ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

تری وادی وادی گھوموں – بتول نومبر۲۰۲۰

صبح آنکھ کھلی تو غیر معمولی سناٹا تھا… بچےbug collection kit پر جھکے بغور کچھ دیکھنے میں مصروف تھے۔چھوٹی بیٹی نے بتایا۔
’’ امی وہ جو بڑا کیڑا تھا ناں… بے چاری چھوٹی بگ(bug ) کو مار کے کھا گیا… حالانکہ اس کو پتے بھی دیے تھے کھانے کے لیے…‘‘
’’ارے سلامہ وہ تمہاری طرح ویجیٹیرین ( Vegetarian ) نہیں تھا‘‘ بھائی صاحب نے سمجھایا لیکن غم کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔
’’ ارے تمہارے ابو کہاں گئے؟‘‘ ہم نے کیڑے کے سوئم فاتحہ سے بچنے کے لیے موضوع بدلا۔
’’ ابو تو صبح صبح چلے گئے آج تو چشمے پہ جانا تھا‘‘
’’اچھا آپ لوگ تیار تو ہو جائیں… آتے ہی ہوں گے‘‘۔
بلوچستان میں پانی بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ صرف قلعہ سیف اللہ والی سڑک ایسی تھی کہ وہاں ہم نے ہر پانچ دس منٹ کے فاصلے پر ٹیوب ویل لگے دیکھے۔ ان کے ساتھ حوض بھی بنے ہوتے تھے اور جہاں پانی وہاں باغات اور کھیت بھی خوبصورتی بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اس روٹ کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے این ففٹی ( N-50) کا نام دیا ہے۔ مسلم باغ بھی اسی روٹ پر ہے جہاں سردیوں میں ہم نے برف باری کے مزے بھی لوٹے۔ یہ برف باری تا حدِّ نگاہ پھیلے ہوئے وسیع و عریض میدان میں ہو رہی تھی اس لیے مری اور ایوبیہ یا دوسرے پہاڑی علاقوں کی برف باری سے قدرے مختلف منظر پیش کر رہی رہی تھی ۔ اس خطے میں ہریالی بہت تھی… لیکن عموماً بلوچستان میں پانی مشکل ہی سے نظر آتا ہے۔
ان سے جب پانی دیکھنے کی فرمائش کی تو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا جہاں دور دور تک سفید گول گول پتھر پھیلے ہوئے تھے۔ جس طرح پانی کا دریا بہتا ہے ایسا لگ رہا تھا بالکل اسی ترتیب سے پتھر جمائے گئے ہیں بلکہ پانی کے بجائے پتھروں کا چشمہ بہہ رہا ہے۔ دل ہی دل میں سوچا کہ میاں جی نے پھر بیوقوف بنا دیا اب یہاں کسی پرانے دریا کا آثار قدیمہ دکھانے لے آئے ہیں اور تیمم کروا کر واپس لے چلیں گے۔ لیکن جب گاڑی سے اترے تو دیکھا کہ پہیوں کے نیچے سے پانی ابل رہا ہے۔ اب جہاں جہاں قدم رکھتے پتھر دب جاتے اور پانی ابلنے لگتا۔ پھر پتہ چلا کہ یہاں اکثر مقامات پر پانی زمین کے اندر اندر بہتا ہے اور یہ قدرت کا نرالا انتظام ہے پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے۔ جن پتھروں کے نیچے پانی تھا ان کی رنگت دوسرے پتھروں سے کچھ مختلف تھی…. تھوڑی دیر میں بچوں کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ پانی کہاں کہاں ملے گا۔
ابو کی آمد پر بچوں کے نعرے بلند ہوئے اور سامان گاڑی میں رکھ کر روانہ ہوگئے….راستے میں بچوں کی بے تابی دیکھ کر شارٹ کٹ لگانے کیلیے چھوٹی مگر دشوار سڑک پر ہو لیے تاکہ جلدی پہنچ جائیں… لیکن ایک جگہ مٹی رات کی بارش سے نرم ہو گئی تھی۔گاڑی کے دو ٹائر اس میں دھنس گئے ۔گاڑی کو فور وہیل ڈرائیو پہ کر کے نکالنے کی کوشش کی تو نیچے سے مٹی ہی سرک گئی اور گاڑی باقاعدہ کروٹ لیٹ گئے اور چلنے سے انکار کر دیا….میاں جی بمشکل اپنا دروازہ کھول کر اترے پھر ہم سب کو چھلانگیں لگانے میں مدد دی۔
باہر نکلنے کے بعد اندازہ ہؤا کہ گاڑی ایسی خطرناک پوزیشن میں ہے کہ ہلکے سے جھٹکے سے کھڈ میں گر سکتی ہے۔ پہلا خیال یہی آیا کہ کسی کو فون کریں…. مگر سگنل نشتہ…. میاں جی نے ایک پہاڑی کی چوٹی کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ایف سی کی چوکی ہے مجھے وہاں جا کر ان کے سیٹلائٹ فون سے کیمپ والوں کو مدد کے لیے بلانا ہو گا اور اس میں کافی وقت لگے گا… آپ بچوں کے ساتھ یہیں انجوائے کریں۔
تھوڑی دیر تو بچے سکون سے بیٹھے پھر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے ساتھ والے پہاڑ پر چڑھنا شروع کر دیا…ہم نے بھی منہ قبلے کی طرف کرکے دعائیں شروع کر دیں… چائے بھی پی لی … اب سوچ رہے تھے کہ کون سی تسبیح پڑھیں کہ خلاف توقع میاں جی ایک گھنٹے ہی میں ایک ٹو ٹرک ( Tow truck) کے ساتھ آتے نظر آئے۔ اپنی سائٹ کے لوگوں سے رستے ہی میں ان کومدد مل گئی ۔ان مددگاروں نے آنکڑا ڈال کر گاڑی کو کھینچ نکالا اور ہمارا قافلہ پھر رواں دواں ہؤا۔
راستے میں چھیپر رفٹ بھی آیا… یہ کافی بلندی پر ہے اس لیے یہاں فون کے سگنل آنا شروع ہوگئے۔ اس علاقے کا نام چھیپر رفٹ اس لیے رکھا گیا کہ یہاں پہاڑوں کے درمیان موجود دراڑ کو انگریزوں نے بڑے بڑے پتھرکے ستونوں کے ذریعے ملایا اور اور کوئلے بھری ریل گاڑی ایک سرنگ سے دوسری سرنگ میں یہیں سے جاتی تھی. اس جگہ کی انگریزوں کے زمانے کی ایک تصویر جس میں ریل گاڑی چھیپر رفٹ کو پار کرتی نظر آرہی ہے گوگل امیجز میں آج بھی موجود ہے جس کے نیچے لکھا ہے چھیپر رفٹ نارتھ ویسٹرن ریلوے انڈیا ۔
کوئلے سے بھری گاڑیاں اب بھی سڑک پر گزرتی نظر آ رہی تھیں. یہ پتھر کا کوئلہ دیکھنے میں بہت چمکدار اور خوبصورت ہے اور وزن میں بھی حیرت انگیز طور پر انتہائی ہلکا ہے لیکن بعض مقامات پر اس میں گندھک کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اگر تھوڑی دیر کھلی ہوا میں چھوڑ دیں تو اس میں خود بخود آگ بھڑک اٹھتی ہے اس لیے اسے ڈھک کر منتقل کیا جا رہا تھا۔ یہ مختلف کارخانوں میں کئی طرح کے کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن بجلی بنانے کے لیے کام نہیں آتا۔
چھیپر رفٹ سے آگے ڈھلان کا سفر تھا۔کئی پہاڑوں کو پار کرتے ایک خاص مقام پر گاڑی کچے راستے پر اتار لی اب کھیت پیدل ہی پار کرنا تھا۔ آگے جھاڑیوں کی اوٹ میں ایک خوبصورت چشمہ تھا۔ اس کا پانی اس قدر صاف شفاف تھا کہ تہہ کے پتھر بھی چمکتے نظر آرہے تھے۔اب سمجھ آرہا تھا کہ علامہ اقبال کو شہروں سے زیادہ بن کیوں پیارے لگتے تھے۔واقعی قدرت کا حسنِ بے پروا یہاں پوری طرح بے حجاب تھا۔ اس پانی میں نہ سمندر کے پانی طرح نمک تھا نہ نہروں کی طرح مٹی نہ سوئمنگ پول کی طرح کلورین۔ الگ ہی مزہ تھا ٹھنڈے میٹھے بغیر ملاوٹ کے پانی کا. دیر تک تیرتے رہے پھر بچوں کو مچھلیاں پکڑنے کا خیال آیا. بڑی مچھلیاں تو ہمیں دیکھتے ہی بھاگ جاتی تھیں لیکن چھوٹی چھوٹی بہت سی پکڑ کر حفاظت سے ساتھ لے آئے۔ کچھ ایکویریم میں ڈال دیں اور کچھ پانی کے حوض میں کہ بڑی ہو جائیں گی تو کھائیں گے۔ چشمے کے پاس کچھ نئی اقسام کے پودے اور جڑی بوٹیاں بھی نظر آئیں۔ بلوچستان کے بعض علاقوں میں ایسی منفرد جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جو بہت سے طبی فوائد کی حامل ہیں ۔ایک چھوٹا سا پودا ایسا تھا جس کے پتوں میں سے پودینے سی ملتی جلتی خوشبو آرہی تھی… لیکن پتوں کی رنگت بھی مختلف تھی اور سطح مخمل سی تھی… بچوں نے اسے جڑ سمیت نکال کر ایک چائے کی پیالی میں لگا لیا وہیں سے مٹی بھی لی اور پانی بھی ڈالا۔کراچی لے جا کر تفصیلی مطالعہ کرنے کا ارادہ تھا۔
شام کو مہمان خانے میں واپس پہنچے تو بڑے بیٹے صاحب ابو کے دوستوں کے ساتھ شکار پر چل دیے۔ بیٹیوں نے شور مچا دیا کہ یہ تو زیادتی ہے, discrimination Genderہو رہی ہے۔ پھر ان کو یاد دلایا کہ قلعہ سیف اللہ والے ریسٹ ہاؤس میں پچھلی بار آپ لوگوں کو ڈرائیونگ بھی سکھائی تھی اور نشانے بازی کی مشق بھی کروائی تھی ،بھائی چھوٹا تھا تو اس کو گاڑی نہیں دی تھی۔کچھ تشفی ہوئی،پھر آگ سلگانے کی تیاریاں کرنے لگیں کہ بھائی جو شکار لائے گا تو اس کا بار بی کیو بھی تو کرنا ہوگا۔
کافی دیر انتظار کے بعد بھائی کو خالی ہاتھ آتے دیکھ کر سب نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی… پتہ چلا کہ ایک خرگوش مارا تو تھا لیکن وہ کوئی انکل لے گئے… بہنیں اپنے بھائی کے شکار کی روداد سن کر خوش بھی ہورہی تھیں مگران پْراسرار انکل کی عقل کا ماتم بھی کر رہی تھیں جو بے چارے کا پہلا شکار اس کے ہاتھ سے لے گئے۔ بھائی صاحب کو بھی کچھ کوفت ہو رہی تھی کہ سب پر رعب جمانے کا موقع ہاتھ سے چلا گیا… اتنے میں کھانا آگیا… بڑی مزیدار کڑاہی بنی ہوئی تھی… جب کھانا کھا چکے تو میاں جی نے بتایا یہ وہی خرگوش تھا جو آپ کے بھائی نے شکار کیا… فوراً سب نے کہا کہ ہمیں ہڈیاں کچھ مختلف سی لگ رہی تھیں مگر ہم سمجھے یہاں کی مرغیاں ایسی ہی ہوتی ہوں گی۔ ہمیں بھی اتنا تو سمجھ آرہا تھا کہ بہرحال مرغی تو یہ نہیں ہے لیکن خاموش رہنے کا اشارہ دیکھ کر چپ رہے۔
رات گہری ہونے لگی تو ستاروں کی محبت میں سب باہر نکل آئے۔چاند کی غیر موجودگی میں ستارے پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہے تھے۔دودھ کی ایک نہر آسمان پر بہہ رہی تھی… اچھا اس لیے ہماری گیلیکسی کو ملکی وے ( Milky way) کہتے ہیں… چھوٹی بیٹی کی آواز آئی…امی یہ ملکی وے ہی ہے ناں؟ ہم نے کہا ہاں یہ دودھیا پٹی ہماری کہکشاں ہے اور ہمارا سورج اورنظامِ شمسی اس کا بہت چھوٹا سا حصہ ہیں.. ایک کونے میں بس ایک نقطے کے برابر…اور ہماری زمین تو سولر سسٹم میں بھی بہت چھوٹی سی ہے…ہے ناں… لیکن امی اللہ نے انسان کو اتنی بڑی یونیورس میں اتنی چھوٹی سی جگہ کیوں دی؟ ہم نے کہا بیٹا یہ سوچو کہ اللہ نے اتنے…ے…ے چھوٹے سے انسان کو بھیجنے کے لیے اتنی …ی…ی بڑی کائنات کیوں بنائی ؟اور یہ جو کچھ بھی ہمیں نظر آتا ہے آسمانِ دنیا ہے…اللہ کے کمالات تو اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
امی کیا دوسری گیلیکسی میں ایلینز (خلائی مخلوق ) ہوتے ہیں؟ چھوٹے صاحبزادے اپنے پسندیدہ موضوع پر آگئے۔ جب بتایا کہ قرآن میں سورء طلاق کی آخری آیت میں اشارہ ملتا ہے کی اس زمین کی طرح اور زمینیں بھی ہیں جہاں اللہ کا حکم نازل ہوتا رہتا ہے تو بہت خوش ہؤا کہ پھر تو میں ڈھونڈ لوں گا ایلینز کو…تھوڑی دیر بعد جب ہم اطمینان سے گا رہے تھے کہ

فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیرِ مقامِ رنگ و بو کر
تاروں کی فضا ہے بے کرانہ
تو بھی یہ مقام آرزو کر

اچانک انتہائی غیر متوقع سوال آیا….امی کیا سارے شیطان بلوچستان میں ہی ہوتے ہیں ؟ ہم گڑبڑا گئے کہ ایسا ہم نے کب کہا… بولے آپ نے کہا تھا ناں…
کیا کہا تھا بھائی؟
یہی کہ قرآن میں ہے کہ یہ شوٹنگ سٹارز شیطان کو مارنے کے لیے آتے ہیں تو کراچی میں تو نہیں آتے سارے یہیں ہوتے ہوں گے شیطان۔
ان کی منطق پہ سر دھنتے ہوئے سمجھایا کہ بھائی وہاں آلودگی کی وجہ سے ستارے نظر نہیں آتے تو شہابِ ثاقب کیا نظر آئیں گے۔
اگلے روز سبک زئی ڈیم کی سیر کے ارادے سے نکلے یہ ضلع ژوب میں واقع ایک درمیانی گنجائش کا ڈیم ہے۔ کافی طویل راستہ تھا۔لیکن منزل خوبصورت تھی۔ وہاں پانی ڈیم سے گرتا دیکھ کر بہت اچھا لگا… بارشوں کے پانی کو محفوظ کر کے سارا سال یہ پانی زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور زندگی کی بقا کا ذریعہ ہے۔ایک اور منصوبہ ہنڈریڈ ڈیمز پراجیکٹ ( project dams Hundred ) کے نام سے بھی شروع کیا گیا ہے جس کے تحت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے سو بند بنائے جارہے ہیں۔ ان میں سے چھتیس بند مکمل ہو چکے ہیں اور کچھ پر ہم نے پکنک بھی منائی. بچوں نے یہاں بہت سے خوبصورت پتھر جمع کیے جن میں کچھ سنگِ ستارہ بھی تھے اور بعض فیروزے جیسے مگر دھاری دار نقش کے ساتھ تھے. پہاڑوں کے یہ مختلف رنگ بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہیں۔ راستے میں کچھ جگہوں پر پہاڑ کاٹنے کی مشینیں لگی ہوئی تھیں جو سیاہی مائل پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر ٹرک میں بھر رہی تھیں… پتہ چلا کہ یہ کرومائٹ ہے جس سے کرومیم (Chromium ) نکالا جاتا ہے جو فرنیچر وغیرہ میں لگائی جانے والی دھاتی سلاخوں پر سلور کوٹنگ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہم نے پوچھا کیا یہاں بہت سستا ہے؟ تو پتہ چلا مفت ہے یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں جتنا چاہے لے جائیں۔ یہ سب دیکھ کر اندازہ ہؤا کہ ملک دشمن عناصر کیوں بلوچستان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اللہ رب العالمین کے حکم سے بلوچستان کی زمین خزانے اگل رہی ہے اسی لیے پاکستان کے دشمن اسے پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ پہاڑی سلسلے کے درمیان ایک جگہ پہاڑمیں دو ڈھائی فٹ اونچا اور تقریباً تین فٹ چوڑا ایک سوراخ تھا جس کے اندر پانی تھا. ایسا لگ رہا تھا چھوٹا سا غار ہے جو پانی سے بھرا ہوا ہے۔وہ پانی پہاڑ کے اندر بنی ہوئی ایسی نالیوں میں بہہ رہا تھا جو اوپر سے بھی پتھرکی سلوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اسیبلوچستان میں کاریز کہتے ہیں۔یہی یہاں آب پاشی کا ذریعہ ہیں اور باغوں اور کھیتوں تک پانی کاریزوں سے ہی پہنچایا جاتا ہے۔بلوچستان کا موسم حد درجہ خشک ہے اگر یہ انتظام نہ ہو تو پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔ بہت ہی ٹھنڈا میٹھا پانی تھا جو پینے میں بڑا فرحت بخش تھا۔
آگے بڑھے تو ایک باغ تھا سڑک کے کنارے وہاں سیر کے لیے رکے۔ یہاں سیب، آڑو، آلوچے اور انگور اپنی بہار دکھا رہے تھے ۔ ایک طرف کچھ انار بھی دکھائی دیے مگر کچے تھے۔ پھلوں کو پیٹیوں میں پیک کیا جا رہا تھا۔ مالکان بڑی سادگی سے نوکروں کے ساتھ مل کر خود بھی پیکنگ کر رہے تھے۔ انجینئر صاحب کو دیکھتے ہی پہچان گئے کہ یہ وہی ہیں جنہوں نے این ففٹی بنائی تھی۔ بہت خوشی سے استقبال کیا۔ بچوں نے پھل توڑنے کی خواہش کی تو خوشی سے اجازت دے دی… آڑو ایسے تھے کہ بس منہ میں رکھیں تو رس بہہ کر ہاتھوں سے ٹپک رہا تھا۔آلو چے اس قدر رسیلے اور مزیدار کہ منہ میں رکھتے ہی گھل جائیں۔ اللہ کی حمد و ثنا کی اور ان کا شکریہ ادا کرکے واپس ہوئے۔
اگلے دن کوئٹہ جانے کے لیے علی الصبح نکلے۔ کوئٹہ میں سب سے پہلے سمنگلی کیمپ کا رخ کیا۔ یہ پاک فضائیہ کا ائیر بیس ہے جہاں بچے اپنے ماموں جانی عبدالمغنی فاروقی سے مل کر بڑے خوش ہوئے ناشتہ کیا پھر ان سے کوئٹہ کی سیر پر تبادلہ خیال کرنے لگے۔ کوئٹہ میں گھومنے کے لیے بس ہنّہ جھیل ہی سمجھ آئی۔ بہت خوبصورت ہے، بیچوں بیچ ایک جزیرہ نما بنایا گیا ہے جس تک پہنچنے کے لیے کشتیاں موجود تھیں۔ کچھ دیر وہاں مزے کئے پھر واپس ائیر بیس آگئے ۔کافی دنوں سے بے چارے غریب عوام فاسٹ فوڈ کے فاقے سے تھے اب ماموں جانی کے آرڈر کئے ہوئے بروسٹ، پزا اور برگر کھا کرجھوم رہے تھے اور ساتھ ساتھ فلائنگ کے اسرارورموز پر بھی گفتگو جاری تھی۔پاکستان کے جنگی جہازوں کی ساخت اور رفتار وغیرہ سے متعلق معلومات بھی حاصل کیں اور خوشی خوشی واپس ہوئے۔
مانگی ڈیم پراجیکٹ کافی وسیع وعریض رقبے پر محیط ہے تقریباً ایک ہزار ایکڑاراصئی ہے۔ جنوب کی سمت میں اس کے اندرایک باغ بھی ہے۔ ایک دن اس کی سیر کو گئے۔ یہ سیب کا باغ ہے مگر کچھ انار بھی لگے ہوئے تھے۔انار کا پھول دیکھ کر سمجھ آیا انار کلی کی خوبصورتی کیوں اتنی شہرت رکھتی ہے۔ باغ کے اندر مالکان کا گھر بھی ہے. بڑے سیدھے سادے اور مہمان نواز لوگ ہیں جن کے چہروں کی چمک بتا رہی تھی وہ مہمان کی آمد کو واقعی اللہ کی رحمت سمجھتے ہیں ۔خاتونِ خانہ ہمارے لیے مزیدار سبزچائے کی چینک بھر کرلے آئیں اور چینی کی چھوٹی کٹوریوں میں پیش کی۔ اب ان کے سامنے چائے کی تعریف کیسے کریں کہ:
زبانِ یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کو ملا کر دائرہ بنایا اور ان کو ہمارا مطلب سمجھ آگیا۔اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہاں باغ کو سیراب کرتی ندی میں سے ہمیں چکنی مٹی مل گئی جس سے مٹی کے برتن بنائے جاتے ہیں۔ ایک تھیلے میں بھر کر مہمان خانے لے آئے تاکہ یہ کام بھی بچوں کو سکھایا جا سکے۔ اگلے چند دن اس مٹی کو گوندھتے اور صاف کرتے اور اس سے مختلف چیزیں بناتے گزرے۔ جب برتنوں کو آگ میں پکانے کی بات ہوئی تو ارشاد ہوا کہ کراچی جا کر اوون میں بیک کر لیجیے گا۔
ڈیم کے اندرایک پہاڑی درہ بھی ہے جو بہت ہی حسین ہے۔سنگلاخ پہاڑوں اور چٹانوں کی تراش خراش دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔بعض جگہوں پر دونوں پہاڑوں کے اوپری سرے آپس میں اس طرح مل گئے ہیں کہ آسمان نظر نہیں آتا۔لگتا ہے چٹانیں ہوا میں معلق ہیں اور بس ابھی سر پہ آرہیں گی۔ میاں جی نے بتایا کہ یہاں سے جب برساتی پانی کے ریلے گزرتے ہیں تو دیو ہیکل چٹانوں کو بھی بہا لے جاتے ہیں۔پانی کے بہاؤ کے نشانات نظر آرہے تھے جو کہیں بیس فٹ اور کہیں تقریباً چالیس فٹ بلند تھے۔ کمرے جتنی بڑی بڑی چٹانیں کسی بچے کی پھینکی ہوئی گیند کی طرح لڑھکی پڑی تھیں ۔انہوں نے ڈرانے کی کوشش کی کہ برسات کا موسم ہے کسی بھی وقت اچانک پانی آجاتا ہے اور یہاں گھومنا پھرنا بہت خطرناک ہے۔ لیکن پاکستانی تو وہ قوم ہے جو سائکلون کی اطلاع سن کر اسے دیکھنے ساحل پر پہنچ جاتی ہے۔مجال ہے جو ڈر جائیں !بچے وڈیو اور تصویریں بنانے میں لگے ہوئے تھے بڑی مشکل سے وہاں سے نکلے۔
رات کو شامت کا مارا ایک جھئو چوہا ( Hedgehog) جسے خار پشت یا سیہ بھی کہتے ہیں وہاں چلا آیا۔ زاہدیوں نے مل کر اسے پکڑ لیا۔ اب سوال یہ تھا کہ اسے کھلائیں کیا ؟ امّاں گوگل ( Google ) کی غیر موجودگی میں دیسی ساختہ گھریلو اماں کی طلب کافی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن ہمارے کچھ کہنے سے پہلے ہی چھوٹے صاحبزادے نے اس کو بسکٹ کھلا دیے اور وہ بھی انگریز نکلا۔ خوشی خوشی کھا گیا۔ ایک دن ایک سانپ کا بچہ نظر آگیا ۔اس کو پکڑ کر ایک خالی فش ٹینک میں ڈال دیا۔ وہ بھی خوش لگ رہا تھا کہ بیٹھے بٹھائے اتنے چاہنے والے مل گئے۔ پانی کے کچھوے ( Turtle ) بھی ساتھ لے لیے کہ کراچی میں پہلے سے ایک جوڑا موجود ہے اوران کی رہائش کا مناسب بندوبست ہے تو کیا حرج ہے آبادی بڑھانے میں۔ خشکی کے کچھوے (Tortoise ) بھی قافلے میں شامل ہو گئے۔ ان پر اعتراض کی گنجائش نہیں تھی یہ بڑے معصوم سے جانور ہیں ، گھر میں گھومتے رہتے ہیں اور سبزیاں کھا کر خوش رہتے ہیں۔ انجینئر صاحب کئی رشتے داروں اور دوستوں کو تحفے میں دے کر ثواب دارین بھی حاصل کر چکے ہیں ۔
کراچی واپسی پر ہماری گاڑی چچا ڈارون کی ایچ ایم ایس بیگل لگ رہی تھی جوانواع و اقسام کے قدرتی نمونوں سے بھری ہوئی گیلاپوگس جزیرے سے واپس آئی ہو… الحمد للہ مکران کوسٹل ہائی وے پر اطمینان سے ڈرائیو کرتے 14 گھنٹے میں کوئٹہ سے کراچی آئے اور خیر وعافیت سے تمام جانداروں کے ساتھ گھر پہنچ گئے۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x