرنے سے پہلے میرا قیام کینیڈا کے صوبے البرٹا میں تھا جہاں اسکولوں میں جنسی تعلیم ابھی لازمی قرار نہیں دی گئی تھی مگر اونٹاریو کے صوبے میں جہاں کینیڈا کا سب سے بڑا شہر ٹورنٹو موجود تھا وہاں جنسی تعلیم کو پہلی جماعت سے ہی لازمی قرار دے دیا گیا تھا جس میں اطلاعات کے مطابق ہم جنسی سے متعلق مواد بھی نصاب کا حصہ تھا۔ اس حکومتی فیصلے کو اونٹاریو کی پریمیر (ایک طرح سے وزیر اعلیٰ یا انتظامی سربراہ) کیتھلین وائن کی ذاتی حمایت حاصل تھی جو خود بھی پبلک گے یعنی ہم جنس ہونے کا دعویٰ رکھتی ہیں۔ پبلک گے کی اصطلاح مغرب میں ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے آپ کو کھلے عام ہم جنس قرار دیں۔ دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ مسلمان، ہندو، سکھ، یہاں تک کہ عیسائیوں کے کچھ فرقے اس تعلیم کے اسکولوں میں متعارف کروانے کے اتنے خلاف تھے کہ انہیں دنوں اونٹاریو سے یہ خبریں آئیں کہ بہت سے والدین نے احتجاجاً اپنے بچوں کو گھر بٹھا لیا ہے یا پرائیویٹ اسکولوں میں منتقل کر دیا ہے۔ اس کے باوجود کینیڈا جیسے جمہوری ملک میں حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ یاد رہے پرائیویٹ اسکولنگ امریکا اور کینیڈا میں انتہائی مہنگی ہے اور اسے افورڈ کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اقوام متحدہ ممبر ممالک پر زور ڈال کر انہیں ہم جنسی کو قانونی حیثیت دینے پر زور ڈال رہی ہے اور ایسا اسکولوں میں جنسی تعلیم کے ذریعے بھی کیا جا رہا ہے۔ زینب قتل کے بعد یہ انصار عباسی کے ایک کالم میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں بھی اقوام متحدہ کی سفارشات کے مطابق پنجاب اور سندھ میں سیکس ایجوکیشن نصاب میں شامل ہو چکی ہیں جس میں ہم جنسی کے آپشن کا تعارف بھی پاکستانی بچوں کو کروایا جا رہا ہے۔ راقم الحروف اس امرکی تصدیق نہیں کر سکی۔
اس کے علاوہ پوری دنیا کے اینٹرٹینمنٹ اور نیوز میڈیا کے ذریعے بھی اس موضوع کو بحث کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ قارئین یاد کریں تو پاکستانی میڈیا میں بھی پچھلے بیس سال سے ٹاک شوز اور ڈراموں میں براہ راست یا بلا واسطہ اسے موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ پچھلے دنوں فالتو لڑکی نامی ایک سیریل میں بالواسطہ ہم جنس لڑکیوں کو ایک سائیڈ اسٹوری کا حصہ بنایا گیا۔ ایک مقبول آن لائن آؤٹ لیٹ پر مجھے وائس آف امریکا کی پاکستان میں لیسبین خواتین سے متعلق خبریں غیر معمولی نمائندگی کے ساتھ پڑھنے کو ملیں۔ پاکستان کے ایک بڑے اخبار کے اسلام آباد میں مقیم ایڈیٹر نے مجھے ایک مورت ایکٹوسٹ کے حوالے سے بتایا کہ اس کا دعویٰ ہے کہ امریکی ایمبیسی نے اسے بہت بڑا فنڈ آفر کیا ہے اگر وہ لیسبین خواتین کے حقوق کے لیے تنظیم سازی کر سکے۔ ان خبروں کی تصدیق کی کوئی صورت نہیں تھی۔ مگر ان سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم جنسی کے فروغ کی لابیز پاکستان میں بھی سر گرم ہیں اور خاصی پرانی سرگرم ہیں، واللہ اعلم۔
ایل جی بی ٹی کی چھتری
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیدائشی تیسری صنف میں پیدا ہونے والے یا کسی اور صنفی پیچیدگی کا پیدائشی یا نفسیاتی شکار ہونے والوں کے حقوق کا بہانہ بنا کر ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی چھتری تلے لا کر ہم جنسی کے فروغ کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں سابق وزیر اعظم بھٹو کے پوتے مرتضیٰ بھٹو نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی ڈبلیو کوانٹرویو دیتے ہوے ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی حمایت کا کھلا اعلان کیا اور ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں ہمیں ٹرانس جینڈر حقوق سے اس کا آغاز کرنا چاہیے۔ لیکن یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پیدائشی مخنث یا ٹرانس جینڈر کا اس بے اعتدالی میں براہ راست کوئی حصہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے حقوق کے لیے معاشرے کو جو کچھ کرنا چاہیے اس کو مذہبی اور سیکولر دونوں طبقات نے نظرانداز کیا ہے جس کا مداوا ہونا چاہیے۔ پیدائشی ٹرانس ہوں یا ذہنی طور پر یہ محسوس کرنے والی کہ غلط صنف کے بدن میں پیدا ہو گئے ہیں، یہ لوگLGBTQ کمیونٹی کے باقی اصناف سے مختلف ہوتے ہیں۔ باقی اصناف کی شناخت ان کے جنسی انتخاب کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ ان کی صنفی پیچیدگی بہت حد تک الله کی طرف سے ہے ۔ یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ یہ مضمون ٹرانس جینڈر یا مخنث حضرات کے بارے میں نہیں بلکہ ہم جنسوں کے بارے میں ہے۔
امریکی صحافیوں کا اس موضوع پر رویہ
ہارورڈ میں ہماری فیچر رائٹنگ کی کلاس میں اکثر امریکا کے بڑے اخبارات سے گیسٹ اسپیکرز کے لیکچرمنعقد ہوتے۔ میں نے محسوس کیا ان میں سے ہرایک ہم جنسی کا پر جوش حامی تھا اور اس کا اظہار بھی وہ ضروری سمجھتا تھا۔ اس میں فلوریڈا کے ٹمپا بے ٹائمز کی پلٹزر پرائزیافتہ ایڈیٹر بھی تھی۔ پلٹزر پرائز صحافت کی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔ لین پروفائل رائٹنگ (صحافت کی وہ صنف جس میں ایک شخصیت کے بارے میں فیچرز لکھا جاتا ہے) میں امریکا بھر میں ٹاپ کی رائٹر ہے۔ اس کے علاوہ بوسٹن گلوب کی ایک ایڈیٹر نے بھی اپنے لیکچر کے دوران غیر رسمی گفتگو میں ہم جنس طبقے کی غیر مشروط حمایت کا اظہار کیا۔ اس کے برعکس ہم جنسی کے خلاف رائے رکھنے والے کو اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں۔ غیر مشروط آزادیٔ اظہار کے حق کی حمایت کرنے والا مغربی میڈیا کسی ایسے فرد کو اظہار کی آزادی نہیں دیتا جو ہم جنسی کے خلاف ہو۔ اسے ہیٹ اسپیچ یعنی نفرت پرمبنی تقریر گردانا جاتا ہے چاہے آپ صرف اپنا موقف یا رائے پیش کر رہے ہوں۔
ہم جنسی کے بارے میں مختلف مذاہب کی تعلیمات
میری ابتدائی تحقیق کے مطابق تقریباً ہرمذہب میں اس عمل کی مذمت کی گئی ہے۔ قرآن کے علاوہ، توریت یعنی عہد نامہ قدیم، بائبل یعنی عہد نامہ جدید بھی جگہ جگہ عمل قوم لوط کا ذکر بڑے گناہوں کے طورپر کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو مت کی گیتا اور بدھ مذہب کی تعلیمات بھی اس کے خلاف ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ قرآن قوم لوط کا تذکرہ جگہ جگہ کرتا ہے مگر ہم جنسوں کو کیا سزا دی جائے یہ اس میں مذکور نہیں مگر اس کے بر عکس توریت میں ہم جنسی کے عمل کی سزا موت مذکور ہے۔
میں نے اپنے اسائنمنٹ کے پہلے ڈرافٹ میں توریت کی ایک آیت ڈال کر اس بات کو واضح کیا تو میری ٹیچر نے یہ کہہ کر اسے نکلوا دیا کہ تحریر کے ایک خاص مرحلے پر جا کر تم خود جانبدار ہو گئی اور میں صاف یہ محسوس کر رہی ہوں کہ تم ان کے خلاف تعصب رکھتی ہو۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ عہد نامہ قدیم میں یہ بات ضرور مذکور ہوگی لیکن اگر تم عیسائیت اور یہودیوں کے ہم عصر اسکالرز کے رائے پڑھو تو اکثر فرقوں کی تشریحات کے مطابق یہ حرام عمل نہیں ہے۔ اس لیے تم محتاط رہ کر یہ اسٹیٹمنٹ دو کہ عیسائی اور یہودی بھی اسے غلط سمجھتے ہیں۔ مجبوراً مجھے وہ حصے تلف کرنے پڑے۔
کوئیر حضرات کے خلاف مغرب میں تشدد
دلچسپ بات یہ تھی کہ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہم جنس حضرات کے خلاف مغرب میں تشدد بہت شدید ہے اور اسی لیے انہیں مظلوم گردانا جاتا ہے۔ یہ بات میں نے کلاس میں ڈسکس کی تو ٹیچر سمیت بارہ کلاس فیلوز میں سے کسی کو یقین نہیں آیا جس پر میں نے کلاس میں ہی کینیڈا، امریکا اور برطانیہ سے متعلقہ لنکس سب کو بھیجے جس پر انھیں یقین پڑا کیونکہ لنکس میں ایف بی آئی تک کے اعدادوشمار موجود تھے کہ اس طبقے کے خلاف تشدد کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔ ان اعداد و شمار سے ثابت ہوتا تھا کہ مغرب میں بھی ان کے خلاف نفرت موجود ہے۔
یروشلم میں ‘’’گے پریڈ‘‘
جس دوران میں اس موضوع پر کام کر رہی تھی یروشلم میں سالانہ ’’گے‘‘ پریڈ منعقد ہوئی اور اس میں ایک قدامت پسند یہودی نے چھری کے وار سے پانچ افراد کو زخمی کر دیا۔ مجھے یہ واقعہ اپنی یہودی ٹیچر کو سنانے میں اور یہ اسٹیریو ٹائپ توڑنے میں بہت مزہ آیا کہ عام تاثر یہ ہے کہ صرف مسلم کمیونٹیز میں ایل جی بی ٹی افراد کی مخالفت ہوتی ہے یا ان سے نفرت کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت میری معلومات کے مطابق مسلم ممالک میں ان کے خلاف جسمانی تشدد خال خال تھا یا کم ازکم اتنا رپورٹ نہیں ہوتا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں عموماً کوئی اپنے آپ کو پبلکلی گے کہلوانا پسند نہیں کرتا۔
خود مسلمانوں کا تاریخی طور پر طرز عمل
تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ مسلمانوں میں گو یہ عمل انتہائی نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے مگر تاریخی طور پر بہت سے مسلمان حکمرانوں سے یہ عمل صحیح یا غلط منسوب کیا جاتا ہے اور اردو اور فارسی شاعری اور ادب کی مثال بھی دی جاتی ہے جس میں جا بجا اس موضوع سے متعلق استعارے ملتے ہیں۔ معروف مصنفہ عصمت چغتائی کا لحاف ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔
یہ بھی سننے میں آتا رہا ہے کہ پختونوں کے بڑی تعداد کے اسلام پسند ہونے کے باوجود یہ عمل پختون کلچرمیں بہت عام ہے۔ بعد ازاں سرائیکی بیلٹ کے لوگوں نے اور مدرسوں کے طالب علموں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ خالص اسلامی ادارے بھی اس عمل کے شر سے خالی نہیں ہیں۔ خصوصاً پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ ڈرائیوراور کلینرایک معقول تعداد میں اس برائی کا شکار ہیں اور کم عمر لڑکوں کو مختلف لالچ دیکر اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ ملازم اس سیاست دان کے ساتھ چند سال کام کرتا رہا تھا۔ طالبان کے ملا ضعیف نے اپنی کتاب
My life with Taliban میں بھی پشتون معاشرے کو درپیش اس چیلنج کا ذکر کیا ہے بلکہ وہ طالبان کے اقتدار پر قبضے کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سوویت یونین کی شکست کے بعد یہ برائی اتنی بڑھ گئی تھی کہ ایک گاؤں میں ایک مرد نے ایک لڑکے سے باقاعدہ دھوم دھام سے شادی کی جس میں افغان عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ملا ضعیف کا کہنا ہے کہ یہ عمل طالبان سے برداشت نہیں ہو سکا اور انہوں نے بالآخر معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح اس عمل کے رد عمل نے طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کی راہ ہموار کی۔
کے پی حکومت کے ایک نوجوان سرکاری ملازم نے بتایا کہ سوات کے ایک علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک ایم این اے جو ملکی سطح کی سیاسی جماعت سے وابستہ ہے ہر مہینے لڑکا تبدیل کرتا ہے۔ اسی نوجوان نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ہم میں سے ہر بچہ بچپن میں ہی اپنے بڑے رشتے داروں یا پڑوسیوں کے ہاتھوں ریپ ہو چکا ہوتا ہے۔ بڑے کزن اور دوست اپنے سے چھوٹوں کو نشانہ بناتے ہیں اور چھوٹے بڑے ہو کر اپنے چھوٹوں کو۔ یاد رہے یہی بات میری پہلی ٹرانس سورس نے بھی بتائی۔ دیر کے علاقے کے ایک اسکالر کا کہنا تھا کہ جس طرح لوگ اپنی گاڑیوں پر فخر کرتے ہیں، کے پی کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں مرد شام کو فخریہ اپنا بچہ دکھانے کے لیے نکلتے ہیں کہ میرے پاس اتنا خوب صورت بچہ ہے۔
یہاں مجھے مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی قیادت کرنے والوں کی منافقت پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ یہ جتنا مغرب سے آنے والی برائیوں پر، ٹی وی اور سوشل میڈیا، بے حیائی، عورتوں کی بے پردگی پر صبح شام تنقید کرتے ہیں لیکن جو برائیاں تاریخی طور پر ہمارے اندر موجود ہیں ان سے صرفِ نظر کا یہ حال ہے کہ مذہبی جماعتوں کو سب سے زیادہ ووٹ دینے والے صوبے میں بچہ بازی کی جو قبیح برائی پھیلی ہوئی ہے اس پر ان کی زبان سے کبھی کچھ نہیں نکلتا۔
اب دوبارہ ہارورڈ چلتے ہیں۔ ایمن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کوئیر کمیونٹی کی حمایت اس لیے کرتا ہے کہ فلسطینیوں پر ہونے والے مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹا کر اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چیمپئن گردانناچاہتا ہے۔دوسری طرف مغربی میڈیا اس بات کو بہت اٹھاتا ہے کہ اسلامی دنیا میں اس کمیونٹی سے بہت نفرت کی جاتی ہے اور بہت سخت سزائیں موجود ہیں۔ میری تحقیق کے مطابق سزائیں تو بہت سخت ہیں یہاں تک کہ دنیا میں جن آٹھ ممالک میں ہم جنسی پر موت کی سزا ہے اس میں سے سات اسلامی ممالک ہیں(یوگنڈا واحد غیر مسلم آبادی والا ملک ہے جہاں اس وقت ہم جنسی کی سزا موت تھی مگر اب وہاں بھی ختم کر دی گئی ہے) مگر ان پر عمل در آمد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں جہاں اس عمل پر موت کی سزا ہے وہاں صرف اس صورت میں سزا دی جاتی ہے کہ یہ عمل پبلک میں کیا جائے یا اس کی وڈیو وغیرہ بنا کر اسے پھیلانے کی کوشش کی جائے۔ اس کی وجہ غالباً یہ کہ اسلام میں حدود کی سزا کے لیے چار گواہان کی شرط ہے (جس کا عملی مطلب ہے کہ کام پبلک میں ہو رہا ہے) جو غالباً اسی لیے ہے کہ کوئی پبلک میں یہ کام کر کےاسے فروغ دینے کی کوشش نہ کرے۔ عمل قوم لوط مسلم دنیا میں بھی ہے لیکن فرق صرف یہ کہ یہاں یہ چھپ کر کیا جاتا ہے اس لیے ترغیب کا باعث نہیں بنتا۔
اسائنمنٹ جمع کرانے سے پہلے مجھے ایک ملٹی میڈیا پریزنٹیشن بھی جمع کرانی تھی جس کے لیے میں نے ایل جی بی ٹی فوٹو گرافر صبا سے اجازت لے کر اس کے کوئیر افراد کے پورٹریٹس کی مدد سے ’’مسجد‘‘تنظیم کے اعلیٰ عہدے داروں کے اقوال کو ایک سلائڈ شو کی شکل دی۔ یہ سلائڈ شو میری ٹیچر اور کلاس فیلوز کو بہت پسند آئی۔ ایک سنئیر کلاس فیلو کا کہنا تھا کہ ہم مسلمانوں کو اسٹیریو ٹائپ (کسی قوم یا انسان کے بارے میں تعصب سے یا جہالت کی بنا پر کوئی تصور قائم کر لینا جو مبنی بر حقیقت نہ ہو) کرتے ہیں کہ یہ ہم جنس افراد کو پسند نہیں کرتے۔ میرا ترنت جواب یہ تھا کہ یہ اسٹیریو ٹائپنگ نہیں حقیقت ہے، مسلمان معاشرے ہم جنسی کو بہ حیثیت مجموعی پسند نہیں کرتے۔ بعد ازاں2016 کے پیو ریسرچ سنٹر کے ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ عیسائیوں کے کچھ فرقے امریکی مسلمانوں سے زیادہ ہم جنسی کے لیے عدم برداشت رکھتے ہیں۔
ایمن کی ذاتی اسٹوری
اب آتے ہیں ایمن کی ذاتی کہانی کی طرف۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے لڑکے بچپن سے اچھے نہیں لگے۔ اپنے اسلامک اسکول میں تیسری جماعت کی ایک سالگرہ کی پارٹی کے حوالے سے اس نے بتایا کہ ایک کھیل کے دوران جب شرکاء بچیوں سے پوچھا گیا کہ تمہیں کلاس میں کونسا لڑکا پسند ہے تو مجھے کوئی بھی لڑکا پسند نہیں تھا، اس لیے مجبوراً شرمندگی سے بچنے کے لیے ایک نام لینا پڑا۔بعد ازاں اس کا کہنا تھا کہ اسکول دور میں ہی اس کے تعلقات لڑکیوں سے استوار ہو گئے۔
اس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی والدہ سے اپنے ہم جنس ہونے کے حوالے سے کبھی بات نہیں کی کیونکہ وہ انھیں دکھ دینا نہیں چاہتی مگر جہاں تک اس کا اندازہ تھا وہ جانتی تھیں۔ ایک دفعہ اس کے رشتے کے لیے انھوں نے کچھ لوگوں کو گھر بلایا مگر اس کا انکار سن کر انھیں نے اصرار نہیں کیا۔ ایمن کے ذریعے مجھے دوسری ہم جنس لڑکیوں سے بھی بات کرنے کا موقع ملا۔ اس کے حلقے میں ایک تیسری جنس سے تعلق رکھنے والی لڑکی بھی تھی جس کا باپ پاکستانی اور ماں غالباً سفید فام تھی۔ یہ فرد بھی اپنی شناخت کوئیر کے حوالے سے ہی کرواتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ان تمام طلبہ کو باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت اپنی شناخت پر فخر کرنا سکھایا جاتا تھا اور مختلف دلائل سے ان کی ذہن سازی کی جاتی تھی کہ یہ ایک فطری عمل ہے اور اسلامی شریعت کے لحاظ سے یہ کوئی حرام یا نا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تمام ایسے افراد جو اس عمل میں ملوث ہوں انہیں آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے کا اسی طرح مشورہ دیا جاتا تھا جیسے اسلامی تنظیمیں اپنے کارکنان کو دیتی ہیں۔ ان کے آپس میں تعاون کا یہ حال تھا کہ انٹرنیٹ کی مختلف سائٹس کے ذریعے ان میں سے ایک فرد جب کسی دوسرے شہر یا ملک جاتا تو جانے سے پہلے اس کی رہائش کا انتظام ہو جاتا ہے۔
مسلم ایل جی بی ٹیز سے میرے پہلے رابطے کو اب تک سات سال گزر چکے ہیں۔ اس تمام عرصے میں میں نے ذمہ داری محسوس کی کہ جو آگاہی مجھے اس تحقیق کے ذریعے حاصل ہوئی وہ محض معلومات نہیں ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ آج اس موضوع پر بات کرنا آسان ہے لیکن دو ہزار پندرہ سولہ یہاں تک کہ دو ہزار اٹھارہ میں بھی اس مسئلے پر بات کرنا آسان نہیں تھا۔ اس موضوع کو ممنوع یعنی taboo سمجھا جاتا تھا۔ مغرب میں مقیم ہمارے پڑھے لکھے ترین افراد بھی اس موضوع پر بات کرنے کو نا مناسب محسوس کرتے تھے۔
2016میں بڑی عمر کی خواتین کے ایک درس میں ایک بحث کے دوران میں نے ہم جنسی کا لفظ استعمال کیا تو بعد ازاں مجھے معلوم ہؤا کہ وہاں موجود ایک مرکزی سطح کی ذمہ دار نے اس لفظ کے درس میں تذکرے کو انتہائی غیراخلاقی گردانا۔ یاد رہے میں نے صرف لفظ کا استعمال کیا تھا۔ یہ اس معاشرے کے مسلمانوں کا حال تھا کہ جس کا وزیراعظم بذات خود گے پریڈ میں شریک ہوتا تھا۔ جہاں والدین اگر سیکس ایجوکیشن کی کلاس سے بچوں کا نام نکلوا بھی دیں تو بہت سے دیگر مواقع کتب، پروگرامز، ایل جی بی ٹی رائٹس کے نام پر آگاہی دینے کے لیے ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔ ایسے میں درس میں اس موضوع سے پرہیز کا مطلب تھا کہ مائیں اپنے بچوں کے اس موضوع سے تعلق سے با لکل بے خبر رہیں۔ اس موقع پر میں نے محسوس کیا کہ اب خاموش رہنے کا آپشن مجرمانہ ہوگا۔ مغرب ہو یا پاکستان والدین کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ہمارے بچے کس دنیا میں رہتے ہیں اور ان کی تعلیم کا کیا انتظام ہونا چاہیے۔
ان تمام معلومات کو نظر میں رکھتے ہوئے دو ہزار سولہ کے اواخر میں میں نے مسلمان بچوں میں سیکس ایجوکشن کی ضرورت کے حوالے سے ایک مضمون تحریر کیا جسے اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا سسٹرز نے اپنے مجلے میں شائع کیا۔ زینب قتل کے بعد ماہنامہ بتول اور روزنامہ ایکسپریس نے بھی اس مضمون کے مختلف ورژن شائع کیے۔ میرا موقف تھا کہ قرآن حدیث اور تمام مستند اسلامی ماخذات میں یہ تعلیم موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ چیلنجز کو دیکھتے ہوئے بچوں اور ان کے والدین کے لیے ایک نصاب تیار کیا جائے اور مغربی حکومتوں کو اس امر سے آگاہ کیا جائے کہ ہم مسجد، سنڈے اسکول یا گھر پر اپنے بچوں کو اپنے مذہب کے مطابق جنسی تعلیم دیں گے۔ ہمارے بچوں کے لیے اسکولوں میں لازمی جنسی تعلیم کو ختم کیا جائے۔
ایک صحافی کا کام اپنی سورس سے معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے، اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا یا نصیحتیں کرنا نہیں مگر اتنا وقت ساتھ رہنے والی ایک مسلمان طالبہ کی حیثیت سے جو تعلق میں نے اس سے محسوس کیا میری خواہش تھی کہ میں ایسا کچھ کروں کہ وہ سوچنے پر مجبور ہو۔ ایمن سے اپنی آخری ملاقات میں میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وہ کبھی پچھتاوا محسوس کرتی ہے، اس کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے اس سے استفسار کیا کہ کیا وہ دعا پر یقین رکھتی ہے؟ جواب ہاں میں پا کر میں نے اسے صرف دعا کرنے کا مشورہ دیا کہ الله اسے جو بھی راستہ صحیح ہو وہ دکھا دے۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ دعا ضرور کرے گی۔
آخرمیں میں مسلمان والدین سے صرف ایک بات کرنا چاہوں گی۔ آپ ہمیشہ اپنے بچے کے ساتھ رہ سکتے ہیں نہ ہی ہر وقت اس کی نگرانی کر سکتے ہیں۔ ایک خاص عمر میں اسے خود اپنی ذات سے متعلق فیصلے، برائی یا بھلائی کے درمیان کسی ایک چیز کا انتخاب مسلسل کرنا ہوتا ہے۔ اوریہ عمر ان معاملات میں نو یا دس سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ امریکا میں رہتے ہیں یا یورپ میں انڈیا میں یا عرب امارات میں، پاکستان میں ہوں یا فیجی آئلینڈ میں، اپنے بچے کو ابتدائی عمر سے ہی قرآن سے جوڑیں۔ اس کی آیات کا مفہوم آسان کرکے بتائیں۔ اس کے احکامات کا عملی شعوردیں۔ اور خدا را اس کام کو کسی مدرسے اسلامی اسکول یا درس کے حلقے پر نہ چھوڑیں۔ مگر یہ جب ہی ممکن ہے جب آپ خود دین کا علم اور قرآن کا مفہوم سمجھیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے سنجیدہ ہوں۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x