ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

شکرگزاری ( قرآن و سنت اور سائنس کی روشنی میں) – بتول نومبر۲۰۲۰

چند سال پہلے میں ایک ادارے میں بطور ایجوکیٹر رضاکارانہ طور پر کام کرتی تھی۔ یوکے جانے کی وجہ سے میں نے اس بہترین ادارے کو چھوڑ دیا جس کا دکھ مجھے زندگی بھر رہے گا، خیر۔ یہ سال 2014کی بات ہےمجھے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک مقامی کالج برائے طالبات میں ایک ورکشاپ کرنے کا موقع ملا۔ ہمارا یہ ورکشاپ دراصل،شکر گزاری پر تھا۔ جس میں ہم نے حقیقی زندگی کی کئی ایک مثالوں کو استعمال کرتے ہوئے شکر گزاری کی صفت کو واضح کرنے ، اس کی اہمیت کو ابھارنے اور اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانے کی ٹپس دی تھیں ۔ ہمارا ماننا تھا کہ آج کی نوجوان نسل کو صبر اور شکر جیسی اسلامی اور اخلاقی اقدار کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے تاکہ وہ اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بناسکیں ۔
اس ورکشاپ میں تقریباً 500حاضرین (طالبات، خواتین اسٹاف ممبرز اور اساتذہ )نے شمولیت اختیار کی۔ ہمارا طریقہ تھاکہ اس قسم کے ورکشاپس کے شروع میں ہی ہم فیڈ بیک فارمز تمام حاضرین میں بانٹ دیتے تھے اور آخر میں انہیں جمع کرلیا جاتا تھا۔ اکثر اس کام میں ہمیں وہیں سے کچھ طالبات مددگار مل جاتی تھیں جو انہیں پڑھے بغیر فوراً ہمیں دے دیتی تھیں۔ ان فارمز پر نام لکھنا ضروری نہیں ہوتا تھا۔ عموماًورکشاپس کے بعد طالبات ہمارے پاس آتیں اور کچھ نہ کچھ سوالات پوچھتی تھیں ۔اُس دن خلافِ معمول طالبات اپنا فیڈبیک فارم جمع کرانے کے بعد خاموشی سے ہال سے نکل گئیں جو کہ ہمارے لیے تھوڑا عجیب تھا۔ ہم نے اپنی چیزیں سمیٹیں اور میزبان ٹیم کے ساتھ گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ راستے میں ہم نے معمول کے مطابق چند ایک فیڈبیک فارمز کو دیکھا۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ کیونکہ اکثر طالبات نے اس میں بڑے دکھی انداز میں اپنے بارے میں لکھا تھا کہ انہیں آج احساس ہؤا ہے کہ وہ کس قدر’’ ناشکری‘‘ہیں۔ ہمیں ان باتوں کو پڑھتے ہی معلوم ہوگیا کہ آج وہ تمام بچیاں جو ورکشاپ کے آخر میں آکر ہمیں گھیر لیتی تھیں۔ احساسِ ندامت سے شائد ہم سے آنکھیں ملانے سے گھبرا رہی تھیں۔ لیکن سچ تو یہ تھا کہ ہم خوداپنے آپ کو بھی بے حد ناشکرا جان رہے تھے اور ان بچیوں نے ہمیں احساس دلایا کہ ہمیں بھی بہت شکر گزار ہونے کی ضرورت ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے میں چند دوسرے ورکشاپس کی بھی بات کرتی چلوں جو کہ اِسی موضوع پر میں نے خواتین کے مختلف گروپس میں مختلف جگہوں پر کیے۔ عموما ً ان میں حاضرین کی تعداد 20 سے 40تک ہوتی۔ لہٰذا ہمیں کچھ گروپ ایکٹیوٹیز کرنے کا موقع مل جاتا جو کہ بڑے گروپ کے ساتھ ممکن نہ ہوتا۔ ایک ایکٹیوٹی میں ایسے گروپس میں ضرور کرواتی’’کہ 5منٹ میں کم از کم 20 ان چیزوں کی لسٹ بنائیں جن کے لیے آپ کسی کے بھی شکر گزار ہیں‘‘۔اس دوران میں کن اکھیوں سے حاضرین کو دیکھتی رہتی۔ لیکن ان میں سےاکثر اپنا زیادہ وقت سوچنے میں لگاتے اور پھر لکھنا شروع کرتے۔ سوائے ایک یا دو کے باقی لوگوں کو یاد ہی نہ آرہا ہوتا کہ وہ کیا لکھیں!
ہمارے لیے یہ دکھ کی بات ہے کہ ہم اور ہمارے ار دگرد لوگ اپنی بے شمار نعمتوں سے اس قدر بے خبر ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی ان ورکشاپس کروانے کےبعد ہی یہ احساس ہؤا کہ واقعی ہم اکثر ناشکرے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اور اسی کاشکوہ اللہ نے کئی ایک مقامات پر کیا ۔ مثلاًسورہ السجدہ میں فرمایا ہے، ’’ کہہ دیجیےوہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور اس نے تمہارے لیے کان ، آنکھیں اور دل بنائے کتنا کم تم شکر ادا کرتے ہو‘‘ (9:32) ۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ، کم شکر ادا کرنے سے مراد یا تو یہ کہ انسان کو جتنا شکر ادا کرنا چاہئے وہ اس سےکم ادا کرتا ہے یا پھر یہ کہ بہت کم لوگ شکر گزار ہوتے ہیں۔ سورہ سبامیں کچھ ایسا ہی اشارہ ملتا ہے’’شکرگزاری کا مفہوم
،اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے شکر گزار ہیں‘‘ (34: 13)۔ مزید فرمایا’’ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ان کو شمار نہ کر سکو گے۔ بے شک انسان بہت ظالم بڑا ناشکرا ہے‘‘ (14:34)۔ واقعی اللہ کی نعمتوں کو ہم کہاں شمار کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں چند نعمتیں لکھنی پڑیں تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا لکھیں۔ اللہ تعالیٰ کو تو یہ صفت اتنی پسند ہے کہ اس کے ناموں میں ایک نام’’الشکور‘‘ ہے۔
شکرگزاری کا مفہوم
علما ء کرام نے شکر کو مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔امام ابنِ جوزی ؒ کا ماننا ہے کہ شکر یہ ہے کہ انسان نہ صرف اس نعمت کو پہچانے ، اس کا اقرار کرےبلکہ نعمت دینے والے کے لیےعاجزی اختیار کرے ،اس سے محبت کرے اور اس نعمت کو دینے والے کے محبوب کاموں اور اطاعت میں خرچ کرے۔ میں سمجھتی ہوں کہ شکرگزاری کی یہ ایک بڑی جامع تعریف ہے ۔کیونکہ اس کے مطابق انسان نہ صرف اپنے رب کا احسان مند ہوتا ہے بلکہ ان تمام لوگوں کا بھی احسان مانتا ہے جن سے اسےکسی قسم کی خیر پہنچتی ہے۔جب بندہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اعتراف اوردنیا و آخرت کی خیر اور بھلائیوں کا اقرار ہے۔ نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ اپنے رب سے راضی ہے ۔ اگر ہم شکر گزاری کے اس مفہوم کے مطابق خود کو پرکھیں تو بڑی آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم ایک شکر گزار انسان ہیں یا ناشکرے ۔
نعمت کیا ہوتی ہے۔ بقول اما م ابنِ جوزی ؒہر مطلوب نعمت ہے اور اس کی چار اقسام ہوتی ہیں۔ پہلی وہ جو دنیا اور آخرت دونوں میں نافع ہے مثلاً علم اور یہی حقیقی نعمت ہے۔ دوسری وہ جو دنیا اور آخرت دونوں میں مضر ہے اور یہ دراصل مصیبت ہے۔ تیسری وہ جو وقتی طور پر مفید ہے لیکن انجام کے اعتبار سے مضر ہے۔ مثلاً خواہشات کی پیروی کرنا اور چوتھی وہ جو وقتی طور پر مضر ہے لیکن انجام کے اعتبار سے نافع ہے جیسے کہ بدمزہ دوا جو بیماری کو شفا دینے والی ہو۔ ویسے تو اللہ کی ہر نعمت بہترین ہے لیکن علما ء کے مطابق تین نعمتیں اعلیٰ ترین ہیں ۔
۔1) اسلام اور ایمان کی نعمت
یہ سب سے اعلیٰ نعمت ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی اور نعمت مکمل نہیں ہو سکتی ۔ کچھ علماء کا ماننا ہے کہ سورہ لقمان کی اس آیت ،’’ اور اس نے تم پر اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں پوری کر دیں‘‘ (20:31) سے مراد لاالٰہ الا اللہ ہے۔ ایمان کی نعمت خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے اور اس کے ملنے پر ہم اپنے رب کے جس قدر بھی شکر گزار ہوں کم ہے۔
۔2)عافیت کی نعمت
عافیت کے بغیر زندگی مکمل نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبیﷺ کی روزانہ کی دعاؤں میں عافیت کی دعا لازمی شامل ہوتی تھی۔ جب تک بندہ امن اور عافیت سے نہیں ہوتا وہ نہ تو اپنی زندگی کے مقاصد پورے کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے فرائض اورذمہ داریوں سے نبرد آزما ہو سکتا ہے۔
۔3) رضا کی نعمت
اس کے بغیر زندگی خوشگوار نہیں ہو سکتی۔ رضا خواہ اپنے معبود کی حاصل ہو یا اپنے اردگرد موجود انسانوں کی، دونوں ہی اہم ہیں ۔ اگر رب راضی تو دنیا اور آخرت دونوں ہی کامیاب اور اگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ارد گرد کے لوگ ہم سے راضی تو زندگی پر لطف ۔ لیکن رب کی رضا کو اولیّت اور فضیلت حاصل ہے۔
نعمتوں کے بار ے میں انسان کو احتیاط برتنی چاہیے بصورت دیگر یہی نعمتیں باعثِ ہلاکت ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ ہر عطا کردہ نعمت کے بارے میں سوال ہوگا ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، جب یہ آیت ’’ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَیذٍ عَنِ النَّعِیْمِ ‘‘ (التکاثر: 8) نازل ہوئی توصحابہ کرامؓ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہؐ ہم سے کس نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا(حالانکہ) ہمارے پاس تو صرف یہی دو سیاہ چیزیں (یعنی کھجور اور پانی) ہیں ،دشمن حاضر ہے اور تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں ؟ارشاد فرمایاعنقریب ایساہی ہو گا‘‘ ( ترمذی)۔ یعنی انسان سے اس کی تمام نعمتوں کے بارے میں ضرور سوال ہوگا کہ اس نے انہیں کس طرح استعمال کیا۔ جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے، حضرت عبد اللّٰہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے نہ ہٹیں گے یہاں تک کہ پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے۔ عمر کس کام میں خرچ کی، جوانی کس کام میں گزاری، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور علم کے بارے میں کہ اس پر کتنا عمل کیا‘‘(ترمذی)۔
کبھی کبھار ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس کے باوجود انہیں دنیا خوب مل رہی ہوتی ہے اس کے سبب کم علم لوگ انہیں حسرت سے دیکھتے ہیں اور ان جیسا بننے کی آرزو کرتے ہیں۔ اس کی ایک بہترین مثال قرآن مجید میں قارون کی ہے جسے اللہ نے خوب دنیا دی تھی اور ایک دن اسی فخر اور غرور میں اندھا ہو کر وہ نکلا تھا اپنی دولت کو اونٹوں پر لادے۔ اسے دیکھ کر وہ تمام لوگ جو دنیا کے طلب گار تھے حسرت سے خواہش کر رہے تھے کہ کاش انہیں بھی یہ سب نصیب ہو لیکن اہلِ علم نے انہیں خبردار کرتے ہوئے اللہ سے ڈرنے اور معافی مانگنے کی تلقین کی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ بھی اللہ کی ناراضگی کی ایک شکل تھی (القصص)۔ اسی طرح آپ ؐ کی یہ حدیث ہم سب کو محتاط کرنے کے لیے کافی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا، ’’جب تو دیکھے کہ نافرمانی کے باوجود اللہ تعالیٰ بندے کو نعمتیں عطا فرما رہا ہے تو وہ استدراج ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو، جو انہیں کی گئی تھی، بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے شکرگزاری سنت نبویمایوس تھے ‘‘ (الانعام :44) (روا أحمد)۔
شکرگزاری ،قرآن مجید کی روشنی میں
شکراور شکرگزاری کا حکم قرآن مجید میں تقریباً 75 مقامات پر مختلف انداز میں آیا ہے۔ اور اس کی بڑی فضیلت ہمیں قرآن و سنت سے معلوم ہوتی ہے جن میں سے چند ایک کا ذکر یہاں ہے۔
1۔شکر گزاری اللہ کو بہت محبوب ہے۔ قرآن مجید میں ہے،’’ اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناًاللہ تم سے بےنیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر ادا کرو گے تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (الزمر:7)۔ یعنی اللہ نے اپنے بندوں کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ جو شکر ادا کرنے والا ہے اور یہ اللہ کا پسندیدہ گروہ ہے اور دوسرا گروہ ناشکروں کا ہے جو اللہ کا ناپسندیدہ گروہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان دونوں رو یوں کے بارے میں بتا دیا ہے ۔ تاکہ انسان سوچ سجھ کر اپنا راستہ منتخب کرے جیسا کہ ارشاد ہؤا،’’ بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ ناشکرا‘‘ (الدھر:3)۔ میں سوچتی ہوں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسا ن ہے کہ اس نے ہمیں اپنی پسند و ناپسند سے اتنا واضح طور پر مطلع کیا کہ شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔
2۔شکر گزاری اللہ کی اطاعت گزاری ہے ۔ اس لیے کہ اللہ نے خود بندے کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا، ’’کہ میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی، میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہے‘‘(لقمان:14)۔ شکر دراصل اللہ کو یاد کرنے کا ذریعہ ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ بھی ہمیں یاد رکھے تو ہمیں شکرگزار بندہ بننے کی ضرورت ہے جیسا کہ سورہ البقرہ میں ہے ’’ پس تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا اور تم میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو‘‘ (2 :152)۔ اسی طرح شیطان کو جب شکر کی اہمیت کا معلوم ہؤا تو اس نے اللہ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ’’ تو ان (انسانوں) میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘(17:7)شیطان ہمارا دشمن ہر موقع پر اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ انسان کو ناشکرا بنائے اسی لیے وہ ان تمام نعمتوں کو انسان سے بھلائے رہتا ہے جو انسان کو نصیب ہوتی ہیں اور ان چند چیزوں کی یاد دلاتا رہتا ہے جو اسے میسر نہیں ۔ اس طرح وہ انسان کو مایوسی اور دکھ میں مبتلا رکھتا ہے۔ تاکہ بندہ اپنے غم کو سینے سے لگائے رکھے اور رب کی رحمتوں سے مایوس رہے۔لہٰذا جب بھی اپنی کسی محرومی کا احساس شدت اختیار کرنے لگے تو ضرور اپنی نعمتوں کو شمار کریں ۔اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ناشکری دراصل شیطان کی اطاعت گزاری ہے اور انسان کو اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔
3۔شکر گزاروں کو اللہ اپنے خاص فضل اور احسان سے نوازتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’ اور اسی طرح ہم نے ان کے بعض کو بعض کے ساتھ آزمایا تاکہ وہ کہیں کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے ہمارے درمیان میں سے احسان فرمایاہے؟ کیا اللہ شکرگزاروں کو نہیں جانتا‘‘ (الانعام:53)۔ یعنی شکر گزار ہی اللہ کے احسان کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
4۔ اللہ کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہے ۔ پچھلی قوموں کی ہلاکتوں کا ایک سبب ناشکری بھی رہا ہے ۔انہوں نے اپنے رب کی نعمتوں کو نہ صرف جھٹلایا بلکہ انہیں نافرمانی کے کاموں میں لگا یا ۔ قومِ عاد ، قومِ ثمود اور قومِ فرعون کو ملنے والی بے شمار نعمتوں اور ان کی وجہ سے تکبر اور نافرمانی میں مبتلا ہونے کے واقعات کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر ملتا ہے۔ جب ان کی نافرمانی اور ناشکری حد سے تجاوز کر گئی تو اللہ نے ان پر عذاب نازل فرمایا۔سورہ النساء میں ہے، ’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر ادا کرو اور تم ایمان لے آؤ‘‘ ( 4: 142)۔ لہٰذا اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہے ۔
5۔ شکر گزار ہی اللہ کے عبادت گزار ہوتے ہیں۔سورہ البقرہ میں واضح طور پر ہے کہ ،’’ اور اللہ کا شکر ادا کرو، اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘( 2 : 172)۔ یعنی جو شکر گزار نہیں وہ عبادت گزاربھی نہیں ۔قرآن مجید میں اللہ نے اپنے کئی ایک انبیا ء کی اس خوبی کو بیان فرمایا۔ جیسا کہ حضرت نوح ؑ کے بارے میں ہے، إِنَّهُ كَانَ عَبْدًاشَكُورًا ’’بے شک وہ بہت شکر گزار بندہ تھا‘‘(17: 3)۔ اسی طرح کئی اور انبیاء کا ذکر بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ یہ اللہ کے نزدیک انسان کی سب سے اعلیٰ درجے کی صفت ہے۔ جب ہی تو اللہ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کی اس خوبی کا خصوصی طور پر ذکر کیا،’’بے شک ابراہیم ایک امت تھا ، اللہ کا فرمانبردار، یکسو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ۔ اس کی نعمتوں پر شکرگزار تھا‘‘ (النحل: 120- 121 )۔
6۔شکرگزاری جلدجزا حاصل کرنے کاذریعہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد جزا دے گا‘‘ (3: 144) اور اس جزا کی کوئی حد مقرر نہیں۔
7۔نعمتوں کی حفاظت اور بڑھوتری کے لیے بھی شکر گزاری ایک ضروری عمل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ’’ جب تمہارے رب نے آگاہ کر دیا کہ البتہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں مزید عطا کروں گا اور البتہ اگر تم نے ناشکری کی تو بلا شبہ میرا عذاب یقیناً بہت سخت ہے ‘‘(ابراہیم : 7)۔
8۔ انسان کا مقصدِ حیات ہے۔انسان کی پیدائش کا ایک مقصد یہ بھی کہ وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے۔ چنانچہ سورہ النحل میں فرمایا، ’’اور اللہ نے تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا دیے، تاکہ تم شکر کرو‘‘ (16: 78)۔یہ سینے کی سلامتی ، دل کی طہارت ، پاکیزہ نفس اور کمال عقل کی دلیل ہے ۔
شکرگزاری سنت نبویؐکی روشنی میں
قرآن و حدیث میں اکثر مقامات پر صبر اور شکر کے الفاظ آئے ہیں اور یہ دونوں ہی بہترین صفات گردانی جاتی ہیں ۔ حدیث میں بھی ان کی اہمیت ان الفاظ میں ملتی ہے، حضرت مغیرہ بن عامرؓ سے مروی ہے کہ نبی ؐ نے فرمایا ، ’’ صبر نصف ایمان ہے، اور شکر نصف ایمان اور یقین کامل ایمان ہے‘‘ (بيہقی)۔ بنی ؐکی سنت پر اگر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ ہر حال میں اللہ کا شکرادا کرنے والے تھے یعنی الحمدُللہ کُل ِحال۔ آپؐ کی دن بھر کی دعاؤں کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ بھی اسی جذبے کے اظہار پر مشتمل نظر آتی ہیں۔ آپ ؐ جب نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے’’الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف لوٹ کر جاناہے‘‘(بخاری)۔آپ ؐ جب صبح کرتےاور شام کرتے تو فرماتے، ’’اے اللہ مجھے یا تیری مخلوق میں سے کسی کو جو نعمت بھی حاصل ہے تو وہ تیری ہی طرف سے ہے ، تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں ، پس تیری ہی حمد اور تیرا ہی شکر ہے‘‘اور آپ ؐنے فرمایا، ’’ بےشک جس نے صبح کے وقت یہ کلمات کہے تو اس نے اپنے اس دن کا شکر ادا کردیا اور جس نے شام کے وقت یہ کلمات کہے تو اس نے اپنی اس رات کا شکر ادا کر لیا‘‘ (ابو داؤد)۔آپؐ کی روزانہ کی دعاؤں میں یہ دعا بھی شامل تھی، ’’ َذِي أَطْعَمَنَا وَس، اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، نعمت کے زائل ہو جانے سے عافیت کے پھر جانے سے، اچانک پکڑاور تیری ہر طرح کی ناراضگی سے‘‘ (مسلم)۔کھانا تناول فرماتے تو ان الفاظ میں اپنے رب کا شکر ادا کرتے،’’شکرگزاری سائنس کی روشنی میں
، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں ، جس نے ہمیں کھلایا ، پلایااور مسلمان بنایا‘‘(ترمذی )۔
آپؐ صرف زبانی شکر ادا نہ کرتے بلکہ عملی طور پر بھی اس کا اظہار فرماتے۔کثرتِ عبادتِ الٰہی آپؐ کی عملی شکر گزاری کا ایک انداز تھا۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ؐرات کو کثرت سے قیام فرماتے اور عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے۔ کثرتِ قیام کی وجہ سے آپ ؐکے پاؤں مبارک متورم ہو جاتے۔ آپؓ فرماتی ہیں ،میں نے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول! آپ ؐاتنا لمبا قیام کیوں کرتے ہیں جبکہ اللہ نے آپؐ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دیے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا ، ’’اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا۔کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں‘‘(مسلم) ۔ یہ حدیث ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہے کہ ہم اپنے رب کی بے پناہ نعمتوں کی کس قدر شکر گزاری کرتے ہیں اور عملی طور پر اس کا مظاہرہ کس طرح کرتے ہیں کیا ہم بھی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی عبادات کو زیادہ بہتر اور طویل کرتے ہیں یا بس کم سے کم پر اکتفا کرتے ہیں ۔
آپؐاپنے اصحاب کو بھی اللہ کا ذکر اور شکر کرنے کی ترغیب دیتے تھے ۔ حضرت معاذ ؓ سے مروی ہےمجھ سے رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’ اے معاذ! مجھے تم سے محبت ہے ، پس تم یہ دعا کیا کرو، اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ ، اے اللہ اپنا ذکر کرنے ، شکر کرنے اور بہترانداز میں تیری عبادت کرنے میں میری مدد فرما ‘‘یہ دعا نماز کے بعد پڑھنے کی تاکید بھی ملتی ہے(ابوداؤد)۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے آپ ؐ نے فرمایا، ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ کہتا ہے، الحمد للہ تویہ کلمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے نعمت دینے سے بہتر ہوتا ہے‘‘(ابن ماجہ)۔اسی طرح آپ ؐ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے لیے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے کوئی راحت پہنچے تو اس پر وہ اپنے رب کا شکرگزار ہوتا ہے اور اس میں اس کے لیے خیر ہے اور ا گر اسے کوئی تکلیف یا رنج پہنچے اور وہ اس پر صبر کرے تو یہ اس کے لیے باعثِ خیر وبرکت ہے۔
شکرگزاری سائنس کی روشنی میں
مغربی دنیا میں اس موضوع پر بڑی تحقیق ہوئی ہے۔ اور اس سلسلے میں لکھنے یا تحقیق کرنے والے دو باتوں پر متفق نظر آتے ہیں۔ پہلی بات کہ شکرگزاری ایک ایسی اخلاقی قدر یا نیکی ہے جس کو بہت کمتر یا بے معنی سمجھا جاتا ہے اور دوسری بات کہ دنیا کے تمام عظیم انسانوں میں یہ خوبی عام لوگوں کی نسبت بہت زیادہ پائی جاتی ہے جس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں۔رابرٹ ایمنذ ، میک کلااور ان کے کئی ایک ساتھیوں نے شکرگزاری کے موضوع پر کافی تحقیق کی ہے ۔ان کے مطابق دنیا کے تمام مذاہب میں شکرگزاری ایک ایسی نیکی ہے جوبہترین انسانی کردار کی ضمانت کے طور پر جانی جاتی ہے یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کا لازمی جز وہ خوشگوار احساس ہے جو نعمت پہنچانے والے کے ساتھ منسلک ہوتاہے ۔
پچھلی دو دہائیوں میں نفسیات کے میدان میں انسانی جذبات اور انہیں سمجھنے پر کافی تحقیق ہوئی ہے اور اس موضوع پر لکھی گئی کئی ایک کتابیں اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ ایک اہم انسانی صفت ہے جسے ما ہرِ نفسیات اور فلاسفرز مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں ۔اگرچہ شکرگزاری کی تعریف کئی مشہور شخصیات سے منسوب ہے لیکن مجھے ان سب سے بہتر اور اسلامی فلسفے سے قریب تر تعریف ڈیوڈ ہارنیڈ (1997) کی لگی ۔ان کے مطابق شکر گزاری ایک ایسےرویے کو ظاہر کرتا ہے جوبذاتِ خود نعمت یا تحفے کی طرف اور نعمت دینے والے کی طرف اس عزم کے ساتھ ہوتا ہے کہ اس نعمت یا احسان یا تحفے کو دینے والے کی مرضی کے مطابق بہترین انداز میں استعمال کیا جائے ۔
آج کی مغربی دنیا میں شکراور شکر گزاری کوایک اخلاقی قدر کی حیثیت سے کئی مشہور شخصیات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ان میں سے چند ایک کا تذکرہ پیشِ خدمت ہیں۔اوپرا ونفری امریکہ کی مشہور ایکٹریس، مصنفہ اور ٹاک شو ہوسٹ ہے، اس کے مطابق اگر’’ہم اس (نعمت)کے شکر گزار ہیں جو ہمارے پاس ہے تو ہمیں مزید ملے گا‘‘۔امریکہ ہی کے مشہور روحانی پیشوا نارمن ونسنٹ پیل کے مطابق’’ ایک بنیادی قانون (یہ ہے کہ) جتنا زیادہ تم شکر ادا کرو گے اتنے زیادہ تمہیں شکر ادا کرنے کے موقعے ملتے رہیں گے‘‘۔ سیلف ہیلپ پر کئی کتابیں لکھنے والی مصنفہ میلوڈی بیٹی کے مطابق ، ’’شکر گزاری ماضی کو قابلِ فہم، آج کو پرسکون اور آنے والے کل کو مقاصد تخلیق کرنے کے قابل بناتی ہے‘‘۔فرانسیسی جرنلسٹ اور ناولسٹ الفونسی کار شکرگزاری کے جذبے کے تحت زندگی کو مثبت انداز میں دیکھنے کے عادی ہے اور کہتے ہیں کہ،’’ کچھ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ گلاب کے پھولوں کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں جبکہ میں اس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کانٹوں کے ساتھ گلاب ہیں‘‘۔رابرٹ ایمنذ اپنی کتاب، ’شکریہ‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو شکر ادا کرنے والے یا شکرگزاری کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں وہ دوسروں سے محبت کرنے والے، آسانی سے معاف کرنے والے، پرجوش اور خوشی کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ یہی جوش اور خوشی انہیں کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔
ان چند اقوال پر اگر غور و فکر کیا جائے تو یہ دلچسپ حقیقت ہم پر آشکارا ہوتی ہے کہ یہ اقوال قرآن و سنت میں بیان شدہ تعلیمات سے بیحد مماثلت رکھتے ہیں ۔ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں نے یہ سب کچھ اپنی الہامی کتابوں یا اسلامی تعلیمات سے حاصل کیا ہو اور ان پر عمل پیرا ہو کر اس بہترین جذبے کو دوسروں تک پہنچا کر انسانیت کی خدمت کر نا چاہتے ہوں۔ خیر بات جو بھی ہو سچ تو یہ ہے کہ 1400 سال پرانی تعلیمات آج بھی اسی قدر سچ اورقابلِ عمل ہیں جیسے وہ پہلے تھیں اور قیامت تک ایسے ہی سچ ثابت ہوتی رہے گی۔
شکر کس طرح ادا کیا جائے؟
اللہ تعالیٰ کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اس کا شکر ادا کرے مگر شکر کی عادت انسان کے اپنےہی حق میں بہتر ہوتی ہے۔جیسا کہ سورہ النمل میں ہے،’’اور جو شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرتا ہے‘‘ (40:27)۔درحقیقت شکر ادا کرنے کی توفیق ملنا بھی اللہ کے کرم سے ہوتا ہے ۔ ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اپنے رب کا اور دوسروں کا شکر کیسے ادا کریں۔ امام الجوزی ؒ اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ’’شکر دل ، زبان اور اعضاء سے ادا ہوتا ہے ‘‘( صفحہ 412 ) ۔
1) دل کا شکر یہ ہے کہ نیکی کے کاموں کا ارادہ کرے اور ان نیکیوں سے تمام مخلوق کو خیر پہنچائے۔ شکر دل کی حیات ہے۔ دل میں نعمتوں کا اعتراف اور اطاعت گزاری ضروری ہے۔ فرمان الٰہی ہے، ’’اور ایک نشانی ان کے لیے مردہ زمین ہے، ہم نے اسے زندہ کیا اور اس سے غلہ نکالا تو وہ اسی میں سے کھاتے ہیں۔ ا ور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے کئی باغ بنائے اور ان میں کئی چشمے جاری کیے تاکہ وہ اس کے پھل سے کھائیں، حالانکہ اسے ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا، تو کیا وہ شکر نہیں کرتے‘‘(35:36 – 33)۔
2) زبان کا شکریہ ہے کہ انسان کی زبان اللہ کے ذکر اور تعریف سے تر رہے۔ زبان سے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا برملا اظہار، ان کا تزکرہ اور تعریف کی جائے کیونکہ اللہ نے سورہ الضحیٰ میں ہمیں اس کا حکم دیا ہے ۔ فرمایا،’’ اور اپنے رب کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے رہا کیجیے‘‘ (11:93)۔ شکر گزار بندہ اللہ کے احسانات کا معترف ہوتا ہے۔یہ انبیاءؑ کی صفات میں سے ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کے اوصاف میں اسے ذکر کیا، جیسے حضرت نوحؑ، ابراہیمؑ ، موسیؑ، سلیمان ؑاور ہمارے پیارے نبی محمد ؐ ، جو کہ خوشی اور غم ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے تھے ۔ ہمارے لیے ان انبیا اکرام ؑ کی سنت میں سبق ہے کہ ہمیں بھی ان کی طرح آزمائشوں میں ہونے کے باوجود شکر گزار وں میں ہونا چاہیے نہ کہ ان لوگوں میں جو نعمتوں میں ہونے کے باوجود شکوے کرتے رہتے ہیں ۔
3) اعضا کا شکر یہ ہے کہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو اللہ کی فرمانبرداری کے کاموں میں استعمال کرے اور ان سے گناہ کرنے یا گناہ کی مدد کرنے سے اجتناب برتے۔ ذیل میںشکریہ ادا کرنے کی چند ایک مثالیں حاضر ہیں جو اکثر انبیاء کرام کی سنت رہی ہیں اور ان میں دل، زبان اور اعضا سب شامل ہوجاتے ہیں ۔ ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہونی چاہیے کہ انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
ا)سجدہِ شکر۔مومن کو جب کوئی بھلی خبر پہنچے یا اس پر اللہ کا انعام ہوتو وہ سجدہ شکر ادا کرے۔ جب جبرائیل ؑ نے نبی ؐ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”جو شخص آپ ؐپر ایک دفعہ درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا ‘‘ تواس پر آپ ؐنے سجدہ شکر ادا کیا۔اس سنت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ جب کوئی خوشخبری سنیں تو سجدہ شکر ادا کریں۔ ایسا کرنا دل سے تکبر کو نکال دیتا ہے کہ انسان کے دل میں یہ خیال آئے کہ یہ سب اس کی محنت کا نتیجہ ہے۔ بلکہ سجدہ شکر دل میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ یہ میرے رب کا خاص کرم ہے کہ اس نے مجھے میری کوششوں کا اتنا اچھا صلہ دیا۔
ب)شکرروزےکےذریعےبھی اداکیاجاسکتاہے ۔انبیاء کی یہ سنت بھی رہی ہے کہ انہوں نے شکر گزاری کے اظہار کے طور پر روزہ رکھا۔ جیسا کہ موسٰینے عاشورہ کے دن روزہ رکھا ، جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بمع ان کی قوم کے فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی۔ جب نبی ؐ کو مدینہ میں یہود کی زبانی اس بات کا علم ہوا تو آپؐ نے بھی یہ روزہ رکھا اور ان سےفرمایا،’’نحن احق بموسی منکم ، ہم تم سے زیادہ موسٰیکے حق دار ہیں‘‘ (متفق علیہ)۔
شکرگزار بننے کے لیے چند ٹپس
بقول رابرٹ ایمنذ ، شکرگزاری ایک چوائس ہے جو کہ کسی بھی قسم کے حالات مثلاً صحت، دولت یا خوبصورتی وغیرہ کی مرہونِ منت نہیں ہوتی ۔ زندگی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اس کی عادت ڈالنی پڑتی ہے اور اس عادت میں مبتلا افراد پریشان کن اور برے حالات میں بھی مثبت پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔قرآن و سنت اور سائنس کی روشنی میں کچھ ایسی ٹپس ملتی ہیں جن پرعمل کر کے شکرگزار بننے کی خوبی پیدا کی جاسکتی ہے۔
ائری یا جرنل لکھنا
یعنی اپنے خالق کی عبادت کریں کہ اس نے آپ کو ایک نیا دن دیا ہے جینے کے لیے ۔ اکثر دنیا کے کامیاب انسانوں کی یہ عادت رہی ہے اور آج تک قائم ہے کہ وہ اپنے دن کا آغاز عبادت یا اسی طرح کے کسی عمل مثلاً مراقبے وغیرہ سے کرتے ہیں۔عبادات میں جہاں بندہ اپنے خالق سے سرگوشیاں کرتا ہے وہیں مراقبہ میں انسان تنہائی میں غور و فکر کرتا ہے اور کئی قسم کی مثبت سوچیں اس دوران اس کے ذہن میں پیدا ہو کر اسے شکر گزار ہونے میں مددگار ہوتی ہیں اسی لیے کئی لوگ تو مراقبے کو ’’شکرگزار مراقبہ ‘‘کہتے ہیں ۔عبادت اور شکرگزاری کے اس عمل کے زریعے وہ نہ صرف اپنی دن بھر کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے انرجی پیدا کرتے ہیں بلکہ وہ اس دن کے ملنے پر مزیدشکرگزار ہوتے ہیں کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیےانہیں اور وقت مل گیا۔
روزانہ ڈائری یا جرنل لکھنا
روزانہ اپنی نعمتوں کا اعتراف کرنے کے لیے انہیں اپنی روٹین میں شامل کرنا چاہیے۔محققین کا خیال ہے کہ اگر آپ ایک رجسٹر یا ڈائری اس مقصد کے لیے وقف کرتے ہیں تو یہ بہترین بات ہے۔ آپ روزانہ کی تاریخ کے ساتھ اپنی چند نعمتوں کو لکھ سکتے ہیں اور جب کبھی آپ پریشان ہوں یا اداس ہوں تو اس ڈائری کو کھول کر پڑھنے سے بڑا فائدہ ہوگا۔ کیونکہ پریشانی اور اداسی کے عالم میں انسان کو اپنی بہت سی خوبیاں اور اللہ کے انعامات یاد نہیں رہتے اور نہ ہی ذہن اس طرف متوجہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ پریکٹس آپ کو واپس اپنی زندگی اور مقصد کی طرف لانے میں کارآمد ہوگی اور منفی خیالات اور پریشانیوں سے جلد نجات مل جائے گی۔ رابرٹ ایمنذ کے مطابق جو لوگ باقاعدگی سے شکرکی ڈائری یا جرنل لکھتے ہیں وہ اپنی ورزش میں باقاعدہ ہوتے ہیں، کم بیمار ہوتے ہیں، اپنی زندگی کو خوشگوار محسوس کرتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں دوسروں کی نسبت زیادہ مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔
ڈائری یا جرنل لکھنے کے لیے ویسے تو کوئی بھی وقت مقرر کیا جاسکتا ہے لیکن اکثر کامیاب لوگوں کی یہ پریکٹس رہی ہے کہ وہ رات کو سونے سے پہلے یا دن کے آغاز میں یعنی صبح سویرے یہ کام کرتے ہیں۔ رات کو لکھنے کا فائدہ یہ رہتا ہے کہ سونے سے پہلے اپنی نعمتوں کو یاد کرنا اور ان کے لیے شکرگزار ہونا انہیں ریلکس کرتا ہےاور رات بھر پرسکون نیند سونے میں مددگار ہوتا ہے ۔ جب کہ صبح کا آغاز اپنی نعمتوں کو لکھ کر کرنا ،انسان کو پورا د ن خوش ، پرسکون اور فوکس رکھے گا اور دن کو بھرپور انداز میں گزارنے میں مددگار ہوگا۔ اس کام کے لیے آپ کو صرف 10 منٹ درکار ہوں گے۔
گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا
اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی نافرمانی کے کاموں میں استعمال کرنے سے بچنا دراصل شکرگزاری ہے اور نعمتوں کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے۔آدمی جب کوئی گناہ کرتا ہے تواس کے گناہ کے مطابق کوئی نعمت زائل ہو جاتی ہے ۔ بقول امام ابنِ جوزیؒ نافرمانیاں نعمتو ں کو ایسے کھا جاتی ہیں جیسے لکڑی کوآگ ۔ کیونکہ اگر نافرمانی کے باوجود نعمتیں نازل ہو ں تو ایسے شخص کو ڈرنا چاہیے کہ کہیںیہ استدراج نہ ہو ۔
اپنے سے کم تر لوگوں کی طرف دیکھنا
آپ ؐنے ہمیں شکر گزار بننے کے لیے کئی بہترین ٹپس دیں ہیں ۔ مثلاًحضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا،’’دنیا کے معاملے میں اس کو دیکھو جو تمہارے نیچے ہے، اس کو نہ دیکھو جو تمہارے اوپر ہے۔ اس طرح تم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو حقیر نہ سمجھو گے‘‘ (ترمذی) ۔اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے وحیدالدین صاحب لکھتے ہیں کہ’’ اگر آدمی اپنا مقابلہ اس شخص سے کرے جو بظاہر اس کو اپنے سے کم نظر آتا ہے تو اس کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اس کے برعکس اگر آدمی اپنا مقابلہ اس شخص سے کرنے لگے جو بظاہر اس کو اپنے سے زیادہ دکھائی دیتا ہے تو اس کے اندر ناشکری کا احساس ابُھرے گا ‘‘(صفحہ: 169) ۔ شیخ سعدی ؒ کی مشہور حکایت ہے کہ کسی شہر میں پہنچے تو ان کی جوتی پھٹ گئی اور نئی خریدنے کی استطاعت نہ تھی تو بے حد ملول ہوئے کہ پاؤں میں جوتی نہیں ۔ جب وہ شہر کی مسجد میں داخل ہوئے تو ان کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جس کے پاؤں ہی نہیں تھے ، یہ دیکھتے ہی اللہ رب العزت کے آگے سجدے میں گر گئے اور شکر ادا کیا کہ جوتی نہیں تو کیا ہؤا پاؤں تو ہیں ۔ یہ مثال اوپر بیان کی گئی حدیث کو واضح کرنے کے لیے بہترین مثال ہے ۔ دراصل جب انسان دنیاوی لحاظ سے اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھتا ہے تو نہ صرف اس میں شکوہ و شکایت کم ہوتی ہے بلکہ شکر گزاری کے احساس سے وہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہوتا ہے اور اس طرح اسے بجائے شکوہ کرنے کے نیکی کمانے کا موقع ملتا ہے۔
دوسروں کا شکر گزار ہونا
بہت سے لوگ دوسروں کو شکریہ جیسے الفاظ ادا کرنے کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شکرگزار بندے ہیں ۔ مثلاً گھر میں کسی نے پانی پلادیا ، یا آفس میں کسی ساتھی نے کوئی کام کردیا تو اسے زبانی شکریہ کہہ دیا یا ایک میسج کردیا اور اسی کو کافی جانا۔ جبکہ کچھ اور اتنا کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ہم سب کو اس سے زیادہ دوسروں کا شکر گزار ہونے کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ امریکی صدر جون کینڈی کا ماننا تھا کہ’’ جب ہم شکر ادا کریں تو ہمیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہیےکہ اعلیٰ درجے کی تعریف صرف الفاظ سے نہیں بلکہ ان(الفاظ) پر عمل درآمد کرنے سے ہوتی ہے‘‘یعنی زبانی شکرگزار ہونے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی شکرگزار ہونا چاہیے۔ اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل نے لوگوں کے شکر کو اپنا شکر قرار دیا۔ آپ ؐنے فرمایا’’لَا يَشْكُرُ اللَّهَ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ، جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا‘‘ (البخاری)۔
نعمتوں سے خود بھی فائدہ اٹھانا اور دوسروں کو بھی ان میں شامل کرنا۔ ربِ کریم نے جو بھی خوبیاں اور انعامات آپ پر کیے ہیں انہیں صرف اپنے تک محدود رکھنا بھی ناشکری ہے۔ آپ کوشش کریں کہ اپنی روٹین میں کچھ ایسے کام ضرور شامل کریں جہاں آپ دوسروں کو اپنی ذات سے فائدہ پہنچائیں۔ اب یہ آپ خود ہی سوچ بچار کر کے معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ اپنی کون سی نعمت سےکس کو کیا نفع دینے کے قابل ہیں۔ مثلاً اگر آپ ایک ٹیچر ہیں تو اپنے فارغ وقت کا کچھ حصہ دوسروں کو پڑھانے میں لگائیں۔ اگر آپ اپنے اردگرد کے بچوں یا بڑوں کو ٹیوشن پڑھا سکیں اور ان سے باقی ٹیوٹرز سے کم معاوضہ لیں یا کسی بچے کو مفت پڑھادیں لیکن دوسروں کو معلوم نہ ہو تاکہ اس بچے کی خوداعتمادی کو ٹیس نہ پہنچے ۔ اس کے علاوہ اگر آپ چاہیں تو چپکے سے اپنے ضرورت مند بچوں کو اسکول کی کتابیں وغیرہ خرید کرلے دیں۔ اگر ایسا کچھ بھی آپ کے لیے ممکن نہیں تو اپنے ساتھیوں کو بوقتِ ضرورت اپنے علم کی بنا پر بہترین مشورہ ہی دے دیں۔ یہ بھی آپ کے حق میں نفع بخش ہے اور صدقے کی ایک قسم ہے جس کی اسلام میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل سے بچنا۔ہم میں سے ہر کسی کو آئے دن کسی نہ کسی جسمانی یا ذہنی تکلیف یا بیماری کا سامنا رہتا ہے۔ شکرگزاری کی عادت ان مسائل سے نبردآزما ہونے میں کرشماتی اثر رکھتی ہے۔شکوہ و شکایت اورلامتناہی خواہشات کی موجودگی انسان کی خوشیوں اور سکون کے لیے زہرِ قاتل ہےکیونکہ یہ اداسی ، بے چینی اور جسمانی تکالیف کو بڑھانے کا سبب ہوتا ہے۔ جبکہ شکر کا اظہار کرنا نہ صرف ہماری جسمانی صحت ، طاقت اور اعتماد کو حیرت انگیز طور پر بڑھاتا ہے بلکہ ہمارے روز مرہ کے معاملات اور تعلقات کو بھی خوبصورت بناتا ہے۔ رابرٹ ایمنذ نے اپنی کتاب ’’شکریہ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ دورانِ تحقیق انہوں نے دو گروہ بنائے۔ پہلے گروہ کو اپنی ڈائری میں ان پانچ چیزیںکو ہفتہ وار تحریر کرنے کو کہا جن کے لیے وہ شکر گزار ہیںجبکہ دوسرے گروہ کو ان پانچ چیزیں کو تحریر کرنے کو کہاجس کے لیے وہ شکوہ کناں ہیں۔ پہلے گروہ نے خوشی،سکون، جسمانی اور ذہنی صحت میں بہتری کا اظہار کیا جبکہ دوسرے گروہ کا تجربہ اس کے برعکس رہا۔
دعا کرنا
شکر گزار بننے کے لیے صرف انسانی کوشش کافی نہیں بلکہ دعا کو بھی اپنی روٹین کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ دعا کرنے سے اللہ کی مدد شاملِ حال ہو جاتی ہے اور پھر اس کام کو انجام دینا مشکل نہیں رہتا۔اپنے لیے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو دعا دینے کا کلچر بھی اپنانا چاہیے۔ یعنی شکریہ یا تھینک یو کے بجائے جزاک اللّٰہ خیرًا یا جزاک اللہ خیراً کثیراً جیسے الفاظ کا استعمال کریں جس کا مطلب ہےکہ اسے آپ کے ساتھ کی گئی نیکی کا بہترین اجر ملے۔ آپؐ نے فرمایا جس شخص کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے اور وہ احسان کرنے والے کے حق میں یہ دعا کرےجزاکاللہ خیراً(یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اس کا بہتربدلہ دے) تو اس نے اپنے محسن کی کامل تعریف کی (مشکوٰۃ) ایک اور حدیث میں ہے کہ آیتِ تیمم کے نزول پر اسید بن حضیرؓ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: جزاک اللہ خیراً،اللہ کی قسم! آپ پر کوئی ایسی پریشانی نہیںآئی جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ پر سے ٹال نہ دیا ہو اور اس میں مسلمانوں کے لیے برکت وسہولت کو نہ رکھ دیا ہو۔ (بخاری و مسلم)۔ٖ
آخر میں میرا مشورہ ہے کہ ہم سب روزانہ کی بنیاد پر ان ٹپس میں سے کچھ نہ کچھ اپنانے کی کوشش کریں اور اپنی روٹین میں شامل کریں۔ اس طرح ہم کئی ایک اچھی عادات اپنا لیں گے جو کہ شکوہ و شکایت جیسی بری عادات کو چھوڑنے یا تبدیل کرنے میں معاونت کریں گی۔ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں اور ساتھیوں کو بھی اس پلان میں شامل کریں اس طرح آپ کے لیے ثابت قدم رہنا اور اپنے مقصد پر جمے رہنا آسان ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے شکرگزار بندوں میں شامل کرے، آمین۔
حوالہ جات:
امام عبد الرّحمٰن ابنِ جوزی(597ـ508ھ)۔منھاج ُالقاصِدِین ۔مترجم :محمد سلیمان کیلانی (1985)۔ ادارہ معارفِ اسلامی ۔ لاہور
وحیدالدین(1997) ۔دینِ انسانیت :اسلام کا فکری اور عملی اور تاریخی مطالعہ۔ اسلامک سینٹر۔ دہلی

٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
2 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x