ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کیاکیا دان کیا مٹی کو – بتول مئی ۲۰۲۳

میں اس چرواہے کی طرح ہوں جو اپنی بکریاں چراگاہ سے واپس لاتے ہوئے پہاڑی غزلیں گنگناتا ہو ۔ یہ یاد اس سے بھی زیادہ سہانی ہے

حاجی مرید گوٹھ خاموش کالونی کا قبرستان ہے ۔
میں حاجی نور اللہ خان کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوں ، حاجی صاحب کے ساتھ کئی مرد و خواتین خوابیدہ ہیں ، میں چاروں طرف دیکھ رہا ہوں ، کتبے پڑھ رہا ہوں ، میری بہن کی قبر نہیں مل رہی ۔
وہ دور مجھے بھولا تو نہ تھا کہ جب جان سے عزیز زندگی سے بھر پور زندگی کی علامت کے بچھڑ جانے پر تین سال بلاناغہ میں ہر جمعہ کے دن اپنی بہن کے اس نئے گھر میں اس کے سرہانے بیٹھ جاتا تھا ، کچھ تلاوت کرتا ، پھر خاموش بیٹھ جاتا ، بہن کا حال احوال دریافت کرتا ، قبر پر نظر پڑتے ہی مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجاتا اور سلام کر کے دعائیں لیتے واپس آتا ، مجھے ہمیشہ ایسا ہی لگا جیسے وہاں قبر نہیں بلکہ زندہ و تابندہ وہ ہمیشہ کی طرح آنکھوں میں زندگی بھر کے مجھے دیکھ رہی ہوتی ، مجھے تسلی دیتی ، امی ابو بہن بھائیوں کے حال احوال پوچھتی ، کچھ اپنی سناتی کچھ ہماری سنتی ۔
زندگی کی گرم لو نے ان سوتے جاگتے خوابوں سے باہر نکالا اور دھوپ میں کھڑا کردیا ، کچھ عرصہ جلتا رہا اور پھر یہ گرمی گزر گئی مگر دوڑ دھوپ کی منزل نہیں گزری ۔اسی منزل پر کھڑا ہوں مگر یاد کا اک ننھا سا جھونکا مجھے آج قبرستان لے آیا ہے اور میں قبروں میں سے اس قبر کو تلاشتے ہوئے نجانے کہاں سے کہاں تک جاپہنچا۔
بچھڑے ہوئے پیاروں کی یاد بادِ نسیم کی طرح ہے ، چلتی ہے تو ایک خوشگوار ٹھنڈک ساتھ لاتی ہے ۔ میں اس چرواہے کی طرح ہوں جو اپنی بکریاں چراگاہ سے واپس لاتے ہوئے پہاڑی غزلیں گنگناتا ہو ۔ یہ یاد اس سے بھی زیادہ سہانی ہے ۔ پیار و محبت کا ایک سراپا مجھے ڈھانپ لیتا ہے ۔ چاروں طرف بھینی بھینی مہک پھیل جاتی ہے ۔ میں غموں کو کبھی یونہی بھلاتا ہوں ۔ بہن کی یاد آتی ہے تو مجھے اپنے گرد و پیش سے غافل کردیتی ہے ۔ میں انہیں یادوں میں بہن کے زانو پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہوں ۔ بہن پیار سے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہے ، ڈانٹتی ہے ، پیار و محبت کی باتیں کرتی ہے ۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ بڑی بہن شادی کے بعد رخصت ہو کر کراچی کی طرف آ چکی تھی۔
ایسے میں جب ہم کراچی وارد ہوئے تو سب سے پہلی ضیافت بہن کے گھر ہی تھی ۔ رمضان کا مہینہ تھا ، افطاری پر مدعو تھے ، اس زمانے کی روایت تھی پکوڑے سوپ میں ڈبو کر کھائے جاتے تھے ۔ یہ افطار کی لازمی ڈش تھی بہن نے دعوت سے ایک دن پہلے ہم بچوں کو تربیت دی
’’دیکھو! پکوڑے سوپ میں ڈبو کر کھانے ہیں سوپ اگر چاہو تو چمچ سے پی سکتے ہو مگر برتن کو منہ لگا کر پیو گے تو لوگ ہنسیں گے ، میری ناک کٹے گی “۔
ہم تھے دیہاتی ، وہ یہاں شہر کے طور طریقے سیکھ چکی تھی اور اسے ہر گز یہ گوارا نہ تھا کہ ہم کسی بھی معاملے میں شہریوں سے کم نظر آئیں ۔آہ کیا محبت تھی!
یادوں کی فلم جب پلکوں تلے چلتی ہے تو اس کے بند ہونے کا کوئی بٹن نہیں ہوتا چلتی چلی جاتی ہے ۔
میں جمعے کی چھٹی پر بہن کو ملنے آتا تھا ، ان کے ہاں میرے پانچ روپے بندھے ہوتے تھے ۔ میں ایک بار دس کا نوٹ لے کربھاگا وہ بھی دروازے تک پیچھے دوڑتی آئی مگر میں نکل چکا تھا ۔ پھر ایک دن میں لاڈ کے مارے بھاگ رہا تھا ، بہن برقعہ پہن کر میرے پیچھے بھاگ رہی تھی ، مجھے منانے کے لیے گرد و پیش سے یکسر غافل ۔
کیسی محبت تھی ناں بے لوث ،میٹھی پیاری ،اس محبت کا حق ادا

نہیں ہوسکتا۔ اس سے چھوٹے تھے ہم بچے تھے ، وہ ہمیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی تھی ، سوچتی تھی ہم بڑے ہو کر والد صاحب کو سہارا دیں گے ، ہم بچے ہی رہ گئے وہ نہ رہیں ۔ سوچتا ہوں ان کے بعد جتنی آسودگی اور خوشیاں آئیں وہ اس قدر خوشیاں دیکھتیں تو جذبات سے بے قابو ہوجاتیں۔ وہ نہ رہی ہم جوان ہوگئے ، شادیاں ہوگئیں مگر ہر ہر مرحلے پر ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوئی ۔پہلے پہل جب غم تازہ تھا اور ہم بھی فارغ تھے تو ہر جمعہ کے جمعہ ملاقات کی روایت ان کے شہر خموشاں والے گھر میں بھی قائم رکھی مگر پھر اپنے مسائل تفکرات اور غمِ دوراں میں تو ہم بھول گئے ،قبرستان کا راستہ بھول گئے ، بہن یاد نہ رہی ، قبر ہی بھول گئے ۔
آج ادھر آیا بیٹھا ہوں قبروں کے کتبے پڑھ رہا ہوں ، اس گورکن کو تلاش کررہا ہوں جو یہاں تھا ، آنکھوں سے آگ برساتا وہ گورکن اپنی جھونپڑی سے برآمد ہوتا تھا ، ایک ہاتھ میں چھڑی ہوتی تھی ، منہ سے سگریٹ کی بو آتی تھی ۔قبروں اور مردوں کا رکھوالا ، اس وحشت ناک قبرستان کا رکھوالا جہاں لوگ راتوں میں چلہ کشی کرتے ہیں اور لوگوں کو قید کرنے کے وظیفے پڑھتے ہیں ۔وہ ان مُردوں پر راج کرتا تھا ، وہ بھی نہ رہا تھا۔ پتہ نہیں اس کے آباؤ اجداد بھی یہاں دفن ہوں گے ، یہ جو نوجوان لڑکا ہے یہ اس کا بیٹا ہی ہوگا میں پوچھنا چاہتا تھا مگر زندگی کی رفتار قدرے تیز ہے، وہ بھی بھول گیا ہوگا اس بوڑھے کو جس کی آنکھوں سے آگ برستی تھی۔ یہاں کئی نوابوں اور جاگیرداروں کی قبریں ہیں ، وہ لوگ بھی یہاں آرام فرما رہے ہیں جو سوچتے تھے دنیا ہمارے بنا ادھوری ہوگی ۔ آج درختوں کے اس جھنڈ میں وہ دنیا کے لیے ایک کتبے جتنی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ہوا چلتی ہے ، خاک اڑاتی گزر جاتی ہے ، ہوا کو بھی خیال نہیں کیسے کیسے لوگ یہاں سو رہے ہیں ۔ میں چاہوں تو ان کے سر پر کھڑا ہوسکتا ہوں ، بہت سارے لوگ ان کے سروں پر پاؤں رکھتے ہیں ۔
پیاری امی جان زاہدہ کا کتبہ بھی ہے ۔ اپنے ہی ہاتھوں سے بیٹے یہاں دفن کر کے چھوڑ گئے ہیں ۔ اس دنیا کی بے ثباتی کے کیا کہنے ۔ کل ہم بھی یہاں دفن ہوں گے ، ہمارے سرہانے کوئی کھڑا ہوگا ۔ ہماری قبر کو تلاش کررہا ہوگا ، بسیار کوشش کے بعد دل ہی دل میں فاتحہ پڑھتے ہوئے نکل جائے گا۔ ہمارے لیے دعا کرے گا ۔ گورکن دور سے ہانکتا ہؤا آئے گا ۔ یہ گورکن آگ برساتی آنکھوں والا گورکن ہوگا ۔ وہی گورکن اپنے اولاد کے روپ میں یہاں کھڑا ہوگا ۔ قبر کی رکھوالی کے پیسے وصول کرے گا ۔ کسی کے دل میں خیال آئے گا، پوچھنا چاہے گا مگر نہیں پوچھ سکے گا ۔
آہ۔۔۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے ميں
ثبات ايک تغير کو ہے زمانے ميں
٭ ٭ ٭

 

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x