ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ – بتول نومبر۲۰۲۰

طب کے شعبے میں کام کرتے ہوئے بہت سے ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ آپ سب سے ان کا ذکر کیا جائے۔ کچھ یادیں میٹھی ہوتی ہیں اور کچھ کٹھی بھی ہوتی ہیں۔ کھٹاس کا تعین کرنا بھی مشکل ہوتا ہے اور اس کا حل ڈھونڈنا بھی مشکل ہے، کیونکہ انسان ہونے کی حیثیت سے ہماری صلاحیتیں بھی محدود ہیں اور عقل بھی۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مریض ڈاکٹر سے خفا ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات طریقہ علاج مریض کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ اور کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض ڈاکٹر سے چڑ بھی جاتا ہے۔ کبھی وہ کسی اور سے کچھ ایسا سن کر آتا ہے کہ اس کی وجہ سے اس کی ذہن سازی پہلے ہی ہو چکی ہوتی ہے۔ خیریہ تو غیر دلچسپ تفصیلات ہیں۔ آئیے چند واقعات کی طرف چلتے ہیں۔
سعودی عرب میں اگر مریض ڈاکٹر کے ساتھ برا رویہ اختیار کرے تو اس کا بھی حل ہے۔ طبی اخلاقیات کی رو سے ڈاکٹر کو یا دیگر طبی عملے کو مریض کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہو گا تو ڈاکٹر یا دیگر طبی عملہ بھی ذمہ دار ہو گا اور پھر فیصلہ برابری کی بنیاد پر ہو گا کہ غلطی کس کی ہے۔ اس کے لیے ہم اپنے سٹاف کو یہ سکھاتے تھے کہ اگر مریض غصے میں ہے اور امکان ہے کہ وہ کسی چیز سے ڈاکٹر پر حملہ کر دے گا تو اپنے اور مریض کے درمیان غیر شعوری طور پر محفوظ فاصلہ رکھیں تا کہ آپ مریض یا حملہ کرنے والے فرد کی پکڑ سے باہر ہوں۔ کئی بار ایسا ہؤا کہ مریضہ نے بہت بحث کی اور کلینک چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ہم یا نرس مریضہ کے لیے دروازہ تو کھول سکتی ہیں لیکن اسے پکڑ کر باہر نہیں نکال سکتے۔ ایسی صورت میں خاتون سیکورٹی افسر کو بلایا گیا۔ کبھی ایسا بھی ہوأ کہ اس خاتون سیکورٹی افسر کو اپنی مدد کے لیے مزید کسی اور کو بھی بلانا پڑ گیا۔ ایک دو بار جب مریضہ نے غصے کے عالم میں کمرہ چھوڑنے سے انکار کر دیا تو میں نے دوسرے کلینک میں مریض دیکھنا شروع کر دیے تانکہ سیکورٹی افسر آ گئی۔ ایک بار ہم راؤنڈ کر رہے تھے۔ ایک مریضہ کا بچہ وقت سے پہلے پیدائش ہونے کا کیس تھا۔ اس کا شوہر اندر گھس آیا، حالانکہ یہ آسان نہیں تھا۔ اس نے کسی ہسپتال کے ملازم کے اندر داخل ہوتے وقت کھلے دروازے کا فائدہ اٹھایا۔ بہرحال اس نے راؤنڈ کے دوران شوروغل مچانا شروع کر دیا۔ ہم سب سہم کر ایک طرف کھڑے ہو کر سن رہے تھے۔ اتنے میں ہسپتال کا مدیر آ گیا۔ وہ روزانہ صبح ہسپتال کا دورہ کرتا تھا۔ اس نے سیکورٹی والے کو کہا، جس نے اسے گردن سے پکڑا اور باہر لے گیا۔ کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ اس کی رپورٹ بیس کمانڈر کے پاس گئی ہے اور امکانات یہی ہیں کہ اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ اس کارروائی کے نتیجے میں اغلب تھا کہ اس کو ملازمت سے فارغ کر دیا جائے گا۔ جب یہ سب اس شخص کو پتہ چلا اور غصہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا تو اس نے تو رونا شروع کر دیا۔ ہمیں کہنے لگا کہ میری نوکری چلے جائے گی، پھر میں کیا کروں گا۔میں اسے لے کر ہسپتال کے مدیر کے پاس گئی اور اس کی پرزور سفارش کی۔ اس نے کہا کہ اس کا رویہ بیحد غیر اخلاقی اور غیر قانونی تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اسے ملازمت سے اب نہ فارغ کریں لیکن اس کا تبادلہ ضرور ہو گا۔
ایک بار میری ایک مریضہ جو برطانیہ سے انگریزی میں پی ایچ ڈی کر کے آئی تھی اور اب یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی، علاج کے لیے کلینک میں آئی۔ہمارے کلینک میں وقت طے ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ وقت کی ضرورت ہو تو مریض کو اگلی اپائنٹمنٹ دے دی جاتی تھی، جو کئی بار کافی دیر سے ملتی تھی۔ اس مریضہ نے جب اگلے مریض کا وقت بھی لے لیا تو میں نے اسے کہا کہ آپ دوبارہ اپائنٹمنٹ لے لیں۔ وہ اس پر کافی ناراض ہو گئی اور جا کر میڈیکل ڈائریکٹر کو میری شکایت لگا دی۔ مجھ سے میڈیکل ڈائریکٹر نے پوچھا تو میں نے صورتحال کی وضاحت کر دی اور مریضہ کو نئی اپائنٹمنٹ مل گئی۔ اس کے بعد اس کا ہمارے ہسپتال میں لیپروسکوپ اور ہسٹیروسکوپ سے آپریشن ہؤا جس میں سب کچھ نارمل آیا اور مریضہ کی تسلی ہو گئی۔ وہ بہت خوشی خوشی ہسپتال سے گئی اور بعد میں بھی اپنی اپائنٹمنٹ پر جب آئی تو بہت مطمئن تھی۔
مریض کی شکایت کو بہت توجہ سے سنا جاتا ہے، اور اگر مریض مطمئن نہ ہو تو وہ اگلے درجے تک بھی شکایت کر سکتا ہے۔ اس میں بھی تدریج ہے۔ اگر زبانی طور پر مریض کا مسئلہ حل نہ ہو اور اس کی تسلی نہیں ہوئی تو وہ تحریری شکایت کرتا ہے۔ ہر ہسپتال کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ اس کی شکایت پر توجہ دے تحقیق کرے کہ مریض اپنی شکایت میں کس حد تک حق بجانب ہے۔ شکایت ثابت ہو جائے تو ذمہ دار فرد کو شکایت کے مطابق تنبیہہ ہو گی یا سزا ملے گی۔اگر شکایت ثابت نہ ہو تو مریض کو بتا دیا جائے گا۔ اگر کسی وجہ سے مریض مطمئن نہیں ہے تو وہ بیرونی تحقیق کی درخواست کرے گا جسے پورا کرنا ہسپتال یا وزارت صحت کی ذمہ داری ہے۔ بیرونی ٹیم پوری تحقیق کرے گی، اس کی بعد اگلا درجہ عدالت کا ہے۔ بہت سے معاملات ابتدائی طور پر ہی طے پا جاتے ہیں، لیکن کبھی کبھی کیس عدالت میں بھی چلا جاتا ہے۔
ہماری ایک مریضہ کا بیٹا چھٹے مہینے کے شروع میں، چھ سو گرام وزن کے ساتھ پیدا ہؤا اور کچھ عرصہ نرسری میں رہنے کے بعد فوت ہو گیا۔ اس کے شوہر نے ہمارے بچوں کے شعبہ کی سربراہ کے خلاف براہ راست بادشاہ کو شکایت کر دی کہ وہ میرے بچے کا درست علاج علاج نہیں کر سکے اس لیے اس کی وفات ہو گئی۔ اس کی تحقیق کے لیے ریاض سے اور وزارت صحت سے ٹیم آئی اور مکمل تحقیق کے بعد ڈاکٹر کو بے قصور قرار دیا گیا، کیونکہ اتنے کم وزن اور کم عمر پر پوری دنیا میں بچوں کے بچنے کی شرح بہت کم ہے۔ ایسے بچے بچ جائیں تو بھی ان میں بہت سی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔ شکر ہے کہ بچے کا والد بھی مطمئن ہو گیا اور اس طرح کیس ختم ہو گیا۔ جس ڈاکٹر کے بارے میں شکایت کی گئی، وہ بیحد ذمہ دار تھا اور اسے اپنے شعبے میں بہترین مہارت حاصل تھی۔ ایک بار آدھی رات کو ایک سیزیرین کرنا پڑا، جڑواں بچے تھے، اور پیدائش بھی وقت سے پہلے تھی۔ قاعدے کے مطابق بچوں کے دو اطباء کا کمرہء جراحی میں موجود ہونا ضروری تھا جو دونوں بچوں کو پیدائش کے فورا ًبعد چیک کر کے انتہائی نگہداشت میں اپنی نگرانی میں لے کر جاتے۔ میں نے جب دیکھا تو ان میں سے ایک طبیب وہ ڈاکٹر صاحب خود تھے۔ یہ ان کا احساس ذمہ داری تھا جو آدھی رات کو کمرہء جراحی میں لے آیا۔
اسی طرح ایک اور شکایت ہوئی۔ دو ہزار چودہ میں ایک مریضہ کا آپریشن ہؤا۔ مریضہ حمل کے ابتدا ہی میں بلیڈنگ کی وجہ سے فیملی میڈیسن میں آئی، انہوں نے حمل کی تشخیص کی اور الٹراساؤنڈ کرایا۔ ابھی ابتدائی حمل تھا اس لیے الٹراساؤنڈ پر کچھ نظر نہیں آیا۔ جب دوبارہ مریضہ اسی شکایت کے ساتھ آئی تو انہوں نے اسے ہمارے پاس ریفر کر دیا۔ ہماری ایک ڈاکٹر نے دیکھا اور الٹراساؤنڈ کیا جس پرپھر کچھ نظر نہیں آیا اور اسے کچھ دن کی اپائنٹمنٹ دے کر گھر بھیج دیا۔ اپنی اپائنٹمنٹ سے پہلے ہی وہ ایمرجنسی میں آئی اور داخل ہو گئی کیونکہ بلیڈنگ ابھی بھی نہیں رکی تھی۔ سپیشلسٹ نے کنسلٹنٹ کو بتایا۔ کنسلٹنٹ نے الٹراساؤنڈ کیا تو اس کا حمل رحم کی بجائے ٹیوب میں تھا۔ سوا بجے الٹراساؤنڈ ہؤا اور اڑھائی بجے اس کا آپریشن ہو گیا۔ اس مریضہ کے پہلے دو بچے آپریشن سے پیدا ہوئے تھے۔ ٹیوب کا حمل کافی بڑا تھا، اس لیے ٹیوب نکالنی پڑی۔ اس کی دوسری ٹیوب دیکھنے میں صحتمند تھی۔ مریضہ خیریت سے تیسرے دن گھر چلی گئی۔
دو ہزار اٹھارہ میں اس کے شوہر نے شکایت کر دی کہ ڈاکٹر نے میری بیوی کی ایک ٹیوب نکال دی ہے اور ایک ٹیوب بند کر دی ہے۔ اس کے لیے تفتیشی ٹیم باہر سے آئی۔ شکایت کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس آپریشن کے بعد مریضہ کا کوئی حمل نہیں ٹھہرا۔ حمل کے علاج کی دوران جب اس کی ٹیوب ٹسٹ کرائی تو وہ بند تھی اس لیے اسے ٹسٹ ٹیوب کا مشورہ دیا گیا۔ لیکن سرکاری ہسپتالوں میں جب دو بچے پہلے سے ہوں تو ٹسٹ ٹیوب نہیں کرتے۔ اس جوڑے کے پہلے سے دو یا تین بچے تھے۔ بہرحال تفتیشی ٹیم نے ڈاکٹر کو بھی بلایا اور شوہر کی بات بھی تفصیل سے سنی۔ اس کی بعد انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ جس ڈاکٹر کے خلاف شکایت ہے، اس نے اس مریضہ کی تشخیص اور علاج میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور اس عمدگی سے اس کا علاج کیا ہے جیسے کہ امریکہ یا برطانیہ میں ہوتا۔ لیکن ابتدائی مراحل میں تشخیص میں تاخیر ہوئی، جس کو بہتر بنایا جائے۔ اس کی بعد انہوں نے شوہر سے بات کی جو شکر ہے کہ بات کو سمجھ گیا۔ اگر وہ اس فیصلے پر راضی نہ ہوتا تو کیس عدالت میں چلا جاتا۔
عدالت میں بھی کیس جاتے ہیں۔ جب جرمانہ ہو تو طبیب کی نسبت ہسپتال کو زیادہ جرمانہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات طبیب اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ ایسے ہی ایک کیس میں ایک پاکستانی ڈاکٹر کو جرمانہ ہؤا۔ یہ واقعہ مجھے میرے ایک مصری کولیگ نے سنایا۔ ایک مریضہ لیبر روم میں داخل تھی۔ ساؤتھ افریقہ کی مڈ وائف نے جو اس کی دیکھ بھال کر رہی تھی، پاس سے گزرتی ہوئی پاکستانی ڈاکٹر کو بلایا کہ ذرا اس کو دیکھو۔ اس ڈاکٹر نے مریضہ کو دیکھ تو لیا لیکن ساتھ ہی مڈ وائف سے کہا کہ میں اس وقت ڈیوٹی پر نہیں ہوں، تم متعلقہ ڈاکٹر کو بھی اطلاع کر دو۔ مریضہ کا مسئلہ کچھ گھمبیر ہو گیا اور بعد میں کیس عدالت تک پہنچ گیا۔ عدالت میں ان ڈاکٹر صاحبہ کو بھی بلایا گیا۔ حالانکہ وہ قصوروار نہیں تھیں۔ وہ گھبرا گئیں اور رونا شروع کر دیا۔ عدالت نے جو وقت انہیں صفائی کے لیے دیا تھا، اس میں وہ روتی ہی رہیں اور کچھ نہ کہہ سکیں۔ اسی وجہ سے ان پر بھی جرمانہ ہؤا۔ ہر ڈاکٹر کی انشورنس ہوتی ہے اور انشورنس کمپنی ہی یہ جرمانہ ادا کرتی ہے۔
اکثر مریض تفصیلات جاننے کے بعد ڈاکٹر کی رائے سے متفق ہوتے ہیں، لیکن کچھ مریض اس سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ جیسے ہماری ایک مریضہ ولادت کے وقت کچھ ایسی چیزیں چاہتی تھی جو ہمارے پیدائش کے قواعد میں شامل نہیں تھیں۔اس لیے ہم نے ان کو لیبر روم کی انچارج سے مشورہ اور منظوری کے بعد مریضہ کی فائل میں شامل کر دیا۔ وہ اپنے ساتھ اپنا ڈیلیوری بال اور ایک خاص مرہم لے کر آئی تھی۔ اس کا دوسرا بچہ تھا، اور اس کی پہلی ڈیلیوری بھی کافی مشکل تھی۔ پیدائش کے عمل کی تفصیلات بتاتے ہوئے سب باتیں ڈسکس ہوئیں جس میں آپریشن کے ذریعے پیدائش کے اسباب و امکانات بھی شامل تھے۔ پیدائش کے دوران شروع میں تو معاملات درست سمت پر چلتے رہے۔ لیکن پھر بچے کی دھڑکن کچھ خراب ہونا شروع ہو گئی، لیکن خرابی اتنی نہیں تھی کہ فورا آپریشن کیا جاتا اور انتظار ممکن تھا۔ اس لیے مریضہ، اس کے شوہر اور مریضہ کی والدہ کو یہ سب تفصیلات بتا دی گئیں۔ اس کے علاوہ پیدائش کے عمل کے متعلق بھی ان سب کو ساتھ ساتھ آگاہ کیا جاتا رہا۔ ایک مرحلے پر آ کر بچے کے دل کی دھڑکن اتنی خراب ہو گئی کہ طبعی پیدائش کا انتظار کرنا خطرہ مول لینا تھا۔ ہم نے مریضہ اور خاندان کو یہ سب تفصیل سے بتا دیا اور پیدائش کے لیے عمل جراحی کی تجویز دی۔ لیکن ان سب نے تفصیلات سے آگاہ ہونے کے باوجود اس سے انکار کر دیا۔ اس دوران پتہ چلا کہ ان کی کوئی ڈاکٹر صاحبہ کسی اور ہسپتال میں ہیں جن سے وہ بار بار مشورہ کر رہے ہیں۔
اسی دوران ایک مرحلہ ایسا آ گیا کہ اگر آپریشن فوراً نہ کیا جاتا تو بچے کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا کیونکہ دل کی دھڑکن بتا رہی تھی کہ آکسیجن بہت کم مقدار میں بچے تک جا رہی ہے۔ انہوں نے سی ٹی جی یعنی بچے کے دل کی دھڑکن کے ٹریس کی تصویر لے کر ڈاکٹر صاحبہ کو بھیج دی۔ لیکن آپریشن کے لیے وہ اب بھی تیار نہیں تھے۔ اس مرحلے پر ہم نے انہیں کہا کہ ہم زبردستی تو عمل جراحی نہیں کر سکتے لیکن آ پ کو اس کے لیے دستخط کرنا ہوں گے اور اس تاخیر اور فیصلے کی ذمہ داری لینا پڑے گی۔ اس موقع پر مریضہ صورتحال کو سمجھ گئی اور اس نے کہا کہ وہ بچے کو خطرے میں نہیں دیکھنا چاہتی اور پیدائش چونکہ ابھی فورا ًممکن نہیں ہے، اس لیے آپ مجھے عمل جراحی کے لیے لے جائیں۔ الحمدللہ ہم نے پانچ منٹ کے اندر بچے کو رحم سے نکال لیا اور شکر ہے کہ اس پر ابھی آکسیجن کی کمی کے شدید اثرات نہیں نظر آ رہے تھے۔ لیکن بہرحال بچہ متاثر تھا۔ پیدائش کے بعد بچے کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ چوتھے دن ماں کے ساتھ ہی گھر چلا گیا۔ ایک ہفتہ کے بعد ماں اور بچہ ددونوں کلینک میں چیک کرانے آئے اور الحمدللہ بالکل ٹھیک تھے۔ مریضہ اور اس کا خاندان بے حد مطمئن تھے۔
یہ واقعہ میں نے اس لیے بھی لکھا ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض اوقات پیدائش کے عمل کی دوران اپنی ڈاکٹر پر مریض کا اعتماد اور اعتقاد متزلزل ہو جاتا ہے۔ پیدائش کا عمل سو فیصد اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، وہ بھی قدرت اور قدرتی کی بات کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایک بالکل طبعی پیدائش کا عمل پیچیدہ ہو جاتا ہے، اور بعض اوقات بالکل طبعی حمل اور پیدائش عمل جراحی میں بدل جاتے ہیں۔ مریض کو ہر بات بتانے اور کاؤنسلنگ کرنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ فیصلہ تو مریض کی مرضی کا کیا جائے لیکن اس کے علم میں سب مثبت و منفی پہلو لانے کے بعد۔ مشکل وہاں پیش آتی ہے جب مریض ایک ایسے ڈاکٹر کی رائے کو ترجیح دیتا ہے جس نے پورا کیس دیکھا ہؤا نہیں ہوتا۔ یا مریض فیصلہ تو اپنی مرضی کا چاہتا ہے لیکن اس کی ذمہ داری ڈاکٹر پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اسی طرح سنی سنا ئی بات کی بنیاد پر بھی بعض اوقات مریض فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے معاملات سے وطن عزیز میں زیادہ بار واسطہ پڑا۔ سعودی عرب میں ایسے واقعات کم ہیں۔
سعودی عرب کے کھانے
ہسپتال اور مریضوں کا تو کافی ذکر ہو گیا اور ہوتا بھی رہے گا، آئیے کچھ بات سعودی عرب کے کھانوں کے بارے میں کرتے ہیں۔ آج کل ہم ریاض میں مقیم ہیں جو ایک گلوبل شہر مانا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے کھانے بھی گلوبل ہیں۔ ہر ملک اور ہر جگہ کا کھانا بہترین ذائقے اور لذت کے ساتھ آپ کو یہاں دستیاب ہے۔ اور اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی پیٹ بھر کر اپنی پسند کا کھانا کھا سکتا ہے چاہے اس کی آمدنی کم ہے یا زیادہ۔یہ ذکر ایک داستان کی صورت اختیار کر سکتا ہے کیونکہ کھانوں کا تنوع اس قدر ہے کہ اس سے کم میں شاید مکمل نہ ہو۔کیوں نہ اس داستان کو اپنے ہسپتال کے کیفے ٹیریا اور باورچی خانہ سے شروع کیا جائے۔
جس طرح شاعر حضرات پہلی محبت کی واردات کو سو رنگ سے بیان کرتے ہیں اور بھولنے نہیں دیتے، اسی طرح ہمیں بھی سعودی عرب میں اپنا پہلا گھر ‘‘جبیل’’ ہر بات میںیاد آ جاتا ہے۔ شروع میں ہمیں عربی کھانا بہت پھیکا لگتا تھا اور بہت زیادہ بھی۔ جی ہاں ، سعودی عرب میں کھانے کا حصہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ اتنا بڑا حصہ یا پورشن آپ کو جنوبی امریکہ کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آئے گا۔ حقیقی معنوں میںیہ حصہ جنوبی امریکہ میں ملنے والے کھانے کے حصے سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ ایک کھانا دو افراد کے لیے کافی ہوتا ہے۔
ہسپتال میں کھانا بہت کم قیمت پر دستیاب ہوتا ہے۔ چار اقوام کے لوگ زیادہ تر ہسپتال میں کام کرتے ہیں اس لیے کھانے بھی انہی اقسام کے بنتے ہیںیعنی عربی، فلیپینو، بھارتی اور پاکستانی۔ فلیپینی کھانا کھانے کا موقع بھی پہلی بار جبیل ہی میں ملا اور خوب ملا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کچھ فلیپینی کھانے ہمارے پسندیدہ کھانوں میں شمار ہو گئے جن میں پنسیت، چکن اڈوبو، تلی ہوئی گوبھی اور چند اور کھانے تھے۔ پنسیت ہماری سویّوں کی طرح کے باریک پاستا سے بنتا ہے۔ اس میں مرغی کے ریشے، اور کچھ سبزیاںجیسے بند گوبھی وغیرہ ڈالی جاتی ہیں اور انہیں بہت زیادہ نہیں پکایا جاتا تاکہ ان کا رنگ، شکل اور کچا پن برقرار رہے۔ کھانے میں لذیذ اور دیکھنے میں خوش رنگ ہوتا ہے۔ کیفے ٹیریا کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے شعبے میں ہونے والی ہر دعوت کا جزو لاینفک ہوتا تھا۔ اسی طرح ساگودانہ، کریم،کوکونٹ جیلی اور سادہ جیلی سے بننے والاایک میٹھا بھی بہت خوش ذائقہ تھا۔ مجھے اس کا نام یاد نہیں آ رہا کیونکہ وہ کچھ مشکل سا تھا اور مجھے کبھی بھی یاد نہیں ہؤا۔ ایک اور فلیپینی کھانا پتلے شور بے، کریلوں اورمچھلی پر مشتمل تھا جو ہم نے پہلی بار دیکھالیکن کھانے کی ہمت نہیں پڑی۔ اسی طرح رائس کیک یا چاول کے کیک بھی پہلی بار یہیں پر کھائے۔ ایک کیک تو بہت حد تک ہمارے گڑ والے چاولوں سے ملتا جلتا تھا۔ فرق یہ ہے کہ رائس کیک لیس والے چاول سے بنتا ہے۔
ناشتے میں کئی طرح کے مزیدار سینڈوچ کے ساتھ ساتھ فْول تمیص کا مشہور و معروف عربی ناشتہ بھی ملتا۔ ہر جمعرات کو صبح کلنیکل میٹنگ ہوتی تھی، جس میں ناشتہ بھی ہوتا تھا جو سینڈوچز، جوس، پانی اور چائے پر مشتمل ہوتا تھا۔ کیفے ٹیریا کا کھانا ذائقے میں اچھا اور قیمت میں اتنا مناسب تھا کہ بہت سارے ڈاکٹر جو اکیلے رہتے تھے، وہ کھانا خود بنانے کی بجائے کیفے ٹیریا سے ہی کھاتے تھے۔ اسی طرح کچھ ڈاکٹر جن کے بچے چھوٹے تھے، وہ انہیں ہسپتال کے ڈے کئیر میں چھوڑ دیتی تھیں۔ ڈے کئیر ہمارے گھروں والی ہاؤسنگ میں تھا۔ ایک تو اس کا عملہ جو کہ سعودی اور فلیپینی خواتین پر مشتمل تھا، بچوں کو اس محبت اور شفقت سے رکھتا تھا کہ بچے عموماً کچھ ہی دنوں میں وہاں خوشی خوشی رہنا پسند کرتے تھے۔ دوسرے اس کے اخراجات بہت مناسب تھے جو جیب پر بھاری نہیں تھے۔ تیسرے اس میں بچوں کو جو کھانا دیا جاتا تھا، وہ اتنا کافی ہو جاتا تھا کہ بچے ساتھ گھر لے جاتے تھے۔ اسی طرح بہت سی نرسیں بھی کھانا خود پکانے کی بجائے کیفے سے لیتی تھیں۔
بریانی سعودی عرب میں بھی سب کھانوں کی سردار ہے۔ جس دن بریانی پکے، ہر ملک و قوم کے لوگ بلا تمیز رنگ و نسل کیفے ٹیریا پہنچتے اور بہت مایوس ہوتے تھے اگربریانی ختم ہو چکی ہوتی۔ اس کے علاوہ چکن کری یا مرغی کا قورمہ پاکستانی کھانوں میں بیحد پسند کیا جاتا ہے۔ پراٹھا بھی یہاں پر بہت مقبول ہے۔ ہمارے ہسپتال میں اگرچہ پراٹھا نہیں ملتا لیکن باہر پراٹھا ہر پاکستانی اور ہندوستانی ہوٹل پر دستیاب ہے۔ فروزن پراٹھے بھی ہر سپر مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ اگرچہ پاکستانی اور ہندوستانی پراٹھے میں وزن اور گھی کے تناسب کا کافی فرق ہوتا ہے۔عربی کھانوں میں بھی مرغی، مچھلی اور گوشت کی کچھ اقسام طے شدہ جدول کے مطابق ضرور ہوتی ہیں۔ چاول دو طرح کے ضرور بنتے ہیں عربی اور فلیپینی۔ عربی کھانے میں باسمتی سیلا چاول استعمال ہوتا ہے، جبکہ فلیپینی اور بعض مصری کھانوں میں موٹا چاول جو مشرق بعید میں عام ہے، وہ استعمال ہوتا ہے۔ میرے موجودہ ہسپتال میں ہمارے ذائقے کے چاول بھی بنتے ہیں کیونکہ سعودی عرب میں نرسوں اور پیرا میڈیکل عملے کی اکثریت کیرالہ سے ہے، جو روٹی کی بجائے چاول کھاتے ہیں۔ ہسپتال میں پینٹری ہر وارڈ میں ہوتی ہے جہاں چائے اور کافی کا سامان ہسپتال کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔
عموماً فلیپینی نرسیں اور دوسرا عملہ بیکنگ کا ماہر ہوتا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کی بہترین چاکلیٹ ککیز جبیل میں ایک نرس کے ہاتھ کی تیار کی ہوئی کھائی ہیں۔ ایسی بہترین کک بہت اچھی بیکری پر بھی دستیاب نہیں۔ اسی طرح سبزیوں کے رول، شنگھائی رول بھی ہمارے عملے کے کچھ لوگ بہترین بناتے تھے۔ سونے پر سہاگہ ان کی پیکنگ اور بے حد مناسب قیمت تھی۔ ہر کھانے کو اتنی نفاست اور سلیقے سے پیک کر کے پہنچاتی تھیں کہ مزا آ جاتا تھا۔ پھر یہ کہ ہر آرڈر وقت پر دستیاب ہوتا تھا، کبھی یاددہانی نہیں کرانی پڑی۔
ریاض میں اگر آپ باہر کھانا کھانے جائیں تو شاید ایک سال تک بھی کسی ریستوران کو دہرانے کی ضرورت نہ پڑے۔ یہاں پر ایک کورین ریستوران بھی ہے جو اپنے اجزا براہ راست کوریا سے منگواتے ہیں۔ عربی کھانوں میں انواع و اقسام کے کھانے شامل ہیں، ان میں بلاد شام کے کھانے یعنی لبنان، شام اور اردن کے کھانے عموماً اور لبنانی کھانے خصوصاً بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح مصری اور ترکی کھانے بھی بہت شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ ترکی کھانوں میں سب سے مشہور تو شوارما ہے، جوکچھ فرق کے ساتھ مختلف ملکوں کے ریستورانوں پر باآسانی دستیاب ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو شوارما کو نا پسند کرتا ہو۔ اب تو وطن عزیز میں بھی شوارما ایک مقبول کھانا ہے۔ مصری کھانوں میں ایک خاص کھانا کشری ہے، جس میں موٹے چاول، پاسٹا، اور مسور کی دال شامل ہوتی ہے۔ جتنی عزت و توقیر ہم نے بینگن کی یہاں دیکھی، کہیں اور نہیں دیکھی۔ وطن میں تو بینگن کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی، الا کہ بھرتے کی صورت میں ہو۔ لیکن یہاں پر ناشتے میں فْول تمیص، فلافل اور حمص کے ساتھ ساتھ بینگن پر مشتمل مصری کھانے بے حد مقبول ہیں۔ اگرچہ یہاں پر بینگن کا چھلکا کچھ کڑوا اور موٹا ہوتا ہے، اس کے باوجود بینگن کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x