ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

صدقے یا رسول اللہؐ – بتول نومبر۲۰۲۰

بچے سکول و کالج اور میاں جی اپنے کاروبار کی طرف جا چکے تھے۔ دن کے دس بجے ہی ارد گرد ہو کا عالم تھا۔ آس پاس کے گھروں سے بھی صرف دو آوازیں آ رہی تھیں ، گھنٹی بجنے کی اور دروازے کھلنے کی،کیونکہ یہ جھاڑو پونچھے والی ماسیوں کے آنے کا وقت تھا۔ لیکن رفعت کی اپنی ملازمہ کے لیے خاص تاکید تھی صبح آٹھ بجے تک آنے کی۔
آج تو کام بھی کچھ زیادہ تھا کیونکہ رفعت نے اپنے گھر میں ماہ ربیع الاول کے سلسلے میں محفل منعقد کی تھی جس میں بس ایک دن باقی تھا۔
رفعت اکثر ماسی کے پاس کھڑے ہو کر اس سے کام کرواتی۔ نہ خود بیٹھتی نہ ماسی کو سست روی سے کام کرنے دیتی۔ اس نے گھر کے ایک ایک کونے کھدرے سے صفائی کروائی۔ اسی دوران پھر دروازے کی گھنٹی بجی۔ دیکھا تو مالی تھا۔ اب مالی میاں کی بھی نگرانی ضروری تھی۔ رفعت جلدی سے اندر سے سرخ اور سفید رنگ کے روغن کی دو چھوٹی ڈبیاں لے کر آ گئی اور مالی کو ہدایات دینے لگی۔
’’ دیکھو… گملوں کا روغن کتنا خراب ہو گیا ہے۔ اب انہیں نیا روغن کر دینا چاہیے۔ تم ایسا کرو ، پہلے مشین سے گھاس کاٹو پھر پودوں کی خراش تراش کے بعد پانی دینا اور آخر میں تمام گملوں پر روغن کر دینا‘‘۔
مالی بظاہر تو ، اچھا باجی کر دوں گا ، کہہ کر خاموش ہو گیا مگر دل ہی دل میں اس وقت کو کوسنے لگا جب اس گھر کی نوکری اختیار کی۔
کام والی شمو جو رفعت کی توجہ دوسری جانب دیکھ کردیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سستانے کے لیے بیٹھ گئی تھی، رفعت کو واپس آتے دیکھ کر فوراً اٹھ بیٹھی۔ اتنے میں رفعت نے بھی آواز لگا دی۔
’’چل شمو…شاباش اٹھ… اٹھ جلدی کر ابھی بڑے کام پڑے ہیں‘‘۔
رفعت کی کام والیوں سے سرہانے کھڑے ہو کر کام کروانے کی عادت سے کام والیاں چند ہی دنوں میں کام چھوڑ کر کسی دوسرے گھر سدھار جاتیں۔ لیکن شمو بچاری وختاں ماری پچھلے چار مہینے سے اس گھر میں ٹکی ہوئی تھی۔ اب اس کے دل میں بھی کبھی کبھی بغاوت کا خیال آ جاتا لیکن رفعت باجی کے گھر سے بچا کھانا اور اترن کپڑے کثیر تعداد میں مل جاتے کہ اکثر اسے گھر جا کر کھانا نہ پکانا پڑتا۔ اور کپڑے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی ایک بھابھی اور دو بہنیں بھی پہن رہی تھیں۔ سو یہی وجہ تھی کہ وہ بغاوت کا سوچتے سوچتے پھر تابعداری کی طرف آ جاتی۔
آج سکندر صاحب بھی معمول سے پہلے گھر آگئے۔ صاف ستھرا لش پش گھر دیکھا دل خوش ہو گیا۔ کھانا تیار تھا۔ کھانا کھا کر قیلولہ کرنے اپنے کمرے کی طرف چل دیے۔ رفعت بھی ان کے پیچھے پیچھے ہی کمرے میں آگئی اور شوہر کے بستر کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔
سکندر نے محسوس کر لیا کہ رفعت آنے والے کل کے بارے میں کوئی بات کرنا چاہتی ہے اس لیے خود ہی پہل کر لی۔
’’ہاں بھئی بیگم صاحبہ کل کتنے لوگوں کا کھانا آرڈر کروانا ہے اور مینو میں کیا کیا ہونا چاہیے؟‘‘
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔وہ تو خود چاہتی تھی کہ شوہر صاحب محفل کے انتظامات کے حوالے سے بات کریں۔
جب اس کی شادی ہوئی تو اسے محسوس ہؤا کہ سکندر صاحب کو محفلوں میلادوں کا کوئی اشتیاق نہیں اور رفعت ٹھہری بچپن سے ہی ان چیزوں کی دلدادہ… کیونکہ اس کے گھر والوں نزدیک یہ مذہبی ذمہ داری اور ثواب کا ذریعہ تھا۔ سکندر صاحب خود قائل تھے یا نہیں البتہ اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے اعتراض نہ کرتے۔ رفعت ایسے نیکی کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتی۔ ان محفلوں کے لیے بہترین کھانا آرڈر کرواتی یا پکواتی۔ سب ملنے جلنے والوں کو بلایا جاتا۔ آنے والے خوب سیر ہو کر اس گھر سے جاتے۔ بلکہ کئی چند اہم خواتین کو بچوں کے لیے بھی کھانا پیک کر کے ساتھ دے دیتی۔ واپسی پر خواتین اس کی فراخدلی میں رطب اللسان ہوتیں۔
اسی طرح تحفہ تحائف دینے میں بھی رفعت کسی سے کم نہ تھی۔ کوئی دس روپے کی چیز دیتا تو جواباً بیس تیس کیا، پچاس روپے کی چیز دینے کی کوشش ہوتی۔ کسی سہیلی سے ملنے جاتی تو اس کے لیے چھوٹا موٹا تحفہ لے کر جانا، اس کی روایات میں شامل تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ رفعت عبادت ووظائف میں بھی کسی سے کم نہ تھی۔ نماز روزہ تو لازمی تھا لیکن صبح واک میں بھی چلتے قدموں کے ساتھ ساتھ انگلیوں سے تسبیح کے دانے بھی گر رہے ہوتے اور لبوں کی بے آواز جنبش بھی جاری رہتی۔
’’رفعت… میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کتنے لوگ ہوں گے ؟‘‘
سکندر نے ایک بار پھر رفعت کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا جو ان کا سوال سن کر کافی دیر سے سوچ میں تھی اور خیال ہی خیال میں لوگ گننے میں محو تھی۔
’’سو… تقریباً ایک سو خواتین ہو جائیں گی… اور پتہ ہے آپ کو… ہاؤس نمبر 480 جس صاحب نے خریدا ہے وہ پنجاب پولیس میں ایس ایس پی ہیں۔ میری ان کی بیگم سے بڑی اچھی علیک سلیک ہو گئی ہے۔ بلکہ یوں سمجھیے کہ میری سہیلی ہی بن گئی ہے۔ میں نے اسے بھی دعوت دی ہے ، کہہ رہی تھی ضرور آئے گی‘‘۔
رفعت نے چہکتے ہوئے میاں کو خبر دی۔
’’بھئی یہ کون سی کوئی انوکھی بات ہے۔ شروع سے ہی آپ کے حلقہ احباب میں اونچے اونچے گھرانوں کی خواتین رہی ہیں۔ کسی کا تعلق سیاسی گھرانے سے ہے، کوئی آرمی آفیسر کی بیگم ہے۔ اب ایک پولیس افسر کی بیگم سہیلی بن گئی ہے تو اس میں حیرانی کی کونسی بات… بیگم سچ پوچھو تو اس معاملے میں ہم خود تمہارے مداح ہیں‘‘۔سکندر صاحب مسکرائے۔
’’ہاںوہ یاد آیا…صبورا کو بلایا ہے؟‘‘ بیگم کی تعریف میں رطب اللسان سکندر کا دھیان ایک دم بدلا۔
’’ہاں ہاں جناب بلا لیں گے آپ کی بہن کو بھی… گھر کی بات ہے جب مرضی اسے کہہ دوں ‘‘۔
سکندر کی بہن صبورا محفل والے دن صبح نو بجے ہی آ گئی۔ محفل کا وقت سہ پہر ساڑھے تین سے شام چھ بجے تک تھا۔ اتوار کی چھٹی ہونے کی وجہ سے سکندر بھی گھر میں موجود تھا۔ صبورا کا وقت مقررہ سے پہلے آ جانا اور پھر بطور خاص بھائی کے پاس بیٹھنااس بات کی دلیل تھا کہ بھائی سے کوئی ضروری بات بھی کرنی ہے۔ لیکن بات حال احوال سے شروع ہو کر ختم بھی اسی موضوع پر ہو رہی تھی۔ نہ صبورا کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ بات کیسے شروع کرے اور نہ بھائی یہ سمجھنے کی آرزو میں تھا کہ وہ کہنا کیا چاہتی ہے۔
چھٹی کی وجہ سے گھر رہنا بھائی کی مجبوری تھی سو ادھر ادھر چکر لگا کر پھر بہن کے پاس ہی آ کر بیٹھنا پڑتا۔
سکندر اور صبورا یہ دو ہی بہن بھائی تھے۔ ماں نے تو پانچ اولادیں جنم دیں مگر زندہ یہ دو ہی رہ سکے۔باقی تین بچے بچپن میں ہی وفات پا گئے۔ ایک زمانے میں تو دونوں بہن بھائی کی محبت مثالی تھی۔لیکن پھر اس محبت پر گزرتا وقت اپنے نقوش چھوڑنے لگا۔ ایک تو اولاد کو جوڑ باندھ کر رکھنے والے والدین دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اور دوسرا جب انسان دن بدن مزید رشتوں سے منسلک ہوتا ہے تو ساتھ محبتوں کا بٹوارہ بھی ہوتا ہے۔ پھر پچھلی محبتوں کی درخشندگی بھی ماند پڑنے لگتی ہے۔
بہرحال جو بھی ہے صبورا تو کسی صورت بھائی سے دور نہ ہونا چاہتی تھی۔ ویسے بھی والدین کے بعد اس کا کل میکہ، اثاثہ، یہ بھائی ہی تو تھا۔
باپ کی وفات کے بعد بھائی بھی کچھ زیادہ ہی مہربان ہو گیا۔ اپنی گاڑی پر صبورا کو بچوں سمیت سسرال سے لانا، دو تین دن اپنے گھر میں رکھنا ، بازار سے مزے مزے کے کھانے منگوا کر کھلانا، بچوں کو گھمانا پھرانا اور پھر واپس چھوڑ کر بھی آنا۔بھائی بہن پر مہربان ہی مہربان۔بلکہ ان دنوں تو بھابھی بھی نند کی بلائیں لیتی نہ تھکتی۔
دو چار ماہ یہی سلسلہ چلا۔انتقال جائیداد کا وقت آیا۔ بھائی نے بہن کے سامنے اس کے حصے کی جائیداد کے کاغذات رکھتے ہوئے ان پر دستخط کرنے کے لیے پین بھی ساتھ ہی رکھ دیا۔
بہن سب سمجھ کر حیران تو ہوئی مگر چپ کی چپ رہ گئی۔ بھائی کی ناراضگی مول لے کر اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔ صبورا کے ہاتھوں نے قلم پکڑ کر کاغذات پر معمولی سی جنبش کی اور اپنی لاکھوں کروڑوں کی جائیداد بھائی کے نام کر دی۔
اس دن واپسی پر سکندر نے بہن، بہنوئی اور بچوں کے لیے بہترین ملبوسات لے کر دیے۔ ساتھ بچوں کے لیے بسکٹ کے ڈبے اور مٹھائی کی پورے پانچ کلو کی ٹوکری بھی ہمراہ تھی۔
پھر گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ بھائی کی محبت کی رگیں سوکھنے لگیں۔
صبورا کی شادی ماموں زاد کے ساتھ ہوئی تھی۔ شوہر میٹرک پاس اور کریانے کی دوکان چلاتا تھا۔ رشتہ تو ہم پلہ نہ تھا لیکن اس ماں نے بھی بیٹی کے جوڑ کی بجائے بھائی سے محبت کو ترجیح دی۔ صبورا کے گھر کے مالی حالات اکثر نشیب و فراز کا شکار رہتے۔ اب اس کے دونوں بڑے بچے ایف ایس سی کر چکے تھے۔ بچے لائق تھے۔ بیٹا انجینئر اور بیٹی میڈیکل کی طرف جانا چاہتی تھی۔ لیکن صبورا کے پاس سرمایہ ندارد… ملک میں کوئی ایسا نظام وضع نہیں تھا کہ بچے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ کام کر کے اپنا خرچہ خود چلا لیتے۔ اوپر سے تعلیم انتہائی مہنگی ،جس کا خرچ اٹھاناصبورا اور اس کے شوہر کے بس کا روگ نہیں تھا۔
صبورا کو مجبوراً بھائی کی طرف دیکھناپڑا اور آج وہ اسی سلسلے میں بھائی کی طرف آئی تھی۔
صبورا بھائی کے پاس بیٹھے اپنی ہمت مجتمع کرتے ہوئے، بولنے کے لیے الفاظ کا چناؤ دل ہی دل میں کر رہی تھی۔ جبکہ بھائی بہن کی قربت سے بے نیاز اپنے موبائل میں مصروف تھا۔ مہمان خواتین کا وقت ہونے والا تھا، رفعت بھی انتظامات دیکھ کر تھوڑی دیرآکر پاس بیٹھ گئی۔ صبورا آخر ہمت کر کے دل کے الفاظ زبان پر لے ہی آئی۔
’’ بھائی جان !بچے پڑھنا چاہتے ہیں اور میرے گھر کے مالی حالات تو آپ کے سامنے ہیں۔ بھائی جان میں…سارا تو نہیں مانگتی … لیکن…صرف بچوں کی پڑھائی کے لیے میرے حصے کی جائیداد میں سے تھوڑا سا دے دیں تاکہ میری مشکل دور ہو‘‘۔
اتنا سننا تھا کہ سکندر کے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔
’’ کون سا حصہ بہن جی ؟ تم نے اپنی خوشی سے سب کچھ میرے نام کیا تھا‘‘۔
ابھی سکندر نے بات مکمل نہ کی تھی کہ وہاں بیٹھی رفعت جھٹ بول پڑی۔
’’ صبورا… تیرا بھائی ساری زندگی تیرا بنا رہا اور تو کتنی بے مروتی دکھا رہی ہے۔ تو نے تو ذرا بھی لحاظ نہیں رکھا اور بھائی کا کیا دھرا سارا کنویں میں ڈال دیا ہے۔ عید ہو… شب برات ہو…یا کوئی اور دن دیہاڑ … کب تیرے بھائی نے تیرے سر پر ہاتھ نہیں رکھا۔ اب یہ بچوں کی پڑھائی تو ہماری ذمہ داری نہیں۔ یہ تو بچوں کے باپ کی ذمّہ داری ہے۔ استطاعت ہے تو پڑھا لے، نہیں ہے تو نہ پڑھائے‘‘۔
اتنے میں رفعت کی بیٹی اسے لینے آ گئی۔
’’امی خواتین آنا شروع ہو گئی ہیں۔آپ کا پوچھ رہی ہیں کہ محفل شروع کریں‘‘۔
رفعت اٹھ کر محفل کی طرف چلی گئی۔
صبورا تو بھابھی کی کھری کھری باتیں سن کر دم بخود رہ گئی۔ غلطی تو اس کی اپنی تھی جو اس نے بھائی کی محبت میں اپنے ہاتھ کاٹ کر بھائی کو پکڑا دیے۔ اور اپنے رب کی عطا پر دوسروں کو مسلط کر دیا۔
سکندر نے اپنے بٹوے سے ہزار والے دو نوٹ نکال کر صبورا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ یہ لے صبورا… اب آئی ہے تو خالی ہاتھ نہ جا‘‘۔
صبورا کو یہ دو ہزار روپے اپنی انا پر دو ہزار طمانچوں کی طرح محسوس ہوئے اور رندھی ہوئی آواز میں بس اتنا ہی کہہ سکی۔
’’مجھے نہیں ضرورت آپ کے ان روپوں کی‘‘۔
’’ اچھا… نہیں رکھنے تو نہ سہی‘‘۔ سکندر نے روپے واپس بٹوے میں ڈال دیے۔
صبورا وہاں سے اٹھ کر باہر کی طرف چلی گئی اور ہال کے دروازے کے قریب گئی تو دیکھا خواتین گلاب کی خوشبو سے معطر ماحول میں سفید براق کپڑے پہنے، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایک لے میں درود و سلام بھیج رہی تھیں۔
رفعت نے صبورا کو جاتے ہوئے دیکھ لیا تو اونچی آواز میں بیٹی سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’ جا کرپھپھو سے کہو تھوڑی دیر بیٹھ جائے اور نیاز کھا کر جائے‘‘۔
لیکن حقداروں کا حق ادا کرنے کی تاکید کرنے والے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امتی، اور اس گھر کی بیٹی دوپٹے کے پلو میں اپنے آنسو جذب کرتے ہوئے بیرونی گیٹ کی طرف قدم بڑھا چکی تھی۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x