ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مردِ حُر سید علی گیلانی مظفر آباد ، ودایٔ نیلم کا خراج تحسین – بتول اکتوبر۲۰۲۲

ہم نے پچھلے ماہ ہی تو جشنِ آزادی منایا ہے ۔ ابھی تو گھروں پر پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں مگر آزادی کا وہ مفہوم پہلی بار سمجھ میں آیا جب مظفر آباد اورنیلم وادی میں شہدا کے گھرانوں سے ملاقات ہوئی۔
وہ کیا مانگتے ہیں ؟
زندہ رہنے کا حق اور زندگی گزارنے کی آزادی !
یہاں کتنی مائیں اور بہنیں ہیں جن کے کلیجے میں جدائی کے تیر پیوست ہیں ! سبزے کا دو شالہ اوڑھے یہ پہاڑ پیلٹ گنوں سے بے نور کتنی آنکھوں کے نوحے سن چکے ہیں !
ان بے نورآنکھوں کی قسم !
جوان لاشوں پر بہنوں کے نوحے کی قسم !
مائوں کے پارہ پارہ دلوں کی قسم !
بوڑھے باپ کے شانوں کی قسم جو جوان لاشہ اٹھا کر ڈھلک گئے ہیں ان تار تار آنچلوں کی قسم جو آزادی کی قیمت ادا کر تے ہوئے ہوس کی نذر ہو گئے آزادی کی قیمت ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ کبھی نہیں جان سکتا ۔ اس ماں کے جسم کے ہر رونگٹے پر آزادی کی قیمت درج تھی جو اپنے دو بیٹے کھو چکی تھی اور تیسری لاپتہ ہے۔
ان کے لیے وہ زندگی کتنی خوب صورت ہے جس کی سحر آزادی کے بعد طلوع ہو گی ۔
اس روز ہم اٹھمقام پر تھے ۔ جہاں سید علی گیلانی کی پہلی برسی کے موقع پر حلقہ خواتین جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر نے خواتین کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔
اٹھمقام سے اوپر وادی نیلم کا ایک اجاڑ سا قبرستان ہے جہاں ہر کتبے پر بین السطور یہی درج ہے کہ ’’ اس قبر میں وہ شخص ہے جس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تشنۂ تعبیر رہ گیا ہے ‘‘۔
مظفر آباد اور وادی نیلم دونوں جگہوں پر خواتین کانفرنسوں میں شرکت کے لیے میں اس وفد کے ہمراہ گئی تھی جو حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی جنرل سیکرٹری دردانہ صدیقی صاحبہ کی قیادت میں روانہ ہؤا۔
ہر دو جگہ مرد آہن ، مجاہد اعظم سید علی گیلانی کے تذکرے کی خوشبو سے فضا مہک رہی تھی ۔ اس تذکرے سے پہلے میں لفظ ’’ مورچہ‘‘ کی وضاحت کرنا پسند کروں گی کہ پہلی بار یہ تفہیم حاصل ہوئی ۔
ہر گھر میں ڈرائنگ روم ، بیڈ روم ہوتے ہیں اسی طرح وادی نیلم کے ہر گھر کے تہہ خانہ میں ایک ’’ مورچہ ‘‘‘ ہوتا ہے جب سیز فائر لائن کے دونوں جانب فائرنگ ہوتی ہے اور توپوں سے گولے نکل کر گنجان آبادیوں پر گرتے ہیں تو گھر کے مکین ان ’’ مورچوں ‘‘ میں پناہ لیتے ہیں ۔
میں نے گھر میں مورچہ دیکھتے ہوئے بے بسی سے کہا ’’ تو آپ لوگوں نے اس خطر ناک علاقے سے کوچ کیوں نہ کیا ؟‘‘
اس نے اپنے گھر کے کھلے کچے صحن میں لگے چیڑھ ، اخروٹ ، ناشپاتی ، جنگلی زیتون کے درختوں کے اس پار اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’باجی وہ سامنے چوٹی کے اوپر بھارتی توپیں نصب ہیں جب میں شادی ہو کر یہاں آئی تو تین روز ہم گھر والے مورچے سے باہر نہ آ سکے جب مورچے سے باہر نکلے تو بازار اجڑ چکا تھا جس میں ہماری بھی تین دکانیں تھیں ۔ یہاں شاید ہی کوئی گھر ہو جس کی دیواروں میں فائرنگ کے سوراخ نہ ہوں ۔ گولے اچانک ہمارے گھروںمیں آکر گرتے ۔ ہم روز یہ ’’تماشہ‘‘ دیکھ دیکھ کر بہت بہادر ہو گئے ہیں باجی ! یہاں موت سے کوئی نہیں ڈرتا‘‘۔
لفظ’’ تماشہ‘‘ پر میں بری طرح چونکی ۔ ایک جھر جھری سے میرا جسم کانپ گیا۔
’’ادھر سڑکیں مسلسل گولہ باری سے دھوئیں اور گرد میں ڈوبی رہتی ہیں مگر سڑکیں ویران نہیں ہوتیں ۔ ایسے میں بھی آمدو رفت جاری رہتی ہے ۔ یہاں کے لوگ بہت بہادر ہیں ۔ ان کے گھر اور دکانیں بار بار اجڑتے ہیں مگر وہ یہاں سے نقل مکانی کا سوچتے بھی نہیں ۔
( پچھلے دوبرس سے ایک معاہدے کے تحت یہاں فائر بندی ہو گئی ہے وہ فائر بندی یہاں کے عوام کی خواہش پر نہیں ہوئی کیونکہ یہاں کے باسیوں نے تو سنگینوں کے سائے میں جینا سیکھ لیا تھا)۔
جھپٹ کر پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا ان کے لہو کو گرم کرنے کا بہانہ تھا۔ جنہوں نے وادی نیلم کے یہ گھروں میں بنے ’’ مورچے ‘‘ نہ دیکھے ہوں انہیں کیا معلوم کہ ان کے لیے زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں ، کیونکہ موت کا مطلب یہ ’’ شہادت‘‘ لیتے ہیں اور زندگی ان کے لیے ایک ’’مشن‘‘ اور عبادت ہے اور وہ مشن ہے آزادی کی منزل کا حصول ۔
ہم نے لہراتی اور بل کھاتی پہاڑیوں پر یہ طویل سفر سید علی گیلانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیا تھا۔
وہ جن کی پاٹ دار آواز مردہ دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن کرتی جن کی طویل عمر کا ہر دن جذبوں اور ولولوں کی ایک تازہ کہانی ہے ۔ کشمیر کے وہ مردِ حُر جو دشمن کے لیے لوہے کی چٹان ثابت ہوئے جنہوں نے یہ تاریخی جملہ تین نسلوں کی پیشانی پر درج کر دیا کہ ’’ کشمیر کے پہاڑوں پر کالی برف بھی پڑنے لگے تب بھی ہم شہیدوں کے لہو سے غداری نہیں کریں گے ۔ ہم اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں ‘‘۔
وہ مرد حق آگاہ ، گر میِ گفتار اور اولو العزمی کا استعارہ تھے جو بھارتی سورمائوں کو ببانگ دہل للکارتے تھے کہ ’’ میں باغی ہوں ، ہاں مجھے سولی پر چڑھادو ، پھانسی کے پھندے کو چومنا میرے لیے سعادت ہے ‘‘۔
انہوں نے ’’ ہم پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے ‘‘ کا تاریخی نعرہ ہی کشمیری نسلوں کو نہیں دیا بلکہ ان کی نسلوں میں آزادی کی روح پھونکنے کے لیے ریاست جموں و کشمیر میں چار سو سے زائد ماڈل اسکول قائم کیے ۔
آج ہم اس مجاہد اعظم کی برسی کے موقع پر اس کی یادوں سے اپنے من میں اجالا کر رہے تھے جس نے ایک ہزار سے زائد مثالی بستیاں قائم کر کے مائوں کو درس دیا کہ انہیں شیر مادر کے ساتھ اپنے بچوں میں جذبۂ حریت منتقل کرنا ہے ۔ سلام ہے اس قائد کو جس کی ولولہ انگیز قیادت نے تین نسلیں بھارتی غلامی کے خلاف صف آرا کر رکھی ہیں ۔
وہ مظفر آباد جس کو جدوجہد آزادی کا بیس کیمپ بننا تھا وہ تو اقتدار کے پجاریوں کا ’’ ریس کیمپ ‘‘ بن گیا جبکہ سید علی گیلانی نے بھارت کی سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی کی جانب سے بھارتی صدر بننے کی پیشکش یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دی تھی کہ ’’ مادام گاندھی ! اب کشمیر میں کوئی شیخ عبد اللہ نہیں رہا جو کرسی کی خاطر دین و ملک سے غداری کرے ‘‘۔
ہم پاکستان سے ان کے لیے سپاس گزار دل لے کر گئے تھے کہ انہوں نے ساری زندگی اہل پاکستان کی تمنائوں کو توقیر بخشی ، ان کی لاج رکھی ۔ انہوں نے تکمیل پاکستان کے نا مکمل ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے اپنی سیاسی زندگی کا ہر دوسرا دن جیل میں گزارا ۔ برصغیر میں طویل ترین سیاسی اسیری ان کا اعزاز بنی جو ان کے پائے استقلال میں لمحہ بھر کو بھی جنبش نہ لا سکی۔
یکم ستمبر 2021ء ملت اسلامیہ کے ایک عظیم سانحہ کا دن ہے ۔ گیلانی صاحب کی موت زندگی کی پیامبر ثابت ہو گی اب ان شا ء اللہ وہ ایک شخص کا نام نہیں ایک تاریخی جدوجہد کا عنوان ہیں ۔ سوا کروڑ مظلوم مسلمانوں کی پون صدی پر پھیلی جدوجہد کا استعارہ ۔ سات دہائیوں کی ایک مجاہدانہ ہنگامہ خیز زندگی ۔ 33کتابوں کے مصنف سید علی گیلانی خود اقبال کا چلتا پھرتا کلام تھے۔
وہ کڑی دھوپ کا ایک گھنا اور ٹھنڈا سایہ تھے ایسا سایہ جس سے راہ حریت کے مسافر تا قیامت آسودگی پاتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x