ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جب مکہ فتح ہؤا – بتول جولائی۲۰۲۲

۶۲۸ء مطابق ۲ ہجری محمدﷺ اور مسلمانوں نے مکہ جا کر حج عمرہ ادا کرنے کی کوشش کی مگر مکہ کے بت پرستوں نے حدیبیہ میں مسلمانوں کو روک دیا۔ اسی جگہ بت پرستوںاور مسلمانوں کے درمیان بالآخر دس سالہ معاہدہ ہؤا، جس کی روسے مسلمان آئندہ سال خانہ کعبہ کی زیارت کرسکتے تھے اور یہ کہ مسلمان مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے ۔ اس معاہدہ حدیبیہ کی رو سے آپ ۶۲۹ء مطابق ۷ ہجری دو ہزار افراد کے ساتھ مکہ کوروانہ ہوئے تاکہ زیارت کعبہ کر سکیں ۔ زائر ہونے کی حیثیت سے جز شمشیر کوئی اور اسلحہ ان کے پاس نہیں تھا ۔
جس وقت مسلمان مکہ میں واردہوئے، قریش کے لوگ ڈر کر مکہ سے باہر چلے گئے اور مکہ کے ارد گرد پہاڑوں پر چڑھ گئے ، خصوصاً ان پہاڑوں پر جو خانہ کعبہ کے ارد گرد سر بلند تھے اور وہاں سے مسلمانوں کو طواف کرتے دیکھتے رہے۔
قریش کے اس خوف کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مسلمانوں پر اعتماد تھا ۔ انہیں خدشہ تھا کہ مسلمان کہیں شہر میںداخل ہونے کے بعد ہم پر حملہ نہ کر دیں اور ہم سب کو قتل نہ کر دیں ۔
محمد ؐ نے بھی احتیاط برتی تھی ۔ ایک سو سواروں پر مشتمل ایک دستہ کو محمدؓ بن مسلمہ کی سربراہی میں علاقہ مرالظہران کے حصے مقعر میں تعینات کیا ۔ اس کے جوار میں پہاڑی علاقہ تھا جہاں سے محمدؓ بن مسلمہ اور اس کے سوار مکہ پر نگاہ رکھ سکتے تھے ۔ محمدؐ نے محمد بن مسلمہ کو حکم دیا تھا کہ جب دیکھو کہ اہل مکہ نے مسلمانوں پر حملہ کیا ہے تو اپنے دستے کے ساتھ فوری مدد کے لیے پہنچ جانا ۔ دوسری صورت میں تمہارا قیام وہیںرہے گا تاوقتیکہ ہم لوٹ آئیں۔
بت پرست جو پہاڑوں کے اوپر سے مسلمانوں کے مکہ میں ورود کا منظر دیکھ رہے تھے مسلمانوں کے نظم و ضبط پر بہت متعجب ہوئے بلال حبشیؓ جنہیں اسلام کے دور اوّل میں ابو جہل نے جلتے سورج کے نیچے تپتی زمین پر باندھ کر لٹا دیا تھا ، انہوں نے کعبہ کی اونچی چھت پر چڑھ کر اذان کہی مکہ کے لوگوں کے دلوں پر وحشت و نفرت کی وجہ سے لرزہ طاری ہو گیا اور وہ منتظر رہے کہ ابھی کعبہ کا بڑا بت مسلمانوں پر آسمان گرادے گا ۔
لیکن کوئی نا مطلوب واقعہ مسلمانوں کے ساتھ پیش نہ آیا حتیٰ کہ ایک سنگریزہ بھی آسمان سے نہ گرا ۔ اولین بار اللہ اکبر کی صدا مکہ کی فضائوں میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی ۔ جس گھڑ ی محمد اور مسلمان احرام کی حالت میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے فرط شوق اور خلوص نیت سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے حتیٰ کہ عمرؓ بن الخطاب بھی رو رہے تھے ، اس لیے کہ مسلمان ایک مدت تک خانہ کعبہ سے دور کر دیے گئے تھے اور وہ تصور نہیں کرتے تھے کہ دوبارہ خانہ کعبہ کو دیکھ سکیں یا اس کا طواف کر سکیں گے ۔
حج و عمرہ کی رسومات کی ادائیگی کے بعد نبیؐ کی خواہش تھی کہ کسی طرح جماعتِ قریشی سے راہ و رسم پیدا ہو ، لہٰذا آپؐ نے عرب کی معروف ترین عورتوںمیں سے ایک کے ساتھ ازدواج کرنے کا ارادہ کیا۔
پس آپؐنے میمونہ ؓ بنت الحارث جو عباس ؓ کی بیوی کی بہن تھیں ، سے ازدواج کرلیا ۔ یہ ازدواج ایک بہت بڑا سیاسی اقدام تھا ، اس لیے کہ میمونہ ؓ کی آٹھ بہنیںتھیں اور سب کی سب مکہ کے بڑے بڑے امرا کے گھروں میں تھیں ۔ محمدؐ میمونہ ؓ سے شادی کے بعد آٹھ بڑے افراد کے قرابت دار ہوگئے ۔
مکہ کے ورود کے دوسرے ہی دن محمد ؐنے دعوت کے انتظامات شروع کر دیے تھے ۔ اہل مکہ بدستور پہاڑوں پر بیٹھے تھے ۔ انہیں جرأت نہ تھی کہ پہاڑوں سے اتر کر شہر میں داخل ہوں ۔ لیکن مسلمانوں کے نظم و ضبط، بلالؓ کی اذان اور نماز مغرب میںصف بندی کے مناظر نے مشرکین مکہ کو بہت متاثر کیا ۔ یہ تاثر اس قدر گہرا تھا کہ خالد بن ولید مشرکین مکہ کا ایک سردار جو پہاڑ سے یہ منظر دیکھ رہا تھا بے ساختہ کہہ اٹھا : یہ مرد جو ایسا دین لایا ہے اور اس طرح کے پیرو کار رکھتا ہے جھوٹا اور فریبی نہیں ہے ۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں ، جو لوگ اس کے ارد گرد جمع ہیں اس پر واقعی ایمان رکھتے ہیں ۔ اگر یہ مرد جھوٹا ہوتا تو یہ لوگ اس پر اس خلوص سے ایمان نہ لاتے ۔
تیسرے روز علی الصبح محمدؐ نے قریش کو دعوت ولیمہ کا پیغام بھجوانے کا ارادہ کیا ، لیکن پیشتر اس کے کہ آپ ؐ کے پیغام بر قریش کودعوت دینے کے لیے جاتے ، قریش کے نمائندوں کی ایک جماعت شہر میں داخل ہوئی اور سیدھی محمدؐ کے پاس آئی ۔ اس نمائندہ جماعت کی قیادت ابن عبدالعزیٰ کے سپرد تھی۔ عزیٰ خانہ کعبہ کے تین بڑے بتوں میں سے ایک تھا ۔ مکہ کے بعض لوگ اپنے نام اس نسبت سے عبد اللات یا عبد المنات یا عبد العزیٰ ررکھا کرتے تھے ۔
یہ بھی واضح ہو کہ مسلمانوں کا خدا ( اللہ ) بھی خانہ کعبہ کے خدائوں میں شامل تھا یعنی بعض افراد اللہ کی بھی مثل لات، منات اور عزیٰ پر ستش کرتے تھے ، جیسے قبل از اسلام محمدؐ کے والد ماجد کا نام عبد اللہ تھا ۔ اللہ دور جاہلیت میں کعبہ کے خدائوں میں سے ایک خدا شمار ہوتا تھا ۔
ابن عبد العزیٰ کو جب یہ معلوم ہؤا کہ یہ سب انتظامات اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ محمد ؐ اپنی شادی پر قریش کو دعوت ولیمہ میں بلانا چاہتے ہیں تو محمد ؐ کو فوری مکہ چھوڑ جانے کو کہا ، اس لیے کہ مسلمان معاہدہ کے مطابق فقط تین روز مکہ میں قیام کر سکتے ہیں اور چونکہ یہ مدت گزر چکی ہے لہٰذا شہر سے خارج ہو جائیں ۔ نتیجتاً محمد ؐ اس روز قریش کو دعوت نہ دے سکے اور مجبوراً مسلمانوں کے ہمراہ فوری طور پر مکہ کو ترک کیا۔
لیکن جیسے ہی مسلمان مکہ سے نکلے اور مدینہ کی راہ لی ، خالد بن ولید کہ اب پیغمبرِ اسلام ؐ کے خویشوں میں سے تھے اور جو مسلمانوںکے نظم و ضبط اور خالص ایمان کی وجہ سے بہت متاثر تھے ، مکہ سے نکلے اور مسلمانوں کے پاس پہنچ کر مسلمان ہوگئے ۔ خالد ؓ بن ولید بعد میں اسلام کے بہت بڑے سرداروں میں سے ہوئے ۔ محمدؐ کی طرف سے انہیں سیف اللہ ( اللہ کی تلوار ) کا لقب ملا۔
علیؓ ابن ابی طالب کو سب سے پہلے اسد اللہ ( اللہ کا شیر) کا لقب عطا ہؤا تھا ۔ علی ؓ کے بعد فقط خالد بن ولید ؓ ہی ایک ایسے سردار گزرے جنہیںرسول اللہؐ نے سیف اللہ کا لقب دیا ۔ ان ہر دواشخاص کے بعد کوئی بھی سردار پیغمبرِ اسلام ؐ کے نزدیک اس مرتبہ کو نہ پہنچا۔
جس وقت خالد بن ؓولید اسلام قبول کرنے کی نیت سے مسلمانوں کے قافلہ کے پیچھے جا رہے تھے تو راستے میں انہیں عمرو بن العاص ملے جو مکہ سے آرہے تھے اور مسلمانوں سے ملحق ہونا چاہتے تھے ۔ وہ بھی خالد بن ولید کے ہمراہ ہو لیے اور مسلمان ہو گئے ۔
معاہدہ حدیبیہ کی رُو سے مسلمان مکلف تھے کہ جو شخص قریش کی رضا مندی کے بغیر مسلمانوں سے ملحق ہوگا ، مسلمان اسے واپس کردیں گے ۔ لیکن خالد ؓ بن ولید کے بارے میں قریش کوجرأت نہ ہوئی کہ ان کے بارے میں ایسا مطالبہ کریں ۔ ضمناً انہیں یہ علم تھا کہ مسلمان اب بہت قوی ہو چکے ہیں۔
مسلمانوں کے مدینہ واپس پہنچنے پر ایک واقعہ پیش آیا جس نے تمام مسلمانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کی ۔ وہ یہ کہ ابو سفیان مکی لشکر کا سردار محمدؐ سے ملاقات کے لیے بذاتِ خود مدینہ آیا ۔ ابو سفیان بغیر کسی لشکر کے مدینہ آیا تھا۔
لیکن مدینہ میںداخل ہونے پر اس نے کچھ خوف محسوس نہ کیا ، اس لیے کہ اب مسلمانوں اور مکہ والوں کے درمیان صلح کا معاہدہ موجود تھا ۔ ابو سفیان جانتا تھا کہ جب تک معاہدہ موجود ہے ، مسلمان اس سے کوئی تعرض نہیں کریں گے ، خصوصاً جب کہ وہ بغیر لشکر کے آیا ہے ۔ علاوہ ازیں اسے معلوم تھا کہ محمدؐ امین اور راست بازی میںمعروف ہیں۔
دوسرے یہ کہ جب ابوسفیان بغیر لشکر کے آیا تھا تو یہ ایک نوع کی پناہ طلبی تھی اور عرب پناہ گزین کے جان ومال کا احترام کیا کرتے تھے اور اپنی طاقت و ہمت کے مطابق اس کی پذیرائی کیا کرتے تھے۔
ابو سفیان کے اس طرح مدینہ آنے کی مندرجہ ذیل وجوہ تھیں :
صلح حدیبیہ کے مطابق اہل مکہ اور مسلمان مجاز تھے کہ جس کسی سے چاہیں متحد ہوں یا جنگ کریں ۔ ان دونوں حالتوں میں فریق ثانی غیر جانبدار رہے گا۔
قبیلہ خزاعہ پر جو مسلمانوں کا اتحادی تھا ، قبیلہ بنو بکر نے حملہ کر دیا اور یہ مشہور ہؤا کہ قریش نے قبیلہ بنو بکر کی اسلحے اور افراد سے مدد کی ہے اور یہ باور کرنے کے لیے وجوہ بھی موجود تھیں کہ اس حملہ میں مکہ والوں کا ہاتھ ہے ۔ قبیلہ بنو بکر خزاعہ پر جو حملہ کیا ، اس میں مکہ والوں کا ملوث ہونا صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی تھی لیکن اشرف مکہ نے اسے اس وقت تک کوئی اہمیت نہ دی جب تک کہ خیبر مسلمانوں کے ہاتھوںفتح نہ ہوگیا۔
جب خیبر کا سقوط ہؤا اور شمالی عربستان کے وسیع علاقوں پر مسلمانوں کا تسلط قائم ہو گیا تو اشراف مکہ کو معاہدہ کی خلاف ورزی کا احساس ہؤا اور وہ خوفزدہ ہوئے ۔ اسی خوف کا نتیجہ تھا کہ ابو سفیان مدینہ آیا کہ اس اختلاف کوکسی طرح دور کرے۔ مدینہ میںداخل ہونے کے بعد وہ سیدھا ام حبیبہؓ کے گھر گیا جو محمد ؐ کی بیوی اور خود اس کی اپنی بیٹی تھی ۔ جس وقت ابو سفیان ان کے کمرے میںداخل ہؤا ، اُم حبیبہؓ نے چٹائی جو کمرہ میں بچھی ہوئی تھی ، لپیٹ دی۔
ابوسفیان نے اپنی بیٹی کی اس حرکت پر تعجب اور حیرت کا اظہار کیا اور پوچھا: تم نے چٹائی کو کیوں لپیٹ دیا ؟ اُم حبیبہ ؓ نے باپ سے کہا : اس چٹائی پر محمدؐ بیٹھتے اور سوتے ہیں ۔ میں کیسے چٹائی پر ایک مشرک کو بیٹھنے دوں ؟
ابوسفیان نے کھڑے کھڑے ہی اپنی بیٹی سے درخواست کی کہ محمدؐ کے نزدیک وہ واسطہ بنے ، تاکہ یہ اختلاف جو دوقبیلوں خزاعہ اور بنوبکر کی وجہ سے پیدا ہؤا ہے ختم ہوجائے ۔
ام حبیبہؓ نے کہا : میں اس میں کوئی مدد نہیں کر سکتی ۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ آپ مسجد میں محمدؐ کے پاس چلے جائیں اوررسول اللہ ؐ سے مذاکرات کریں۔
ابو سفیان مسجد میں گیا ۔ محمد ؐ نے اس سے کہا : بیٹھو ۔ جب ابوسفیان بیٹھ گیا تو اس سے پوچھا: کسی کام سے آئے ہو؟ ابو سفیان نے کہا ! اے محمدؐ میں آیا ہوں کہ دونوں قبیلوں بنو بکر اورخزاعہ کی بابت تم سے بات کروں ۔ محمدؐ نے فرمایا : کیا کہنا چاہتے ہو ؟
ابو سفیان نے کہا : میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دونوں قبیلوں بنو بکر اور خزاعہ کی لڑائی میں مکہ والوں نے بنو بکر کی کوئی مدد نہیں کی ۔ ہاں اگر تم خیال کرتے ہو کہ مکہ والوں نے قبیلہ بنو بکر کی مدد کی ہے اور اس مدد کی وجہ سے قبیلہ خزاعہ کو نقصان پہنچا ہے تو مکہ والے ہر قسم کا تاوان ادا کرنے کو تیار ہیں۔
محمدؐ نے جواب میں فرمایا : اگر تم نے قبیلہ بنو بکر کی مدد نہیں کی ہے تو تمہیں متفکر نہیں ہونا چاہیے اور ہم تم سے کوئی تاوان نہیں لیں گے۔
ابو سفیان اس سے زیادہ محمدؐ سے کچھ نہ کہلوا سکا ۔ لہٰذا مضطرب ہی مدینہ سے واپس ہؤا اور مکہ کی راہ لی۔ابو سفیان کی یہ پیش کش ثابت کرتی تھی کہ قریش نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے۔
دونوں قبائل کے درمیان جنگ کے واقعات کی شرح بالا ختصار حسب ذیل ہے:
بنو خزاعہ مسلمان نہ تھے بلکہ اس قبیلہ کے چند افراد اسلام لائے ہوئے تھے ۔ یہ قبیلہ علاقہ و تیر میں رہتا تھا جو مکہ کے نزدیک اور مدینہ سے دور تھا ۔ قبیلہ مسلمانوں کا اتحادی تھا۔
قبیلہ بنو خزاعہ اور قبیلہ بنو بکر کے درمیان زمانہ جاہلیت سے ہی کینہ چلا آ رہا تھا ۔ نوفل بن معاویہ قبیلہ بنو بکر کے رئیس نے اپنے قبیلہ کو اُکسایااور وہ سب قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کے لیے تیار ہو گئے ۔ قبیلہ بنو خزاعہ مسلمانوں سے مدد مانگ سکتا تھا لیکن وتیر سے مدینہ بہت مسافت تھی۔ قبل اس کے کہ مسلمان مدد کو پہنچتے تمام قبیلہ قتل ہو چکا ہوتا ۔ لہٰذا وہ جان کے خوف سے مکہ گئے اور خانہ کعبہ میں پناہ لی ، اس امید پر کہ خانہ کعبہ حرم ہے اور حرم میںکوئی قتل و غارت نہیں کر سکتا ، پس ہم قبیلہ بنو بکر سے محفوظ رہیں گے ۔
جماعت ِ قریش نے نہ صرف قبیلہ بنو بکر کو اس غارتگری کے لیے اسلحہ دیا بلکہ افرا دی قوت بھی مہیا کی ۔ حتیٰ کہ قریش کے چند بزرگ مثلاً سہیل بن عمرو، صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابو جہل علی الاعلان تلواریں سونت کر بنو بکر کی مدد کو نکل پڑے ۔ قبیلہ بنو خزاعہ کے افراد حرم میں پناہ لینے کے بعد خود کو محفوظ سمجھ رہے تھے ۔ لیکن نوفل بن معاویہ نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو بھڑکایا اور کہا کہ حرم میں داخل ہو جائو اور اعلان کیا کہ حرم میںبنوخزاعہ کا خون مباح ہے ۔ لہٰذا تمام افراد کو قتل کر دیا جائے۔
قبیلہ بنو خزاعہ کے چند افراد نے نوفل بن معاویہ کو پکار کر کہا : یہ خانہ کعبہ ہے ۔ تم خدا وند کعبہ سے شرم کرو اور خانہ کعبہ میں قتل کے ارادہ سے مت داخل ہو ۔ لیکن نوفل نے کہا : آج نوفل خانہ کعبہ کے خدا کو نہیں پہچانتا۔
قبیلہ بنو بکر کے افراد بنو خزاعہ کے قتل کے لیے خانہ کعبہ میں ہجوم کر آئے ۔ قبیلہ بنو خزاعہ کے لوگ اس خوف سے کہ خانہ کعبہ میں خون گرے گا، خانہ کعبہ سے فرار ہو گئے ۔
البتہ فرار کے دوران ان کے چند افراد قتل ہوئے اور ان کے اموال پر بنو بکر نے قبضہ کرلیا۔ بدیل بن ورقا قبیلہ بنو خزاعہ کے اس واقعہ کے بعد مدینہ گیا اور تمام واقعہ جس طرح پیش آیا تھا پیغمبرِ اسلام ؐ کی خدمت میںعرض کیا ۔ محمد ؐ اس واقعہ سے بہت متاثر ہوئے ۔ اس لیے کہ ایک تو بنو بکر نے قریش کی مدد سے یہ حملہ کیا تھا ۔ دوسرے بنوبکر نے احترام کعبہ کو پامال کیا تھا اور مقدس حرم میںقبیلہ بنو بکر خزاعہ کے افراد پرحملہ آور ہوئے تھے۔
ابو سفیان جب اس موضوع پرمذاکرات کرنے مدینہ جارہاتھا، بدیل بن ورقا مدینہ سے واپس آ رہا تھا ۔ دونوں کی ملاقات عسفان کے مقام پر ہوئی ۔ ابو سفیان نے بدیل بن ورقا سے پوچھا : تو مدینہ کیسے گیا تھا ؟
بدیل بن ورقا نے کہا : میں ساحلی علاقہ میں گیا ہؤا تھا اور اب اپنے قبیلہ میں واپس جا رہا ہوں ۔ ابو سفیان نے اپنے دو آدمیوں کو مامور کیا کہ جب بدیل بن ورقا یہاں سے آگے چلے تو تم چوری چھپے اس کے اونٹوں کا تعاقب کرنا اور جب اس کے اونٹ لید کریں تو دیکھنا اس لید میں مدینہ کی کھجوروں کی گٹھلیاں موجود ہیںکہ نہیں؟ اس لیے کہ اگر بدیل بن ورقا مدینہ گیا ہوگا تو اس کے اونٹوں نے مدینہ کی کھجوریں کھائی ہوں گی۔
ابو سفیان کے آدمیوں نے بدیل کا تعاقب کیا ۔ لید میں سے مدینہ کی کھجوروں کی گٹھلیاں مل گئیں ۔ ابو سفیان کو یقین ہو گیا کہ قبیلہ بنو خزاعہ کے رئیس نے محمد ؐ سے مدینہ میںملاقات کی ہے اور یقینا تمام واقعہ بتا دیا ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ محمد ؐ سے ملاقات کے دوران ابو سفیان نے قبیلہ بنوخزاعہ کے تمام نقصانات کا ازالہ کرنے کی پیشکش کی۔
ابو سفیان جب مدینہ سے مکہ واپس پہنچا تو اس نے مکہ والوں کو بتا دیا: بعید نہیں کہ محمد ؐ مکہ پر حملہ آور ہوں۔
ابو سفیان کا گمان بالکل صحیح تھا۔ محمدؐ نے جلد ہی مکہ پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ کرلیا اور مسلمانوں کو ایک جنگی سفر کے لیے تیاری کا حکم دیا، لیکن یہ وضاحت نہ کی کہ یہ سفر کس سمت کہاں کے لیے ہوگا۔ حتیٰ کہ آپؐ کے پختہ کار اور انتہائی قریبی رفیقوں ابوبکرؓ اور عمرؓ بن الخطاب کو بھی علم نہیں تھا کہ آپؐ کا ارادہ کہاں کا ہے۔
لشکر کی تیاری کے احکامات سے قبل نبی کریمؐ نے مدینہ شہر کا رابطہ باہر سے قطع کرنے کا حکم دیا۔ کوئی شخص باہر سے مدینہ میں داخل ہونے کا مجاز نہیں، خصوصاً شہر سے باہر کوئی نہیں جا سکتا۔ محمدؐ جانتے تھے کہ افراد کی آمدورفت جاری رہی تو لشکر کی تیاری کی خبر پھیل کر قریش تک پہنچ جائے گی یا خود کوئی مکہ جا کر قریش کو خبردار کرسکتا ہے کہ مسلمان مدینہ میں جنگ کی تیاری کررہے ہیں، حالانکہ جنگ کی تیاری کے مقاصد سے کوئی آگاہ نہیں تھا۔ لیکن جماعت ِ قریش کو اس لشکر کشی کا ہدف جاننے کے لیے نبی ؐ کے مقاصد کی وضاحت کی ضرورت نہیں تھی۔
مدینہ کا رابطہ کلی طور پر باہر سے منقطع ہوگیا۔ دہ کوئی مسافر شہر میں داخل ہوسکتا تھا اور نا ہی کوئی شہر سے باہر جاسکتا تھا۔ کاروان جو مدینہ آتے شہر سے باہر ہی توقف کرتے۔ وہیں پر اپنی اشیاء فروخت کرتے۔ بعدازاں وہ اشیاء اندرونِ شہر منتقل کرلی جاتی۔
مدینہ میں ایک شخص حاطبؓ بن ابی بلتعہ تھا۔ آدمی عقلمند تھا، سمجھ گیا کہ محمدؐ کا ہدف یقینا مکہ ہے۔ چونکہ اس کے خانوادہ کے لوگ مکہ میں تھے اس لیے اس نے ایک خط اپنے خاندان والوں کے نام لکھا اور ایک عورت بنام سارہ کے سپرد کیا کہ مکہ پہنچنے پر وہ اس کے خاندان والوں کو دے دے۔ سارہ مدینہ کے ایک تاجر کی کنیز تھی۔ اس تاجر کا نام صیفی بن عمرو تھا۔ ایک تاجر کی حیثیت سے اسے شہر سے باہر آنے جانے کی اجازت تھی تاکہ اشیاء جو باہر سے آتی ہیں شہر کے اندر لے آئے۔ اسی لیے سارہ کے شہر سے باہر آنے پر کسی نے پرسش نہ کی۔ وہ مدینہ سے نکلی اور مکہ کی راہ لی۔
علیؓ ابن ابی طالب محمدؐ کے حکم کے مطابق مدینہ کے اطراف میں تمام راستوں کو کنٹرول کرنے پر مامور تھے۔ ان کو خبر ہوگئی کہ سارہ مکہ کے لیے روانہ ہوچکی ہے۔ اسی وقت اس کے تعاقب پر آدمی مامور کیے کہ اسے واپس مدینہ لائیں۔ ان آدمیوں کو متنبہ کیا کہ وہ عورت کوئی چیز ضائع نہ کرنے پائے۔ علیؓ کے آدمی اس عورت کو اور خط جو اس کی تحویل میں تھا، لے کر علیؓ کے پاس واپس آگئے۔ علیؓ نے خط پڑھا تو سمجھ گئے کہ خط حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے اپنے خاندان والوں کے نام، جومکہ میں ہیں، بھجوایا ہے۔
بعدازاں سارہ سے پوچھ گچھ کی تاکہ معلوم ہو وہ اس خط کے متن سے آگا ہے یا نہیں؟ لیکن سارہ خط کے متن سے آگاہ نہ تھی۔ پس علیؓ نے اس واقعہ کی اطلاع محمدؐ کی خدمت میں بھجوا دی۔
پیغمبرِ اسلامؐ نے حاطبؓ کو طلب کیا۔ اس کا خط اسے دکھایا اور پوچھا: آیا تم نے یہ خط صیفی بن عمرو کی کنیز کے ہاتھ مکہ بھجوایا تھا۔ حاطبؓ نے اعتراف کیا کہ خط اسی کا ہے۔
محمدؐ نے مزید پوچھا: آیا صیفی کو اس کی اطلاع ہے کہ تو نے یہ خط اس کی کنیز کے ہاتھ مکہ بھجوایا تھا۔
حاطبؓ نے عرض کی: نہیں یا رسول اللہؐ! صیفی بن عمرو کو اس کی اطلاع نہیں۔
محمد ؐ چونکہ جانتے تھے کہ حاطبؓ کا مقصد کوئی سازش نہیں تھا بلکہ اپنے خانوادہ کو مطلع کرنا تھا کہ وہ مکہ کو ترک کردیں تاکہ جنگ کے خطرات سے محفوظ رہیں لہٰذا اسے معاف کردیا۔
مدینہ میں ہدف کے متعلق دو خبریں مشہور تھیں:
اول یہ کہ محمدؐ موتہ کی شکست کی تلافی کے لیے روم پر حملہ کریں گے۔
دوم یہ کہ محمدؐ کا ہدف قبیلہ بنو سلیم ہے۔ وہ قبیلہ مسلمانوں کے لیے بہت مشکلات پیدا کررہا تھا۔ بہرحال کسی ایک کے ذہن میں بھی یہ نہیں تھا کہ آپؐ کا ہدف مکہ ہے۔
مسلمان جب مدینہ میں جنگ کی تیاری کررہے تھے، محمدؐ نے اپنے تمام اتحادی قبائل کو پیغام بھجوایا کہ جنگ کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ جس وقت مسلمانوں کا لشکر مدینہ سے نکلا تو اتحادی قبائل جن کو مطلع کیا گیا تھا۔ راستہ میں اس سے ملحق ہوتے گئے۔
مسلمان مؤرخوں نے محمدؐ کے ورودِ مکہ کی تاریخ ّ۱۰ رمضان۸ ہجری مرقوم کی ہے لیکن مدینہ سے روانگی کی تاریخ کا تعین نہیں کیا، تاہم یہ طے شدہ ہے کہ اسلامی لشکر کے مدینہ سے روانہ ہونے کے بعد ماہِ رمضان شروع ہؤا تھا۔ عین ممکن ہے لشکر ماہ رمضان کی یکم کو ہی مدینہ سے چلا ہو۔
ماہِ رمضان کے دوران تمام مسلمان روزہ سے ہوتے تھے اور فجر تا شام کوئی چیز نہ کھاتے اور نہ پیتے تھے حتیٰ کہ یہ لشکر قدید کے مقام پرپہنچا۔ اس مقام پر پیغمبرِ اسلام ؐ نے مسلمانوں سے فرمایا: اگلے دن روزہ نہ رکھیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مسافرت میں روزہ قضا کرلیا کرو۔
اس دن کے بعد مسلمانوں نے روزہ نہیں رکھا حتیٰ کہ وہ مرالظہران پہنچ گئے۔ یہ مقام مکہ سے ایک منزل پر ہے۔ رات کو محمدؐ نے فرمایا: تمام مسلمان سپاہ آگ جلائے تاکہ مکہ والوں کو معلوم ہو کہ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا لشکر آپہنچا ہے۔ عباس جوکہ پیغمبر اسلامؐ کے چچا اور تاجر تھے، انہوں نے سوچا اس لشکر کا مقابلہ اہل مکہ کے بس کی بات نہیں، لہٰذا مکہ کو ترک کرنے کا ارادہ کیا اور اپنی تمام جائیداد کو پیش بندی کے طور پر فروخت کردیا۔عباس جائیداد فروخت کرنے کے بعد محمدؐ کے پاس مرالظہران پہنچے اور مسلمان ہوگئے۔
ابو سفیان نے بھی پیغمبر اسلامؐ کے چچا عباس کی طرح صورتِ حال کا جائزہ لیا اور خود سکت نہ پاتے ہوئے مر الظہران کی راہ لی۔ عباس، پیغمبر اسلامؐ کے چچا کہتے ہیں: اس رات میں اسلامی لشکر گاہ کی حدود کے باہر سے گزر رہا تھا کہ میں نے دو افراد کو آپس میں باتیں کرتے سنا۔
ایک کہہ رہا تھا: یہ آگ جو تم دیکھ رہے ہو قبیلہ بنو خزاعہ نے جلائی ہے؟
دوسرا کہہ رہا تھا: قبیلہ بنو خزاعہ اس قدر بڑا نہیں کہ اس قدر آگ جلاسکے۔
میں نے دوسرے آدمی کی آواز پہچان لی، وہ ابو سفیان تھا۔
میں نے آواز دی: یا ابا حنظلہ! (ابو حنظلہ ابو سفیان کی کنیت تھی) کیا تم ہو؟
ابو سفیان نے میری آواز پہچان لی اور کہا: یا ابا الفضل! یہ تم ہی ہو؟ (ابو الفضل عباسؓ کی کنیت تھی)۔ میں نے کہا میں ہی ہو ں اور پھر اس کی طرف بڑھا۔ ابو سفیان نے مجھ سے پوچھا: یا ابا الفضل! کیا خبر ہے؟
میں نے کہا: محمدؐ دس ہزار سپاہ کے ساتھ آگیا ہے کہ مکہ پر قبضہ کرے، اس لیے کہ قریش نے صلح حدیبیہ کو پامال کیا ہے۔ قبیلہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا اتحادی تھا، قریش اس پر حملہ آور ہوئے اور کچھ افراد کو قتل کیا۔ ان کے اموال کو تاراج کیا۔ جب مسلمان مکہ پر حملہ کرکے اسے تسخیر کریں گے تو سب سے پہلے تمہیں قتل کریں گے اس لیے کہ تم مکہ کی فوج کے سپہ سالار تھے اور اب بھی ہو اور تم ہی صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہو۔
ابوسفیان نے پوچھا: پھر میں کیا کروں؟
میں نے اس سے کہا: اگر زندہ رہنا چاہتے ہو اور اپنے اموال کو لٹنے سے بچانا چاہتے ہو تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ محمدؐ کے پاس جا کر مسلمان ہو جائو۔ فقط یہی ایک راستہ ہے جس سے تم اور تمہاری جائیداد بچ سکتی ہے۔
میں نے مزید کہا: اگر تم چاہو تو میں تمہیں محمدؐ کی خدمت میں لے جائوں گا۔ تم یہیں ٹھہرو، میں جا کر آپؐ کا ذاتی اونٹ لے آئوں اور تمہیں اس پر بٹھا کر لشکر اسلام کے درمیان میں سے گزار لے جائوں (بعض مؤرخین نے اونٹ کی بجائے خچر لکھا ہے)۔
ابو سفیان نے کہا: مجھے محمدؐ کے اونٹ پر کس لیے سوار کرنا چاہتے ہو؟
میں نے کہا: اس لیے کہ تمام مسلمان تمہیں پہچانتے ہیں اور تمہارے دشمن ہیں۔ جب اور جہاں بھی تمہیں دیکھیں گے قتل کردیں گے، لیکن جب تمہارے نیچے محمدؐ کی ذاتی سواری ہوگی توتم سے پرسش نہیں کریں گے اور کوئی تمہیں قتل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔ یوں اس پروگرام پر عمل کرکے ابو سفیان، پیغمبرؐ کی اونٹنی پر سوار ہوکر لشکرگاہ سے گزرا اور محمدؐ کی خدمت میں پہنچا۔
عباسؓ پیغمبر ِ اسلامؐ کے چچا کہتے ہیں: جیسے ہی محمدؐ کے خیمے میں داخل ہوئے، فوری بعد عمرؓ بن الخطاب بھی واردِ خیمہ ہوئے اور پیغمبر ؐ سے عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ اجازت دیں کہ محمد ابو سفیان کی گردن ماردوں۔
میں نے عمرؓ بن الخطاب سے مخاطب ہوکر کہا: یہ شخص ابوسفیان، عبد مناف کی اولاد سے ہے، اسی لیے تم اس کی گردن مارنا چاہتے ہو۔ اگر یہی آدمی بن عدی سے ہوتا تو کیا پھر بھی تم ایسا کرتے؟
عمرؓ نے کہا: اگر میرے قبیلے کے آدمی بھی رسول اللہؐ سے دشمنی رکھیں گے تو میں ان کی گردن مارنے سے بھی دریغ نہ کروں گا۔ میں تو اس کا دوست ہوں جو رسول اللہؐ کا دوست ہے اور اس کا دشمن ہوں جو پیغمبر اسلامؐ سے دشمنی رکھتا ہے۔
عباسؓ آگے کہتے ہیں کہ محمدؐ نے مجھ سے فرمایا: اسے رات اپنے خیمے میں رکھو اور صبح میرے پاس لائو۔
میں نے اطاعت کی۔ ابو سفیان نے رات میرے خیمے میں گزاری۔ دوسرے دن صبح میں ابو سفیان کے ہمراہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
محمدؐ نے ابو سفیان سے کہا: یا ابا حنظلہ! تو عہد شکن آدمی ہے اور شریعت کے مطابق تمہیں قتل کیا جانا چاہیے۔ گر تم نے دین اسلام کو قبول نہ کیا تو قتل کر دیے جائو گے۔
ابو سفیانؓ نے دینِ اسلام کو قبول کرلیا۔ اس وقت محمدؐ نے چند اور مسلمان افراد کی موجودگی میں مکہ کو تسخیر کرنے کے متعلق ابو سفیان سے مشورہ کیا، اس لیے کہ وہ اہل مکہ میں رسوخ و احترام کا حامل تھا۔ دو احکامات محمدؐ کی طرف سے صادر ہوئے۔
اول: لشکر اسلام مسلح ہوکر ابو سفیانؓ کے سامنے سے گزرے گا۔
دوم: مکہ میں جو کوئی بھی ابو سفیان کے گھر پناہ لے گا امان میں ہوگا۔
پیغمبر اسلامؐ نے اس روز خود ابو سفیانؓ کو مامور فرمایا کہ (لشکر کی سلامی کے بعد) وہ مکہ جا کر حسب ذیل اعلان کروا دے:
اہل مکہ نے چونکہ معاہدہ حدیبیہ کو توڑا ہے، وہ شریعت کے مطابق مستوجب قتل ہیں اور ان کا مال مسلمانوں پر حلال ہے لیکن ہر و شخص جو خانہ کعبہ میں پناہ لے گا، قتل نہیں کیا جائے گا اور کوئی اس کی جائیداد پر تصرف نہیں کرے گا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا، اس کی جان و مال کو امان ہوگی۔ اور اسی طرح ہر وہ شخص جو اپنے گھر سے باہر نہیں نکلے گا اسلام کی پناہ میں ہوگا، اس سے کوئی تعرض نہیں کرے گا۔
ابو سفیانؓ سوار ہوکر مکہ چلے گئے۔اس کے مکہ چلے جانے کے بعد اسلامی لشکر نے آگے بڑھے کر مکہ کے اطراف پر بغیر خون ریزی کے قبضہ کرلیا۔
ابو سفیانؓ نے مکہ پہنچنے کے بعد خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوکر اعلان کیا: لشکر اسلام مکہ میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے اور ہم میں اتنی سکت نہیں کہ س کی راہ روک سکیں۔ محمدؐ نے فرمایا ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ یا میرے (ابوسفیانؓ) گھر میں پناہ لے گا، اس سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا اور جو اشخاص ان دونوں جگہوں پر پناہ نہیں لے سکتے وہ اپنے اپنے گھروں میں بند رہیں، باہر نہ نکلیں اور مطمئن رہیں کہ ان کی جان و مال امان میں ہوگی۔
ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ اسلامی لشکر کے منادی کرنے والے پہنچ گئے اور ابوسفیانؓ کے اعلان کی تکرار کی۔ لوگ جو گلی کوچوں میں تھے جلدی جلدی خانہ کعبہ یا ابوسفیانؓ کے گھر پناہ لینے دوڑے اور جو اپنے گھر کو پہنچ سکے انہوں نے گھروں میں داخل ہوکر کواڑ بند کرلیے۔ جلد ہی مکہ کے گلی کوچے خالی ہوگئے۔
اسلامی لشکر کا پہلا دستہ جومکہ میں داخل ہؤا، علیؓ ابن ابی طالب کی کمان میں تھا۔ علیؓ پیغمبر اسلامؐ کے پرچم کو اٹھائے ہوئے تھے۔ علیؓ مکہ میں داخل ہونے کے بعد اپنے دستہ کے ساتھ خانہ کعبہ کی طرف بڑھ گئے۔
مکہ کا سب سے بڑا دروازہ وہی تھا جس سے علیؓ مکہ میں داخل ہوئے۔دوسرا دستہ زبیؓ بن عوام کی قیادت میں مغرب کی طرف سے مکہ میں وارد ہؤا۔سعدؓ بن عبادہ انصاری کی قیادت میں اسلامی لشکر کا تیسرا دستہ مشرق سے مکہ میں داخل ہؤا۔لشکر اسلام کا چوتھا دستہ خالدؓ بن ولید کی کمان میں تھا اور خالدؓ کو جنوب کی طرف سے مکہ میںداخل ہونا تھا۔
محمدؐ نے ان چاروں سرداروں سے فرمایا: جب تم مکہ میں داخل ہوگے تو اپنی تلواروں کو نیاموں سے باہر مت نکالنا۔ کسی سے جنگ نہ کرنا، الایہ کہ تم پر کوئی حملہ آور ہو اور یہ مت بھولنا کہ لوگ جو خانہ کعبہ، ابوسفیانؓ کے گھر یا اپنے گھروں میں ہوں وہ امان میں ہیں۔
لیکن سعدؓ بن عبادہ انصاری جونہی مکہ میں داخل ہوئے تو پکارے: ’’الیوم یوم الملحمہ الیوم تستحل الحرمہ‘‘ یعنی ’’آج کا دن جنگ کا دن ہے اور آج کے دن کے لیے حرمت اٹھ گئی ہے۔‘‘ یہ خبر محمدؐ کو ملی۔ بلاتاخیر سعدؓ بن عبادہ انصاری کو شہر میں مشرقی سمت سے داخل ہونے والے دستہ کی سربراہی سے معزول کردیا اور اس دستے کو بھی علیؓ بن ابی طالب کی کمان میں دے دیا، تاکہ سعدؓ بن عبادہ انصاری اپنے جنگی عزائم کو پورا نہ کرسکے۔
کسی بھی دستہ کو مزاحمت کا سامنا نہ ہؤا۔ البتہ خالدؓ کے دستہ پر جو جنوبی سمت سے مکہ میں داخل ہؤا، جنوبی محلہ کے کچھ افراد، قریش اور ان کے اتحادی قبیلہ احابیش کے کچھ افراد نے مل کر حملہ کردیا۔ خالدؓ سیف اللہ نے اونچی آواز میں پکارا: اپنا خون فضول مت بہائو، اس لیے کہ تمہارا حملہ مکہ کے سقوط کو نہیں روک سکتا۔ رسول اللہؐ نے آج مکہ کو تسخیر کرنے کا ارادہ کیا ہے اس لیے آج مکہ حتمی طور پر مسخر ہوگا۔
لیکن خالدؓ کی پکار کا ان افراد نے کوئی اثر نہ لیا اور حملہ کردیا۔ تھوڑی ہی دیر میں پندرہ افراد قتل ہوگئے جن میں دو مسلمان اور تیرہ مشرکین میں سے تھے۔ وہ جو باقی بچے انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں سے جدال ممکن نہیں، لہٰذا بھاگ گئے۔
اسلامی لشکر کے چاروں کالم مکہ میں چاروں اطراف سے داخل ہوکر خانہ کعبہ کے سامنے باہم مل گئے۔ جب لشکر اسلام کے چاروں کالم خانہ کعبہ کے سامنے جمع ہوگئے تو محمدؐ جو سفید اونٹنی پر سوار تھے وہاں پہنچے اور کعبہ کا سات بار طواف کیا۔ طواف کے بعد آپؐ خانہ کعبہ کے دروازہ کی طرف گئے اور خانہ کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ سے فرمایا: خانہ کعبہ کا دروازہ کھولو۔
عثمان بن طلحہ کی والدہ نے کہا: ہم تمہارے لیے کعبہ کا دروازہ نہیں کھولیں گے۔ لیکن عثمان بن طلحہ نے والدہ کو سمجھایا اور کعبہ کا دروازہ کھول دیا۔ اس دن پانچ تن مسلمان خانۂ خدا میں داخل ہوئے۔
(۱) محمدؐ بن عبداللہ پیغمبر اسلامؐ
(۲) علیؓ بن ابی طالب پیغمبر اسلامؐ کے داماد
(۳) عثمانؓ ایک معروف مسلمان
(۴) بلالؓ مؤذن
(۵) عثمانؓ بن طلحہ کلید بردار کعبہ
جس وقت محمدؐ ان چار افراد کے ہمراہ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو جن لوگوں نے وہاں پناہ لی ہوئی تھی وہ بہت خوفزدہ ہوئے اور خیال کیا کہ محمدؐ ان کو قتل کرنے، ان کے اموال پر قبضہ کرنے اور ان کے بیوی بچوں کو قیدی بنانے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ اہل مکہ اس وقت تک کافر تھے اور مسلمانوں سے معاہدہ حدیبیہ کرنے کے بعد انہوں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی تھی۔ نتیجتاً کافر حربی قرار پائے یعنی وہ کافر جنہوں نے مسلمانوں سے جنگ کی۔
محمدؐ نے مکہ کو جنگ کرکے فتح کیا، اس لیے کہ تسخیر مکہ کے لیے لشکر سے چڑھائی کی اور پھر مکہ میں کچھ لوگوں نے خالدؓ بن ولید کے دستہ کی مزاحمت بھی کی تھی اور مسلمانوں کے دو افراد بھی شہید ہوگئے تھے۔ لہٰذا قانون کے مطابق محمدؐ کو حق پہنچتا تھا کہ تمام اہل مکہ کو قتل کردیں یا غلام بنا لیں اور عورتوں کو کنیزیں بنالیں۔ لیکن پیغمبر اسلامؐ نے سب کو معافی دے دی۔ خانہ کعبہ کی زیارت کے بعد پیغمبرِ اسلامؐ خانہ کعبہ سے باہر آئے اور اہل مکہ سے، جو حرم کعبہ میں موجود تھے، خطاب فرمایا:
تم جنگی قوانین سے پوری طرح آگاہ ہو اور تمہیں یہ بھی علم ہے کہ تم نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ اب جب کہ تم مغلوب ہوچکے ہو، مسلمانوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ تمہیں قتل کردیں یا غلام بنالیں اور تمہاری عورتوں کو بھی کنیزیں بنالیں۔ لیکن میں جس طرح یوسفؐ نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے بھائیوںسے کہا تھا، آج میں بھی تم سے کہتا ہوں کہ خداوند تمہیں معاف فرمائے۔ تم آزاد ہو اور کوئی تمہاری جان سے تعرض نہیں کرے گا، نہ کوئی تمہاری عورتوں کو کنیزیں بنائے گا۔
اسی بنا پر اہل مکہ کو عربی میں طلقاء کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں یعنی آزاد کیے گئے غلام۔ قانون کے مطابق اہل مکہ مسلمانوں کے بردے تھے اور محمدؐ نے انہیں غلامی سے آزاد کیا، لہٰذا وہ طلقاء شمار ہوئے۔
اعلان کے بعد محمدؐ نے اہل مکہ کے سامنے سورہ الحجرات کی آیت ۱۳ تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا:
خداوند نے تمام افراد بشر کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ افراد کے درمیان کسی قسم کی برتری وجود نہیں رکھتی۔ مگر یہ کوئی پرہیزگار (متقی) ہو۔ تمام افراد بشر خداوند کے نزدیک برابر ہیں، لہٰذا زمانۂ جاہلیت کا افتخار حسب و نسب، اور امتیازِ قبائل سب ختم کیے جاتے ہیں۔ حسب و نسب کی برتری کوئی برتری نہیں۔ ایک منصب ہے وہ سقایہ کا منصب ہے۔ میرے چچا عباس نے آج تک یہ منصب بڑی خوبی سے نبھایا اور یہ امر بھی تحقیق شدہ ہے کہ انہوں نے پانی کی تقسیم میں بھی کبھی کسی خصوصی نظریہ کو جگہ نہیں دی اور ہمیشہ لوگوں میں پانی منصفانہ طور پر تقسیم کیا ہے۔
بعدازاں جب اہل مکہ نے اسلام قبول کرلیا۔ عثمانؓ بن طلحہ خانہ کعبہ کی کلید برداری کے منصب پر ہی رہے۔ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اس منصب پر فائز ہوئے۔ آج بھی خانہ کعبہ کا کلید بردار عثمانؓ بن طلحہ کی اولاد میں سے ہے۔
محمدؐ جب اس اعلان سے فارغ ہوئے تو خانہ کعبہ کے ایک بت کو اپنے ہاتھوں سے زمین پر گرا کر توڑا اور پھر علیبؓ بن ابی طالب سے فرمایا: تمام بتوں کو توڑ دو اور ہر نوع کی صورت جو خانہ کعبہ میں موجود ہے، تباہ و معدوم کردو۔
روایت کے مطابق ہر نوع کی تصویروں اور بتوں کو تباہ و معدوم کردیا گیا۔
جس وقت مسلمان پتھر کے بتوں کو گرا کر توڑتے اور لکڑی کے بتوں کو کلہاڑوں سے پھاڑتے تھے، مکہ کے وہاں موجود بت پرستوں نے اپنے چہروں کو چادروں سے ڈھانپ لیا، اس لیے کہ ان میں تاب نظارہ نہ تھی۔ بعض مشرکین سوچ رہے تھے یہ جہان اب ویران ہو جائے گا۔ لیکن کچھ بھی نہ ہؤا۔ تمام بتوں کو یکے بعد دیگرے توڑ دیا گیا اور کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔
تمام بتوں کو توڑنے کے بعد محمدؐ نے عام معافی کا اعلان فرمایا۔
اہلِ مکہ جو خانہ کعبہ میں موجود تھے ان سے کہا گیا کہ وہ آزاد ہیں۔ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں کسی کو ان سے کوئی سروکار نہیں۔ ابوسفیان کے گھر میں جمع افراد کو بھی اجازت دے دی گئی کہ وہ آزاد ہیں۔ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں اور اپنی روزمرہ کی مشغولیت شروع کرسکتے ہیں۔
سب لوگ چلے گئے مگر آپؐ حرمِ کعبہ میں ہی رکے رہے کیوں کہ آپؐ کا کوئی مکان نہیں تھا جہاں جا کر سکونت پذیر ہوتے۔ گزشتہ دنوں محمدؐ کے پاس خدیجہؓ والا بہت خوبصورت دو منزلہ مکان تھا۔ یہ مکان مکہ کے خوبصورت مکانوں میں سے ایک تھا۔
خدیجہؓ کی وفات کے بعد وہ مکان علیؓ کے بھائی عقیلؓ کو ملا اور انہوں نے کسی اور کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ چند مسلمانوں نے محمد ؐ سے عرض کی: آپ ؐ نے مکہ فتح کیا ہے۔ لہٰذا آپؐ کو حق حاصل ہے جس مکان کو چاہیں اپنے تصرف میں لے آئیں۔
لیکن محمدؐ نے فرمایا کہ اہل مکہ کی جان و مال امان میں ہیں اور میں کسی مکان کو اپنے تصرف میں نہیں لے سکتا۔ چونکہ آپؐ رات خانہ کعبہ میں نہیں رہ سکتے تھے اس لیے خانہ کعبہ سے نکل کر خیف کے مقام پر خیمہ زن ہوگئے۔
تسخیر مکہ سے پہلے وہاں کا حاکم عتاب بن اسید تھا۔
۱۵ رمضان بوقت ظہر بلالؓ اذان دینے کے لیے باہر نکل اور کسی اونچی جگہ کی تلاش میں خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ گئے تاکہ اذان کی آواز دور دور تک سنی جاسکے۔
جب اذان کی آواز خانہ کعبہ کی چھت سے بلند ہوئی تو حاکم مکہ عتاب بن اسید فوری طور پر خانہ کعبہ پہنچایا اور بلالؓ سے کہا: اس جگہ سے نیچے اترو۔‘‘
لیکن بلالؓ نے در خورِ اعتنا نہ سمجھا اور اذان جاری رکھی۔ عتاب بن اسید نازیبا کلمات بکتا رہا۔ بلالؓ نے اذان ختم کرنے کے بعد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عتاب بن اسید کی شکایت کی۔
عتاب بن اسید ایک مشرک تھا۔ اس کا ایک مسلمان کے ساتھ بد کلامی کرنا جب کہ وہ اذان دے رہا تھا۔ ایک بہت بڑا جرم تھا۔ لیکن محمدؐ نے اسے کچھ نہ کہا اور نہ کوئی سزا دی۔ عتابؓ بن اسید چند روز بعد خود ہی محمدؐ کی خدمت میں حاضرہوکر مسلمان ہوگیا۔ پیغمبر اسلامؐ نے اس کا منصب بحال رکھا اور مسلمانوں کی طرف سے مکہ کا حاکم مقرر ہؤا۔
فتح مکہ کے بعد محمد ؐ نے اپنے بدترین دشمنوں کو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف فرمایا دیا۔ ان بڑے دشمنوں میں ایک عکرمہ بن ابو جہل تھا جو جان کے خوف سے مکہ چھوڑ کر مفرور ہوگیا تھا۔ عکرمہ کی بیوی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہر کے لیے امان مانگی۔ محمدؐ نے عکرمہ کو امان بخشی اور وہ واپس اپنے گھر آگیا۔
دوسری ہند زوجہ ابوسفیانؓ تھی۔ روایت ہے کہ اس عورت نے حمزہؓ کا جگر چبایا تھا۔ اسی مناسبت سے اسے ہند جگر خور کہا جاتا تھا۔ آپؐ نے اس سنگ دل عورت کو بھی معافی دے دی اور تاحیات اسے کسی مسلمان نے آزار نہیں پہنچایا۔
تیسرا صفوان بن امیہ تھا جو ایک وقت میں پیغمبرؐ کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اس قتل کے لیے قاتل معاوضہ پر حاصل کیا تھا۔ اسے بھی معافی دے دی گئی۔ مگر اس نے پیغمبر اسلامؐ سے کہا: میں اسلام قبول نہیں کروں گا۔ معافی کے پانچ دن بعد صفوان بن امیہ نے اسلامی لشکر کو ایک سو زرہیں اور پانچ ہزار درہم نقد پیش کیے اور پھر چند ماہ بعد جنگ حنین کے بعد وہ بھی مسلمان ہوگیا۔
جب مکہ فتح ہؤا، چار لاکھ بیس ہزار مثقال سونا خانہ کعبہ کے خزانہ میںموجود تھا۔ محمد ؐ نے حکم دیا کہ یہ تمام سونا حسب سابق خانہ کعبہ کے تصرف میں رہے گا اور کوئی شخص اس کو ہاتھ نہ لگائے۔
فتح مکہ کے پہلے دس دنوں میں دو ہزار افراد نے اسلام قبول کیا۔ اس کے لیے طریقہ یہ اپنایا گیا کہ کفار یکے بعد دیگرے عمرؓ بن الخطاب کے سامنے سے گزرتے۔ شہادتین کو زبان پر لاتے اور عمرؓ انہیں نصیحت فرماتے: زنا سے پرہیز کرو اور نیک بننے کی کوشش کرو۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ محمدؐ جب مدینہ سے فتح مکہ کے لیے عازم سفر ہوئے تو وہ جانتے تھے کہ حتمی طور پر مکہ فتح کرلیا جائے گا۔ اس پر دلیل سورۃ النصر کا مدینہ میں نزول ہے کہ آج وہ قرآن کی ایک سو دسویں سورۃ قرآن ہے۔
خدا نے اپنے پیغمبرؐ کو بشارت دی کہ تم مکہ کو فتح کرو گے۔ اور تیسری آیت میں فرمایا: اور تم دیکھو گے کہ لوگ دستہ دستہ، فوج در فوج دینِ خدا میں شامل ہوں گے۔
منظور اس سے یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد لوگ اجتماعی صورت میں دین اسلام میں شامل ہوں گے اور ایسے ہی ہؤا۔ چوتھی آیت میں فرمایا: ’’اس بڑی فتح کی مناسبت سے خداوند کے حضور حمد و ثناء کرو اور استغفار کرو۔ بے شک خداوند توبہ و استغفار کرنے والوں کی پذیرائی کرتا ہے۔‘‘
مکہ کے امیر لوگ فتح مکہ کے دن تک شراب پیتے تھے، سؤر کا گوشت کھاتے تھے، مسلمان ہونے کے بعد ان پر یہ دونوں چیزیں حرام ہوگئیں۔
پیغمبر اسلامؐ نے پندرہ روز مکہ میں قیام فرمایا۔ اور ان دوہفتوں میں تقریباً پورا مکہ مسلمان ہوگیا۔ مدینہ کے لوگ پیغمبرؐ کے قیام مکہ کی طوالت سے پریشان ہوئے اور سوچنے لگے کہ چونکہ آپؐ کی جائے پیدائش مکہ ہے، آپؐ اس شہر سے اب مدینہ واپس نہیں جائیں گے۔ لیکن رسول اللہؐ نے انہیں یقین دلایا کہ جب تک میں زندہ ہوں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ میں اسی جگہ مروں گا جہاں تم مرو گے۔ پندرہ روزہ قیام کے بعد پیغمبر اسلام ؐ حنین روانہ ہوئے تو اہل مدینہ کے دل کا خوف دور ہؤا اور وہ مطمئن ہوگئے۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x