ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

حکم عدولی – بتول مئی ۲۰۲۳

جب سے پتہ چلا تھا کہ آنٹی ثریا سکاٹ لینڈ سے پاکستان آ رہی ہیں کوئی دہشت سی دہشت تھی۔
آہستہ بولا کرو، آنٹی ثریا آ رہی ہیں، چیزیں ٹھکانے پر رکھو، آنٹی ثریا بہت ڈسپلنڈ خاتون ہیں۔ یہ جوتا اندر کیوں پہن آئے… باہر اتار کر آئو، پتہ نہیں آنٹی ثریا آ رہی ہیں، وہ وقت کی بہت پابند، نفاست پسند اور نفیس مزاج کی خاتون ہیں۔ اور… اور… امی نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی ان کے سامنے کوئی بدتمیزی کا مظاہرہ نہ کرنا۔ اور ہاں کھانا کھاتے ہوئے دھیان رکھنا کھانے کی آواز نہ آئے، وہ ہمارے کان مروڑ دیا کرتی تھیں جب ہم کھانا کھاتے ہوئے چپڑ چپڑ کی آواز منہ سے نکالا کرتے تھے…
رہی سہی کسر ابا پوری کر دیتے…’’زیادہ ٹر ٹر کرنے کی ضرورت نہیں ان کے سامنے… وہ فضول گفتگو تو کیا ضرورت سے زیادہ ایک لفظ بولنا یا سننا پسند نہیں کرتیں۔‘‘
چھوٹی بہن حمیرا نے جل کر کہا ’’آنٹی ثریا نہ ہوئیں گویا سربراہ مملکت ہو گئیں۔‘‘
میری ہنسی چھوٹ گئی۔ ’’او چھوٹی، عقل کی موٹی، بھلا حکمران بھی کبھی وقت کے پابند، ڈسپلنڈ ہوا کرتے ہیں؟ ایسے ہوں تو سڑکوں پر ان کے پتلے کیوں جلیں؟‘‘
آنٹی ثریا کی فلائٹ پہنچنے والی تھی، ابا اور امی دونوں کی تیاری دیکھنے والی تھی… گیٹ سے نکلتے نکلتے انہوں نے پھر یاد دہانی کرائی جوسز وغیرہ زیادہ ٹھنڈے ہوں نہ گرم… ہر چیز تیار رکھنا، کہیں کارٹون دیکھنے بیٹھ جائو اور ہر چیز بھول جائو… اور سنو، انہوں نے چشمہ درست کرتے ہوئے کہا، وہ ان کارٹون فلموں کو سخت ناپسند کرتی ہیں، کہیں ان کے سامنے بچوں کی طرح کارٹون نیٹ ورک کھول کر نہ بیٹھ جانا… سمجھیں؟‘‘
’’اُف… و…ہ…‘ تو وہ کیا پسند کرتی ہیں؟‘‘ حمیرا نے پوچھا۔
’’وہ…‘‘ امی ایک دم ہکلائیں۔ ’’وہ انڈین اور انگلش موویز دیکھتی ہیں یہ وہ واحد شوق ہے جو ان کی گھٹی میں بھی ان کو ساتھ ملا اور پروان چڑھتا گیا۔ وہ کھانا چھوڑ سکتی ہیں فلمیں نہیں، مجھے یاد ہے جب ستر کی دہائی میں لاہور میں انڈین فلم ’’مغل اعظم‘‘ کی نمائش ہوئی تو وہ کوئٹہ سے صرف اور صرف یہ فلم دیکھنے کے لئے آئی تھیں۔ اب بھی ان کے بیگ میں اپنے وقت کی مشہور ٹاپ ٹین فلموں کی سی ڈیز موجود ہوتی ہیں…‘‘
’’جب سی ڈیز نہیں تھیں تب؟‘‘ حمیرا کی زبان میں کھجلی ہوئی۔
’’تو وی سی آر کی کیسٹس ہوتی تھیں، ہاسٹل کی لڑکیاں ان کے طفیل تمام انڈین فلمیں دیکھ چکی تھیں… اصل میں وارڈن ان کی سگی پھوپھو تھیں جن سے ثریا کو فلموں کا شوق ملا۔ ثریا کو ان کی پھوپھو نے ہی پالا تھا۔ پھوپھا کی پوسٹنگ دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں ہوئی تھی، تنہائی سے گھبرا کر انہوں نے ثریا کو گود لے لیا… فیڈر منہ میں ڈال کر پاس ہی لٹا لیتیں اور سارا سارا دن کرائے پر منگوا کر فلمیں دیکھتی تھیں۔ ثریا کا بچپن دلیپ کمار کی فلمیں دیکھ دیکھ کر اور لتا، رفیع کے گانے سن کر گزارا… جب پھوپھا کا انتقال ہوا تو پھوپھو سات سالہ بیٹے اور ثریا کے ساتھ لاہور شفٹ ہو گئیں۔ وارڈن کے طور پر اپلائی کیا اور ہاسٹلوں میں ہی زندگی تمام کر دی…‘‘
امی تو آنٹی ثریا کی زندگی کا چھپا ہوا گوشہ بے نقاب کر کے چلی گئیں لیکن ہمارے لئے یہ بہت ناقابل یقین تھا… ہماری ساری زندگی تو یہی سنتے گزری کہ شکل اور عقل میں ثریا کا کوئی ثانی نہیں، صورت ایسی کہ شاعر کی غزل، قدبت ایسا کہ دیکھو تو دیکھتے رہ جائو، بے پناہ ذہین اور محنتی، حالانکہ جو محنت کرتا ہے وہ ذہین نہیں ہوتا اور جو ذہین ہوتا ہے وہ محنت کم ہی کرتا ہے۔ عادات و اطوار میں بے مثال جو ایک دفعہ ملتا گرویدہ ہو جاتا،

اپنی ضروریات کو کم کر کے دوسروں کی مدد کرنے والی، روتوں کو ہنسانے والی ہر فن مولا… ان کی موجودگی میں کوئی شیلڈ یا ٹرافی کسی اور کو مل جائے… نا ممکن ہے۔ نعت خوانی، مباحثے، مذاکرے، کھیل میں سب سے آگے… دا وِنر…‘‘
یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ ہم بہن بھائی جب تک شعور کی عمر کو نہیں پہنچے تھے (ابا کہتے ہیں کہ وہ تو تم ابھی بھی نہیں پہنچے) تب وہ دو ایک سال بعد پاکستان آتی تھیں۔ اس لئے ہمارے ذہنوں میں ان کا وہ سراپا جو دلکشی لئے ہوئے تھا امی کی حالیہ معلومات سے اڑا…ڑا…دھم، چکنا چور ہو گیا۔ وہ ایک عورت دلیپ کمار سے ملنے ممبئی کا سفر کرتی ہو، انڈین فلموں کی سی ڈیز اس کے بینڈ بیگ میں موجود ہوتی ہوں، بالی وڈ کے ستاروں کے نام پتے ان کے سیل فون کی میموری میں موجود ہوں بھلا وہ کیسی ہو گی…!! معزز، مدبر خاتون کے سراپے سے بدل کر ایک دم کچھ کچھ کترینہ اور کرینہ کا خاکہ آ گیا…
’’اُف کتنی پراسرار سی ہوں گی؟‘‘ حمیرا نے کہا۔
اور…اور… سامعین و قارئین گاڑی رکنے کی آواز آتی ہے۔ اور دروازہ کھلا ہے… اور… گیٹ کھلتے ہی امی کے پیچھے ایک خاتون داخل ہو رہی ہیں…
ہائیں یہ کیا… یہ کون ہیں؟ میں نے آنکھیں مسلیں، سیاہ پرنٹڈ سکارف اوڑھے، کالا چشمہ لگائے، کالے عبائے میں ایک دراز قد خاتون دو بچیوں کے ہمراہ داخل ہو چکی ہیں۔ ایک بچی جو نسبتاً بڑی لگ رہی ہے، یہی دس بارہ سال کی اس نے پورے بازوئوں کی قمیص کے ساتھ شلوار پہنی ہے دوسری نے لمبی فراک کے ساتھ ٹائٹس پہنی ہیں… سر اس کا بھی ڈھکا ہوا ہے… اور یہ ان کے پیچھے ابا بھی اندر آ گئے ہیں…
’’ہائیں اس کا مطلب ہے یہی برقعہ پوش خاتون آنٹی ثریا ہیں‘‘ حمیرا منمنائی۔
عربوں کے سے شین قاف کے ساتھ آواز آتی ہے ’’السلام علیکم و رحمتہ اللہ‘‘ ہم دونوں بہنیں منہ کھولے آنکھیں پٹپٹا کر انہیں دیکھ رہی ہیں۔ امی نے ٹہوکا دیا… حمیرا نے جواب دیا۔
’’وعلیکم السلام آنٹی‘‘
’’بڑی پیاری بچیاں ہیں میمونہ تمہاری‘‘ آنٹی نے ہم دونوں کو پیار کیا۔ ’’اوئے یہ تو محلے کے مدرسے کی استانی لگتی ہیں‘‘ حمیرا نے میرے کان میں کہا۔
’’میرا بھی یہی خیال ہے…‘‘ میں نے اسی کے لہجے میں جواب دیا امی ابو آنٹی کو لے کر ڈرائنگ روم میں چلے گئے، بچیوں کو ہم اپنے پاس لے آئیں۔
’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ میں نے بڑی والی سے پوچھا۔
’’یہ فاطمۃ الزہرا ہے اور میں ،خدیجۃ الکبری…‘‘ بہت اعتماد سے جواب دیا۔
آپ فلمیں دیکھتی ہو، بالی وڈ کی؟ حمیرا نے راز داری سے پوچھا۔
’’نہیں…‘‘ دونوں گھبرا گئیں… ’’ہم نے کبھی فلم نہیں دیکھی، ماما بھی نہیں دیکھتیں…‘‘
’’حق ہا…‘‘ حمیرا نے مصنوعی اداسی سے کہا۔ کتنا شوق تھا شاہ رخ خاں، دیپکا پاڈوکون اور کترینہ کیف کی باتیں سننے کا!‘‘
بچیاں ٹکر ٹکر ہماری شکل دیکھ رہی تھیں، گیسٹ روم میں جانے سے پہلے پہلے حمیرا نے بہانے سے ان کا ہینڈ بیگ بھی دیکھ لیا تھا… اور بے اختیار منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ کر روک پائی۔
دو طرح کی تسبیح، پنجسورہ، عطر کی دو شیشیاں، کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ… کچھ کرنسی!
’’امی آپ تو کہتی تھیں آنٹی انڈین فلمیں دیکھتی ہیں‘‘ حمیرا نے امی کے کان میں کہا۔
امی نے سوال آنٹی ثریا کے سامنے رکھا اور ساتھ ہی ساون بھادوں کی جھڑی شروع ہو گئی۔
’’اصل میں تمہاری اور تمہاری پھوپھو کی فلم بینی کا تذکرہ کیا تھا اس لئے بچیاں سوال کر رہی ہیں۔‘‘ امی نے رکتے جھجکتے بات مکمل کی۔
’’اوہ… ہو! کیا بتائوں اور کہاں سے شروع کروں‘‘ آنٹی ثریا نے غمزدہ لہجے میں کہا… ’’اب نظر دوڑائوں تو اپنی زندگی دور جہالت ہی

لگتی ہے۔‘‘ ان کی آنکھوں کے کونے پھر بھیگ گئے پھر اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے بولیں۔
’’صبورہ تم جانتی ہو ناں پھوپھو دلیپ کمار کی فلم لگاتیں اور میں ان کی ٹانگیں دباتے دباتے پوری فلم دیکھ لیتی… ان کو شعور تھا نہ مجھے کہ دس روپے کرائے کی مد میں دے کر کس دلدل میں پھنس رہے ہیں… پھوپھو تو فلموں کی دیوانی تھیں ہی، میں نشئی بن گئی۔ یہاں تک کہ جب مجھے دیوداس کی کیسٹ ملی یونہی وی سی آر میں وہ سیٹ کرتے کرتے تین گھنٹے پلک جھپکے بنا گزر گئے… کچن پر رکھا گھی جل جل کر پورا کچن دھوئیں سے بھر گیا… پڑوسیوں نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا کہ آپ کے گھر سے کچھ جلنے کی بو آ رہی ہے… پھر ’’ہرے رام کرشنا‘‘ کے پیچھے تو میں نے جغرافیہ کا پرچہ چھوڑ دیا تھا۔‘‘
کرب، اذیت اور درد بھرے لہجے میں آنٹی ثریا نے کہا:
’’پھر جب پھوپھا جان کا انتقال ہوا، پہاڑی علاقوں میں پھوپھو کا دل نہ لگا تو انہوں نے لاہور آ کر اپلائی کیا۔ وارڈن بن کر ہاسٹل میں شفٹ ہوئیں۔ اب ان کو دو سراہٹ کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ ان کا سات سالہ بیٹا نعمان ان کے پاس تھا، پھوپھو نے خط لکھ دیا تھا کہ ثریا کو آپ جب چاہیں لے جا سکتے ہیں۔ مگر تب یہ فلمیں ہی تھیں جنہوں نے مجھے روکے رکھا۔ انڈیا کے فلمسٹار میرے پائوں کی زنجیر بن گئے۔ میں نے اپنی سگی ماں، اپنے ماں جائے بہن بھائیوں کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔‘‘
آنٹی ثریا دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر رونے لگیں، امی نے ان کو پانی دیا…
’’پھر میرا بی اے مکمل ہوا… شادی ہوئی شادی کے بعد سکاٹ لینڈ جانا پڑا… ان فلموں اور فلمسٹاروں کے جادو کے حلقے سے باہر آئی تو احساس ہوا یہ سب کچھ غلط تھا… ان فلمسٹاروں کے حالات پھوپھو سے پتہ چلتے تو لگتا یہ تو گندگی کے سیاہی کے دھبے ہیں… ایسے میں پھوپھو بیمار ہو گئیں ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہو گئیں… میرے ہاں بھی بیٹا پیدا ہوا میرا ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔
’’دو سال کے بعد پاکستان آئی… بیس دن کا قیام جیسے بیس سیکنڈ میں گزر گیا… چاہنے کے باوجود پھوپھو سے نہ مل سکی۔ اسی حسرت میں واپس چلی گئی کہ زندگی موت کا کیا پتہ پھوپھو سے مل ہی لیتی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ پھر دو سال بعد خدیجۃ الکبریٰ دنیا میں آ گئی۔ مرکز و محور بچے تھے… پاکستان گئی تو پہلے پھوپھو سے ملنے ہاسپٹل پہنچی۔
’’کمرہ میں داخل ہوتے ہی جس وجود پر نظر پڑی اسے دیکھتے ہی میری چیخ نکل گئی۔ پھوپھو ہوش میں تھیں لیکن کینسر نے دونوں آنکھیں نگل لی تھیں۔ دلیپ کمار، سنجے کمار کی عاشق آنکھیں اب غار تھیں… مردوں میں نہ زندوں میں۔ میرا ہاتھ پکڑ کر کچھ کہے بغیر روتی رہیں۔
میں نے تسلی دلاتے ہوئے نعمان کا پوچھا۔ وہ کہاں ہے؟ کیا کر رہا ہے؟ پھوپھو یہ سنتے ہی بلک بلک کر رو دیں۔
پھوپھو کہاں ہے وہ؟ میرا دل دہل رہا تھا۔
ممبئی… پھوپھو نے روتے ہوئے بتایا۔
کیوں؟ مجھے حیرت کا جھٹکا لگا… اس کی تجارت کی عمر نہ تھی کھیلوں اور کھلاڑیوں سے اس کا تعلق نہیں تھا پھر ممبئی کیوں گیا؟
فلمسٹار بننے! فلموں کی رسیا پھوپھو نے دکھ سے بتایا۔ وہ تو میٹرک بھی بڑی مشکل سے کر پایا تھا، تو کیا فلمسٹار بن گیا وہ؟ مجھے حیرانی ہوئی یہ چھ سات سال کیسے گزرے علم ہی نہ ہو سکا۔
ہاں…، ہندی نام کے ساتھ… جاتے ہی ایک ایک دو منٹ کے کردار ملتے گئے۔ فلموں کے بارے میں معلومات لامحدود تھیں کچھ بڑے کردار ملنے کی امید تھی جس میں رنگ بھرنے کے لیے ہندی ناری سے شادی کر لی ایک کوریو گرافر کی اسسٹنٹ سے… کوشیلا کماری… ایک بچہ بھی ہے دونوں کا ’’اجیت کمار‘‘
پھوپھو آپ دل پر نہ لیں، اس کی قسمت کا رزق وہیں تھا۔
صبح کا آغاز انڈین فلموں سے کرنے والی پھوپھو کی دلجوئی میں کیسے کرتی؟ آپ اس کے صدمے سے بیمار ہوئی ہیںناں؟ میں نے پوچھا۔
نہیں… مجھے چوری چھپے جی پی فنڈ نکلوا کر لے جانے کا صدمہ بھی نہیں میرے بعد اسی کو ملنا تھا۔ مجھے باپ کی زمینیں بیچنے کا صدمہ بھی نہیں، وہ کون سا قبر میں لے کر جانا تھیں… مجھے فلموں میں کام کرنے کا بھی دکھ

نہیں میں نے اسے ورثے میں دیا ہی یہ تھا… مجھے صدمہ بس یہ تھا… پھوپھو کا سینہ اوپر نیچے ہونے لگا… جس ہندو عورت سے اس نے شادی کی اس نے گھر میں مندر بنا لیا ہے… میرا بیٹا اور وہ دونوں صبح بھجن گا کر دن کا آغاز کرتے ہیں… مجھے صدمہ اس بات کا ہے میری نسل ہندو ہو گئی… اتنا بھیانک انجام نکلا میرے شوق کا!
اسی صدمہ سے ڈھے گئی مجھے تو بعد میں جا کر احساس ہوا کہ اس سے بھی بڑا دکھ یہ ہے کہ میں نے جو حکم عدولی کی اپنے رب کی، وہ دن میں کچھ گھنٹوں کی ہوتی تھی جب میں وی سی آر کے سامنے بیٹھی رہتی تھی۔ میری کوکھ سے پیدا ہوا میرا بیٹا ہر سانس پر ہر لمحے کی حکم عدولی کر رہا ہے۔ مشرک عورت سے نکاح نہ کرنا میرے رب کا حکم ہے اور وہ بدبخت شیطان سے بھی آگے نکل گیا، اس کی ایک حکم عدولی کی تھی… یہ ہر لمحے کا نافرمان، رب کا نافرمان گناہگار! میں رب سے معافیاں مانگتی ہوں، توبہ تِلا کرتی ہوں پر مجھے قرار نہیں آتا۔ جس آگ سے بچنے کی دعا ہم ہر سانس پر کرتے ہیں، آنکھ بند کرتے ہی اس آگ میں اس کی چِتا ڈال دی جائے گی… پھوپھو سینے پر دو ہتڑ مار کر بولیں۔
ہائے مجھے قرار کیسے آئے؟
پھوپھو تو قرار مانگتے مانگتے، اللہ کے پاس پہنچ گئیں لیکن میرے لئے سلمان خان، عامر خان، شاہ رخ خان اور عمران خان کے نام اجنبی بن گئے… میں نے سب سی ڈیز ضائع کر دیں… لیکن ہر نماز کے بعد میں پھوپھو کے لئے مغفرت اور ان کے بیٹے کے لئے ہدایت کی دعا کرنا نہیں بھولتی… شاید کاتب تقدیر نے پلٹ آنے کا کوئی لمحہ اس کی زندگی میں چھپا رکھا ہو… شاید‘‘۔
آنٹی ثریا کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی اور نگاہیں دور افق پر تھیں۔
٭…٭…٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x