ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سرپرائز – بتول جولائی۲۰۲۲

زندگی میں ہر انسان کو اکثر ایسے حالات سے واسطہ پڑتا ہے جو اس کے لیے غیر متوقع ہوتے ہیں۔ جس کی امید نہیں ہوتی، انسان کی منصوبہ بندی میں شامل نہیں ہوتے، اور کسی بھی عمل کا غیر متوقع اچھا یا برا انجام حیران کن ہو جاتا ہے۔ کسی بھی فیصلہ کن امر میں غیر متوقع معاملہ کا سامنا انسان کو تعجب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ انسان کی محنت کے مقابلے میں کامیابی کا تناسب کم یا زیادہ ہو جاتا ہے، سفر کے منصوبہ میں خلل پڑجاتا ہے۔ طے شدہ ملاقاتیں یا پروگرام کسی بھی وجہ سے ملتوی ہو جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
انسانی زندگی میں ایک اور لفظ’’اچانک‘‘ کا بھی بہت عمل دخل ہے۔
یعنی یکایک، ناگہانی، اتفاقی یا بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کچھ رونما ہو جانا۔ عربی میں ’’مفاجات‘‘ انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘
دراصل یہ انسانی زندگی میں وہ لازمی مرحلہ ہے جو انسان کو اس کی اوقات یاد دلاتا رہتا ہے۔ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اس کے منصوبوں میں کسی ایسی مقتدر ہستی کا عمل دخل ہے جو عین آخری لمحے میں ساری کارگزاری اور منصوبے کے انجام کو بدل سکتی ہے۔
اگر ہر انسان اپنی زندگی کے صرف اسی معاملے پہ غور و فکر کرے تو اپنے رب تک پہنچ سکتا ہے۔ اور رب کو ایک ماننے والے آسانی سے اس کے قرب کو محسوس کر سکتے ہیں۔
پروگرام یا منصوبے کو یا اس کے نتیجے کو تبدیل کرنے کے در پردہ کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں یہ فوری طور پہ نہ جاننے کے باوجود مومن اپنے رب کی رحمت پہ پورا بھروسہ رکھتا ہے اور وہ اپنے خالق و مالک کے فیصلے پہ اپنی ایمانی کیفیت کے مطابق راضی اور مطمئن رہتا ہے اور مایوسی یا ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتا اور اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بے عمل مسلم معاشرے میں بھی مایوس ہو کر خود کشی کے واقعات کم پائے جاتے ہیں۔
اگرچہ کافر و مشرک بھی رب کے فیصلوں کو بدل دینے پہ قادر نہیں ہوسکتا لیکن وہ ایمان کی دولت سے محروم ہونے کی وجہ سے مایوسی اور ذہنی و نفسیاتی طور پر بیمار ہوجاتا ہے۔
اگر ہم اپنی گزری زندگی کا جائزہ لیں تو بہت سے واقعات مل جائیں گے جو ہماری ایمانی کیفیت کا امتحان بن گئے تھے۔
سب کا تجربہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں پوری تیاری کے باوجود کسی مضمون میں کم نمبر آنے یا ناکامی کی غیر متوقع وجوہات جو ہمارے گمان میں بھی نہیں ہو سکتی تھیں ان کا سامنا کرنا پڑ جاتا تھا۔ کبھی سفر کی مکمل تیاری کے باوجود سواری اپنی آنکھوں کے سامنے نکل جاتی تھی، یا کسی اَن جانی وجہ سے ناگہانی طور پر سفر ملتوی ہو جاتا تھا۔ کبھی تو اتنے غیر متوقع معاملات بھی پیش آئے ہوں گے یا معلوم ہوئے ہوں گے کہ ہمیں سوائے حیرت کے کچھ ہاتھ نہیں آیا ہوگا۔ مثلاً بارات کوئی لے کر آتا ہے اور دلہن کسی اور کے نصیب میں لکھی گئی ہوتی ہے۔
غرض یہ کہ انسان کی زندگی میں کوئی ’’ان ہونی‘‘ جب مقدر میں لکھی گئی ہو تو اسے ہو کر رہنا ہوتا ہے۔
مومن کا تقدیر پہ ایمان اس کو ان غیر متوقع حالات میں بہت سی کلفتوں سے بچا لیتا ہے۔ اور مومن کو اللہ کی ذات پہ بھروسہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ بِلا مقصد نہیں ہوتا۔
ایک ہی واقعہ میں ہر متاثر انسان کا الگ امتحان ہوتا ہے کسی کا حاصل کر کے اور کسی کا محروم ہو کر۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے احباب کی طرف سے ملنے والے اس ہدیے کی بہت خوشی ہوتی ہے جو غیر متوقع یا امید کے برعکس زیادہ اچھا یا ہماری ضرورت کے عین مطابق مل جائے۔
’’اللہ عز و جل کے ہاں تمہارے تمام نیک اعمال سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو تم کسی دوسرے مسلمان کو عطا کرو‘‘۔ (الجامع الصغير ١٧٦)
(عطا کا مطلب کسی چیز کا دوسرے کو اس حال میں دینا ہے کہ وہ اس کی توقع نہ رکھتا ہو یا وہ اس کا حق دار نہ ہو۔)
اس حدیث مبارکہ میں لفظ ’’خوشی‘‘ سے مراد وہ فرح و شادمانی ہے جو حزن و ملال اور غم کے برعکس ہوتی ہے۔ اور اگر یہ خوشی اچانک، غیر متوقع (surprise) ہو تو دل میں سرور کمال تک پہنچتا ہے۔ اور کمال تک پہنچنے والی ہر خوشی کا تعلق اس فانی دنیا سے نہیں بلکہ ابدی و دائمی اخروی دنیا سے ہے۔
مرنے کے بعد ایک ایسی دنیا انسان کے سامنے آئے گی جس میں کامیابی اور خوشی کا تعلق اس دنیا کے اعمال کے نتائج سے جڑا ہے۔ مگر اس وقت دنیا کے دکھ، تکالیف اور پریشانیوں کا نتیجہ غیر متوقع سکھ، راحت اور سرور کی صورت میں مومن کے لیے surprise ہوگا۔
کیا کبھی ہم نے تصور کی آنکھ سے یہ منظر دیکھا؟
جب دنیا میں کی گئی ذرہ برابر نیکی پہاڑوں جیسی بنا کر میزان میں رکھی جا رہی ہوںگی تو دلی خوشی کی کیا کیفیت ہوگی؟
جب کسی چیز پہ اپنا حق ہونے کے باوجود جھگڑے اور فساد سے بچنے کے لیے اس سے دستبردار ہونے کی نیکی قبول ہو کر سامنے آئے گی اور جنت کے وسط میں بلندی پہ (تاکہ اسے سب دیکھیں) خوبصورت ترین گھر الاٹ ہو رہا ہوگا تو خوشی کا کیا عالم ہوگا؟
جب بہتان، پیٹھ پیچھے برائیاں، حسد و بغض یا الزامات سے آپ کی عزتِ نفس کو پامال کیا جاتا تھا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تحمل، حلم اور صبر کا مظاہرہ کیا تھا۔ اور یہ کڑا وقت اس وقت بہت طویل لگتا تھا مگر یوم الحساب اس کا اجر بے حساب اور مسلسل ملتا جا رہا ہوگا۔ تو اس خوشی پہ فرشتوں کی مبارک باد کیسی ہوگی؟
دنیا میں بھلائی و خیر خواہی اور وفاداری کے جواب میں جب لوگ بدگمانی اور ناقدری سے دل دکھا رہے ہوں تو اللہ الشکور (وہ ذات جو ذرے کو ماہتاب بنا سکتی ہے) کی قدردانی کو چشم تصور سے دیکھیے، کیا واقعی لاجواب سکینت، نور اور ٹھنڈک دل میں محسوس ہوتی ہے؟
اگر دل میں طمانیت، روح کو سکون محسوس ہوتا ہے تو فلاح و کامیابی کی طرف گامزن ہونا مبارک ہو۔
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا فرمان ہے:
’’جب تیرا کوئی مخالف تجھے برا بھلا کہے تو وہ تیرے لیے دوست سے زیادہ فائدہ مند ہے کیونکہ جب بدخواہ تجھے برا بھلا کہتا ہے تو اپنی نیکیاں تیرے نامہ اعمال میں منتقل کرتا چلا جاتا ہے‘‘۔
برا بھلا کہنے والا مخالف، دوست کے مقابلے میں اس لیے زیادہ نفع بخش ہے کہ دوست کی طرف سے تعریف کرنا کوئی تعجب والی بات نہیں۔ اُس سے یہی توقع ہونی چاہیے۔ اور اس سے ہماری نیکی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا نقصان کا ڈر ہے اس لیے کہ تعریف کرنے سے نفس خوش ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ شاید میں اسی تعریف کے قابل ہوں اور اسی کا حق دار ہوں۔ پس اسی خیال سے بربادی کا آغاز ہو جاتا ہے۔
اگر کوئی فرد اپنے طرزِ عمل سے آپ کے دل کو ناحق تکلیف دیتا ہے تو آخرت میں آپ کا فائدہ ہے۔ اور جب کوئی آپ کی مدح و ثناء کرتا ہے اور آپ کا شکر گزار ہوتا ہے تو وہ آپ سے زیادہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے۔
جب نگاہ آخرت کی ہار جیت پہ رہتی ہے تو دنیا میں گزرے ہر لمحہ کا عمل آخرت میں رکھی جانے والی میزان کے پلڑے پہ نظر آتا ہے۔ اور انسان نیکی کے پلڑے کے وزنی ہونے کی تدبیر کی تلاش میں ہی رہتا ہے۔
اچانک صرف خوشی ہی نہیں ملتی غم، صدمے اور مصیبتیں بھی غیر متوقع ہوتی ہیں۔ دنیا کی خوشیاں ہوں یا غم، عارضی ہوتے ہیں۔ اور دونوں طرح کی کیفیات جلد یا بدیر بدل جاتی ہیں۔
مگر آخرت کا غم یا خوشی دائمی ہوگی۔ جو لوگ آخرت کے غیر متوقع غم، صدمے اور مصیبتوں سے بچنا چاہتے ہیں ان کو چشم تصور سے وہ منظر دیکھتے رہنا چاہیے جب لغو باتوں اور لھو الحدیث میں مشغول رہنے کا جواز پیش کرنے کے لیے کچھ نہ سوجھتا ہوگا۔ جب تنہائی میں کیے گئے فواحش و منکرات پہاڑ جیسی نیکیوں کو راکھ بنا رہے ہوں گے۔ جب حسد، غیبت، حق تلفی، اور ہاتھ و زبان سے دی گئی دل کو دکھانے والی تکالیف کے عوض اپنی نیکیاں دوسرے کے پلڑے میں منتقل ہو رہی ہوں گی۔ اور دوسروں کے سب جرائم اپنے پلڑے میں ڈالے جا رہے ہوں گے۔ کوئی سنگی ساتھی ہمدردی سے دیکھ بھی نہ رہا ہوگا۔۔۔ یہی تو اصل میں خسارہ ہے کہ اس غیر متوقع غم سے نجات کی کوئی سبیل بھی نظر نہ آئے گی۔
فیصلے کا وقت ابھی اور اسی وقت ہے، غیر متوقع دائمی خوشی درکار ہے یا غم؟
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x