ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میرا چھپر میری چھائوں – بتول مئی ۲۰۲۳

محبت کاتال میل سارے راستے ہموار کرتا چلا جاتا ہے ۔ دل و دماغ کی کوئی حجت کوئی دلیل کام نہیں آتی ۔

میں CCUکے باہر کھڑی آنسوئوں کی بارش میں بھیگ رہی ہوں۔ شاید یہ سب میری توقع کے بالکل خلاف ہؤا ۔ میں اتنی کمزور دل تو کبھی نہ تھی ۔ ہسپتال سے باہر تیز بارش ہو رہی ہے ۔ رہ رہ کر بجلی بھی کوند رہی ہے ۔ بادلوں کی گڑ گڑاہٹ نے دل کو سہما دیا ہے ۔
میں ایک یقین کے ساتھ اپنی امید کی زمین پر مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہوں ۔ وہ میرا سب کچھ ہیں ۔ میری پناہ گاہ ، میرے لیے تحفظ ۔ میرا چھپر میرا سائبان ۔ دنیا کی کڑی دھوپ میں ٹھنڈی چھائوں۔ برفیلی ہوائوں کی زد میں بھی رہ کر ہرا بھرا درخت ۔ انہوں نے میرے سارے مسائل اپنی پلکوں سے چن لیے ہیں ۔ بہادری اور اصول پسندی سے موسم کی ہر سختی گرمی کو اپنے اوپر جھیل لینے والے ۔ہر مسئلہ کو حل کرنے والا میرا محافظ ۔ ایک تناور درخت کی طرح خود دھوپ میں رہ کر سب کوتپش اور بارش سے بچانے والا انسان جو ہر لمحہ میرے دل میں رہنے کے لائق ہے سچائی صاف دلی اور بے باکی سے ہر مسئلہ کو حل کر دینے والا ۔ میں ہر لمحہ اُن کے لیے دعا کرتی ہوں کہ میری زندگی بھی ان کو لگ جائے۔
اب میں سوچ رہی ہوں زندگی کے کتنے بے شمار سال گزر گئے ہم دونوں کو ساتھ رہتے ہوئے، پتہ نہ چلا۔ ہر دن نیا دن ، ہر لمحہ زندگی اور محبت سے بھرپور ۔ ہر غلطی پر بچوں کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کر درست کر دینے والا ۔ ہر آن ایک دوسرے کی پسند نا پسند کا خیال رکھتے وقت اتنی تیزی سے گزر گیا کہ احساس ہی نہ ہؤا کہ کب بالوں میں چاندی اتری کب اعصاب جواب دینا شروع ہوگئے۔ کب جذبوں کے چرخے پر اک عمر محبت کی پونیاں کاتتے بسر ہو گئی ۔
پتہ نہیں کیوں میرے ہاتھوں میں لرزش ہو رہی ہے ۔ آنکھیں جل تھل ہو رہی ہیں جیسے سارے جذبے برسات بن گئے ہیں ۔ عموماً مرد اپنی سلطنت میں کسی دوسرے کی عملداری برداشت نہیں کرتا ۔ عورت اگر مرد کی دست نگر ہو تو مرد کے وجود میں تسکین ہی تسکین ہوتی ہے ۔ مگر ہم دونوں ہم دم ، ہم قدم اور رفیقِ سفر یا اس سے بھی بڑھ کر دوست زیادہ رہے ہیں ۔ بغیر کہے ایک دوسرے کے جذبوں اور احساس کی تحریر پڑھ لیتے ہیں جو وہ سوچتے ہیں وہ میں کرتی ہوں اور جو میری سوچ ہوتی ہے وہ ان کا عمل ہوتا ہے ۔ زندگی شاید اسی طرح گزرتی ہے اور ایک دوسرے کا بن کر سب کچھ کہہ دینا ہی شاید محبت ہے ۔
ہمارا مزاج ہمارا اندازِ فکر سب یکساں ہیں فرق صرف یہ ہے کہ میں بزدل ، کم ہمت اور کم علم ہوں ۔ وہ بہادر ، سچ پر قائم رہنے والے ، صاف گو ، بے باک اور علم کا سمندر ہیں ۔ بعض اوقات ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے میں ایک عمر گزر جاتی ہے ۔ اظہار محبت کے لیے الفاظ بالکل بے وقعت ہو جاتے ہیں مگر ہمیں کبھی اس کی ضرورت نہیں ہوئی ۔ بے کہے ، سب کچھ ایک دوسرے سے کہہ دیا۔
وقت سب سے بڑا تالیق ہے جس کا تعلق سارے وجود سے ہے۔ ہمارا وجود ظاہر وباطن کا مجموعہ ہے ان کا ظاہر و باطن یکساں آئینے کی طرح شفاف بغیر کسی بناوٹ کسی ملمع کے سب سے نمایاں ہے۔
مدعا کی ترسیل کے لیے سماعت اور گویائی کا توازن ضروری ہے ، سادگی اور اختصار بن کہے سب کچھ کہہ دینا بڑی خوبی ہے ۔ ذہنی مطابقت ، ہم آہنگی ایک دوسرے کو خواب سمجھ کر ہر لمحہ آنکھوں میں بسا لینے کی تمنا ۔ شاید خوابوں سے قیمتی کوئی شے نہیں ہوتی ۔ خواب جب ذات کا ادراک بن جائیں تو زندگی میں مصلحت پیچھے رہ جاتی ہے ۔ محبت کاتال میل سارے راستے ہموار کرتا چلا جاتا ہے ۔ دل و دماغ کی کوئی حجت کوئی دلیل کام نہیں آتی ۔ بس وہ میرا ایسا ہی مجسم خواب ہیں جنہیں میں ہر لمحہ آنکھیں کھول کر دیکھتے رہنا چاہتی ہوں ۔
ہم دونوں میں سے کوئی بھی خوب صورت نہیں ۔ لیکن ایک

دوسرے کے محبوب ہیں ۔ شاید اس لیے کہ محبت اس سے نہیں کی جاتی جو خوب صورت ہے بلکہ خوبصورت وہ ہوتا ہے جس سے محبت ہو ۔ کیونکہ محبت تو اندھیری راتوں کے بعد ٹھنڈی روشنی میں نہاتا چاند ہے ۔ یہ تو محسوسات کا بندھن ہے ۔ آپ ہزار کو س دُور ہوں اگر دل ساتھ دھڑکتے ہیں تو آپ کی محبت کبھی ختم نہیں ہو گی ۔ محبت میں جلنے والوں کو کبھی دھوپ نہیں جلا پاتی ، یہ تو سدا بہار ہے ۔ ان کہی میں محبت ہے محبت بے جان لفظوں کی محتاج نہیں ، یہ ہر جذبہ سے بڑھ کر ہے ۔ محبت اپنے محبوب کے دل کی راہ سے چوری چوری نہر نکال کر سیراب ہو جاتی ہے ۔
جوانی میں مرد محنت و مشقت کر کے بیوی کو سکھ ، اولاد اور تحفظ دیتا ہے ۔ وہ خواہ غصہ ور ہو ، بد مزاج ہو چڑ چڑا ہو مگر بیوی کو اپنی چار دیواری کے سکون کے لیے سہنا پڑتا ہے ۔ بڑھاپے میں جب دونوں ہی کمزور تھکے ہوئے ہوتے ہیں تو جوانی کی محبتیں یاد کر کے ایک دوسرے کے لیے رحمت بن جاتے ہیں ۔
اولاد کی صحیح تربیت ہو تو یہی اولاد ماں باپ کا بہت بڑا سہارا بن جاتی ہے مگر پھر بھی ایک دوسرے کا وجود دونوں کے لیے ضروری ہو جاتا ہے ۔ ہم دونوں بھی ایک دوسرے کی ضرورت ، محبت اور ایک دوسرے کے محبوب ہیں ۔ جوانی کی سر گرمیوں اور سر شاریوں میں محبت کا الگ انداز ہوتا ہے بڑھاپے میں یہ انداز احترام اور عقیدت میں بدل جاتا ہے ۔ جوانی میںذرا ذرا سی تکلیف ایک دوسرے کو بتاتے ہیں بڑھاپے میں ایک دوسرے کی پریشانی کے خیال سے بہت بڑی بڑی تکالیف بھی ایک دوسرے سے چھپاتے ہیں ، شاید یہی محبت ہے۔
میں CCUکے باہر شیشے کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے اپنا محاسبہ کر رہی ہوں تو سوچ رہی ہوں کتنا بڑا اور سمندر جیسا دل ہے ان کا ۔ میں نے ان کے ساتھ کتنی نا فرمانیاں گستاخیاں کی ہوں گی مگر انہوں کبھی کسی عیب کا احساس نہیں ہونے دیا ۔ ہمیشہ میری ہر کمزوری کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے رہے ۔
میری ہر بیماری میں خود باورچی خانہ سنبھال لیا کبھی کسی سے کوئی احسان نہیں لیا ۔ میرے ہاتھوں میں فریکچر ہؤا ۔ کپڑے بدلنا ، میری چوٹی باندھنا ، منہ دھلانا یہ سب کام اپنی نوکری کے ساتھ ساتھ کیا ۔ میں سیڑھیوں سے گری پائوں میں چوٹ آئی پندرہ دن کے لیے صاحب فراش رہی ۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کس وقت ناشتہ بناتے کب کھانا پکاتے ۔ میں دوائوں کے نشے میں غافل رہتی کھانے اور ناشتے کے وقت مجھے اٹھاتے مجھے کھلاتے ۔ ہر سال حج اور عمرہ پر جا کر میں بیمار ہوجاتی ہوں وہاں اپنی نمازوں کے ساتھ ساتھ میری تیمار داری کرتے ۔میں شاید نا فرمان ہوں مگر نا شکری نہیں ۔میں اللہ کے احسانات کا ہر لمحہ شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے ان جیسا جیون ساتھی ملا جس کے ساتھ میں قدم سے قدم ملا کر چلنے میں فخر محسوس کرتی ہوں ۔ خدا انہیں میری عمر بھی دے دے ۔ جس طرح انہوں نے مجھے ہر لمحہ سکون دیا ان کو پر سکون زندگی اور صحت و تندرستی سے نوازے۔
اس وقت میرے چاروں بچے میرے آس پاس کھڑے میرے آنسو صاف کر رہے ہیں ۔
’’ امی اپنے آپ کو سنبھالیے ابو ٹھیک ہیں اب اچھا ہؤا ہم بر وقت ان کو ہسپتال لے آئے ۔ڈاکٹرکہتے ہیں وہ انشاء اللہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے‘‘۔
میں شاید بزدل زیادہ ہوں اس لیے کمزور دل بھی ہوں ۔ وسوسے اور اندیشے مجھے ہر لمحہ گھیرے رہتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی کسی تکلیف کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ سینے اور پیٹھ میں درد ، جلن ، چلنے میں سانس پھولنا اور سینے میں درد ہونا یہ سب دل کی بیماری کی علامات ہیں لیکن وہ ہمیشہ ٹالتے رہے ۔ ڈاکٹر اور ہسپتال سے گھبراتے ہیں کیونکہ وہ ڈاکٹروں کے علاج سے مطمئن نہیں ہوتے اور ڈاکٹر جو دوائیں دیتے ہیں اس میں وہ اپنی مرضی سے رد بدل کر دیتے ہیں حالانکہ سیلف میڈیکیشن ہر ایک کے لیے نقصان دہ ہے مگر ان کا کہنا ہے وہ اپنا مزاج ڈاکٹر سے زیادہ بہتر

جانتے ہیں اس لیے اپنی تکلیف کے مطابق خود دوا میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی ذرا سی بھی تکلیف میرے لیے بہت اذیت ناک ہوتی ہے ۔
ان کی اپنی صحت سے بے نیازی کایہ نتیجہ نکلا کہ حالت خراب ہونے پر ایمرجنسی میں ہسپتال لانا پڑا۔ ڈاکٹر نے انجیو پلاسٹی تجویز کردی ۔
تیس سال پہلے ان کے ایک ایکسیڈنٹ نے چھ ماہ تک ان کو بستر تک محدود کر دیا تھا ۔ وہ خود بہت محتاط ڈرائیور ہیں لیکن دوسرے لوگ جو سڑک پر کاریں دوڑا تے پھرتے ہیں وہ کار میں بیٹھ کر اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ کو سڑک کا بادشاہ سمجھنے لگتے ہیں ، ایسے ہی ایک شخص نے ان کو ٹکر پیچھے سے ماری اور پھر خود ہسپتال میں ڈال کر مجھے اطلاع دے دی ۔ شاید سب لوگ یہ سمجھیں گے کہ وہ شخص بڑا نیک تھا جس نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے کفارہ ادا کر دیا ، ایسا ہر گز نہیں تھا وہ شخص اسی ادارہ میں کام کرتا تھا جس میں میرے شوہر تھے ۔ ایک دوسرے سے واقفیت بھی تھی اس لیے ایکسیڈنٹ کے بعد جب اس شخص نے ان کی شکل دیکھی تو وہ گھبرا گیا اور اپنی بیوی کے بے حد اصرار پر وہ ان کو ہسپتال پہنچا کر مجھے اطلاع دینے آگیا ۔
میں جب ہسپتال پہنچی تو یہ خون میں لت پت بے ہوش اسٹریچر پر پڑے تھے ۔ان کی نبض کم اور مدہم ہو رہی تھی ۔ میں نے نرسوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے ان کا کیا ٹریٹمنٹ کیا تو جواب ملا :’’ یہ پولیس کیس ہے ہم اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتے ۔ جب تک کوئی انسپکٹر ان کا بیان نہ لے لے ‘‘۔آپ اندازہ کریں کہ ایک بے ہوش آدمی جو خون کے تیزی سے ضائع ہونے کی وجہ سے موت کی طرف جا رہا ہے اس کے بیان دینے کے انتظار میں نرس اور ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کرتے ۔
میں نے سسٹر سے کہا کم از کم مجھے ٹنکچر بینزائن دے دو میں خون صاف کر کے دیکھوں کہ زخم کہاں کہاں ہیں اور کہاں سے خون نکل رہا ہے۔ ان کا سفید کرتا پاجامہ سرخ ہو چکا تھا ۔ جسم کے ہر حصہ میں چوٹیں لگی تھیں ۔ شاید میرے لہجہ کی سختی یاد رد کو سسٹر نے محسوس کیا وہ فوراً ہی روئی کا پھایا ٹنکچر میں بھگو کر لے آئی ۔ میں ان کے ماتھے کے زخم صاف کر رہی تھی جہاں سے تیز رفتاری سے خون نکل نکل کر آنکھوں کے پپوٹوں پر جم رہا تھا ۔ ایک آنکھ اور اس کا نچلا حصہ نیلا ہو رہا تھا ایک ہاتھ کا انگوٹھا الگ جھول رہا تھا۔ شانے ، سینہ ، ٹانگیں غرضیکہ کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں سے خون نہ نکل رہا ہو۔
میں نے اپنے بھائی سے ( جو مجھے ہسپتال لے کر آئے تھے ) کہا کہ کسی اور ہسپتال لے چلیں یہاں تو کوئی علاج نہیں ہوگا ۔ جناح ہسپتال لے جانے کی تجویز ہوئی تو ہسپتال ایمبولینس دینے پر تیار نہ تھا ۔ آخر کار پرائیویٹ ایمبولینس کا انتظام کر کے جناح ہسپتال پہنچے تو وہاں بھی ڈاکٹروں کا رویہ انتہائی سرد اور بے نیازی کا تھا ۔ انہوں نے بھی پولیس کیس کہہ کر سرد مہری اختیار کرلی ۔ میں مسلسل روتی رہی تھی کیونکہ ان کی نبض ڈوب رہی تھی اور خون زخموں سے مسلسل خارج ہو رہا تھا ۔ میری بے قراری دیکھ کر ایک ہندو سندھی ڈاکٹر کو ترس آگیا اور اس نے دوسرے ڈاکٹروں کے روکنے کے باوجود مریض کے انجکشن لگا دیا ۔ انجکشن کے دس منٹ بعد خون بہنے کی رفتار میں کمی ہونے لگی۔ میرے لیے وہ لمحے انتہائی اذیت ناک تھے جب اس ڈاکٹر نے ان کے خون آلود کپڑے اتار کر ہسپتال کے کپڑے پہنائے ۔ ان کا سفید کرتا پاجامہ سرخ ہو گئے تھے ۔ وہ سر کی چوٹ ( ہیڈ انجری ) کی وجہ سے بے ہوش تھے۔
میں اُس وقت بھی آنسوئوں کی بارش میں بھیگ رہی تھی ۔ اکیس دن بعد انہیں ہوش آیا تو وہ سب کچھ بھول چکے تھے کہ وہ کن مرحلوں سے گزر کر آئے ہیں ۔ ڈاکٹرز نے ہدایت کی تھی کہ ان کو کچھ یاد دلانے کی کوشش نہ کی جائے ۔ آہستہ آہستہ خود سب یاد آجائے گا ۔ اس آہستہ آہستہ نے میری توجان نکال دی ۔ میں کتنی مرتبہ مری کچھ یاد نہیں ۔ بس زندگی کے کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جب انسان اندر سے مر جاتا ہے ۔ بظاہر وہ زندہ ہوتا ہے ، کھاتا ہے پیتا ہے مگر جیتا نہیں ہے میرے لیے ایسا کئی بار

ہؤا۔ جب اُن کو ذرا سی بھی تکلیف ہوئی میں ، میں نہیں رہی ، ایک زندہ لاش ، بے روح ، بے جان بن گئی۔
وہ جانتے ہیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں اس لیے ان کی تکلیف ہو یا میری تکلیف ۔ دونوں تڑپ جاتے ہیں ۔ اس وقت بھی جب ان کی انجیو گرافی ہوئی اور پھر جب ان کی انجیو پلاسٹی کردی گئی اور آپریشن تھیٹر سے باہر لایا گیا ، میں جائے نماز پر بیٹھی شکرانے کے نفل ادا کر رہی ہوں ۔ اپنے معبود حقیقی کی رحمت اور عنایت پر سجدہ ریز ہوں کہ اس نے کرم ہی کرم دم بہ دم فرمایا ۔ یہ اُس کی توفیق تھی کہ بر وقت ہسپتال لے آئے اورپھر تمام مراحل سے بخیر و خوبی گزر کر یہ وقت شکر آیا اور سب کچھ صحیح ہو گیا۔
انہیں کمرے میں شفٹ کردیا گیا ہے ۔ وہ آنکھیں کھول کر مجھے تلاش کر رہے ہیں ۔ میں نے آہستہ سے ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا ۔ میری آنکھوں کے آنسو ان کے ماتھے پر بھی گر رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھا اور آہستہ سے بولے ۔
’’ آئی ایم سوری… میں نے تم سب کو بہت پریشان کیا ‘‘۔
بچوں کے چہرے باپ کی آواز پر کھل اٹھے ہیں اور میں تو اللہ کے شکر کے لیے ہمیشہ آنسوئوں کا سہارا لیتی ہوں ۔ ہسپتال کے کوریڈور میں بچھی جائے نماز پر سجدہ کرتے ہوئے میں اس کی رحمت و فضل ، عنایات کا شکر اور اپنی کم مائیگی کا احساس لیے تڑپ رہی ہوں ۔ کاش ہم سب وہاں بھی ساتھ ہوں جہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہے ۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x