ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

حریم ادب کے ساتھ ایک خوبصورت شام – بتول جولائی۲۰۲۲

زندگی میں بہت سے مواقع ایسےآجاتے ہیں کہ جب آپ اس کشمکش میں ہوتےہیں کہ غم منائیں یا خوشی۔شادی مرگ کا نام تو آپ نے سناہی ہوگا۔مسرت ایسی کہ غم کا گمان ہوجائے۔کیونکہ خوشی میں بھی توآنسو نکل آتے ہیں نا۔بس اسی کشمکش میں مبتلا کل کا دن بھی بیت گیا جس کا کئی دن سےہم سمیت سب حریم ادب ساتھیوں کا شدت سے انتظار تھا۔ایسے پروگرامات واقعی ذہنی آبیاری کا بہترین سلسلہ ہوتے ہیں اسی لیے ہم جیسے نوآموز لکھاریوں کو ایسے پروگرامات کا شدت سے انتظار رہتاہے۔
پروگرام بھی اپنی نوعیت کا منفرد مربوط اور ادبی پروگرام تھا۔اچھا ہو&ٔا جو شرکت کرلی ورنہ کافی دن تک پچھتاوا رہتا کہ کوشش کرکے چلی ہی جاتی۔
گاڑی ڈھائی بجے لینے آگئی تمام ساتھی بہنوں کو لے کر پہنچتے پہنچتے وہاں 4 بج گئے۔
ہمارے پہنچتے ہی پروگرام بعنوان ’’تحریر کو معیاری کیسے بنائیں‘‘ کا باقاعد آغاز ہوگیا۔پروگرام کی میزبانی ہماری دو بہترین سہیلیاں اور فن و خطابت میں اپنے میدان کی ماہر شہ سوار سمیرہ غزل اور فائزہ مشتاق (جسارت سنڈے میگزین کی نائب مدیرہ) نے انجام دیے۔
حریمِ ادب کے تحت ہونے والے مذاکرے ’’تحریر کو معیاری کیسے بنایا جائے‘‘ میں ہمیں باقاعدہ شرکت کی دعوت ہمیں ہماری بہت پیاری خالہ جان نگراں حریم ادب کراچی عشرت زاہد کی طرف سے دی گئی تھی۔ مذاکرے میں مختلف ادبی میدان میں مہارت رکھنے والی خواتین نے شرکت کی ۔جن میں دوشیزہ ،خواتین ڈائجسٹ،سچی کہانیاں، پاکیزہ،
جنگ و جسارت کی مدیرہ و نائب مدیرات ،ڈرامہ نگار ،اسکرپٹ رائٹرز، مختلف ڈائجسٹوں کی مدیرات اور بچوں کی کہانیوں کی صدارت ایوارڈ یافتہ شخصیات شامل تھیں۔تفصیل کچھ یوں ہے:
غزالہ عزیز جسارت کی سنڈے خواتین میگزین کی انچارج،منزہ سہام مدیرہ دوشیزہ اور سچی کہانیاں،شفق رفیق جنگ سنڈے میگزین کی نائب مدیرہ،الیکٹرانک میڈیا سےنزہت سمن ڈرامہ نگار اسکرپٹ رائٹر ، پاکیزہ ڈائجسٹ کی مدیرات نزہت اصغر اور آمنہ حماد،راحت عائشہ بچوں کے ادب کی صدارتی ایوارڈ یافتہ۔
مذاکرے میں تحریر کو معیاری برمحل اور میگزین اور ڈائجسٹ کے مطابق بنانے پر گفتگو کی گئی تھی۔ تمام شرکاء گفتگو نے مجموعی طور پر جن نکات پر بات کی اور سوالات کے جوابات دیے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔بہترین اور بہت زیادہ کتب کے مطالعے کو اپنی عادت بنالیجیے۔
2۔جتنا بہترین مطالعہ ہوگا اتنی اچھی تحریر آپ کے قلم سے رواں انداز میں لکھی جائے گی۔
3۔اپنی تحریر کو کسی ایک میگزین میں بھیجیے۔
4۔تحریر کے مطلوبہ ڈائجسٹ میگزین تک پہنچ جانے کے بعد شائع ہونے تک صبرکیجیے۔بار بار فون میسجز ای میل کرکے تنگ مت کیجیےکہ ہماری تحریر کب شائع ہوگی۔
5۔ادبی سرقہ سے پرہیز کیجئے۔اگر کہیں سے کاپی کریں تو حوالہ ضرور دیجیے۔
6۔کہانیاں لکھتے وقت ماحول موقع روایات کی مناسبت سےتحریر میں کرداروں کے نام اور منظر کشی کیجیے۔
7۔اچھی کتابوں کو اتنا پڑھیے کہ بہترین تحریر کا رنگ آپ کی تحریر میں چھلکنے لگے.
8۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ تحریر فوری شائع ہو تو تحریر کو مختصر اور جامع رکھیے۔
9۔بچوں کے لیے لکھتے وقت بچوں کی سطح پر اتر کر لکھیے۔
10۔بچوں کے لکھنے کے لیے بچوں کے تین گروپ 2 سے 4 سال 4 سے 12 سال اور 12 سے 18 سال کی عمر کا خیال رکھیے اور پہلے سے ذہن بنایئےکہ کس عمر کے بچوں کے لیے آپ لکھ رہے ہیں۔
11۔اگر آپ کی تحریر شائع نہیں ہوتی تو بار بار لکھیے۔
12۔مطالعہ جس قدر بہترین ہوگا تحریر میں اتنی جان آتی جائے گی۔
13۔اگر اپنی تحریروں کو ردی کی ٹوکری سے بچانا ہے خود نام کمانا چاہتے ہیں تومناسب اور برمحل الفاظ اشعار ضرب مثل کا استعمال کیجیے۔غلط محاوروں سے پرہیز کیجیے۔
14۔کبھی بھی ہمت ناہارئیے۔
مذاکرے کے آخر میں حریم ادب کراچی کی جانب سے تمام شرکائے مذاکرہ کو تازہ پھولوں کے گلدستے اور کتابی تحائف کے ساتھ دیگرتحائف بھی پیش کیےگئے۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں حریم ادب کی جانب سے پہلے سے منعقدہ تحریری مقابلے بہترین کہانی اور بہترین مضامین کے کامیاب ترین شرکاء کو ان کی بہترین کاوش پر انعامات سے نوازا گیا جس میں ہمارا بھی نام شامل تھا۔ویسے ہم کوئی اتنی خاص کاوش نہیں لکھ سکے تھے بچوں گھر اور تھیسیس میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ پروگرام میں شرکت کرنا اور اتنے پیارے ادبی لوگوں سے ملنا ہی ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔اس پر سونے پر سہاگہ حریم ادب والوں نے ہماری حوصلہ افزائی کے لیے ہمیں بھی خوبصورت اسناد اور بیش قیمت کتب کے تحائف سے نوازا۔جس کے لیے حریم ادب کی بے انتہا مشکور ہوں۔
میں ان لوگوں کا بھی ذکر کرنا چاہوں گی جن سے مل کر مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔اور ان سے ملاقات کے بعد میں اپنے آپ پر فخر کرتی ہوں کہ میں بھی ان کے جاننے والوں میں شمار ہوتی ہوں۔ان پیاری و ادبی ہستیوں میںسب سے پہلا نام عشرت آنٹی کا ہے۔پھر یہ سب بھی اسی لسٹ میں آتی ہیں۔جن میںثمرین احمد،سمیہ خان،فریحہ مبارک،عالیہ شمیم خالہ ،طلعت نفیس آنٹی۔ان کے علاوہ بہت سے آنٹیوں باجیوں سے ملاقات راحت جاں ہوئی رہی جن میں شہلا ارسلان،راحت عائشہ،سمیہ باجی،آسیہ عمران باجی،عظمیٰ ابونثر باجی،عالیہ زاہد بھٹی اور توقیر عائشہ خالہ جان شامل ہیں۔
اللہ تعالیٰ حریم ادب کودن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمادے۔ اتنی پرخلوص محفل میں شرکت کا اعزاز ہی میرے لیے بہت بڑی بات ہے۔پھر میری حوصلہ افزائی کے لیے مجھے تحائف واسناد سے بھی نوازا جانا بہت پرلطف احساس تھا۔
مغرب کے بعد گاڑی سے گھر پہنچنا،10 ماہ کی عائشہ کا بخار، سعد کی مسلسل شرارتیں،تھیسیس میں ہربار پروف ریڈنگ کی غلطیاں،پھر باربار پرنٹ آئوٹ نکلوانا،شدت کی گرمی،لوڈشیڈنگ وغیرہ یہ تمام تکلیفیں مشکلات ایک جانب دراصل حریم ادب پروگرام کی شرکت اللہ کی جانب سے ان تمام تکلیفوں کا مداوا ثابت ہوئی۔ایک خشک صحرا میں بارش کی بوندیں جو تپتی زمین کو ایسے سیراب کرتی ہیں کہ تمام سبزہ جھومنے لگتاہے۔اب میں وہ ساری تکالیف بھول گئی ہوں۔اور اب نئے سرے سے بہترین تحریر لکھنےکےبارے میں سوچ رہی ہوں۔٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x