ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ماحولیاتی آلودگی آج کی دنیا کا سنگین مسئلہ – بتول مئی ۲۰۲۲

کن فیکون سے وجود میں آنے والی اس خوبصورت و حسین کائنات ارضی و سماوی کی رب ذوالجلال نے تخلیق فرمائی زمین کو لہلہاتی فصلوں اور کھیتیوں ، سر سبز وشاداب جنگلات، عقل و خرد اور دل و نگاہ کو موہ لینے والی آبشاروں ، دریائوںاور سمندروں، اونچے اونچے پہاڑوںاور لمبے لمبے قد آور درختوں ، خوشبو دار پھولوںاور پھلوں، خوشوںوالی کھجوروں اور بھوسے والے اناج سے مزین فرمایا ، فضا میں چرند، پرند ، ارض پر جمادات و نباتات ، حیوانات پیدا کیے ، کتنی عظمت اور بزرگی والی ہے وہ ذات جس نے متعدد آسمانی کُرّے باہمی مطابقت کے ساتھ طبق درطبق پیدا فرمائے اور اسی نے آسمان دنیا کو چراغوں ( یعنی ستاروں اور سیاروں) سے آراستہ کیا اور ہر سماوی کائنات میں اس نے ایک نظام ودیعت فرمایا اورنظام تخلیق میں ذرہ بھر بے ضابطگی اور عدم تناسب نہیںرکھا کہ ایک کا ناظم دوسرے میں مداخلت کر سکے ۔ روئے زمین پر انسان اللہ تعالیٰ کی اشرف المخلوقات اور خلیفہ ہے ، انسان کو اللہ تعالیٰ نے مخدوم الخلائق کے منصب پر فائز کیا ہے اس کے لیے اس کائنات میں موجود تمام موجودات کو مسخر کر دیا گیا ۔
ترجمہ: ’’ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جتنی چیزیں زمین میں ہیں (سب)اللہ نے تمہارے زیر فرمان کر رکھیں ہیں ‘‘(الحج)۔
اسی نظام کی پابندی کے باعث وقت پر موسم بدلتے ہیں ، وقت پر دن طلوع ہوتا ہے اور رات آتی ہے ،ہر روز مقررہ وقت پر ان کا طلوع و غروب ہوتا ہے ، اسی سے ماہ وسال کاحساب بنتا ہے اگر اس نظام میں ذرا سا بھی خلل آجائے تو ساری کائنات چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے ۔ الغرض پوری کائنات میں جس جانب بھی نظر دوڑائیں ہر ذرے اور ہر کرّے میںمکمل نظم و ضبط پایا جاتا ہے ہر قدرتی نظام میںایک توازن پایاجاتا ہے جس کی وجہ سے ہر چیز میں ایک نکھار اور ترو تازگی ہے۔ انسان نے جب بھی اس توازن کو عدم توازن میں لانے کی کوشش کی اس کو منفی اثرات بھگتنے پڑے۔
آلودگی کے معنی مفہوم
آلودگی کیا ہے ؟انجینئر مفتاز حسین لکھتے ہیں:
’’ زمین ، پانی اور فضا کو ضائع شدہ مادوں سے گندا کرنے کے عمل کو آلودگی کہتے ہیں ۔ان طور طریقوںکامجموعہ ہے جن کی وجہ سے ہر جاندار اورذی روح اپنے ماحول کو پراگندہ اورنا قابل استعمال بنا دیتا ہے۔آلودگی سے مراد وہ تمام مادے ہیں جو زمین ،پانی اورفضامیں داخل ہوکر ان کے کیمیائی ، طبیعاتی ، جوہر ی اور حیاتیاتی نظاموںمیںتبدیلی پیدا کردیں تاکہ وہ آلودہ ہو کر انسان ، حیوانات اورنباتات وغیرہ کے لیے مضر صحت ثابت ہوں‘‘۔(۱۱)
مس عنبرین رفیق اپنی کتاب ’’ ماحولیاتی آلودگی‘‘ میں رقمطراز ہیںکہ :’’ ماحول کو آلودہ کرنے والے عناصر مضر حیاتیاتی ، طبعی یا کیمیائی اثرات کے نتیجے میںظاہر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں ’’ ماحولیاتی آلودگی‘‘ کہلاتی ہے ‘‘۔(۱۲)
ماحول سے واقفیت کے بعد ہمیں ان چیزوںکا جاننا ضروری ہے جس سے یہ ماحول خراب ہو رہا ہے اس کو آلودگی کہا جاتا ہے اس کو ہم آسان الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ماحول میںکسی قسم کانقصان دہ مادہ مل جانے کو آلودگی کہا جاتا ہے کیمیائی مواد کے دریائوںمیںگرنے ، زہریلے دھویںکی فضا میںآمیزش چاہے وہ گاڑیوںکا ہو یا صنعتوںکا ،کچرے کے جلنے سے اٹھنے والے دھویںاوردیگرعوامل مل کر آلودگی پیدا کرتے ہیں ۔ آلودگی پھیلانے کے جارحانہ اقدامات میں گھروں و صنعتوں سے نکلنے والے کوڑے کرکٹ کو سمندر میں پھینکنا ، صنعتوں کے زہریلے مواد کو دریا ئو ں وجھیلوںمیں گرانا ، ہسپتالوں سے نکلنے والے ضرر رساںمادوں کو بکھیر نا شامل ہیں۔
انسانی صحت کے لیے کھلی فضا اور صاف ہوا میں سانس لینا بہت ضروری ہے لیکن اس ترقی یافتہ اور سائنٹیفک دور میںانسان کو نہ صاف ہوا میسر ہے اور نہ ہی کھلی فضا ۔ اس جدید ترین دور میںانسان آلودہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس آلودہ زندگی سے انسان نہ صرف بے شمار بیماریوںکا شکار ہو رہاہے بلکہ اسے ایک فعال زندگی گزارنے کی بجائے ذہنی کوفت میں مبتلا ہو رہا ہے ۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے جو ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہے ۔ کیمیائی طور پر تیار کی گئیں اشیاء اور دیگر قسم کے کچرے کوجب ملایا جاتا ہے تو اس سے نکلنے والا دھواںفضائی آلودگی کاباعث بنتا ہے اور اس سے نکلنے والی زہریلی گیس اور ذرات فضا میں شامل ہو جاتے ہیں، سڑکوں پر رواںدواںدھواں اڑاتی ہوئی گاڑیاں فضائی آلودگی میںاضافہ کا باعث ہیں ۔
قحط اور جنگوںکے بعد دنیا میںسنگین ترین مسئلہ آلودگی ہے تاہم اس کے نتائج فوری نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اور انفرادی سطح پر نمایاں ہوتے ہیں جبکہ آلودگی سے پھیپھڑوں اورجلد کے سرطان کے علاوہ ہیپاٹائٹس جیسی خطر ناک بیماریاںہو سکتی ہیں اس کے علاوہ آبی آلودگی سے کینسر ، پیٹ اور ہڈیوں کے امراض ، شور کی آلودگی سے اعصابی اور زمینی آلودگی سے دمہ، تپدق ، اور ہیضہ جیسی بیماریاں ہونے کاخطرہ کئی گنا تک بڑھ جاتا ہے ۔ ماہرین ماحولیات نے تشویش کا اظہار کرنے سے اضافہ ہؤ ا ہے ۔ ہمارے یہاں روش چل پڑی ہے کہ ہر معاملے میں گاڑی کااستعمال کیا جاتا ہے جبکہ ان سڑکوں کے ارد گرداوردرمیان میں سبزہ اور ماحول دوست پودوں کی کمی ہے ۔ علاوہ ازیں گاڑیوں کی موزوں مینٹینس کا نہ ہونا بھی ماحول کی خرابی کا سبب ہے … بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کیے جانے والے ذرائع بھی فضائی آلودگی میں اہم کردار ادا کررہے ہیںجو لوگوںکووقت سے پہلے ہی موت کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لیے قدرتی ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ ماحولیاتی آلودگی میںکمی واقع ہو۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔ سندھ میںجھمپیر کے مقام پر ہوا کے ذریعے بجلی حاصل کرنے کے لیے امریکی ادارے اوپیک کے تعاون سے منصوبہ پر کام کیا جا رہاہے اور پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیر ستان میںگومل زام ڈیم کے ذریعے بجلی کی پیداوار کے لیے غور کیا جا رہا ہے جو ماحول دوست اقدامات کی کڑی ہے ۔
عام تاثر ہے کہ جوہری بم سے کئی گنا خطر ناک گلوبل وارمنگ کا بم ہے جس کے اثرات سے کرہ ارض خطرات میں گھرا ہؤا ہے ۔ ماضی کی نسبت اب موسم گرما میں گرمی کی عمومی صورتحال شدید ہو رہی ہے اور گرمی شدت سے بڑھ رہی ہے جبکہ سردیوںکا موسم سکڑتا جا رہاہے ۔ موسمی تغیر کے باعث مختلف ممالک میں طوفانی بارشوں،سیلابی ریلوں ، سمندری طوفان سے ہونے والے نقصانات میں اضافہ ہورہا ہے اور کہیں قحط اور خشک سالی کی صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔ یہ سب دراصل گلوبل وارمنگ ہی کا نتیجہ ہے ۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے زراعت متاثر ہو رہی ہے اور خوراک کی قلت بھی بڑھ رہی ہے ۔ دوسری جانب صنعتی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے کیوں کہ اکثر اشیا کی تیاری میں خام مال زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آب و ہوا کی تبدیلی سے دنیا کی مجموعی اقتصادی پیدا وار میں 1.6کی کمی واقع ہوئی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کرہ ارض کے تمام مسائل اور مشکلات کا سب سے بڑا سبب یہاں بسنے والے انسان ہیں ۔ سڑکوں پر دھواںاڑاتی گاڑیاں ، کار خانوں کی دھواں اگلتی چمنیاں ،کیمیکل پلانٹس سے خارج ہوتا زہریلا پانی گرین ہائوس گیسوں کے خاتمے کی وجہ سے بن رہا ہے ۔ علاوہ ازیں بڑے پیمانوںپر جنگلات کی کٹائی کرہ ارض کے توازن میں بگاڑ کا باعث ہے جبکہ یہی درخت فضامیں موجود کاربن گیسوں کو دوبارہ زندگی بخش آکسیجن میں تبدیل کرتے ہیں ۔ اب ہمارا بنیادی اور اہم فریضہ ہے کہ ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق ایک پودا لگائے جوصدقہ جاریہ کے ساتھ ساتھ فضائی خوشگواری کا ذریعہ بھی ہے ۔ پولی تھین بیگز کااستعمال کم سے کم اور ری سائیکلنگ اشیا کا استعمال کیا جائے تاکہ کچرا بننے کے امکانات کم سے کم ہوں ۔ نیشنل فورم آف انوائر منٹ اینڈ ہیلتھ کے صدر نعیم قریشی نے کچرا جمع ہونے پر کہا ہے کہ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر 10ہزار ٹن کے قریب کچرا ٹھکانے لگانے میں انتظامی مشینری ناکام ہے ۔ لہٰذا عام آدمی اپنے معاملات میں بہتری لائے تاکہ زندگی کو خوشگوار بنایا جا سکے ۔
موجودہ زمانے میں ماحولیاتی آلودگی … ماہرین و مفکرین کی آرا پر تحقیقی نظر
آج کاہر صاحب شعور فرد جس کو اس دھرتی سے پیار ہے وہ اس کی خوبصورتی اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی آباد دیکھنا چاہتا ہے لیکن موجودہ دورمیںیہ خوبصورتی خطروںکا شکار ہے ہم مختلف آرا سے اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’’ عالمی ادارہ صحت نے فضائی آلودگی کو صحتِ عامہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے ۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بیرونی فضائی آلودگی چین اور بھارت، پاکستان جیسے ممالک کے لیے بڑا مسئلہ ہے جہاں تیزی سے صنعت کاری ہو رہی ہے ۔ کنگز کالج لندن کے ماحولیاتی تحقیقاتی گروپ کے ڈائریکٹر فرینک کیلی کا کہنا ہے کہ ہم سب کو سانس لینا ہوتا ہے اس لیے ہم اس آلودگی سے بچ نہیں سکتے ۔ ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کے ساتھ ہمارے پھیپھڑوں میں ایسے ننھے ننھے ذرات چلے جاتے ہیںجو بیماری کا باعث بنتے ہیں۔سائنسدانوں کے خیال میں فضائی آلودگی دل کی سوجن کی وجہ بھی بنتی ہے جس کی وجہ سے دل کادورہ پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ دنیا میں 2012 میں 43لاکھ اموات گھروں کے اندر کی فضا کی آلودگی خصوصاً ایشیا میں لکڑیاں جلا کر یا کوئلوں پر کھانا پکانے کے دوران اٹھنے والے دھویں کی وجہ سے ہوئیںجبکہ بیرونی فضا میں آلودگی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 37لاکھ کے لگ بھگ رہی جن میںسے 90فیصد کے قریب ترقی پذیر ممالک تھے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ماسک پہن کریہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم آلودہ فضا میں سانس لینے کے لیے تیار ہیں جبکہ ہمیںآلودگی ختم کرنے کے لیے اپنے طرز زندگی کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ فرینک کیلی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میںمردوں کے مقابلے میںخواتین کے فضائی آلودگی سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، دیگر ماہرین کاکہناہے کہ آلودگی پر قابو پانے کے لیے اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس کے مہلک ترین اجزا کی نشاندہی کی جائے ۔ امپیرئیل کالج لندن کے ماجدعزتی کاکہنا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ صحارا کے صحرا کی گرداتنی ہی خطر ناک ہے جتنا کہ ایندھن یاکوئلے کادھواں۔
ماحولیاتی کثافت مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ہوا میںکاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں مسلسل اضافہ نوٹ کیا جا رہاہے یہ ایک خطر ناک علامت ہے اس کے نتیجے میں حیاتیاتی اجناس کو سخت خطرات لاحق ہیں ۔ فضائی آلودگی کا زہر حاملہ خواتین کوبھی متاثر کرتا ہے ، اور ان کے بچوں کا وزن دوسرے بچوںکی نسبت کم ہوتا ہے ۔ کابل کے واحد چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹر محمد اکبر اقبال کاکہنا تھا کہ ’’ آلودہ فضاکا برا اثر خاص کر بچوںپر پڑ رہا ہے جن کا مدافعتی نظام مضبوط نہیںہوتا اسی لیے وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ‘‘ ان کاکہنا تھا کہ جب ایک مرتبہ سینے پر اثر پڑا تو صورت تشویش ناک ہو سکتی ہے اور اس کی وجہ سے بچے کی جان بھی فوری طور پر جاسکتی ہے ۔کابل کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروںمیں ہوتا ہے جہاںچلنے والی ہوا مختلف بیماریوں کا باعث بن جاتی ہے اور سب سے بڑا شکار بچے ہوتے ہیں ۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت صحت کا کہنا تھا کہ کابل میں آلودگی کے باعث سالانہ 3ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لیے قدرتی ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہو ۔
جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیںجن کی وجہ سے جنگلی حیات کو بھی خطر لاحق ہے ، فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے زمینیں بھی بنجر ہو رہی ہیں اور انسان کے لیے صاف فضا میں سانس لینے سے خوراک تک کے بحران جنم لے رہے ہیںاور سب سے بڑھ کرماحول میںتپش اور گرمی کا تناسب بڑھ رہاہے ۔بعض خطوںمیں جانورمسلسل کم ہو رہے ہیں ۔ جانوروں ، چرند ، پرند آبی حیوانات ، زمین پر رینگنے والے حشرات، نباتات اور بہت سے پودوں کی قسمیں نا پید ہو چکی ہیںبلکہ اور بہت سی اختتام کے آخری مراحل میں ہیں، کسی بھی وقت نا بود ہو سکتی ہیں ۔ دنیا بھر میںپانی کا بحران سر پرہے، موجودہ پانی کی بڑی مقدار صنعتی اور دیگر فضلات کی وجہ سے آلودہ اور بعض صورتوں میں زہریلی ہو چکی ہے ۔ صنعتی اور مشینی ترقی نے اس کائنات کو سب سے بڑ ے خطرات سے دو چار کر دیا ہے اور صنعتوں سے خارج ہونے والی گیسوں اوردیگر فضلات کی وجہ سے اوز ون کی تہہ میں شگاف پڑ گیا ہے یہی سبب ہے کہ اب سورج کی مضر اورسخت نقصان دہ شعاعیں براہ راست زمین میںپڑرہی ہیں اوراس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں ۔
اشرف المخلوقات کی منصبی ذمہ داری
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا اورعلم کی بدولت فضیلت دی مسجود ملائک ہونے کا اعزاز دیا ، زمین میں اللہ کا نائب وخلیفہ ہے اس لیے تمام وسائل حیات اور مفاد عامہ کی حفاظت کرنا اور ممکنہ خطرات سے بچانا اس کی اولین ذمہ داری ہے ۔ اسلام کے مطابق ہر انسان فطرت کا امین ہے اور اگر حضرت انسان اس فطری اورانسانی ماحول کی طرف سے بے پروا ہو جاتا ہے تو اس امانت میں خیانت کا مرتکب ہو گا جو اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی جاتی ہے ۔
جہاںانسان نے ترقی کی اپنے لیے وسائل کو استعمال کیا سہولت کو پیداکیا وہیںاس سے مسائل کا بھی آغاز ہؤا ان ہی مسائل میںسے ایک مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی ہے صنعتی ترقی بڑھتی ہو ئی غلط آبادی کی غلط منصوبہ بندی کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی بہت بڑھ گئی ہے اور تحفظ ماحول کے حوالے سے ہر فورم میںآوازیں اٹھ رہی ہیں ، مختلف عقائد و مذہب کے لوگ اپنے اپنے طریقے سے ان مسائل کا حل نکال رہے ہیں ۔ دین اسلام کیونکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسوہ نبی کریمؐ کی پیروی ہرمسلمان کی دلی آرزو ہے تو ہم آج اس مضمون سے تحفظ ماحولیات کو نبی کریمؐ کے اسوہ مبارک کی روشنی میں سمجھیں گے کہ اسلام تحفظ ماحولیات کے بارے میں ہمیں کیارہنمائی فراہم کرتاہے ۔
اجتماعی مفادات کاتحفظ
معاشرتی ماحول سے مراد انسان کے انفرادی و اجتماعی تعلقات ہیںجس کے نتیجے میں تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑتی ہے ، زندگی کے اصول و ضابطے طے ہوتے ہیں، علمی تحقیقی کا وشیں پروان چڑھتی ہیں، ادب وثقافت کی شمع فروزاں ہوتی ہیں اورایجادات و انکشافات کے محیرو عقول کارنامے انجام پاتے ہیں،اس کاایک رخ تومادی ہوتا ہے ، جس میں انسان اپنی ضروریات زندگی پر توجہ مرکوز رکھتاہے ، جیسے مکان ، لباس اوروسائل حمل و نقل ، جب کہ دوسرارخ روحانی و معنوی ہوتا ہے ،جس کے تحت عقیدہ ومذہب اورعبادت و ریاضت و غیرہ آتے ہیں۔
اسلام نے ماحولیات کے تحفظ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ، قرآن میں اس بات کا تفصیلی ذکرآیا ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو کس طرح بنایا سجایا، سنوارا اور زندگی کے امکانات سے اس طرح بھر دیا کہ ہر سمت ، ہر جا اور ہرچیز سے زندگی کے نغمے پھوٹ پڑتے ہیں ، قرآن میں ۷۵۰ سے زیادہ ایسی آیتیں ہیںجو کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھاتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فراہم کی جانے والی بے پایاں نعمتیں اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ انسان اس کی قدر کرے اوراس پر شکرادا کرے۔ اسلام میںاجتماعی مفادات کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے حضرت حذیفہ بن الیمان راوی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا :
ترجمہ:’’ جو مسلمانوںکے عمومی مفادات کالحاظ نہ رکھے وہ مسلمان نہیں ہے ‘‘۔
حضرت تمیم دارمی کی روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا:
ترجمہ:’’ دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے پوچھا: کس کے ساتھ ؟ آپ ؐ نے فرمایا اللہ اور رسول، کتاب الٰہی ، حکومت اسلامیہ اور عام مسلمانوں کے ساتھ‘‘۔
ماحول کی حفاظت بھی عام لوگوں کے ساتھ خیر خواہی ہے ، اسلام کی تعلیمات ماحولیات کے سلسلہ میں انتہائی واضح اورجامع ہیںتاکہ ارض و سماء نباتات و جمادات اور وہاں بسنے والی بے شمار مخلوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ، اس طرح کہ یہ سب انسان کے لیے ہمیشہ خیر کا سر چشمہ اور بھلائی و عافیت کا ذریعہ بنے ہیں، اس سلسلہ میں رسول اللہ ؐ نے ترغیب کے ساتھ ساتھ ترہیب سے بھی کام لیا ہے تاکہ انسان ان نعمتوں کی نا قدری نہ کرے اور اس میں فساد و بگاڑ پیدا کر کے اسے اپنی اوردوسروں کی تباہی کا ذریعہ نہ بنا لے ۔ ماحولیات کے تحفظ کے متعلق تعلیمات نبویؐ کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہم اس دنیا کے اہم اوربنیادی عناصر کو ترغیب وار ذکر کریں گے مشہور و معروف عناصر میںتین کا نام سر فہرست ہیں جو اس دنیا کی جان ہیں اور اس دنیا میں بسنے والوںکی بھی وہ یہ ہے (۱) پانی (۲) مٹی (۳)ہوا۔
پانی اورماحول
پانی ہر چیز کا نقطہ آغاز ہے پانی ہے تو زندگی ہے ہر زندہ چیز پانی سے ہی پیدا کی گئی ہے چنانچہ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’ اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا ‘‘۔
پیغمبر اسلام ؐ کا ارشاد ہے :
’’ تمام چیزیںپانی سے پیدا کی گئی ہیں ‘‘۔ اس طرح پانی ہر جاندار کے لیے نہ صرف نقطہ آغاز اوربیج کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ وسیع و عریض سرزمین کی ہریالی ، سبزہ اشجارو نباتات کی شادابی اورنہ صرف چرند و پرند کی رعنائی کا انحصار اس پر ہے بلکہ خود حضرت انسان کا وجود بھی اسی فیصد (۸۰فیصد) سے کچھ زیادہ پانی پر مشتمل ہے جس کے بغیر وہ دنیا میںپل دو پل کا مہمان ہوگا ، پانی اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب نعمت ہے ، اس میں چشم بینا اورذہن رسا کے لیے غورو فکر کا بہت سا سامان وجود ہے اس طرح اس دنیا میں عام طور پر تین چیزیں تین شکلوںمیں پائی جاتی ہیں ، ٹھوس ، رفیق اوربخارات یا بھاپ ، پانی واحد ایسا عنصر ہے جو مذکورہ تینوںشکلیں اختیار کر سکتا ہے ، اتنی اہم اور بیش قیمت چیزیں جواللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کی دسترس میں دی ہے وہ اس لیے نہیںہے کہ انسان اس کے ساتھ جو معاملہ چاہے کرے اورنا قدری و نا عاقبت اندیشی کی وجہ سے کائنات میںقائم اللہ تعالیٰ کی ودعیت کردہ فطری نظام کو درہم برہم کردے اور اس طرح نہ صرف اپنے وجود بلکہ کائنات کی تباہی اور بربادی کا سبب بن جائے ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں خود خالق کائنات اور اس کے پیارے حبیب حضرت محمدؐ کی جناب سے تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں ۔
زمین کے اندر جو بے شمار خزانے محفوظ ہیں اور زمین کے اوپر جو فطری ماحول موجود ہے وہ اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہیں اور نعمت الٰہی میں تبدیلی کرنا اللہ کے نزدیک ایک جرم ہے ۔
ترجمہ:’’ جو اللہ کی نعمت ملنے کے بعد تبدیل کرے تو اللہ پاک اسے سخت عذاب دیتے ہیں ‘‘۔
پانی قرآن و حدیث کی روشنی میں
پانی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت ہے ، یہ ہر جاندار کے لیے ذریعہ وجود اور سبب حیات ہے ، پانی کی اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف انداز میں اور متعدد جگہوں پر تقریباً تریسٹھ(63) مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے اور اس کی یہ صفات بیان کی ہیں : الطہور ( پاک) المبارک( بابرکت) الفرات ( میٹھا) الثجاج( بہت بہنے والی ) کہا جاتا ہے کہ انسان کھائے بغیر ایک ماہ تک تقریباً زندہ رہ سکتا ہے لیکن پانی کے بغیر ایک ہفتہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا ، پانی کی اس لازمی اوربنیادی ضرورت کے پیش نظر اسے مشترکہ ملکیت قرار دیا گیا ہے چنانچہ نبی کریم ؐ کا ارشاد ہے :
’’ تین چیزیں مسلمانوں کے درمیان مشترک ہیں پانی ، گھاس اور آگ‘‘۔
بوقت ضرورت لوگوں کو پانی سے محروم رکھنے پر رحمت عالمؐ نے شدید وعید بیان کی ہے ، حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہیںکہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا :
’’ تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ( قیامت کے دن) نہ بات کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف ( نظر رحمت سے ) دیکھے گااور نہ انہیں پاک صاف کرے گا ایک وہ شخص جس کے پاس گزر گاہ پر زائد پانی ہو اور وہ کسی مسافر کو دینے سے انکار کردے ، دوسرا وہ شخص جو صرف دنیا وی فائدہ حاصل کرنے کے لیے بیعت کرے اگراس کو دنیاوی فائدہ ملتا رہے تو اس (بیعت) کو پوراکرتا ہے ورنہ نہیں ، تیسرا وہ شخص جو عصر کے بعد کسی سامان کا بھائو تائو کرے اورجھوٹی قسم کھا کرکہے کہ یہ سامان اس کو اتنے اتنے میں ملا ہے اورخریدنے والااس کی قسم پر اعتماد کر کے اسے اس قیمت پر خرید لے ۔ ایک اور روایت میں نبی کریمؐ نے قیامت کے دن اس شخص کے لیے جو زائدپانی کوکسی دوسرے کے لیے روکتا ہے سخت وعید سنائی ہے چنانچہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص سے فرمائے گا جس طرح تو نے اس زائد (پانی) کو نہیں دیا تھا جسے حاصل کرنے میں تیرے ہاتھوں کا کوئی دخل نہیں تھا ، اسی طرح آج میں تم سے اپنے فضل کو روک لوں گا ‘‘۔
اسلام میں طہارت و نظافت کی اہمیت
اسلام میں طہارت و نظافت کی بڑی اہمیت ہے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے ۔ حضرت ابو مالک اشعری کی روایت رسول اللہ ؐ نے فرمایا :’’ پاکی نصف ایمان ہے ‘‘۔
نماز جیسی اہم ترین عبادت کے لیے طہارت کو کلید قرار دیاگیا۔
حضرت علی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ نماز کی کنجی طہارت ہے ‘‘۔ ہر جمعہ کو غسل کرنا واجب قرار دیا گیا ہے۔نظافت کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ اللہ پاک ہیں اور پاکی کو پسند فرماتے ہیں اور’’ اللہ نظیف ہیں نظافت کو پسند فرماتے ہیں ‘‘۔ایک اور روایت میں ہے کہ ’’ بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے ‘‘۔
جمال ہر چیز کے فطری توازن کانام ہے اور اس توازن کوبگاڑنے کا نام فساد ہے ۔ اسلام دین فطرت ہے اسی لیے اس کے بے شمار احکام کی بنیاد طہارت ونظافت پر ہے ۔ مثلاً کھانے سے قبل اور بعد ہاتھ دھونے کا حکم دیا گیا ہے ، نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہاتھ دھونے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ وضع قطع رہن و سہن اور گھر مکان راستہ سواری ہر چیز میں صفائی ستھرائی اور بہتر طرز زندگی کپڑوںکو پاک رکھو اور گندگی سے دور ‘‘۔(۲۷)
اس آیت کریمہ میں رجز سے ہر قسم کی گندگی مراد ہے خواہ و ظاہری ہو یا باطنی،لباس ، معاشرت ، کی ہو یا اخلاق و اعمال کی ، افکار و عقائد کی ہو یا اجسام و ابدان کی گندگی اور آلودگی کو رجز ہی کہا جاتا ہے اسی طرح سے گندے آدمی کو رجل رجس کا نام دیا جاتا ہے ۔ارشاد نبوی ؐ ہے :
’’اپنے لباس کو مزین کرو ، اور اپنی رہائش گاہوں کو درست رکھو یہاں تک کہ تم سارے انسانوں میں سب سے مضبوط حس رکھنے والی قوم شمار کیے جانے لگو، اللہ پاک برائی اوربے حیائی کو پسند نہیں فرماتے ‘‘۔
مسند ابی یعلی اور مسند بزار میں ’’ فنظفوا افنیتکم و ساحتکم‘‘ کے الفاظ ہیں یعنی اپنے صحنوں اور میدانوں کوصاف ستھرا رکھو ۔ منہ کی صفائی کو رضا مندی رب کا سبب قرار دیا گیا ۔ کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانک کر رکھنے کا حکم دیا گیا تاکہ انجانے میں اس کے اندر کوئی گندگی نہ پڑ جائے ۔
نبی کریم ؐ نے ہدایت فرمائی ہے کہ گھروں کے دروازے بند کر کے سوئو کہ مبادارات میں کوئی موذی چیز اندر آجائے ، اور سونے سے قبل چراغوںکو گل کردوکہ اس میں اسراف بھی ہے ، فضائی آلودگی بھی ہے اور اندیشے بھی ہیں ۔
ترجمہ: چراغوں کوبجھادو دروازے بند کر لو اور کھانے پینے کی چیزوںکو ڈھانک دو ۔
اسراف سے ممانعت
ماحول میں فساد فطری توازن کے بگڑنے سے پیدا ہوتاہے اور یہ توازن اس وقت بگڑتا ہے جب انسان مقررہ حدود سے تجاوز کرے جس کو قرآن کی زبان میں اسراف کہا جاتا ہے مقررہ حد سے تجاو ز اباحت کو حرمت میں تبدیل کر دیتا ہے۔
’’اور تم کھائو پیواور حد سے تجاوز مت کرو یقینا اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ‘‘۔
یہ اسلام کا ایک ایسا جامع اور ہمہ گیر اصول ہے جو فطرت انسانی کی ترجمانی کرتے ہوئے باہمی بقا کا پیغام دیتا ہے اگردنیا اس اصول کو اپنائے اور اپنی زندگی میں اعتدال پیدا کرے اسراف اور فضول خرچی سے بچے تو پانی کا بحران پیدا نہ ہو ، آپ ؐ کی اسوہ حسنہ کی نظر میں پانی کی کتنی قدر و منزلت ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ نماز جو اسلام میں کلمہ طیبہ کے بعد سب سے اہم ترین عبادت تصور کی جاتی ہے اور اسلام کا دوسرا سب سے بڑا رکن ہے اس کی ادائیگی کے لیے طہارت و وضو لازمی امر ہے لیکن طہارت حاصل کرتے وقت پانی کے استعمال میں اسراف اور ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے کی ممانعت وارد ہوئی اور اس میں زیادہ سے زیادہ استعمال کی حد مقرر کی گئی ہے ۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے ایک صحابی ؓ کو وضو کا طریقہ بتایا اور ہر عضو کو ایک سے تین باردھونے کو فرمایا آخر میں نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’ جس نے مذکورہ میں اضافہ یاکمی کی تو اس نے برا کیا اور اپنے اوپر ظلم کیا یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے تین مرتبہ سے زیادہ دھونے کو مکرو ہ قرار دیا ہے ، ابن المبارکؒ فرماتے ہیں کہ وضومیں جو شخص تین مرتبہ سے زیادہ دھوئے میں اس کے سلسلے میں اس بات سے مامون نہیں ہوں کہ اس نے گناہ کا کام کیا۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے برتن میں سانس لینے یا پھونک مارنے سے منع فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میںکئی نقصانات پائے جاتے ہیں۔
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے روکاگیا کہ یہ مفاد عامہ کی چیز ہے اور اس سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے بلکہ طبرانی کی روایت میں جاری پانی میں بھی پیشاب کرنے کی ممانعت آئی ہے ، جس کو حکم شرعی سے زیادہ اخلاقی ہدایت اور طہارت سے زیادہ نظافت کی حیثیت دی جائے گی ۔
آج کے دور میں پانی کی آلودگی محض پیشاب پاخانے تک محدود نہیںہے ، بلکہ ان سے بھی زیادہ خطرناک اورزہریلے مادوں کے ذریعے پانی کو مسلسل آلودہ کیا جا رہا ہے ، جس کی وجہ سے آبی جانداروںاورخود انسانوںکی زندگی بڑی مصیبت اور ایک زبردست خطرے سے دو چار ہے۔ اس لیے لوگوں کو اس معاملے میں بیدار ہونے کی ضرورت ہے ورنہ خود اپنے ہاتھوں لگائی آگ میں جل کر ختم ہو جائیںگے۔
زمین اور ماحول
زمین کا وجود کائنات میںآدم کی تخلیق سے پہلے تھا اور اسی کی مٹی سے آدم کی تخلیق فرمائی اور اسی سے اس نے اپنا رزق تلاش کیا چنانچہ قرآن مجید میںارشاد باری تعالیٰ ہے
ترجمہ:’’ اسی نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور زمین کو بسانے اور آباد کرنے کی صلاحیت تم میں پیدا کی ‘‘(ہود)
اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ انسان کی تخلیق زمینی مادے سے ہوئی ہے ، جدید سائنس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ انسان جن عناصر سے مرکب ہے وہ سب زمین کی مٹی میں موجود ہیں ۔
اسی طرح زمین سے ایک اہم عبادت طہارت اورنماز سے بھی متعلق ہے رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے :
’’ اور پوری روئے زمین میرے لیے نماز کی جگہ اور پاکی کا ذریعہ بنائی گئی ہے اس لیے جس جگہ بھی نماز کاوقت ہو جائے میرا امتی وہاں اسے ادا کر لے ‘‘۔
زمین کی اسی خصوصیت کے پیش نظر قرآن مجید میںچار سو تیس (۴۳۰) مرتبہ اس کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اس کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں فراش( بستر) مھد، مھادا( بستر) قرار ( ٹھہرا ہؤا) ذلول ( نرم) بساط (بستر) کفات( برتن) زمین کی اسی خصوصیت اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جس مقصد کے لیے بنایا ہے اس میں کس طرح کی تبدیلی نہ کی جائے ، زمین میں ایسی تبدیلی جس سے اس کی یہ حیثیت متاثر ہوجائے در حقیقت اس میں بگاڑ پیدا کرنا اور فساد برپا کرنا ہے ۔
قرآن و حدیث میں ایسی متعدد نصوص اور عمومی ہدایات موجود ہیں جن میںروئے زمین کی پاک فضا اور انسانی وسائل حیات تخریبی سرگرمیوں سے آلودہ اورمسموم کرنے کی ممانعت ملتی ہے ۔ یوں اس زمین میں جراثیم اورفاسد عناصر کو تحلیل کرنے کی بھی زبردست صلاحیت موجود ہے جس کی مدد سے وہ مختلف جراثیمی حملوںکا دفاع کرتی رہتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کی بھی ایک حد مقرر ہے مقررہ حدود سے تجاوز کی صورت میں زمینی ماحول کا توازن بگڑنے لگتاہے اور اس کی منفی اثرات نسلوںاور کھیتوں پر پڑتے ہیںجس کو قرآن کریم کی زبان میںفساد قراردیا گیا ہے اور قرآن نے اس سے سخت بیزاری کا اعلان کیاہے ۔
ترجمہ:’’ زمین میں فساد برپا مت کرو جب کہ پہلے وہ درست حالت میں ہے ‘‘۔
ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی یہ خصلت بیان فرمائی ہے ۔
ترجمہ:’’ جب وہ لوٹ کر جاتا ہے توزمین میں فساد پھیلانے اور کھیتی اورنسل کی ببربادی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو نا پسند فرماتا ہے ‘‘۔
یعنی زمین میں فساد کا نتیجہ کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ کھیتی کو تباہ و برباد کیا جائے جس کی وجہ سے نسل انسانی و حیوانی تباہی و ہلاکت سے دوچار ہو ، کیونکہ زمین کا مقصد وجود اس کی تعمیرو اصلاح ہے اور اس میں کسی طرح کی تخریب اورفساد ناجائز ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: ’’ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور زمین کو بسانے اور آباد کرنے کی صلاحیت عطا کی ‘‘ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن اسلمؒ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے مطابق گھر بنانے اور درخت لگانے کا حکم دیا ہے اور بعض مفسرین لکھتے ہیںمطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھیتی کرنے ،درخت لگانے اور نہر کھودنے کا طریقہ سکھایا ہے اور ’’ استعمر کم‘‘ کے لفظ سے یہ سمجھایا گیا ہے کہ زمین کی تعمیر انسان کے لیے ضروری ہے ۔
ترجمہ:’’ جب بھی یہ لوگ آتش جنگ بھڑکاتے ہیں اللہ پاک اس کوبجھا دیتے ہیں یہ لوگ زمین میںفساد بھڑکاتے ہیںاوراللہ پاک فساد مچانے والوںکوپسند نہیںکرتے‘‘۔
فطری نعمتوںکومسخ کرنا
زمین کے اندر جو بے شمار خزانے محفوظ ہیں اور زمین کے اوپر جو فطری ماحول موجود ہے وہ اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہیں اور نعمت الٰہی میں تبدیلی کرنا اللہ کے نزدیک ایک جرم ہے ۔
ترجمہ:’’ جواللہ کی نعمت ملنے کے بعد تبدیل کرے تو اللہ پاک سخت عذاب دیتے ہیں ‘‘۔
زمین کو خیر و بھلائی کا سرچشمہ بنانا
رحمت عالمؐ نے اپنی امت کو زمین کی تعمیر اور اسے زندہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے ، اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے ۔
ترجمہ ’’ جو کوئی بے کار زمین کو کار آمد بنادے تو وہ زمین اسی کی ہو جائے گی ‘‘۔ایک دوسری حدیث میں زمین کی تعمیر کی مختلف شکلوںکو صدقہ جاریہ قرار دیا گیا ہے چنانچہ حضرت ابی ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول ؐ نے ارشاد فرمایا :۔
’’مومن آدمی کے مرنے کے بعد بھی ( ان چیزوں کا ) ثواب جاری رہتا ہے ان کے نیک اعمال اورنیکیوں میں سے ایسا علم جس کو اس نے دوسروں تک پہنچایا اور سکھایا نیک اولاد جس کو اس نے چھوڑا ، قرآن مجید جس کو اس نے چھوڑا ، یا مسجد بنایا یا مسافروں کے لیے سرائے بنائی یا نہر نکالی ایسا صدقہ جس کو اس نے اپنے حیات میں حالت تندرستی میں نکالا ان تمام چیزوں کا ثواب اس کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتاہے ‘‘۔
حدیث میں ایسی چیزوں سے منع کیا گیا ہے جو زمین کی زندگی کو تباہ و برباد اور وہاں کے رہنے والوں کے لیے دشواری پیدا کرتی ہوں اورتکلیف دہ چیزوںکو زمین سے ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ نبی کریم ؐ کاارشاد ہے ۔
’’ ایمان کے ستر(۷۰) سے زیادہ شعبے ہیں جن میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم تر تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ‘‘ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا :’’ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا صدقہ ہے ‘‘۔
اس میں شک نہیں کہ جس طرح تکلیف دہ چیز کے مفہوم میں راستے سے اینٹ ، پتھر ، کانٹا وغیرہ کا ہٹانا شامل ہے اسی طرح اس میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں جو انسانی صحت کے لیے خطر ناک یا ضرر رساں ہوں، ایک روایت میں ہے نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا:
’’ ایک شخص کہیںجا رہا تھا راستے میں کانٹے دارٹہنی ملی اس نے اسے ہٹایا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اس کایہ عمل قبول فرمایا اورکی مغفرت فرمائی ‘‘۔
مشہور صحابی رسول حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ نے اللہ کے رسول ؐ سے درخواست کی اے اللہ کے رسول ؐ مجھے ایسی چیز بتلا دیجیے جس سے مجھے نفع ہو تو آپ ؐ نے جواب دیا۔’’ مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا‘‘۔
حدیث میں گھر اور صحن کوصاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا :’’ صحن کو صاف رکھو کیونکہ یہودی صحن کو صاف نہیں رکھتے ‘‘۔ ایک روایت ہے’’ صحن کو صاف رکھوکیونکہ یہودی سب سے گندے ہیں ‘‘ گھر اورصحن کی طرح گزر گاہوں میں بھی گندگی اور آلودگی پھیلانے سے منع کیا گیا ہے چنانچہ رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے ۔
’’لعنت کی دو جگہوں سے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ وہ دو جگہیںکیا ہیں ؟توآپ ؐ نے فرمایا کوئی شخص راستے میں یاسائے میں قضائے حاجات کرے‘‘۔
ظاہرہے کہ گندگی اور کوڑا کرکٹ کی وجہ سے بدبو پھیلتی ہے جس سے لوگ پریشان ہوتے ہیں اسی طرح یہ بہت سے امراض کے پھیلنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے ، ان گندگیوں میں بیماری کے جراثیم جنم لیتے ہیں اور پھیلتے پھولتے ہیں یہاں تک کہ صرف ایک مکھی انسان میں بیالیس (۴۲) قسم کی بیماریاں منتقل کر سکتی ہے کسی جگہ اگر صرف ایک ہفتے کے لیے کوڑا چھوڑا جائے تو مکھیوں کی پوری فوج تیار ہوسکتی ہے ، کتب فقہ میں راستوں اور عمومی جگہوں پرکسی ایسے عمل کی ممانعت کی متعدد مثالیں ملتی ہیں جن سے دوسروںکو تکلیف پہنچے (۵۵)
اس سلسلے میں امام غزالی ؒ کی درج ذیل تحریر بڑی جامع اور تمام شکلوں کااحاطہ کیے ہوئے ہے، وہ راستوں کے منکرات کے متعلق اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں :’’ اس طرح قصاب اپنی دکان کے سامنے راستہ میں جانورذبح کرتا ہے جس کی وجہ سے راستہ خون سے آلودہ ہوجاتا ہے تو یہ بھی ایک منکر ہے اسے ایسا کرنے سے منع کیاجائے گا ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دکان ہی میںذبح کرنے کی کوئی صورت نکالے کیونکہ اس کی وجہ سے راستے میںتنگی ہو گی نیز لوگوں پر ناپاک چھینٹے پڑنے کا خطرہ ہے اور اس گندگی کی وجہ سے لوگ گھٹن محسوس کریں گے ، اسی طرح کوڑا یا تربوز کے چھلکے ڈال دینا یا پانی بہا دینا جس سے لوگوں کے پھسل جانے کا اندیشہ ہو یہ بھی منکر ہے۔
اس زمانے میں اس طرح کی چیزوں سے چند لوگ ہی متاثر ہوتے تھے اور نقصان کادائرہ بھی محدود تھا ایک گھر کی گندگی سے پورا سماج اور ماحول متاثر ہوتا ہے اور نقصان کادائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے ، اس لیے روئے زمین پر آلودگی پھیلانے کا کوئی بھی عمل ناجائز ہوگا ، کیونکہ اس سے زمین کی زرخیزی متاثر ہوتی ہے اور فضائی اور آبی آلودگی کا سبب بنتی ہے ۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x