ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

آزاد صحافت یا مادر پدر آزاد صحافت – بتول ستمبر ۲۰۲۱

حکومت کی طرف سے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بنائے جانے پر کافی شور مچا ہؤا ہے۔ میں نے اس اتھارٹی کے متعلق مجوزہ ڈرافٹ نہیں پڑھا۔ حکومتوں کی طرف سے عموماً میڈیا کو قابو کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور ہو سکتا ہے اب بھی یہی ہو رہاہو لیکن میری رائے میں اگر میڈیا اپنی خوداحتسابی نہیں کرتا، ذمہ دارانہ صحافت نہیں کرتا، اپنی دینی اور معاشرتی اقدار کا خیال نہیں رکھتا تو پھر کوئی دوسرا یعنی جس کا زور چلے گا اس پر اپنی مرضی کے قواعد مسلط کر کے اس کو قابو کرنے کی کوشش کرتا رہے گا جس کی وجہ سے ذمہ دارانہ صحافت ہی کو دراصل مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
صحافی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گزشتہ پانچ چھ سال پاکستانی صحافت کے لیے بہت مشکل رہے، طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا رہا اور کچھ ایسے قومی نوعیت کے سنجیدہ معاملات تھے جن پر لکھنا اور بولنا تقریباً ناممکن رہا۔ لیکن اس کے برعکس غیر ذمہ دارانہ صحافت کی بات کی جائے تو وہ مادر پدر آزاد سی ہو گئی۔ صحافت کو دیکھیں تو جس کا جی چاہا دوسرے پر جھوٹے الزامات لگا دیے، کسی کی بھی پگڑی اچھالنا کوئی مسئلہ نہ رہا، بڑے بڑے چینلز پر بیٹھ کر دوسروں پر غداری اور گستاخی کے جھوٹےالزامات لگانا معمول بن گیا۔ جسے چاہا کرپٹ کہہ دیا، جسے چاہا بدنام کر دیا۔ اسلامی شعائر اور اسلامی احکامات کے فروغ اور نفاذ کوا سکینڈلائز کیا جانا معمول بن گیا، اشتہارات، ڈرامے، اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر فحاشی و عریانیت کو پھیلانے کا سلسلہ عام ہو گیا، ڈراموں میں رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جانے لگا، مغربی ثقافت حتیٰ کہ ہم جنس پرستی کے حق میں باتیں کی جانے لگیں۔ رہی سہی کسر ٹک ٹاک ، یو ٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا کے دوسرےذرائع نے پوری کر دی بلکہ تباہی پھیلا دی، فحاشی و عریانیت کی تمام حدیں پار کر دیں۔گزشتہ روز ایک سینئر صحافی نے ایک یوٹیوب چینل کا ایک کلپ بھیجا۔ میں دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اتنی گندگی، اتنی غلاظت کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔
یہ سب کچھ نہ تو صحافت ہے نہ ہی اس کا میڈیا کی آزادی کے نام پر دفاع کیاجا سکتا ہے۔ اس گندگی کو میڈیا کو خود کنٹرول کرنا چاہیے۔ ایسی گندگی چاہے وہ سوشل میڈٖیا پر ہو یا مین سٹریم میڈیا پر دکھائی جا رہی ہو اس کا دفاع تو ممکن ہی نہیں اس کے خلاف آواز اٹھانا میڈیا کی اہم ذمہ داری ہونی چاہیے۔ اسی طرح غیر ذمہ دارانہ صحافت ہو، اسلامی شعائر اور اسلامی احکامات کو اسکینڈلائر کرنے کا عمل، فحاشی و عریانیت کے پھیلانے اور بے ہودہ ڈرامے اور اشتہارات ان سب کو روکنے کی بنیادی ذمہ داری ہم میڈیا والوں کی ہی ہے۔
خود احتسابی(Self-Accountability )بہت ضروری ہے لیکن افسوس کہ اس پر ہم میڈیا والوں کی کوئی توجہ نہیں۔ میں جس قسم کے مواد کی اشاعت یا اُسے نشر کرنے کی مخالفت کر رہا ہوں اُس کو پاکستان کے اسلامی آئین اور قانون کے مطابق جانچا جائے۔ اگر میڈیا خود احتسابی نہیں کرے گا تو پھر یاد رکھیں کہ حکومتوں کی طرف سے حملہ ذمہ دارانہ صحافت پر ہی گا۔ میں نے دیکھا کہ پیمرا کو ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی بے ہودگی اور بے شرمی سے کوئی سروکار نہیں، یہ ادارہ صرف حکمرانوں اور طاقتوروں کے اشاروں پر اُن کے مفادات کے تحفظ میں لگا ہؤا ہے۔ میڈیا اتھارٹی بنانے میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو شاید حکومت میں سب سے زیادہ دلچسپی ہے لیکن جتنا میں اُن کو جانتا ہوں، اُن کی Priority وہ نہیں جن معاملات پر مجھے سخت تشویش ہے یعنی فحاشی و عریانیت کا خاتمہ، میڈیا اور سوشل میڈیا کو گندگی سے پاک کرنا، اسلامی شعائر اور اسلامی احکامات کے نفاذ کوا سکینڈلائز کرنے والوں کی گرفت کرنا۔ اب جب غیر ذمہ دارانہ صحافت یعنی مادر پدر آزاد صحافت عام ہو گی تو پھر جسے موقع ملے گا وہ میڈیا کو سدھارنے کے لیے اپنی مرضی اور اپنے مفادات کو ہی دیکھے گا۔٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x